طورق موسیٰ خیل‘ مشہور فراری دوسراحصہ
میں نے اس سے وعدہ لیا کہ جب تک آپ کا حتمی فیصلہ نہ ہوجائے آپ نے کوئی واردات نہیں کرنی۔
میں نے اس سے وعدہ لیا کہ جب تک آپ کا حتمی فیصلہ نہ ہوجائے آپ نے کوئی واردات نہیں کرنی۔ اس نے اثبات میں گردن ہلائی میں نے دیکھا اس کی آنکھوں سے دوآنسو ٹپکے اور زمین میں جذب ہوگئے۔
اسی دوران طورق کے گھوڑے تک ہم پہنچ چکے تھے۔ میں نے پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ پالتو جانورکتے اور بلیوں کی طرح گھوڑے بھی اپنے مالک کی رفاقت اور جدائی سے بھرپور متاثر ہوتے ہیں جس طرح طورق کے قریب آنے پرگھوڑے نے اپنا ردعمل دیا۔ وہ دیکھنے کے قابل تھا۔ طورق سے جدا ہوتے ہوئے نامعلوم کیوں میں جذباتی ہو رہا تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کوگلے لگایا۔ چاچا نے الوداع کہا۔ وہ چابک دستی سے گھوڑے پر سوار ہوا، ایڑ لگائی اور فراٹے بھرتا ہوا روانہ ہوا۔کچھ دور جاکر گھوڑے کو روکا۔ اس کا رخ ہماری طرف کیا۔ طورق نے تھپکی دی۔ طورق اورگھوڑے نے جھک کر ایک ساتھ الوداعی سلام کیا۔ ہم نے ہاتھ ہلا کر جواب دیا وہ پھر روانہ ہوا۔ تھوڑی دور جا کر دائیں طرف مڑا اور نظروں سے غائب ہوگیا۔
دکان کی طرف لوٹتے ہوئے میں نے بازگل سے پوچھا ''چاچا! یہ فراری کیا ہوتا ہے؟''اس نے اپنی شگفتہ شگفتہ اردو میں مجھے سمجھایا ''بلوچستان کی یہ رسم قدیم ہے کہ جب کسی شخص یا جماعت یا قبیلے کو اپنے حق سے محروم کردیا جائے تو وہ بطور احتجاج اپنی فیملی کو لے کر پہاڑ پر پناہ لیتے ہیں اور حکومت کو تنگ کرنے کے لیے موقع ملتے ہی وارداتیں کرتے ہیں تاکہ علاقے میں بدامنی پھیلے۔ اردو میں آپ اسے باغی کہتے ہیں اور ہم اسے فراری۔'' باتیں کرتے ہوئے ہم دکان میں داخل ہوئے۔
ہمارے ساتھی اور دکاندار دوسری دکان میں محوخواب تھے۔ چاچا نے دکان کے باہری دروازے کا ایک پٹ بندکیا اور دوسرا کھلا چھوڑکر بندوق کو سرہانے رکھ کرسونے کی تیاری کی۔ میں بھی گدے پر لیٹ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے سرکا تکیہ بناکر سوچ میں پڑگیا۔ دنیا میں کیسے کیسے معصوم لوگ حالات سے گھبرا کر لٹیرے، قاتل اور ڈاکو بن جاتے ہیں۔ میں نے سرکاری مقصد سے یہ سفرکیا تھا اور قدرت نے مجھے طورق جیسے مظلوم شخص کی اعانت کے لیے کیا کام سونپ دیا اور میں قمردین کاریز جیسے ویران علاقے میں گھرکا آرام چھوڑ کر اس دکان میں سونے کی کوشش کر رہا ہوں۔
میرے ذہن میں جیسے ایک فلم چل پڑی۔گزشتہ سال کے اواخر میں مغربی پاکستان پبلک سروس کمیشن سے بطور اسسٹنٹ انجینئر منتخب ہونے اورکوئٹہ میں چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد میری پہلی باقاعدہ پوسٹنگ سب ڈویژن فورٹ سینڈیمن ہوئی۔ یہ شہرکوئٹہ سے دو سو میل کی مسافت پر بلوچستان کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ چارج لیتے ہی میرے ایکسین نے مجھے بتایا کہ جلد ہی کمشنرکوئٹہ ڈویژن نے قمردین کاریز کا دورہ کرنا ہے۔ سب سے پہلے اس علاقے کی سڑکوں کا معائنہ کریں اورایک دو دن میں مجھے رپورٹ کریں۔
کمشنر انور عادل اپنے زمانے کا انتہائی دبنگ آفیسرتھا۔ بلوچستان کا آدھا وسیع علاقہ اس کی کمشنری میں شامل تھا جب کہ باقی آدھا بلوچستان کمشنر قلات و مکران کے زیر نگرانی تھا۔ اس سے تمام ماتحت افسران خوف کھاتے تھے جب کہ یہ بلوچستان کے عوام اور قبائل میں بے حد مقبول تھا۔ دورے کے دوران اگرکسی افسرکی شکایت ہوجائے تو وہ غریب نوکری بچانے کی خاطر اس کے چہیتے لوگوں کی سفارش ڈھونڈتا پھرتا تھا۔ جب کہ اگرکوئی سائل اپنی درخواست پیش کرتا تو وہ اسی وقت منظورکرکے اپنے پی اے کے حوالے کرتا تھا۔ جب کہ بعض اوقات وہ اپنے سگریٹ کے پیکٹ پر آرڈرکرکے سائل کے حوالے کرتا کہ فلاں افسر کو جاکر یہ پیکٹ دو تمہارا کام ہوجائے گا۔
اب میں نے سڑک کی جو حالت دیکھی وہ اس قابل نہیں تھی کہ اسے چند دنوں میں ٹھیک کیا جاسکے میرے اندازے کے مطابق اسے ٹھیک کرنے میں کم ازکم چار ماہ اور بڑے فنڈکی ضرورت تھی چونکہ یہ سڑک ملیشیا فورس کے استعمال میں ہوتی تھی اس لیے فنڈ مرکزی حکومت سے ملتے تھے۔ جس کا ایک پیچیدہ طریقہ تھا اس لیے جلد ملنے کی توقع بیکار۔ میں اسی شش وپنج میں تھا کہ جانے کب مجھے نیند آگئی اور اس وقت آنکھ کھلی جب کیتلی میں ابلتی ہوئی چائے کی خوشبو پوری دکان میں پھیلی ہوئی تھی باقی ساتھی بھی اٹھ گئے تھے۔
ہم نے جلدی جلدی ناشتہ کیا۔ دکاندار کا بل ادا کیا اور ایک بار پھر ہم فورٹ سینڈیمن کی جانب رواں دواں تھے۔ شام سے پہلے جب ہم فورٹ سینڈیمن پہنچے تو دماغ بے چین تھا۔ میرے ہی محکمے کا دوسرا اسسٹنٹ انجینئر جس کے گھر میں ٹھہرا ہوا تھا مجھے پریشان دیکھ کرکہا ''چلو میں تمہیں یہاں کا واحد سینما ہاؤس دکھاتا ہوں۔ (میں اس کے ساتھ چل پڑا)۔ نامعلوم کون سی فلم کا شو تھا۔ لیکن شو شروع ہونے سے پہلے ایک جوکر عجب مسخرے پن سے ڈانس کرتا تھا اور لوگ خوش ہوکر اس پر پیسے پھینکتے تھے۔
اپنے پیٹ کی خاطر کم اور زیادہ ان پیٹوں کے لیے جو اس مسخرے کی زندگی سے بندھے ہوئے تھے فلمی دھن پر جو اوٹ پٹانگ رقص کررہا تھا اور لوگ بے تحاشہ ہنس ہنس کر اس پر نوٹ نچھاور کر رہے تھے۔
ورنہ اس خستہ سینما گھر جس میں بیٹھنے کے لیے سب سے آگے دریاں اس کے پیچھے بینچ بعد میں چند کرسیاں اور سب سے آخر دو باکس جس میں ہم بیٹھے ہوئے تھے اور چھوٹا سا سفید پردہ جس میں تصویریں آدھی نظر آتیں اور آدھی دیواروں پر۔ کون دیکھنے آتا اگر اس مسخرے کا روز لائیو پروگرام نہ ہوتا۔ سینما شروع ہونے میں چند لمحات باقی تھے کہ ایک صاحب باکس میں داخل ہوئے اور پوچھا آپ میں زیدی صاحب کون ہیں۔ میں نے کہا فرمائیے۔ اس نے کہا کہ پی اے صاحب آپ کو یادکررہے ہیں۔ میں یہاں کا نائب تحصیل دار ہوں۔
(جاری ہے)
اسی دوران طورق کے گھوڑے تک ہم پہنچ چکے تھے۔ میں نے پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ پالتو جانورکتے اور بلیوں کی طرح گھوڑے بھی اپنے مالک کی رفاقت اور جدائی سے بھرپور متاثر ہوتے ہیں جس طرح طورق کے قریب آنے پرگھوڑے نے اپنا ردعمل دیا۔ وہ دیکھنے کے قابل تھا۔ طورق سے جدا ہوتے ہوئے نامعلوم کیوں میں جذباتی ہو رہا تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کوگلے لگایا۔ چاچا نے الوداع کہا۔ وہ چابک دستی سے گھوڑے پر سوار ہوا، ایڑ لگائی اور فراٹے بھرتا ہوا روانہ ہوا۔کچھ دور جاکر گھوڑے کو روکا۔ اس کا رخ ہماری طرف کیا۔ طورق نے تھپکی دی۔ طورق اورگھوڑے نے جھک کر ایک ساتھ الوداعی سلام کیا۔ ہم نے ہاتھ ہلا کر جواب دیا وہ پھر روانہ ہوا۔ تھوڑی دور جا کر دائیں طرف مڑا اور نظروں سے غائب ہوگیا۔
دکان کی طرف لوٹتے ہوئے میں نے بازگل سے پوچھا ''چاچا! یہ فراری کیا ہوتا ہے؟''اس نے اپنی شگفتہ شگفتہ اردو میں مجھے سمجھایا ''بلوچستان کی یہ رسم قدیم ہے کہ جب کسی شخص یا جماعت یا قبیلے کو اپنے حق سے محروم کردیا جائے تو وہ بطور احتجاج اپنی فیملی کو لے کر پہاڑ پر پناہ لیتے ہیں اور حکومت کو تنگ کرنے کے لیے موقع ملتے ہی وارداتیں کرتے ہیں تاکہ علاقے میں بدامنی پھیلے۔ اردو میں آپ اسے باغی کہتے ہیں اور ہم اسے فراری۔'' باتیں کرتے ہوئے ہم دکان میں داخل ہوئے۔
ہمارے ساتھی اور دکاندار دوسری دکان میں محوخواب تھے۔ چاچا نے دکان کے باہری دروازے کا ایک پٹ بندکیا اور دوسرا کھلا چھوڑکر بندوق کو سرہانے رکھ کرسونے کی تیاری کی۔ میں بھی گدے پر لیٹ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے سرکا تکیہ بناکر سوچ میں پڑگیا۔ دنیا میں کیسے کیسے معصوم لوگ حالات سے گھبرا کر لٹیرے، قاتل اور ڈاکو بن جاتے ہیں۔ میں نے سرکاری مقصد سے یہ سفرکیا تھا اور قدرت نے مجھے طورق جیسے مظلوم شخص کی اعانت کے لیے کیا کام سونپ دیا اور میں قمردین کاریز جیسے ویران علاقے میں گھرکا آرام چھوڑ کر اس دکان میں سونے کی کوشش کر رہا ہوں۔
میرے ذہن میں جیسے ایک فلم چل پڑی۔گزشتہ سال کے اواخر میں مغربی پاکستان پبلک سروس کمیشن سے بطور اسسٹنٹ انجینئر منتخب ہونے اورکوئٹہ میں چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد میری پہلی باقاعدہ پوسٹنگ سب ڈویژن فورٹ سینڈیمن ہوئی۔ یہ شہرکوئٹہ سے دو سو میل کی مسافت پر بلوچستان کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ چارج لیتے ہی میرے ایکسین نے مجھے بتایا کہ جلد ہی کمشنرکوئٹہ ڈویژن نے قمردین کاریز کا دورہ کرنا ہے۔ سب سے پہلے اس علاقے کی سڑکوں کا معائنہ کریں اورایک دو دن میں مجھے رپورٹ کریں۔
کمشنر انور عادل اپنے زمانے کا انتہائی دبنگ آفیسرتھا۔ بلوچستان کا آدھا وسیع علاقہ اس کی کمشنری میں شامل تھا جب کہ باقی آدھا بلوچستان کمشنر قلات و مکران کے زیر نگرانی تھا۔ اس سے تمام ماتحت افسران خوف کھاتے تھے جب کہ یہ بلوچستان کے عوام اور قبائل میں بے حد مقبول تھا۔ دورے کے دوران اگرکسی افسرکی شکایت ہوجائے تو وہ غریب نوکری بچانے کی خاطر اس کے چہیتے لوگوں کی سفارش ڈھونڈتا پھرتا تھا۔ جب کہ اگرکوئی سائل اپنی درخواست پیش کرتا تو وہ اسی وقت منظورکرکے اپنے پی اے کے حوالے کرتا تھا۔ جب کہ بعض اوقات وہ اپنے سگریٹ کے پیکٹ پر آرڈرکرکے سائل کے حوالے کرتا کہ فلاں افسر کو جاکر یہ پیکٹ دو تمہارا کام ہوجائے گا۔
اب میں نے سڑک کی جو حالت دیکھی وہ اس قابل نہیں تھی کہ اسے چند دنوں میں ٹھیک کیا جاسکے میرے اندازے کے مطابق اسے ٹھیک کرنے میں کم ازکم چار ماہ اور بڑے فنڈکی ضرورت تھی چونکہ یہ سڑک ملیشیا فورس کے استعمال میں ہوتی تھی اس لیے فنڈ مرکزی حکومت سے ملتے تھے۔ جس کا ایک پیچیدہ طریقہ تھا اس لیے جلد ملنے کی توقع بیکار۔ میں اسی شش وپنج میں تھا کہ جانے کب مجھے نیند آگئی اور اس وقت آنکھ کھلی جب کیتلی میں ابلتی ہوئی چائے کی خوشبو پوری دکان میں پھیلی ہوئی تھی باقی ساتھی بھی اٹھ گئے تھے۔
ہم نے جلدی جلدی ناشتہ کیا۔ دکاندار کا بل ادا کیا اور ایک بار پھر ہم فورٹ سینڈیمن کی جانب رواں دواں تھے۔ شام سے پہلے جب ہم فورٹ سینڈیمن پہنچے تو دماغ بے چین تھا۔ میرے ہی محکمے کا دوسرا اسسٹنٹ انجینئر جس کے گھر میں ٹھہرا ہوا تھا مجھے پریشان دیکھ کرکہا ''چلو میں تمہیں یہاں کا واحد سینما ہاؤس دکھاتا ہوں۔ (میں اس کے ساتھ چل پڑا)۔ نامعلوم کون سی فلم کا شو تھا۔ لیکن شو شروع ہونے سے پہلے ایک جوکر عجب مسخرے پن سے ڈانس کرتا تھا اور لوگ خوش ہوکر اس پر پیسے پھینکتے تھے۔
اپنے پیٹ کی خاطر کم اور زیادہ ان پیٹوں کے لیے جو اس مسخرے کی زندگی سے بندھے ہوئے تھے فلمی دھن پر جو اوٹ پٹانگ رقص کررہا تھا اور لوگ بے تحاشہ ہنس ہنس کر اس پر نوٹ نچھاور کر رہے تھے۔
ورنہ اس خستہ سینما گھر جس میں بیٹھنے کے لیے سب سے آگے دریاں اس کے پیچھے بینچ بعد میں چند کرسیاں اور سب سے آخر دو باکس جس میں ہم بیٹھے ہوئے تھے اور چھوٹا سا سفید پردہ جس میں تصویریں آدھی نظر آتیں اور آدھی دیواروں پر۔ کون دیکھنے آتا اگر اس مسخرے کا روز لائیو پروگرام نہ ہوتا۔ سینما شروع ہونے میں چند لمحات باقی تھے کہ ایک صاحب باکس میں داخل ہوئے اور پوچھا آپ میں زیدی صاحب کون ہیں۔ میں نے کہا فرمائیے۔ اس نے کہا کہ پی اے صاحب آپ کو یادکررہے ہیں۔ میں یہاں کا نائب تحصیل دار ہوں۔
(جاری ہے)