وزارت خزانہ پہلی سہ ماہی میں مالی خسارے پربمشکل قابو پا سکی آئی پی آر کا حقائق نامہ
آئی ایم ایف کیساتھ طے شدہ ہدف 306 ارب تھا جو بہت کم یعنی 22 ارب روپے کی رقم سے تجاوز کر سکا
تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے بجٹ 2015-16 کی پہلی سہ ماہی پر ایک حقائق نامہ جاری کیا ہے جس کے مطابق تسلسل سے جاری کچھ مسائل کی موجودگی کی وجہ سے اور وزارت خزانہ کی طرف سے مالی خسارے کو کنٹرول میں لانے کیلیے پہلی سہ ماہی کے نتائج کچھ حوصلہ ا فزا نہیں۔ پہلی سہ ماہی کیلیے مالی خسارے کا ہدف جو آئی ایم ایف کے ساتھ اتفاق سے طے کیا گیا تھا306 ارب روپے کا تھا لہذا یہ بہت کم یعنی 22 ارب روپے کی رقم سے تجاوز کر سکا لیکن اس کے باوجود مالی خسارے کو بڑی مشکل سے قابو کیا گیا۔
حقائق نامہ کے مطابق ٹیکسوں کی وصولی مقررہ ہدف سے 16ارب روپے کم رہی اگرچہ پچھلے سال اس دورانیے کی نسبت ٹیکسوں کی وصولی بہترہے۔ جہاں تک دفاعی اخراجات کا تعلق ہے آئی پی آرکی فیکٹ شیٹ کے مطابق یہ خدشہ تھا کہ یہ اخراجات آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے بڑھ جائیں گے۔ لیکن پہلی سہ ماہی میں ان میں11 فیصد تک کمی ہوئی، اس طرح تقریباً 39 ارب روپے کی بچت ہوئی ۔ اس کے علاوہ صوبوں کو رقوم کی تقسیم کے طے شدہ منصوبوں اور آمدن کی بنیاد پر براہ راست منتقلی کو بھی جزوی طور پر روک دیا گیا ہے۔
صوبوں کو پہلی سہ ماہی میں 367ارب روپے منتقل ہونا تھے جو کہ 289ارب تک محدود کر دیے گئے ۔اس طرح وفاقی حکومت صوبوں کے اخراجات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن مجموعی طور پر صوبائی حکومتوں کو رقوم کی منتقلی اور دفاعی اخراجات کیلیے کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی گئی۔ پہلی سہ ماہی کیلیے ما لیات خسارہ 117ارب روپے سے زیادہ ہو سکتا تھا ،ماضی کے تجربات کی بنیاد پر پہلی سہ ماہی کا خسارہ سالانہ خسارے کاتقریباً 22فیصد بنتا ہے لہٰذا اس بنیاد پر مالی سال 2015-16کے خسارے کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو یہ جی ڈی پی کا 4.3 فیصد سے زیادہ ہو سکتا ہے ۔
آئی پی آر کے حقائق نامہ میں کچھ اور مسائل کا ذکر بھی کیا گیا جس کے مطابق شرح سود میں کمی کے باوجود کوئی زیادہ سرمایہ کاری نہیں ہو رہی، اسکے علاوہ خسارے کی فنانسنگ کے طریقہ کار بھی 2014-15سے بہت مختلف ہے، نیز بیرونی قرضوں میں 69ارب روپے کا اضافہ ہو ا جو کہ مہنگے یورو بانڈ کی وجہ سے ہے۔ نان بینکنگ ذرائع نے بہت کم کار کردگی دکھائی ہے ۔ حقائق نامہ کے آخر میں تھنک ٹینک آئی پی آر نے حکومت کی کچھ کامیابیوں کا ذکر بھی کیا جس کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی آمدنی میں 12 فیصد اضافہ ہو ا، انکم ٹیکس کی آمدنی میں 26 فیصد سے زائد کا اضافہ حکومت کی اچھی کار کردگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
حقائق نامہ کے مطابق ٹیکسوں کی وصولی مقررہ ہدف سے 16ارب روپے کم رہی اگرچہ پچھلے سال اس دورانیے کی نسبت ٹیکسوں کی وصولی بہترہے۔ جہاں تک دفاعی اخراجات کا تعلق ہے آئی پی آرکی فیکٹ شیٹ کے مطابق یہ خدشہ تھا کہ یہ اخراجات آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے بڑھ جائیں گے۔ لیکن پہلی سہ ماہی میں ان میں11 فیصد تک کمی ہوئی، اس طرح تقریباً 39 ارب روپے کی بچت ہوئی ۔ اس کے علاوہ صوبوں کو رقوم کی تقسیم کے طے شدہ منصوبوں اور آمدن کی بنیاد پر براہ راست منتقلی کو بھی جزوی طور پر روک دیا گیا ہے۔
صوبوں کو پہلی سہ ماہی میں 367ارب روپے منتقل ہونا تھے جو کہ 289ارب تک محدود کر دیے گئے ۔اس طرح وفاقی حکومت صوبوں کے اخراجات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن مجموعی طور پر صوبائی حکومتوں کو رقوم کی منتقلی اور دفاعی اخراجات کیلیے کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی گئی۔ پہلی سہ ماہی کیلیے ما لیات خسارہ 117ارب روپے سے زیادہ ہو سکتا تھا ،ماضی کے تجربات کی بنیاد پر پہلی سہ ماہی کا خسارہ سالانہ خسارے کاتقریباً 22فیصد بنتا ہے لہٰذا اس بنیاد پر مالی سال 2015-16کے خسارے کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو یہ جی ڈی پی کا 4.3 فیصد سے زیادہ ہو سکتا ہے ۔
آئی پی آر کے حقائق نامہ میں کچھ اور مسائل کا ذکر بھی کیا گیا جس کے مطابق شرح سود میں کمی کے باوجود کوئی زیادہ سرمایہ کاری نہیں ہو رہی، اسکے علاوہ خسارے کی فنانسنگ کے طریقہ کار بھی 2014-15سے بہت مختلف ہے، نیز بیرونی قرضوں میں 69ارب روپے کا اضافہ ہو ا جو کہ مہنگے یورو بانڈ کی وجہ سے ہے۔ نان بینکنگ ذرائع نے بہت کم کار کردگی دکھائی ہے ۔ حقائق نامہ کے آخر میں تھنک ٹینک آئی پی آر نے حکومت کی کچھ کامیابیوں کا ذکر بھی کیا جس کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی آمدنی میں 12 فیصد اضافہ ہو ا، انکم ٹیکس کی آمدنی میں 26 فیصد سے زائد کا اضافہ حکومت کی اچھی کار کردگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔