بھائی چارہ اور تلور کا شکار

چند میل سڑک اور تھوڑے سے وظائف کے لئے اپنا ملک شہزادوں کے حوالے کردینا کہاں کی عقل مندی ہے؟


کیا متعلقہ علاقوں کی ساری تعمیر و ترقی عرب شہزادوں کی عیش و عشرت اور تلور کے شکار سے منسلک ہے؟ فوٹو: فائل

UNITED NATIONS: یہ بادشاہی مسجد کا منظر ہے، عالمِ اسلام کی ساری قیادت ایک امام کے پیچھے قیام میں کھڑی ہے، باہمی محبت و اخوت، بھائی چارے اور اسلام کے لازوال بندھن میں بندھے یہ سارے قائدین پاکستان کی دعوت پر اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لئے آئے ہیں۔ امام السلاطین محترم عبدالقادر آزاد کی پیروی میں تمام سربراہان سربسجود ہیں، نہ کوئی کینہ، بغض اور نہ ہی دل میں کھوٹ، عالم اسلام کا یہ جذبہ قابل دید ہے، لاہور شہر دُلہن کی طرح سجا ہوا ہے۔ مسلم ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیاد اعتماد، اتحاد، یگانگت اور بھائی چارہ ہے۔ یہ وہ داستانیں تھیں جو بچپن سے اسلامی ممالک سے پاکستان کے تعلقات کے بارے میں سنی تھیں، ''نیل کے ساحل سے تابہ خاک کاشغر'' کے نغمے ہمیں کتابوں میں رٹائے جاتے اور گھروں میں سکھائے جاتے تھے، نصابی کتابوں کے جھنجٹ سے فرصت میسر آئی تو ممالک کے تعلقات کو پڑھنا شروع کیا جنہوں نے میرے اندر اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات کے حوالے سے عقیدت کا جو بت بنا ہوا تھا اسے چکنا چور کردیا۔

اس تمام تر پروپیگنڈا میں میرے ذہن میں اسلامی ممالک کے احترام کا رشتہ کم نہ ہو سکا، مگر اگست کے مہینے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے جواب میں وزارت داخلہ کے موقف نے مجھے حیرت و استعجاب کی کیفیت میں مبتلا کردیا، اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ نے ایک فیصلے کے تحت پاکستان میں تلور کے شکار پر پابندی عائد کردی تھی، سرکاری طور پر موقف سامنے آیا کہ پاکستان سے خلیجی ممالک کے تعلقات کی بنیاد تلور کا شکار ہے، یقین مانیں اس سے قبل میں جذبہ اتحاد و یگانگت اور بھائی چارے کو ہی تعلقات کی بنیاد سمجھتا تھا۔

اس فیصلے کے بعد کے منظر نامے سے پہلے آپ کو تلور کے بارے میں بتاتا چلوں۔ ماہرین کے مطابق تلور ایک ہجرت کرنے والا پرندہ ہے جو کہ روسی سائیبریا اور گرد و نواح کے علاقوں سے سردیوں میں بلوچستان اور پاکستان کے بعض دیگر علاقوں کا رخ کرتا ہے۔ تلور، بسٹرڈ نسل کے پرندوں میں سے ہے جس کا بائی نومئیل نام (Chlamydotis undulata) ہے۔ یہ پرندہ صحرائی علاقوں میں جا کر انڈے دیتا ہے اور اپنے بچوں کی پرورش کرتا ہے اور انہیں دنوں میں اس کا شکار کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں اس پرندے کا جس بڑے پیمانے پر شکار کیا جاتا ہے اس سے اس کی نسل معدوم ہونے کا حقیقی خطرہ ہے، اس پرندے کو عالمی سطح پر معدومی کے خطرے سے دوچار پرندوں کی فہرست میں شامل کیا جاچکا ہے اور ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ان کی تعداد صرف 97000 رہ گئی ہے۔

جنگلی حیات کے تحفظ کے ادارے تو شروع دن سے ہی اس پرندے کے شکار کے خلاف تھے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران اس پرندے کے شکار کو ملک معیشت اور بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ ہر سال مختلف خلیجی ریاستوں سے عرب شیوخ اور شہزادے نایاب نسل کے اس جانور کا شکار کرنے پاکستانی صحرائی علاقوں کا رُخ کرتے ہیں۔ وزارتِ داخلہ انہیں شکار کے لئے اجازت نامے جاری کرتی ہے اور صوبائی حکومتیں ان شیوخ کے آرام و راحت اور سیکیورٹی کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ ان شہزادوں کے لئے تلور کا شکار کرنے کی ایک خاص حد مقرر ہے لیکن اس کی مانیٹرنگ کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں ہے جس کے نتیجے میں یہ اندازہ بالکل نہیں ہے کہ ہر سال کتنے پرندے شکار کئے جاتے ہیں۔ محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کے اہلکاروں کو مخصوص تعداد میں پرندوں کا شکار کرنے کی پابندی پرعمل درآمد یقینی بنانا ہوتا ہے لیکن محکمے کے اہلکاروں کو ان عرب شیوخ کے کیمپوں کے قریب بھی نہیں جانے دیا جاتا جس کے نتیجے میں عمل درآمد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

حکومت کی جانب سے ایک اور موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عرب شیوخ کی آمد سے ان علاقوں میں ترقی، خوشحالی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہوتا ہے۔ دستیاب معلومات کے مطابق عرب شکاری جتنے بھی پرندوں کا شکار کرتے ہیں اس کی ایک بھاری قیمت وہ محکمہ وائلڈ لائف کو ادا کرتے ہیں اور اگر دیگر اخراجات بھی ڈالے جائیں تو انہیں ایک پرندہ 10 سے 20 لاکھ میں پڑتا ہے۔ عرب شیوخ نے اپنے لئے ان علاقوں میں عالیشان محلات تعمیر کروائے ہیں جبکہ وہاں کے غریب لوگوں کو راضی رکھنے کے لئے انہیں وظائف، مفت علاج معالجے کے لئے اسپتال اور چند اسکول بھی تعمیر کرکے دئیے ہیں۔

اگست میں پابندی لگنے کے ساتھ ہی بعض میڈیا چینلز اور اخبارات کی جانب سے تواتر کے ساتھ شکار پر پابندی کے خلاف خبریں شائع اور نشر کی جا رہی ہیں، لوگ مظاہرے کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور کہیں بھوک افلاس سے مجبور بچوں پر کیمرے گھمائے جار ہے ہیں۔ تھوڑی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا آدمی اس رپورٹنگ سے اندازہ کرسکتا ہے کہ تلور کے شکار کا فائدہ دراصل ''کسے'' ہو رہا ہے۔ ایک طرف تلور کے شکار کا فائدہ عرب شہزادوں کو تو ہو ہی رہا ہے، اِس طرح اُن کو ذہنی سکون اور عیاشی کے ساتھ ساتھ اپنے غلاموں سے داد تحسین وصول کرکے انہیں آسودگی مل ہی جاتی ہے، جبکہ دوسری جانب وڈیروں، جاگیرداروں اور ٹھیکداروں کو لاحاصل فوائد حاصل ہوتے ہیں، وہ ان شہزادوں کی خوشنودیاں حاصل کرنے کے لئے بھرپور جدوجہد کرتے ہیں اور اس معاملے میں وہ ایک دوسرے سے سبقت لینے کی جستجو میں رہتے ہیں۔

اس کے بعد انہیں تلور کے شکار کی آڑ میں بلا شرکت غیرے اپنے اقتدار اور جاگیروں کو توسیع دینے کا موقع میسر آتا ہے۔ میرے ذہن میں چند سوالات ہیں جن کا جواب مجھے بھی تلاش کرنا ہے اور قارئین سے بھی یہی درخواست کروں گا کہ وہ ان جوابات کو تلاش کرنے میں میری معاونت کریں۔

کیا اِن علاقوں کی ساری تعمیر و ترقی عرب شہزادوں کی عیش و عشرت اور تلور کے شکار سے منسلک ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو چین، پاکستان کا سب سے قریبی دوست ہے اسے بھی گلگت بلتستان کے پہاڑوں اور کشمیر کی وادیوں سے خزانے سمیٹنے کی اجازت کیوں نہیں؟ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جو خون کی ہولی کھیل کر انسانوں کا شکار کر رہا ہے اور پاکستان خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ کیا پاکستان اپنی دوستی کو مضبوط بنانے کے لئے بھارت کو چھوٹ دے رہا ہے؟ کیا امریکہ کی جانب سے ڈرون حملوں اور سلالہ واقعے کے بعد خاموشی اپنی دوستی کو دوام بخشنے کے لئے تھی؟ کیا پاکستان میں بم دھماکوں کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال ہونا دوستی کا نتیجہ ہے؟ گوکہ ان سوالات پر آپ مجھے مخبوط الحواس سمجھیں گے مگر مجھے حکومت کے احمقانہ اقدامات اور میڈیا کے غیر ذمہ داران کردار پہ تعجب ہے۔

چند میل سڑک اور تھوڑے سے وظائف کے لئے اپنا ملک شہزادوں کے حوالے کردینا کہاں کی عقل مندی ہے؟ بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب میں بے دریغ شکار کی اجازت دینا اور نایاب نسل کے جانوروں کی معدومی کے حوالے سے اقدامات نہ کرنا حکومت کی نا اہلی اور بزدلی ہی قرار دی جاسکتی ہے۔ خلیجی ممالک سے تعلقات کا یقینی فائدہ مقتدر حلقوں کو ہی حاصل ہو رہا ہے، مگر اپنے تھوڑے سے فائدے کے لئے معصوم پرندے کا استعمال نہ کیا جائے اور اُس کی نسل کو بچانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ عرب شہزادوں کے علاوہ مقامی نوابوں، وڈیروں اور جاگیرداروں کو بھی لگام دی جائے تاکہ ملک کے حُسن کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکے۔

[poll id="779"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں