سچ کیا ہے
اس دنیا میں پچہترہزار لوگ بھوک سے مررہے ہیں اورسچ یہ بھی ہے کہ روزانہ ارب پتیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
LONDON:
اس دنیا میں پچہترہزار لوگ بھوک سے مررہے ہیں اورسچ یہ بھی ہے کہ روزانہ ارب پتیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ سچ یہ بھی ہے کہ اس نظام سرمایہ داری میں پیوندکاریوں کے ذریعے بہتری لانے کی کوشش کی جارہی ہے اور سچ یہ بھی ہے کہ سماج میں انقلابی تبدیلی یعنی ملکیت، جائیداد اور وسائل کو دنیا کے تمام لوگوں کے حوالے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اسی طرح بعض کالم نویس، مصنف اور ڈراما نگار بھی ایک لفظ کے دو مطلب نکال لیتے ہیں۔گزشتہ دنوں ایک کالم نویس نے سیکولرازم کو بے راہ روی، قتل وغارت گری اورآمریت سے تشبیہ دی۔ ریاست بنیادی طور پر جبرکا ادارہ ہوتا ہے،خواہ وہ دائیں بازوکی ہو یا بائیں کی ہو۔ ہاں مگر خرابیوں کے باوجود غیرطبقاتی معاشرہ یعنی سوشلزم سرمایہ داری سے لاکھ درجہ بہتر ہے۔ سیکولرازم کا جبر، قتل وغارت گری یا آمریت سے کوئی تعلق نہیں۔ایک استاد اسکول،کالج یا یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے۔
اس کے طالب علم یہودی، مسلمان،کافر، عیسائی یاکچھ بھی ہو سکتے ہیں۔ وہ اگر فزکس پڑھا رہا ہے تو ہندو، سکھ ، پنجابی یا پٹھان سب کو ایک ہی سلیبس پڑھاتا ہے۔استاد کے اس پڑھانے کے عمل کو سیکولر عمل کہتے ہیں۔ سیکولرازم کوئی نظام نہیں ہے۔ نظام ہے قدیم کمیونسٹ نظام یا فطری پنچایتی نظام، جاگیرداری، سرمایہ داری اور پھراسٹیٹ لیس سوسائٹی یا نسل انسانی کا عالمی نظام جسے جدیدکمیونسٹ نظام بھی کہہ سکتے ہیں۔
اسی طرح سے جمہوریت بھی کوئی نظام نہیں ہے منتخب کرنے اور اظہارخیال کی آزادی کا نام ہے۔ جمہوریت ہر دور میں رہی ہے مگراس کی نوعیت الگ الگ تھی۔ غلامانہ نظام میں آقاؤں کے مابین جمہوریت، جاگیردارانہ نظام میں جاگیرداروں کی جمہوریت اورسرمایہ داری میں سرمایہ داروں کی جمہوریت۔ یہاں غلاموں، زرعی غلاموں،کسانوں اور مزدوروں کے لیے کوئی جمہوریت نہیں ہوتی۔صرف کمیونسٹ نظام میں ہی حقیقی عوام کی جمہوریت ہوتی ہے۔
جہاں تک قتل وغارت گری کا تعلق ہے تو سب سے زیادہ قتل وغارت گری شہنشاہ روم، شہنشاہ ہلاکو خان، شہنشاہ زار روس اور برصغیر کے سلطان شمس الدین التمش اور نادرشاہ نے کی۔ شمس الدین التمش نے تو برصغیر سے بیس لاکھ غلاموں کو خراسان ،عراق، عرب اور ترکمانستان میں ایک ایک تنکہ ( را ئج الوقت سکہ) میں فروخت کیا۔ عرب دنیا کے واحد ملک مصر کے سربراہ جمال ناصر نے اپنے ملک میں تعلیم، علاج، رہائش، ٹرانسپورٹ مفت کردی تھی ۔جاگیرداری کا خاتمہ کردیا تھا۔ سامراجی اثاثوں کو ضبط کرلیا تھا۔ جس پر سامراجی ممالک کو جان کے لالے پڑگئے۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ برطانیہ اور فرانس نے حملہ کردیا، لیکن روس کی دھمکی پر واپس جانا پڑا۔
عراق میں بدترین اور ظالم بادشاہت قائم تھی جسے عظیم عراقی رہنما سید حسن البکر نے پاؤں تلے روند ڈالا۔عراق میں صرف پھل، سبزی اور انڈے کے علاوہ ساری اشیائے خورونوش عوام کو مفت مہیا کی جاتی تھیں۔عراق ایک ایسا ملک تھا کہ اسرائیل کے ظالم حکمرانوں کے خلاف ہمیشہ ڈٹا رہا۔آج سامراج کے حملے کے بعد اس عراق کا حشر ہمارے سامنے ہے۔اب تک بارہ لاکھ انسانوں کا قتل ہوچکا ہے۔
شہنشاہ ایران کا تختہ الٹ کر جب ڈاکٹر مصدق اقتدار پرآئے تو شہنشاہ ، ایران سے فرار ہوچکے تھے۔ ڈاکٹر مصدق نے ایران میں تیل کے کنوؤں کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا، پھرامریکی سی آئی اے نے ڈاکٹر مصدق کا تختہ الٹا۔ دوسری بار توکمیونسٹ پارٹی نے شہنشاہ ایران کا تختہ الٹا۔ مسعود رجاوی کی اسلا می مارکسسٹ پارٹی اور تودہ پارٹی کے پچاس ہزارکارکنوں کو منشیات فروش کہہ کر قتل کیا گیا۔ اب تو ایران دھڑا دھڑ نجکاری کے عمل کوآگے بڑھانے میں سامراجی احکامات کی بجا آوری کررہا ہے۔ بعض لکھاریوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ جنرل سوہارتو سی آئی اے کا ایجنٹ، نے انڈونیشیا کی ایک رجعتی مذہبی جماعت ندوۃ العلماء کے ساتھ ملکر سامراج مخالف سوکارنوکا تختہ الٹا اور اٹھارہ لا کھ کمیونسٹوں،انارکسٹوں، جمہوریت پسندوں اور لبرل عوام کا قتل عام کیا جس پر بیس سال بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خصوصی تنقیدی رسالہ شایع کیا۔
جنوبی امریکی ملک چلی میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت تھی، جس کے سربراہ ڈاکٹرآئیندے تھے۔ انھیں امریکی سامراج کے سیکولر سی آئی اے نے قتل کیا اورحکومت کا تختہ الٹا۔ جسے بعد میں سی آئی اے کے سابق سربراہ نے تسلیم بھی کیا۔
جرمنی کا ہٹلر جوکہ نسل پرست اور سامراجی سرغنہ تھا۔ اس نے کمیونسٹوں، سوشلسٹوں، انارکسٹوں، حقیقی سیکولر اور لبرل عوام کا قتل عام کیا، وہ جاپانی اور اطالوی سامراجیوں کا اتحادی تھا۔
اسے روس کی کمیونسٹ حکومت نے شکست سے دوچارکیا۔ ہم بہت ساری باتیں منظرعام پہ نہیں لاتے۔ روزنامہ ایکسپر یس کے معروف کالم نویس وسعت اللہ خان نے ایک ٹاک شو میں کہا کہ ' انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں ایک کرنل اورلیفٹیننٹ کرنل سمیت پانچ ہندو افسران ، ایک بریگیڈئیر سمیت چارعیسائی آفیسر نے ہندوستان سے لڑتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں جب اسکول میں پڑھتا تھا تو میجرعزیز بھٹی، حسین ملک دو اور افسران کی تصویریں ہوتی تھیں۔
بعد میں پتہ چلا کہ حسین ملک ،ایک اورکی تصویرکتاب سے غائب ہوگئیں۔ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ہندوستان میں شیوسینا،کلکرنی کے منہ پرکالک ملتے ہیں یا کرکٹ کے سربراہ شہریارخان کے خلاف مظاہرہ کرتے ہیں توکراچی یونیورسٹی میں کرکٹ کھیلنے والی لڑکیوں پر تشدد ہوتا ہے اور افغانستان میں طالبان ایک خاتون محترمہ رخسانہ کو زمین میںآدھا گاڑکر پتھر مار مارکر قتل کردیتے ہیں۔ اب تو دلی اور بہار میں بھی لا لو پرشاد نے مودی کی جماعت بی جے پی کو شکست سے دوچارکیا۔ ایک کالم نگار نے دین محمد کو شہیدکہا۔
انھوں نے ٹراٹسکی کو سامراجی ایجنٹ بھی کہہ ڈالا۔ ٹراٹسکی،اسٹالن کرو پوتکن، لینن اور ایماگولڈ مان و غیرہ میں اختلاف تو ہوسکتے ہیں مگر یہ سب ملکر ہی انقلاب لائے تھے۔ٹراٹسکی کو اسٹالن نے جلاوطن کیا جوکہ غلط تھا۔ انھوں نے ہی ملکر سوویت یونین کی تقدیر بدل ڈالی۔انیس سو سترہ میں روسی سوشلسٹ انقلاب کے بعد روس میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ پھر انیس سواٹھارہ میں جرمنی میں اور انیس سو انیس میں امریکا میں اور انیس سو انتیس میں برطانیہ میں اور انیس سواکہتر میں سوئٹزرلینڈ میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ جب کہ آج بھی پختون خواہ کے بیشتر علاقوں،افغانستان کے بیشترعلاقوں، عرب بادشاہتوں اوربھوٹان کی بادشاہت میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں۔
انقلاب روس کے بعد ایک سوتیرہ ممالک کو نو آبادیاتی غلامی سے آزادی ملی۔آج بھی مسلمان آبادی کے بیشترممالک سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے سیکولر ہیں لیکن وہاں کوئی قتل وغارت گری نہیں ہورہی ہے۔ مثال کے طورپر تاجکستان، ازبکستان، کرغستان، قازقستان، آزربائیجان، ترکمانستان، انگوشتیا، چیچنیا،البانیہ، ملائیشیا، بوسنیا،کاسووو، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، تیونس، مراکش اورالجزائر وغیرہ۔ جب کہ اسلامی لبادوں میں قائم ممالک پاکستان، افغانستان، عراق، یمن، سوڈان اورصومالیہ میں سب سے زیادہ قتل وغارت گری ہورہی ہے۔ لہٰذا مسئلہ سیکولر یا جمہوریت کا نہیں ہے، مسئلہ ہے طبقاتی نظام کا۔ سچے جذبوں کی قسم ریاست، طبقات،جنگ، اسلحے، جائیداد، سرحدیں ختم ہوگئیں، تب ہی لوگ جینے لگیں گے۔
اس دنیا میں پچہترہزار لوگ بھوک سے مررہے ہیں اورسچ یہ بھی ہے کہ روزانہ ارب پتیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ سچ یہ بھی ہے کہ اس نظام سرمایہ داری میں پیوندکاریوں کے ذریعے بہتری لانے کی کوشش کی جارہی ہے اور سچ یہ بھی ہے کہ سماج میں انقلابی تبدیلی یعنی ملکیت، جائیداد اور وسائل کو دنیا کے تمام لوگوں کے حوالے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اسی طرح بعض کالم نویس، مصنف اور ڈراما نگار بھی ایک لفظ کے دو مطلب نکال لیتے ہیں۔گزشتہ دنوں ایک کالم نویس نے سیکولرازم کو بے راہ روی، قتل وغارت گری اورآمریت سے تشبیہ دی۔ ریاست بنیادی طور پر جبرکا ادارہ ہوتا ہے،خواہ وہ دائیں بازوکی ہو یا بائیں کی ہو۔ ہاں مگر خرابیوں کے باوجود غیرطبقاتی معاشرہ یعنی سوشلزم سرمایہ داری سے لاکھ درجہ بہتر ہے۔ سیکولرازم کا جبر، قتل وغارت گری یا آمریت سے کوئی تعلق نہیں۔ایک استاد اسکول،کالج یا یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے۔
اس کے طالب علم یہودی، مسلمان،کافر، عیسائی یاکچھ بھی ہو سکتے ہیں۔ وہ اگر فزکس پڑھا رہا ہے تو ہندو، سکھ ، پنجابی یا پٹھان سب کو ایک ہی سلیبس پڑھاتا ہے۔استاد کے اس پڑھانے کے عمل کو سیکولر عمل کہتے ہیں۔ سیکولرازم کوئی نظام نہیں ہے۔ نظام ہے قدیم کمیونسٹ نظام یا فطری پنچایتی نظام، جاگیرداری، سرمایہ داری اور پھراسٹیٹ لیس سوسائٹی یا نسل انسانی کا عالمی نظام جسے جدیدکمیونسٹ نظام بھی کہہ سکتے ہیں۔
اسی طرح سے جمہوریت بھی کوئی نظام نہیں ہے منتخب کرنے اور اظہارخیال کی آزادی کا نام ہے۔ جمہوریت ہر دور میں رہی ہے مگراس کی نوعیت الگ الگ تھی۔ غلامانہ نظام میں آقاؤں کے مابین جمہوریت، جاگیردارانہ نظام میں جاگیرداروں کی جمہوریت اورسرمایہ داری میں سرمایہ داروں کی جمہوریت۔ یہاں غلاموں، زرعی غلاموں،کسانوں اور مزدوروں کے لیے کوئی جمہوریت نہیں ہوتی۔صرف کمیونسٹ نظام میں ہی حقیقی عوام کی جمہوریت ہوتی ہے۔
جہاں تک قتل وغارت گری کا تعلق ہے تو سب سے زیادہ قتل وغارت گری شہنشاہ روم، شہنشاہ ہلاکو خان، شہنشاہ زار روس اور برصغیر کے سلطان شمس الدین التمش اور نادرشاہ نے کی۔ شمس الدین التمش نے تو برصغیر سے بیس لاکھ غلاموں کو خراسان ،عراق، عرب اور ترکمانستان میں ایک ایک تنکہ ( را ئج الوقت سکہ) میں فروخت کیا۔ عرب دنیا کے واحد ملک مصر کے سربراہ جمال ناصر نے اپنے ملک میں تعلیم، علاج، رہائش، ٹرانسپورٹ مفت کردی تھی ۔جاگیرداری کا خاتمہ کردیا تھا۔ سامراجی اثاثوں کو ضبط کرلیا تھا۔ جس پر سامراجی ممالک کو جان کے لالے پڑگئے۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ برطانیہ اور فرانس نے حملہ کردیا، لیکن روس کی دھمکی پر واپس جانا پڑا۔
عراق میں بدترین اور ظالم بادشاہت قائم تھی جسے عظیم عراقی رہنما سید حسن البکر نے پاؤں تلے روند ڈالا۔عراق میں صرف پھل، سبزی اور انڈے کے علاوہ ساری اشیائے خورونوش عوام کو مفت مہیا کی جاتی تھیں۔عراق ایک ایسا ملک تھا کہ اسرائیل کے ظالم حکمرانوں کے خلاف ہمیشہ ڈٹا رہا۔آج سامراج کے حملے کے بعد اس عراق کا حشر ہمارے سامنے ہے۔اب تک بارہ لاکھ انسانوں کا قتل ہوچکا ہے۔
شہنشاہ ایران کا تختہ الٹ کر جب ڈاکٹر مصدق اقتدار پرآئے تو شہنشاہ ، ایران سے فرار ہوچکے تھے۔ ڈاکٹر مصدق نے ایران میں تیل کے کنوؤں کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا، پھرامریکی سی آئی اے نے ڈاکٹر مصدق کا تختہ الٹا۔ دوسری بار توکمیونسٹ پارٹی نے شہنشاہ ایران کا تختہ الٹا۔ مسعود رجاوی کی اسلا می مارکسسٹ پارٹی اور تودہ پارٹی کے پچاس ہزارکارکنوں کو منشیات فروش کہہ کر قتل کیا گیا۔ اب تو ایران دھڑا دھڑ نجکاری کے عمل کوآگے بڑھانے میں سامراجی احکامات کی بجا آوری کررہا ہے۔ بعض لکھاریوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ جنرل سوہارتو سی آئی اے کا ایجنٹ، نے انڈونیشیا کی ایک رجعتی مذہبی جماعت ندوۃ العلماء کے ساتھ ملکر سامراج مخالف سوکارنوکا تختہ الٹا اور اٹھارہ لا کھ کمیونسٹوں،انارکسٹوں، جمہوریت پسندوں اور لبرل عوام کا قتل عام کیا جس پر بیس سال بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خصوصی تنقیدی رسالہ شایع کیا۔
جنوبی امریکی ملک چلی میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت تھی، جس کے سربراہ ڈاکٹرآئیندے تھے۔ انھیں امریکی سامراج کے سیکولر سی آئی اے نے قتل کیا اورحکومت کا تختہ الٹا۔ جسے بعد میں سی آئی اے کے سابق سربراہ نے تسلیم بھی کیا۔
جرمنی کا ہٹلر جوکہ نسل پرست اور سامراجی سرغنہ تھا۔ اس نے کمیونسٹوں، سوشلسٹوں، انارکسٹوں، حقیقی سیکولر اور لبرل عوام کا قتل عام کیا، وہ جاپانی اور اطالوی سامراجیوں کا اتحادی تھا۔
اسے روس کی کمیونسٹ حکومت نے شکست سے دوچارکیا۔ ہم بہت ساری باتیں منظرعام پہ نہیں لاتے۔ روزنامہ ایکسپر یس کے معروف کالم نویس وسعت اللہ خان نے ایک ٹاک شو میں کہا کہ ' انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں ایک کرنل اورلیفٹیننٹ کرنل سمیت پانچ ہندو افسران ، ایک بریگیڈئیر سمیت چارعیسائی آفیسر نے ہندوستان سے لڑتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں جب اسکول میں پڑھتا تھا تو میجرعزیز بھٹی، حسین ملک دو اور افسران کی تصویریں ہوتی تھیں۔
بعد میں پتہ چلا کہ حسین ملک ،ایک اورکی تصویرکتاب سے غائب ہوگئیں۔ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ہندوستان میں شیوسینا،کلکرنی کے منہ پرکالک ملتے ہیں یا کرکٹ کے سربراہ شہریارخان کے خلاف مظاہرہ کرتے ہیں توکراچی یونیورسٹی میں کرکٹ کھیلنے والی لڑکیوں پر تشدد ہوتا ہے اور افغانستان میں طالبان ایک خاتون محترمہ رخسانہ کو زمین میںآدھا گاڑکر پتھر مار مارکر قتل کردیتے ہیں۔ اب تو دلی اور بہار میں بھی لا لو پرشاد نے مودی کی جماعت بی جے پی کو شکست سے دوچارکیا۔ ایک کالم نگار نے دین محمد کو شہیدکہا۔
انھوں نے ٹراٹسکی کو سامراجی ایجنٹ بھی کہہ ڈالا۔ ٹراٹسکی،اسٹالن کرو پوتکن، لینن اور ایماگولڈ مان و غیرہ میں اختلاف تو ہوسکتے ہیں مگر یہ سب ملکر ہی انقلاب لائے تھے۔ٹراٹسکی کو اسٹالن نے جلاوطن کیا جوکہ غلط تھا۔ انھوں نے ہی ملکر سوویت یونین کی تقدیر بدل ڈالی۔انیس سو سترہ میں روسی سوشلسٹ انقلاب کے بعد روس میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ پھر انیس سواٹھارہ میں جرمنی میں اور انیس سو انیس میں امریکا میں اور انیس سو انتیس میں برطانیہ میں اور انیس سواکہتر میں سوئٹزرلینڈ میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ جب کہ آج بھی پختون خواہ کے بیشتر علاقوں،افغانستان کے بیشترعلاقوں، عرب بادشاہتوں اوربھوٹان کی بادشاہت میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں۔
انقلاب روس کے بعد ایک سوتیرہ ممالک کو نو آبادیاتی غلامی سے آزادی ملی۔آج بھی مسلمان آبادی کے بیشترممالک سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے سیکولر ہیں لیکن وہاں کوئی قتل وغارت گری نہیں ہورہی ہے۔ مثال کے طورپر تاجکستان، ازبکستان، کرغستان، قازقستان، آزربائیجان، ترکمانستان، انگوشتیا، چیچنیا،البانیہ، ملائیشیا، بوسنیا،کاسووو، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، تیونس، مراکش اورالجزائر وغیرہ۔ جب کہ اسلامی لبادوں میں قائم ممالک پاکستان، افغانستان، عراق، یمن، سوڈان اورصومالیہ میں سب سے زیادہ قتل وغارت گری ہورہی ہے۔ لہٰذا مسئلہ سیکولر یا جمہوریت کا نہیں ہے، مسئلہ ہے طبقاتی نظام کا۔ سچے جذبوں کی قسم ریاست، طبقات،جنگ، اسلحے، جائیداد، سرحدیں ختم ہوگئیں، تب ہی لوگ جینے لگیں گے۔