فرانس حملہ دام میں صیاد آ گیا
ہائے! پیرس میں قیامت برپا ہوگئی، جی ہاں بالکل قیامت ہی برپا ہوئی اس بات میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے
لاہور:
ہائے! پیرس میں قیامت برپا ہوگئی، جی ہاں بالکل قیامت ہی برپا ہوئی اس بات میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ پیرس حملوں میں مارے جانے والے بھی اسی طرح مظلوم ہیں جس طرح سرزمین فلسطین کے باسی 1948 سے اب تک صیہونی دہشت گردی کا نشانہ بنتے چلے آرہے ہیں، پیرس حملوں میں لقمہ اجل بن جانے والے یقیناً دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں لیکن دنیاکو یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ انھی حملوں سے دو روز قبل ہی لبنان کے دارالحکومت میں بھی دوخود کش حملے ہوئے کہ جہاں پچاس سے زائد بے گناہ جانیں لقمہ اجل بنیں، ایسے بھی بچے یتیم ہوئے کہ جن کے ماں اور باپ ان حملوں میں چل بسے،آج جوکچھ یمن میں ہورہا ہے، وہ بھی مظلومیت کی کھلی داستان ہے، جو کچھ غزہ کے ساتھ گزشتہ نو برس سے کیا جا رہا ہے۔
اس ظلم کی داستان بھی شاید دنیا میں کہیں نہ ملے، جوکچھ حالیہ دنوں میں فلسطین کے شہر القدس میں ہورہا ہے کون ہے جو اس سے باخبر نہیں؟ جو کچھ عراق میں ہوا یا آ ج بھی ہورہا ہے کون اس حقیقت سے انکارکرے گا، افغانستان کو جس دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اسے کیسے بھلایا جاسکتاہے،کویت کو بھی اسی طرح کی دہشت گردانہ کاروائیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، خود پاکستان کے شہروں کراچی، لاہور،کوئٹہ، پاراچنار، گلگت بلتستان کو بھی دہشت گردی کاشکار بنایا گیا ہے، شام کی صورتحال کیا ہے؟ شام میں تو دنیا بھرکے ستر ممالک سے لا لا کر دہشت گردوں کو صرف اس مقصد کے لیے آباد کیا گیا کہ دہشت گردی اور بربریت کے ذریعے ایک طرف تو معصوم انسانوں کی زندگیوں سے کھیلا جائے تو دوسری جانب اسلام کے خوش نما چہرے کو بد نما چہرہ بنا کر ایک ایسی بدنما اسلامی ریاست کی تشکیل دی جائے جس کا قبلہ اورکعبہ امریکا اور اسرائیل اور اسی طرح یورپ ہو۔جیسا کہ ذکر ہو اکہ ستر سے زائد ممالک کے جنگجوئوں کو باقاعدہ شام میں لا کر صرف دہشت گردی کرنے کی ترغیب دی گئی ۔
ان ستر ممالک میں فرانس بھی ایک ایسا ہی ملک ہے کہ جس نے نہ صرف ان دہشت گردوں کو یہاں بھیجنے میں اپنا کردار ادا کیا بلکہ ان دہشت گردوں کی مالی و مسلح معاونت بھی کی، آپ سوچیں گے کہ فرانس کس طرح ان دہشت گردوں کی مدد کرتا رہا تو زیادہ دورکی بات نہیں چند ماہ پیچھے چلے جائیے اور مشاہدہ کیجیے کہ کس طرح فرانس نے بھاری مقدار میں عرب حکمرانوں کے ساتھ اسلحے کی ڈیل کی ہے اور یہ سارا اسلحہ بعد میں کسی نہ کسی طریقے سے شام پہنچتا رہا ہے ، جن ستر ممالک کا ذکر خود اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر بھی کیا گیا ہے کہ شام میں دہشت گردوں کی مدد کر رہی ہیں، ان میں مسلم ممالک سمیت یورپی ممالک میں فرانس، جرمنی، اٹلی اور دیگر سرفہرست رہے ہیں۔
دہشت گردوںنے شام میں بڑے پیمانے پر خون کی ہولی کھیلنے کے بعد عراق کو اگلا ہدف قرار دیا، اسی طرح خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ افغانستان کو بھی ہدف قرار دیا گیا ہے جب کہ پاکستان میں بھی داعش کے ساتھ منسلک عناصر کے خلاف حکومتی اداروں کی جانب سے کارروائیاں بر وقت عمل میں لائی گئی ہیں ۔یہاں قابل غور بات تو یہ ہے کہ مغربی سامراج نے جہاں غاصب اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش میں پورے غرب ایشیا کو آگ و خون میں غلطاں کر دیا اب حالات کی کروٹ یہ بتا رہی ہے کہ وہ آگ خود مغرب کے دامن تک جا پہنچی ہے کہ جسے بجھانا شاید اب ان کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔
چار سال تک شام میں آگ و خون کی ہولی کھیلنے والے یہ امریکی ، اسرائیلی اور یورپی حمایت یافتہ دہشت گرد مغرب کے عزائم کوکامیاب نہ بناسکے کیونکہ ان کے مقابلے میں شامی افواج اور حزب اللہ نے سینہ سپر ہوکر ان کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا، اپنی شکست کے بعد بالآخر ان تکفیری دہشت گردوں نے راہ فرارکو ہی اختیارکیا،چند ماہ قبل آپ نے یہ خبریں بہت سنی ہوں گی کہ شام کے علاقوں سے بڑے پیمانے پر ہجرت ہورہی ہے آخر اس ہجرت کی اصل داستان کیا تھی کسی بھی میڈیا نے شاید غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ آخر کیوں؟
یورپ اور فرانس تو سرفہرست تھا جو اس بات کا اعلان کر رہا تھا کہ ہم شامی مہاجرین کو پناہ دیں گے، اس ہجرت کی آڑ میں شکست خوردہ دہشت گرد ترکی کے راستے سے فرار ہو رہے تھے اوران میں سے کچھ ترکی میں پناہ لے کر رک گئے اورکچھ نے فرانس اور یورپ کے دیگر ممالک جرمنی اور اٹلی سمیت متعدد مقامات کا رخ کر لیا۔دراصل یورپ کی طرف سے شامی ہجرت کے مسئلہ کو بڑھا چڑھا کر بھرپور حمایت کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اپنے ہی بھیجے گئے ان دہشت گردوں کو کسی طرح سے محفوظ واپس بلا لیا جائے اورا س حوالے سے یورپ کامیاب رہا۔آج دنیا میں ہر طرف سامری بین بجاتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور سب نے ایک شوروغل مچا رکھا ہے کہ ہائے پیرس میں قیامت آگئی ۔
سوال یہ ہے کہ یہ قیامت کس نے ایجاد کی ہے؟ کیا اس قیامت کو برپا کرنے میں کسی بیرونی قوت کا ہاتھ کارفرما ہے یا یہ کہ جس دہشت گردی اور خون کی ہولی کھیلنے والے دہشت گردوں کو فرانس سمیت دیگر سامراجی قوتوں نے شام، عراق، لبنان، یمن، لیبیا، مصر، پاکستان، افغانستان اور دیگر مقامات پر فری ہینڈ دے رکھا تھا کہیں ایسا تو نہیں کہ دوسروں کے لیے کھودے جانے والے گڑھے میں فرانس توگر ہی چکا ہے ، اب شاید دوسرے بھی اپنی باری کا انتظارکر رہے ہوں گے، مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ شام اور عراق میں شکست خوردہ ان دہشت گردوں نے جن جن ممالک میں پناہ لی ہے وہاں انھوںنے اب اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کا آغاز بھی کردیا ہے ، شاید یا تو وہ اپنے آقائوں سے ناراض ہیں یا پھر یہ کہ دنیا کی توجہ بنیادی مسائل کہ جن میں مسئلہ فلسطین سرفہرست ہے سے ہٹا کر اسرائیل کے ناپاک عزائم کی تکمیل کررہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل، ترکی میں بھی اس نوعیت کے خود کش دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا ، چند روز قبل ترکی کی سیکیورٹی فورسز نے ایک آپریشن میں خودکش حملہ آورکو ہلاک بھی کیا، اسی طرح بیروت تو مسلسل اسرائیلی سازشوں کانشانہ بنتا رہاہے، پاکستان بھی انھی سازشوں کی زد میں ہے، افغانستان کی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا کے باضمیر اور حریت پسند لوگ ان دہشت گردوں کی حمایت کرنے والے تمام حکمرانوں کے خلاف بلا تفریق اٹھ کھڑے ہوں۔
پیرس حملوں کو محرکات جو بھی ہوں، تاہم اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ فرانس حکومت روز اول سے دہشت گرد گروہ داعش کی حمایت میں اندھی ہو رہی تھی تاہم اب ایسا لگ رہاہے کہ فرانس حکومت اپنی ناقص پالیسیوں کے باعث دلدل میں پھنستی چلی جا رہی ہے ۔حالیہ موصول ہونے والی اطلاعات کہ جن میں کہا جا رہاہے کہ فرانس اب شام میں داعش دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے گا تو اس حوالے سے ماہرین سیاسیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ فرانس جو پہلے ہی اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں گر چکا ہے اب ایک اور بڑی اور احمقانہ غلطی کو دہرانے جا رہاہے جس کے باعث فرانس کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ بھی موجود ہے ۔اور ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ شاید ان حملوں کا مقصد بھی 9/11کی طرح ایک سوچی سمجھی امریکی وصیہونی سازش کا نتیجہ ہے کہ فرانس کو روس کے مقابلے میں براہ راست شام میں لا کھڑا کیا جائے ۔
ہائے! پیرس میں قیامت برپا ہوگئی، جی ہاں بالکل قیامت ہی برپا ہوئی اس بات میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ پیرس حملوں میں مارے جانے والے بھی اسی طرح مظلوم ہیں جس طرح سرزمین فلسطین کے باسی 1948 سے اب تک صیہونی دہشت گردی کا نشانہ بنتے چلے آرہے ہیں، پیرس حملوں میں لقمہ اجل بن جانے والے یقیناً دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں لیکن دنیاکو یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ انھی حملوں سے دو روز قبل ہی لبنان کے دارالحکومت میں بھی دوخود کش حملے ہوئے کہ جہاں پچاس سے زائد بے گناہ جانیں لقمہ اجل بنیں، ایسے بھی بچے یتیم ہوئے کہ جن کے ماں اور باپ ان حملوں میں چل بسے،آج جوکچھ یمن میں ہورہا ہے، وہ بھی مظلومیت کی کھلی داستان ہے، جو کچھ غزہ کے ساتھ گزشتہ نو برس سے کیا جا رہا ہے۔
اس ظلم کی داستان بھی شاید دنیا میں کہیں نہ ملے، جوکچھ حالیہ دنوں میں فلسطین کے شہر القدس میں ہورہا ہے کون ہے جو اس سے باخبر نہیں؟ جو کچھ عراق میں ہوا یا آ ج بھی ہورہا ہے کون اس حقیقت سے انکارکرے گا، افغانستان کو جس دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اسے کیسے بھلایا جاسکتاہے،کویت کو بھی اسی طرح کی دہشت گردانہ کاروائیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، خود پاکستان کے شہروں کراچی، لاہور،کوئٹہ، پاراچنار، گلگت بلتستان کو بھی دہشت گردی کاشکار بنایا گیا ہے، شام کی صورتحال کیا ہے؟ شام میں تو دنیا بھرکے ستر ممالک سے لا لا کر دہشت گردوں کو صرف اس مقصد کے لیے آباد کیا گیا کہ دہشت گردی اور بربریت کے ذریعے ایک طرف تو معصوم انسانوں کی زندگیوں سے کھیلا جائے تو دوسری جانب اسلام کے خوش نما چہرے کو بد نما چہرہ بنا کر ایک ایسی بدنما اسلامی ریاست کی تشکیل دی جائے جس کا قبلہ اورکعبہ امریکا اور اسرائیل اور اسی طرح یورپ ہو۔جیسا کہ ذکر ہو اکہ ستر سے زائد ممالک کے جنگجوئوں کو باقاعدہ شام میں لا کر صرف دہشت گردی کرنے کی ترغیب دی گئی ۔
ان ستر ممالک میں فرانس بھی ایک ایسا ہی ملک ہے کہ جس نے نہ صرف ان دہشت گردوں کو یہاں بھیجنے میں اپنا کردار ادا کیا بلکہ ان دہشت گردوں کی مالی و مسلح معاونت بھی کی، آپ سوچیں گے کہ فرانس کس طرح ان دہشت گردوں کی مدد کرتا رہا تو زیادہ دورکی بات نہیں چند ماہ پیچھے چلے جائیے اور مشاہدہ کیجیے کہ کس طرح فرانس نے بھاری مقدار میں عرب حکمرانوں کے ساتھ اسلحے کی ڈیل کی ہے اور یہ سارا اسلحہ بعد میں کسی نہ کسی طریقے سے شام پہنچتا رہا ہے ، جن ستر ممالک کا ذکر خود اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر بھی کیا گیا ہے کہ شام میں دہشت گردوں کی مدد کر رہی ہیں، ان میں مسلم ممالک سمیت یورپی ممالک میں فرانس، جرمنی، اٹلی اور دیگر سرفہرست رہے ہیں۔
دہشت گردوںنے شام میں بڑے پیمانے پر خون کی ہولی کھیلنے کے بعد عراق کو اگلا ہدف قرار دیا، اسی طرح خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ افغانستان کو بھی ہدف قرار دیا گیا ہے جب کہ پاکستان میں بھی داعش کے ساتھ منسلک عناصر کے خلاف حکومتی اداروں کی جانب سے کارروائیاں بر وقت عمل میں لائی گئی ہیں ۔یہاں قابل غور بات تو یہ ہے کہ مغربی سامراج نے جہاں غاصب اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش میں پورے غرب ایشیا کو آگ و خون میں غلطاں کر دیا اب حالات کی کروٹ یہ بتا رہی ہے کہ وہ آگ خود مغرب کے دامن تک جا پہنچی ہے کہ جسے بجھانا شاید اب ان کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔
چار سال تک شام میں آگ و خون کی ہولی کھیلنے والے یہ امریکی ، اسرائیلی اور یورپی حمایت یافتہ دہشت گرد مغرب کے عزائم کوکامیاب نہ بناسکے کیونکہ ان کے مقابلے میں شامی افواج اور حزب اللہ نے سینہ سپر ہوکر ان کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا، اپنی شکست کے بعد بالآخر ان تکفیری دہشت گردوں نے راہ فرارکو ہی اختیارکیا،چند ماہ قبل آپ نے یہ خبریں بہت سنی ہوں گی کہ شام کے علاقوں سے بڑے پیمانے پر ہجرت ہورہی ہے آخر اس ہجرت کی اصل داستان کیا تھی کسی بھی میڈیا نے شاید غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ آخر کیوں؟
یورپ اور فرانس تو سرفہرست تھا جو اس بات کا اعلان کر رہا تھا کہ ہم شامی مہاجرین کو پناہ دیں گے، اس ہجرت کی آڑ میں شکست خوردہ دہشت گرد ترکی کے راستے سے فرار ہو رہے تھے اوران میں سے کچھ ترکی میں پناہ لے کر رک گئے اورکچھ نے فرانس اور یورپ کے دیگر ممالک جرمنی اور اٹلی سمیت متعدد مقامات کا رخ کر لیا۔دراصل یورپ کی طرف سے شامی ہجرت کے مسئلہ کو بڑھا چڑھا کر بھرپور حمایت کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اپنے ہی بھیجے گئے ان دہشت گردوں کو کسی طرح سے محفوظ واپس بلا لیا جائے اورا س حوالے سے یورپ کامیاب رہا۔آج دنیا میں ہر طرف سامری بین بجاتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور سب نے ایک شوروغل مچا رکھا ہے کہ ہائے پیرس میں قیامت آگئی ۔
سوال یہ ہے کہ یہ قیامت کس نے ایجاد کی ہے؟ کیا اس قیامت کو برپا کرنے میں کسی بیرونی قوت کا ہاتھ کارفرما ہے یا یہ کہ جس دہشت گردی اور خون کی ہولی کھیلنے والے دہشت گردوں کو فرانس سمیت دیگر سامراجی قوتوں نے شام، عراق، لبنان، یمن، لیبیا، مصر، پاکستان، افغانستان اور دیگر مقامات پر فری ہینڈ دے رکھا تھا کہیں ایسا تو نہیں کہ دوسروں کے لیے کھودے جانے والے گڑھے میں فرانس توگر ہی چکا ہے ، اب شاید دوسرے بھی اپنی باری کا انتظارکر رہے ہوں گے، مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ شام اور عراق میں شکست خوردہ ان دہشت گردوں نے جن جن ممالک میں پناہ لی ہے وہاں انھوںنے اب اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کا آغاز بھی کردیا ہے ، شاید یا تو وہ اپنے آقائوں سے ناراض ہیں یا پھر یہ کہ دنیا کی توجہ بنیادی مسائل کہ جن میں مسئلہ فلسطین سرفہرست ہے سے ہٹا کر اسرائیل کے ناپاک عزائم کی تکمیل کررہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل، ترکی میں بھی اس نوعیت کے خود کش دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا ، چند روز قبل ترکی کی سیکیورٹی فورسز نے ایک آپریشن میں خودکش حملہ آورکو ہلاک بھی کیا، اسی طرح بیروت تو مسلسل اسرائیلی سازشوں کانشانہ بنتا رہاہے، پاکستان بھی انھی سازشوں کی زد میں ہے، افغانستان کی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا کے باضمیر اور حریت پسند لوگ ان دہشت گردوں کی حمایت کرنے والے تمام حکمرانوں کے خلاف بلا تفریق اٹھ کھڑے ہوں۔
پیرس حملوں کو محرکات جو بھی ہوں، تاہم اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ فرانس حکومت روز اول سے دہشت گرد گروہ داعش کی حمایت میں اندھی ہو رہی تھی تاہم اب ایسا لگ رہاہے کہ فرانس حکومت اپنی ناقص پالیسیوں کے باعث دلدل میں پھنستی چلی جا رہی ہے ۔حالیہ موصول ہونے والی اطلاعات کہ جن میں کہا جا رہاہے کہ فرانس اب شام میں داعش دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے گا تو اس حوالے سے ماہرین سیاسیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ فرانس جو پہلے ہی اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں گر چکا ہے اب ایک اور بڑی اور احمقانہ غلطی کو دہرانے جا رہاہے جس کے باعث فرانس کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ بھی موجود ہے ۔اور ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ شاید ان حملوں کا مقصد بھی 9/11کی طرح ایک سوچی سمجھی امریکی وصیہونی سازش کا نتیجہ ہے کہ فرانس کو روس کے مقابلے میں براہ راست شام میں لا کھڑا کیا جائے ۔