’’بے اختیار‘‘ عہدوں کے لیے بے قرار
گزشتہ دنوں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے جو ملک کے کروڑوں افراد کے دل کی آواز والا بیان دیا ہے
KARACHI:
گزشتہ دنوں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے جو ملک کے کروڑوں افراد کے دل کی آواز والا بیان دیا ہے اور جس کا ہر زاویے سے تحریری اور زبانی ذکر ہو رہا ہے وہ ''دیرآید درست آید'' کے مصداق یوں بھی قابل قبول ہے کہ وطن عزیز ایک ترقی پذیر غریب ملک ہونے کے باوجود کچھ عرصے بعد اربوں کے اخراجات بنام انتخابات کرتا رہتا ہے۔
اگر اس بدنصیب ملک پر چڑھے قرضوں کے اور ساٹھ فیصد سے زائد اہل وطن کی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر نظر ڈالی جائے تو انتخابات ایک عیاشی کے سوا کچھ ثابت نہ ہوں۔ مگر سوال یہ ہے کہ بدیسی جمہوریت کی بھونڈی نقالی کے بغیر آخر ملکی نظام کیسے چلایا جائے؟ توگویا انتخابات ملک کی ضرورت بھی ہیں۔
مگر وطن عزیز کے ابتدائی ایک دو حکمرانوں کے بعد کوئی بھی ایسا مخلص و محب وطن حکمران انتخابات کے نتیجے میں مسند اقتدار پر جلوہ افروز نہ ہوا جو اپنے سیاسی نظریات اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اپنی خدمات وطن کے استحکام و ترقی کے لیے وقف کرسکا ہو۔زبانی طور پر تو سب خادم قوم و ملت ہیں مگر عملی طور پر جو طرز حکمرانی انھوں نے اپنایا وہ کسی نہ کسی صورت ملک کے لیے نقصان دہ ہی ثابت ہوا۔ چند ماہ اور چند دنوں کی حکمرانی اور ایک عدد مارشل لا کے بعد بھٹو جیسے ذہین و فطین، قوت ارادی کے مالک، کچھ کرگزرنیوالا سیاستدان قوم کو میسر آیا تو پوری قوم ان کے عشق میں دیوانی ہوگئی ان کی آستینیں الٹ کر، کف کے بٹن کھلے رکھ کر مائیک گرا کر تقریر کرنے کے انداز پرکتنے لوگ مرمٹنے کو تیار رہتے تھے۔
ان کا ایک ایک عمل ہر ایک بات نہ صرف عاشقوں کے دل کی آواز ہوتی تھی بلکہ کسی کو ان میں کوئی معمولی سی خامی بھی نظر نہ آتی (مجھ سمیت) ان کی کسی بھی ادا پر تنقید ان کے چاہنے والوں کو گوارہ نہ تھی اور واقعی ان میں بہت سی خوبیاں اور صلاحیتیں تھیں، مگر ان کے ارد گرد جو ابن الوقت جمع ہوئے وہ وہی تھے جو ملک کے جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں اور چوہدریوں کے مفادات کا تحفظ چاہتے تھے۔
عوامی خدمت کے لیے اگرچہ بھٹو خود مخلص بھی تھے تو وہ اپنی تمام تر ذہانت کے باوجود اس ٹولے کے ارادوں کو بروقت سمجھ نہ سکے اورجو فیصلے ان سے کرائے گئے وہ عوام دوست کم خواص کے مفادات میں زیادہ تھے۔ بات کو سمیٹتے ہوئے صرف یہ یاد دلانا چاہتی ہوں کہ عوامی پارٹی کے خواص پسند فیصلوں کے باعث بچے کچھے آدھے پاکستان پر ان مذہبی جماعتوں نے جو قائد اعظم کو''کافر اعظم ''کہتے تھے اپنے پنجے گاڑنے کی بھرپورکوشش کی ان کے معاشی سہولت کار وہی تھے جو اپنے انگریز آقاؤں کی عطا کردہ جاگیروں بلکہ دادا گیری کو ہر حال میں برقرار رکھنا چاہتے تھے۔
بھٹو کی ہمت و بے باکی اس پر مستزاد کے بھرے مجمعے میں امریکا بہادر کو للکار دیا ابن الوقتی اور دنیاداری کے سیاسی دور میں یہ ایک نامناسب بات یعنی ''آبیل مجھے مار'' مگر اسلامی نقطہ نظر سے یہ ایک احسن قدم تھا کہ اگر دشمن کئی گنا طاقتور ہو تو بھی حق بات کہنا جرم نہیں بلکہ ''جہاد'' ہے مگر باہر کی بجائے اندر سے جب ذاتی مفادات کے غلام سازش کریں تو پھر انجام وہی ہوسکتا ہے، جوبھٹو کا ہوا۔ جمہوریت جس کے لیے پاکستانی عوام ہر دکھ ہر تکلیف سہہ رہے تھے کا ''چراغ ایسا گل ہوا کہ پھر اس کے بعد چراغوں میں کبھی روشنی نہ ہوسکی۔''
مارشل لا اورنام نہاد جمہوریتوں کے درمیان آنکھ مچولی ہوتی رہی، ملکی تاریخ کی بدترین ''آمریت'' نے وطن کی چولیں ہلاکر رکھ دیں،اس کے بعد ملک میں جب بھی جمہوریت آئی ڈری سہمی ہی رہی کہ جانے کب جمہوریت کا بستر لپیٹ دیا جائے۔کیونکہ بظاہر تو وہ عوام کے ووٹوں سے ہی آتی رہی مگر یہ ووٹ بھی ہمیشہ دولت مند جاگیرداروں کے خریدے ہوئے ہی ہوتے لہٰذا ربانی صاحب نے بڑی دیر بعد اعتراف کیا مگر اس میں بھی ''اگر'' کا لاحقہ لگا کر کہ ''اگر انتخابات میں پیسوں کا استعمال نہ روکا گیا تو'' جب کہ یہ بات پاکستان میں ہمیشہ سے رائج رہی ہے کہ ایوان دولت مندوں کا کلب ہی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ چیئرمین سینیٹ نے بہت اہم مسئلے بلکہ دیرینہ مسئلے کی جانب سب کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ محض بلدیاتی انتخابات ہی کو لے لیجیے کہ ان میں کس قدر پیسے کا استعمال ہوا ہے۔ حالانکہ یوں تو تمام ہی انتخابات مگر خصوصاً بلدیاتی انتخاب کے امیدواروں کو تو صرف اور صرف عوامی خدمت کی بنا پر منتخب ہونا چاہیے تاکہ واقعی عوامی سطح پر عوام کے مسائل کچھ تو حل ہوں۔ مگر ان انتخابات کو جیتنے کے لیے مختلف الخیال سیاسی جماعتیں آپس میں اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ جیسے حربے اختیارکر رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کو بھی سندھ بالخصوص کراچی کے عوام کی مظلومیت اور غلامی پر بہت دکھ ہو رہا ہے بلکہ بے ساختہ آنکھوں سے اشک جاری ہیں۔ دل کڑھ رہا ہے، حقوق انسانی کا احساس آج تک کسی سیاسی جماعت کو اتنا کبھی نہیں ہوا تھا۔ اتنے بڑے شہر میں کوئی کینسر کا اسپتال نہیں لہٰذا وہ بھی تعمیر ہوگا، اس کے اشتہاری بورڈ معہ پارٹی سربراہ کی تصویر جگہ جگہ آویزاں ہوچکے ہیں یعنی ایک تیر سے دو شکار عوامی ہمدردی سے ووٹ اور خود اپنی ذات کی تشہیر ظاہر ہے کہ یہ اسپتال بھی قومی اور بین الاقوامی امداد سے تعمیر ہوگا اور اس کا اعزاز پارٹی سربراہ کے سر جائے گا۔
وہ جماعتیں جن میں ملک کا کوئی بڑا صنعتکار دولت مند شخصیت شامل نہ ہو یا ملکی دولت پر ان کا براہ راست کوئی اختیار نہ ہو وہ بھلا ایسے دلفریب نعرے اور اعلانات محض بلدیاتی انتخابات جیتنے کے لیے کیسے کرسکتی ہیں؟ عوامی مقبولیت کا اظہار تو مون گارڈن کے بے دخل مکینوں نے اس وقت ہی کردیا تھا جب پی ٹی آئی کے چند سرکردہ لیڈران وہاں اس وقت ہمدردی کے لیے پہنچے جب معاملہ نمٹ چکا تھا سو سب کو سر پر پیر رکھ کر وہاں سے بھاگتے ہی بن پڑی اگر لوگوں میں ذرا بھی عقل ہو تو اس بات کو محسوس کریں کہ ان کے مسائل کس نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر حل کرائے، کون بلاتفریق سب کے اچھے برے وقت میں سب سے پہلے ان کی خبر گیری کو آیا تو وہ فیصلہ کرسکیں گے کہ کون ان کے ووٹ کا اصل حقدار ہے۔
جو لوگ اور جماعتیں انتخابات جیتنے کے لیے بے دریغ پیسہ استعمال کر رہی ہیں تو یہ بات واضح ہے کہ جو معمولی کاروبار یا چھوٹی موٹی دکان کے مالک ہوں یا معمولی سی ملازمت، محنت و مشقت کر رہے ہوں وہ بھلا انتخابات میں حصہ لینے کے بھی متحمل ہوسکتے ہیں؟ جب عوامی اداروں پر بھی دولت مند طبقے کے نمایندے قابض ہوں گے تو پھر عام آدمی کے مفادات و حقوق کا خیال کس کے ذہن میں آئے گا، پیسے کا اس طرح استعمال خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ لوگ منتخب ہوکر بدعنوانی میں مزید اضافہ کریں گے کہ آخر اپنا لگایا ہوا سرمایہ واپس بھی لانا ہے ساتھ ہی اگلے انتخاب کے لیے بھی کچھ بچانا ہے۔
اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلانے اور بیگم کو علاج کے لیے بھی بھیجنا ہے جب کہ غریب خواتین تو رکشہ، فٹ پاتھ اور اسپتال کی سیڑھیوں پر ہی بچے کو جنم دیتی رہیں گی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کا اندازہ سب کو ہے چیئرمین سینیٹ تو اس کا برملا اظہار بھی کرچکے ہیں۔آخری اور اہم بات یہ کہ بلدیاتی انتخابات کے نام پر جو ڈرامہ رچایا جا رہا ہے (وہ بھی عدلیہ کی بار بار تنبیہہ پر) اس کا کوئی مقصد ہے نہ فائدہ کیونکہ منتخب عوامی نمایندوں کے پاس نہ کوئی اختیار ہوگا نہ فنڈز۔ سارے اختیارات پہلے ہی صوبائی وزرا اور وزیر اعلیٰ کے پاس ہیں، جمہوری حکومتوں نے تو عوام سے ہر سہولت چھین لی جب کہ ایک ڈکٹیٹر کے دور حکومت میں یونین کونسلوں کے پاس اختیارات تھے تو نمایندوں نے کچھ کام بھی کیے۔
کراچی جو آج کھنڈر بنا ہوا ہے یہاں کے لوگ آج بھی نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کے دور کو یاد کرتے ہیں وہ اب بھی ایسے کام کرنیوالوں کے منتظر ہیں۔ مگر انھیں کیا معلوم کہ اب یونین کونسلوں کے پاس کوئی اختیار نہ ہوگا۔ اس کے باوجود ہر جماعت کی کوشش ہے بلکہ اعلان بھی کرچکے ہیں کہ اس بار کراچی کا ناظم ہمارا ہوگا۔ جب کہ دوسری جماعتوں سے پوچھا جا رہا ہے کہ آپ کو پہلے سے کیسے معلوم ہوگیا کہ ناظم آپ کا ہوگا؟ گویا انتخابات سے قبل ہی اپنے امیدوار کے ہارنے پر واویلا مچانے کا اشارہ کیا جارہا ہے سبحان اللہ!
گزشتہ دنوں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے جو ملک کے کروڑوں افراد کے دل کی آواز والا بیان دیا ہے اور جس کا ہر زاویے سے تحریری اور زبانی ذکر ہو رہا ہے وہ ''دیرآید درست آید'' کے مصداق یوں بھی قابل قبول ہے کہ وطن عزیز ایک ترقی پذیر غریب ملک ہونے کے باوجود کچھ عرصے بعد اربوں کے اخراجات بنام انتخابات کرتا رہتا ہے۔
اگر اس بدنصیب ملک پر چڑھے قرضوں کے اور ساٹھ فیصد سے زائد اہل وطن کی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر نظر ڈالی جائے تو انتخابات ایک عیاشی کے سوا کچھ ثابت نہ ہوں۔ مگر سوال یہ ہے کہ بدیسی جمہوریت کی بھونڈی نقالی کے بغیر آخر ملکی نظام کیسے چلایا جائے؟ توگویا انتخابات ملک کی ضرورت بھی ہیں۔
مگر وطن عزیز کے ابتدائی ایک دو حکمرانوں کے بعد کوئی بھی ایسا مخلص و محب وطن حکمران انتخابات کے نتیجے میں مسند اقتدار پر جلوہ افروز نہ ہوا جو اپنے سیاسی نظریات اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اپنی خدمات وطن کے استحکام و ترقی کے لیے وقف کرسکا ہو۔زبانی طور پر تو سب خادم قوم و ملت ہیں مگر عملی طور پر جو طرز حکمرانی انھوں نے اپنایا وہ کسی نہ کسی صورت ملک کے لیے نقصان دہ ہی ثابت ہوا۔ چند ماہ اور چند دنوں کی حکمرانی اور ایک عدد مارشل لا کے بعد بھٹو جیسے ذہین و فطین، قوت ارادی کے مالک، کچھ کرگزرنیوالا سیاستدان قوم کو میسر آیا تو پوری قوم ان کے عشق میں دیوانی ہوگئی ان کی آستینیں الٹ کر، کف کے بٹن کھلے رکھ کر مائیک گرا کر تقریر کرنے کے انداز پرکتنے لوگ مرمٹنے کو تیار رہتے تھے۔
ان کا ایک ایک عمل ہر ایک بات نہ صرف عاشقوں کے دل کی آواز ہوتی تھی بلکہ کسی کو ان میں کوئی معمولی سی خامی بھی نظر نہ آتی (مجھ سمیت) ان کی کسی بھی ادا پر تنقید ان کے چاہنے والوں کو گوارہ نہ تھی اور واقعی ان میں بہت سی خوبیاں اور صلاحیتیں تھیں، مگر ان کے ارد گرد جو ابن الوقت جمع ہوئے وہ وہی تھے جو ملک کے جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں اور چوہدریوں کے مفادات کا تحفظ چاہتے تھے۔
عوامی خدمت کے لیے اگرچہ بھٹو خود مخلص بھی تھے تو وہ اپنی تمام تر ذہانت کے باوجود اس ٹولے کے ارادوں کو بروقت سمجھ نہ سکے اورجو فیصلے ان سے کرائے گئے وہ عوام دوست کم خواص کے مفادات میں زیادہ تھے۔ بات کو سمیٹتے ہوئے صرف یہ یاد دلانا چاہتی ہوں کہ عوامی پارٹی کے خواص پسند فیصلوں کے باعث بچے کچھے آدھے پاکستان پر ان مذہبی جماعتوں نے جو قائد اعظم کو''کافر اعظم ''کہتے تھے اپنے پنجے گاڑنے کی بھرپورکوشش کی ان کے معاشی سہولت کار وہی تھے جو اپنے انگریز آقاؤں کی عطا کردہ جاگیروں بلکہ دادا گیری کو ہر حال میں برقرار رکھنا چاہتے تھے۔
بھٹو کی ہمت و بے باکی اس پر مستزاد کے بھرے مجمعے میں امریکا بہادر کو للکار دیا ابن الوقتی اور دنیاداری کے سیاسی دور میں یہ ایک نامناسب بات یعنی ''آبیل مجھے مار'' مگر اسلامی نقطہ نظر سے یہ ایک احسن قدم تھا کہ اگر دشمن کئی گنا طاقتور ہو تو بھی حق بات کہنا جرم نہیں بلکہ ''جہاد'' ہے مگر باہر کی بجائے اندر سے جب ذاتی مفادات کے غلام سازش کریں تو پھر انجام وہی ہوسکتا ہے، جوبھٹو کا ہوا۔ جمہوریت جس کے لیے پاکستانی عوام ہر دکھ ہر تکلیف سہہ رہے تھے کا ''چراغ ایسا گل ہوا کہ پھر اس کے بعد چراغوں میں کبھی روشنی نہ ہوسکی۔''
مارشل لا اورنام نہاد جمہوریتوں کے درمیان آنکھ مچولی ہوتی رہی، ملکی تاریخ کی بدترین ''آمریت'' نے وطن کی چولیں ہلاکر رکھ دیں،اس کے بعد ملک میں جب بھی جمہوریت آئی ڈری سہمی ہی رہی کہ جانے کب جمہوریت کا بستر لپیٹ دیا جائے۔کیونکہ بظاہر تو وہ عوام کے ووٹوں سے ہی آتی رہی مگر یہ ووٹ بھی ہمیشہ دولت مند جاگیرداروں کے خریدے ہوئے ہی ہوتے لہٰذا ربانی صاحب نے بڑی دیر بعد اعتراف کیا مگر اس میں بھی ''اگر'' کا لاحقہ لگا کر کہ ''اگر انتخابات میں پیسوں کا استعمال نہ روکا گیا تو'' جب کہ یہ بات پاکستان میں ہمیشہ سے رائج رہی ہے کہ ایوان دولت مندوں کا کلب ہی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ چیئرمین سینیٹ نے بہت اہم مسئلے بلکہ دیرینہ مسئلے کی جانب سب کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ محض بلدیاتی انتخابات ہی کو لے لیجیے کہ ان میں کس قدر پیسے کا استعمال ہوا ہے۔ حالانکہ یوں تو تمام ہی انتخابات مگر خصوصاً بلدیاتی انتخاب کے امیدواروں کو تو صرف اور صرف عوامی خدمت کی بنا پر منتخب ہونا چاہیے تاکہ واقعی عوامی سطح پر عوام کے مسائل کچھ تو حل ہوں۔ مگر ان انتخابات کو جیتنے کے لیے مختلف الخیال سیاسی جماعتیں آپس میں اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ جیسے حربے اختیارکر رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کو بھی سندھ بالخصوص کراچی کے عوام کی مظلومیت اور غلامی پر بہت دکھ ہو رہا ہے بلکہ بے ساختہ آنکھوں سے اشک جاری ہیں۔ دل کڑھ رہا ہے، حقوق انسانی کا احساس آج تک کسی سیاسی جماعت کو اتنا کبھی نہیں ہوا تھا۔ اتنے بڑے شہر میں کوئی کینسر کا اسپتال نہیں لہٰذا وہ بھی تعمیر ہوگا، اس کے اشتہاری بورڈ معہ پارٹی سربراہ کی تصویر جگہ جگہ آویزاں ہوچکے ہیں یعنی ایک تیر سے دو شکار عوامی ہمدردی سے ووٹ اور خود اپنی ذات کی تشہیر ظاہر ہے کہ یہ اسپتال بھی قومی اور بین الاقوامی امداد سے تعمیر ہوگا اور اس کا اعزاز پارٹی سربراہ کے سر جائے گا۔
وہ جماعتیں جن میں ملک کا کوئی بڑا صنعتکار دولت مند شخصیت شامل نہ ہو یا ملکی دولت پر ان کا براہ راست کوئی اختیار نہ ہو وہ بھلا ایسے دلفریب نعرے اور اعلانات محض بلدیاتی انتخابات جیتنے کے لیے کیسے کرسکتی ہیں؟ عوامی مقبولیت کا اظہار تو مون گارڈن کے بے دخل مکینوں نے اس وقت ہی کردیا تھا جب پی ٹی آئی کے چند سرکردہ لیڈران وہاں اس وقت ہمدردی کے لیے پہنچے جب معاملہ نمٹ چکا تھا سو سب کو سر پر پیر رکھ کر وہاں سے بھاگتے ہی بن پڑی اگر لوگوں میں ذرا بھی عقل ہو تو اس بات کو محسوس کریں کہ ان کے مسائل کس نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر حل کرائے، کون بلاتفریق سب کے اچھے برے وقت میں سب سے پہلے ان کی خبر گیری کو آیا تو وہ فیصلہ کرسکیں گے کہ کون ان کے ووٹ کا اصل حقدار ہے۔
جو لوگ اور جماعتیں انتخابات جیتنے کے لیے بے دریغ پیسہ استعمال کر رہی ہیں تو یہ بات واضح ہے کہ جو معمولی کاروبار یا چھوٹی موٹی دکان کے مالک ہوں یا معمولی سی ملازمت، محنت و مشقت کر رہے ہوں وہ بھلا انتخابات میں حصہ لینے کے بھی متحمل ہوسکتے ہیں؟ جب عوامی اداروں پر بھی دولت مند طبقے کے نمایندے قابض ہوں گے تو پھر عام آدمی کے مفادات و حقوق کا خیال کس کے ذہن میں آئے گا، پیسے کا اس طرح استعمال خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ لوگ منتخب ہوکر بدعنوانی میں مزید اضافہ کریں گے کہ آخر اپنا لگایا ہوا سرمایہ واپس بھی لانا ہے ساتھ ہی اگلے انتخاب کے لیے بھی کچھ بچانا ہے۔
اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلانے اور بیگم کو علاج کے لیے بھی بھیجنا ہے جب کہ غریب خواتین تو رکشہ، فٹ پاتھ اور اسپتال کی سیڑھیوں پر ہی بچے کو جنم دیتی رہیں گی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کا اندازہ سب کو ہے چیئرمین سینیٹ تو اس کا برملا اظہار بھی کرچکے ہیں۔آخری اور اہم بات یہ کہ بلدیاتی انتخابات کے نام پر جو ڈرامہ رچایا جا رہا ہے (وہ بھی عدلیہ کی بار بار تنبیہہ پر) اس کا کوئی مقصد ہے نہ فائدہ کیونکہ منتخب عوامی نمایندوں کے پاس نہ کوئی اختیار ہوگا نہ فنڈز۔ سارے اختیارات پہلے ہی صوبائی وزرا اور وزیر اعلیٰ کے پاس ہیں، جمہوری حکومتوں نے تو عوام سے ہر سہولت چھین لی جب کہ ایک ڈکٹیٹر کے دور حکومت میں یونین کونسلوں کے پاس اختیارات تھے تو نمایندوں نے کچھ کام بھی کیے۔
کراچی جو آج کھنڈر بنا ہوا ہے یہاں کے لوگ آج بھی نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کے دور کو یاد کرتے ہیں وہ اب بھی ایسے کام کرنیوالوں کے منتظر ہیں۔ مگر انھیں کیا معلوم کہ اب یونین کونسلوں کے پاس کوئی اختیار نہ ہوگا۔ اس کے باوجود ہر جماعت کی کوشش ہے بلکہ اعلان بھی کرچکے ہیں کہ اس بار کراچی کا ناظم ہمارا ہوگا۔ جب کہ دوسری جماعتوں سے پوچھا جا رہا ہے کہ آپ کو پہلے سے کیسے معلوم ہوگیا کہ ناظم آپ کا ہوگا؟ گویا انتخابات سے قبل ہی اپنے امیدوار کے ہارنے پر واویلا مچانے کا اشارہ کیا جارہا ہے سبحان اللہ!