ازبکستان کے ساتھ تجارت کے فروغ کا عزم
پاکستان کو ان قدرتی خزانوں سے آگاہی حاصل ہے اور وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ ان ریاستوں کا رخ کرنے کی سوچ رہا ہے
ATTOCK:
گیس تیل اور دیگر قیمتی ذخائر سے مالامال وسطی ایشیائی ریاستیں جن پر جنگ عظیم کے بعد کالعدم سوویت روس نے قبضہ کر لیا تھا وہ آزادی کے بعد سے منتظر ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی ان قیمتی قدرتی ذخائر سے مستفید کرنے کے امکانات کشادہ ہوں۔
پاکستان کو ان قدرتی خزانوں سے آگاہی حاصل ہے اور وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ ان ریاستوں کا رخ کرنے کی سوچ رہا ہے جن کے ساتھ ہمارے صدیوں پرانے تہذیبی، سماجی، ادبی اور دینی تعلقات موجود رہے ہیں جو ان ریاستوں کے سوویت سامراج کے تسلط کے باعث قدرے تعطل کا شکار ہو گئے تاہم اب وزیر اعظم نواز شریف نے ازبکستان کا سرکاری دورہ کر کے ملک کی توجہ ایک اہم سمت کی طرف منعطف کی ہے۔
دورے سے واپسی پر انھوں نے کہا کہ پاکستان اور ازبکستان کو ایک دوسرے کے تجربات اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہیے جب کہ دونوں ملکوں میں دوطرفہ تجارت کی موجودہ سطح بہت کم ہے جسے کم از کم 30 کروڑ ڈالر تک لانا ضروری ہے مگر اس کے لیے مزید کام کرنا ہو گا۔ وزیر اعظم نے ازبکستان کے زرعی اور بھاری مشینری کی نمائش مرکز کا دورہ بھی کیا جہاں ازبکستان کے وزیر اعظم نے مقامی طور پر تیار ہونے والی مشینری پر وزیر اعظم نواز شریف کو بریفنگ دی اور انھیں بتایا کہ ازبکستان میں زرعی شعبے میں ٹریکٹر، ہل اور کپاس کی چنائی کی مشینری تیار کی جاتی ہے، جس کے لیے مختلف ترقی یافتہ ممالک سے مدد لی جاتی ہے۔ ازبکستان میں بسیں، ٹرالر اور کنٹینر بھی تیار کیے جاتے ہیں۔
قبل ازیں وزیر اعظم وسطی ایشیاء کے قدیم شہر ثمر قند پہنچے امام بخاری (ابو عبداللہ محمد ابن اسماعیل ال بخاری) کے مزار پر فاتحہ پڑھی۔ واضح رہے امام بخاری کا احادیث کا مجموعہ انتہائی مستند تسلیم کیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم نے الغ بیگ مشاہداتی تجربہ گاہ کا بھی دورہ کیا جو عظیم مفکر اور ماہر فلکیات الغ بیگ نے 15 ویں صدی میں فلکیاتی، موسمیاتی اور دیگر قدرتی مظاہر کے مشاہدے کے لیے قائم کی تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا نے پاکستان کی توانائی کی ضروریات کی کفالت کے لیے ''تاپی'' نام کے جس منصوبے کی تجویز دی تھی جس میں قدرتی گیس تاجکستان سے نکل کر افغانستان کے راستے پاکستان آئے گی جو آگے انڈیا تک جائے گی لیکن افغانستان کی غیر یقینی کی صورتحال کے باعث اس منصوبے پر کام ممکن نہیں۔ اب پاکستان نے ازبکستان کا رخ کرتے ہوئے اس کے ساتھ تجارت بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے تو اس راہ میں بھی افغانستان کی رکاوٹ موجود ہے۔
گیس تیل اور دیگر قیمتی ذخائر سے مالامال وسطی ایشیائی ریاستیں جن پر جنگ عظیم کے بعد کالعدم سوویت روس نے قبضہ کر لیا تھا وہ آزادی کے بعد سے منتظر ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی ان قیمتی قدرتی ذخائر سے مستفید کرنے کے امکانات کشادہ ہوں۔
پاکستان کو ان قدرتی خزانوں سے آگاہی حاصل ہے اور وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ ان ریاستوں کا رخ کرنے کی سوچ رہا ہے جن کے ساتھ ہمارے صدیوں پرانے تہذیبی، سماجی، ادبی اور دینی تعلقات موجود رہے ہیں جو ان ریاستوں کے سوویت سامراج کے تسلط کے باعث قدرے تعطل کا شکار ہو گئے تاہم اب وزیر اعظم نواز شریف نے ازبکستان کا سرکاری دورہ کر کے ملک کی توجہ ایک اہم سمت کی طرف منعطف کی ہے۔
دورے سے واپسی پر انھوں نے کہا کہ پاکستان اور ازبکستان کو ایک دوسرے کے تجربات اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہیے جب کہ دونوں ملکوں میں دوطرفہ تجارت کی موجودہ سطح بہت کم ہے جسے کم از کم 30 کروڑ ڈالر تک لانا ضروری ہے مگر اس کے لیے مزید کام کرنا ہو گا۔ وزیر اعظم نے ازبکستان کے زرعی اور بھاری مشینری کی نمائش مرکز کا دورہ بھی کیا جہاں ازبکستان کے وزیر اعظم نے مقامی طور پر تیار ہونے والی مشینری پر وزیر اعظم نواز شریف کو بریفنگ دی اور انھیں بتایا کہ ازبکستان میں زرعی شعبے میں ٹریکٹر، ہل اور کپاس کی چنائی کی مشینری تیار کی جاتی ہے، جس کے لیے مختلف ترقی یافتہ ممالک سے مدد لی جاتی ہے۔ ازبکستان میں بسیں، ٹرالر اور کنٹینر بھی تیار کیے جاتے ہیں۔
قبل ازیں وزیر اعظم وسطی ایشیاء کے قدیم شہر ثمر قند پہنچے امام بخاری (ابو عبداللہ محمد ابن اسماعیل ال بخاری) کے مزار پر فاتحہ پڑھی۔ واضح رہے امام بخاری کا احادیث کا مجموعہ انتہائی مستند تسلیم کیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم نے الغ بیگ مشاہداتی تجربہ گاہ کا بھی دورہ کیا جو عظیم مفکر اور ماہر فلکیات الغ بیگ نے 15 ویں صدی میں فلکیاتی، موسمیاتی اور دیگر قدرتی مظاہر کے مشاہدے کے لیے قائم کی تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا نے پاکستان کی توانائی کی ضروریات کی کفالت کے لیے ''تاپی'' نام کے جس منصوبے کی تجویز دی تھی جس میں قدرتی گیس تاجکستان سے نکل کر افغانستان کے راستے پاکستان آئے گی جو آگے انڈیا تک جائے گی لیکن افغانستان کی غیر یقینی کی صورتحال کے باعث اس منصوبے پر کام ممکن نہیں۔ اب پاکستان نے ازبکستان کا رخ کرتے ہوئے اس کے ساتھ تجارت بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے تو اس راہ میں بھی افغانستان کی رکاوٹ موجود ہے۔