پاکستان اکنامک فورم کا انعقاد معاشی ترقی کیلیے قومی اقتصادی حکمت عملی تیار کرنے پر زور

قومی پروگرام کی تیاری،بڑے پیمانے پرآبی ذخائرکی تعمیر کیلیے قومی اتفاق رائے پیداکرنے کی سفارش

گیس کیلیے شعبہبجلی کوترجیح،ریلوے کوکارپوریشن میں تبدیل ،مال گاڑیوں پرتوجہ،ٹیکس پالیسی اصلاحات،سی پی ای سی فنانس بینک بنانے کی بھی تجاویزپیش فوٹو: فائل

FAISALABAD:
پاکستان اکنامک فورم (پی ای ایف) کے تیسرے ایڈیشن کا انعقاد حبیب یونیورسٹی کے کراچی کیمپس میں ہوا، پاکستاب بزنس کونسل (پی بی سی) کی جانب سے اسپانسر شدہ اس تقریب میں ملک بھر کے توانائی، ترسیل رسد وکنیکٹیوٹی، پانی، معاشی استحکام اور ترقی کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے شرکت کی، ماہرین کے پینل نے پاکستان کو درپیش مسائل اور چیلنجز پر تجاویز پیش کیں کہ کس طرح انہیں طویل اور قلیل مدت میں حل کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان بزنس کونسل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کامران وائے مرزا نے شرکا کا خیرمقدم کرتے ہوئے پی بی سی کے مقاصد، رکنیت سازی، کامیابیوں اور کارناموں کے ساتھ ساتھ اس کے دائرہ کار میں آنے والے شعبہ جات کے حوالے سے مختصر گفتگو کی۔ چیئرمین پی بی سی بشیر علی محمد نے افتتاحی خطاب میںکہا کہ پاکستان کو خطے کی دیگر معیشتوں سے آگے نکلنے کیلیے معاشی ڈھانچے میں اہم تبدیلیاں لانا ہوں گی۔

انھوں نے کہاکہ معاشی ترقی کیلیے انتہائی ضروری ہے کہ ایسی مشترکہ قومی اقتصادی حکمت عملی تیار کی جائے جس پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہو سکیں۔ انہوں نے شرکا کو یاد دہانی کرائی کہ 2011 سے پی بی سی اسی قومی اتفاق رائے کے قیام کی کوششوں میں مصروف ہے اور پی ای ایف ایونٹ اور پینلز کی تجاویز اسی اتفاق رائے کے قیام کی کوششوں کا حصہ ہے۔ توانائی کے پینل کے مشترکہ سربراہان سابق چیئرمین اوجی ڈی سی ایل وشیل پاکستان فاروق رحمت اللہ اور حبکو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر خالد منصوری نے تجاویز دیں کہ توانائی بحران کے حل کی مربوط حکمت عملی کے لیے توانائی کی خصوصی وزارت کا قیام انتہائی ضروری ہے۔


پینل نے توانائی کے مقامی وسائل کو ترقی دینے اور انرجی سیکٹر کی حالت بہتر بنانے کیلیے قومی پروگرام کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ گیس کے پینل نے تجاویز دیں کہ گیس کی تقسیم میں بجلی اور صنعتی شعبے کو اہمیت دی جائے۔ پینل نے سفارش کی کہ توانائی کی کمپنیوں کی نجکاری کرتے ہوئے اس عمل میں ایک سے زیادہ خریداروں کے ماڈل کو اپنایا جائے۔ سابق گورنر اسٹیٹ بینک سلیم رضا اور ماہر لاجسٹکس بابر بدات کی سربراہی میں ترسیل رسد و کنیکٹیوٹی پینل نے سفارش کی کہ ریلوے پاکستان کی مسابقت بڑھانے کے لیے بہت اہم ہے، ریلوے کے موجودہ اثاثوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلیے حکام کی توجہ مسافر ٹرینوں کے بجائے مال گاڑیوں پر ہونی چاہیے، ساتھ ہی اوپن ایکس پالیسی کے تحت نجی شعبے کو ریلوے کے ڈھانچے کو استعمال کرتے ہوئے سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

پینل نے سفارش کی کہ ریلوے کو کارپوریشن میں تبدیل کر دیا جائے اور یہ غیراہم آپریشنز کیلیے ذمے دار نہ ہو۔ واٹرپینل کے سربراہ سلیمان خان نے پانی کے ملکی وسائل اورانڈس بیسن واٹر ٹریٹی کیلیے فعال نقطہ نظرکو اپنانے کے نئے عزم کا مطالبہ کیا اور بڑے پیمانے پر آبی ذخائر کی تعمیر کیلیے قومی اتفاق رائے پر زور دیا۔ پینل نے واپڈا کی بحالی کی تجاویز دی اورکہا کہ 1958 میں اس کے قیام کی دستاویزات میں جو نظریہ اپنایا گیا تھا وہ آج بھی اہمیت کا حامل ہے۔

میکرو اکنامک پینل کی مشترکہ سربراہی کرنیوالے سابق گورنر اسٹیٹ بینک اور ڈائریکٹرو ڈین آئی بی اے ڈاکٹر عشرت حسین اور سی ای او بینک الفلاح عاطف اسلم باجوہ نے ٹیکس پالیسی اور ٹیکس انتظامیہ میں اہم اصلاحات کی تجویز پیش کی۔ پینل نے تجویز پیش کی کہ نئے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کو ٹیکس وصولی بڑھانے کی ترغیب دینے کیلیے کچھ فوائد دیے جائیں۔ پینل جس میں سابق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین بھی موجود تھے نے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز اور مالیاتی شعبوں میں اہم اصلاحات کی تجاویز بھی دیں۔ پینل نے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کو فنڈ کی فراہمی کیلیے انفرااسٹرکچر فنانس بینک کے قیام اور پاکستان ایران پائپ لائن کی بحالی کی تجویز بھی پیش کی۔
Load Next Story