مہذب ممالک کی ترقی کا ایک ہی پیمانہ ہے۔ مضبوط معیشت، یکساں اور فوری انصاف، امن و امان، سہولیاتِ زندگی کی دستیابی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کی اچھی کارکردگی، اور جب یہ سب کچھ ہو تو ملک و قوم ترقی کیوں نہ کرے؟ پھر نہ بیرونی قرضوں کا بوجھ اٹھانا پڑے نہ ہی ملک سے برین ڈرین ہو بلکہ بیرونی سرمایہ کار خود کھینچے چلے آئیں، جب ریاست پر اعتماد اندرونی استحکام کا راستہ بناکر قوم کی خوشحالی کے مواقع پیدا کرے تو معیشت کا پہیہ بھی چلتا رہے اور بیروز گاری کا مسئلہ بھی نہ کھڑا ہو، اسی کُلیے پر عمل کرتے ہوئے کئی قوموں کی زندگیاں سنور گئیں اور ان کی آئندہ آنیوالی نسلوں کا مستقبل بھی محفوظ ہوگیا۔
علامہ اقبال کے تصور میں ایسا ہی روشن پاکستان تھا جہاں متحدہ ہندوستان کی احساس محرومی اور کمتری کا شکار مسلم اقلیت آزاد ہوکر پُرسکون زندگی گذار سکے۔ اس تصور کو تعبیر دیتے ہوئے قائداعظم کا بھی یہی عزم تھا کہ اس بکھری ہوئی قوم کو منزل تک پہنچادیا جائے۔ منزل بھی وہ جسکا نشان پانے کیلئے آگ اور خون کا دریا پار کرنا پڑا، لیکن حوصلہ بلند عزم پختہ تھا سو راہ کے کانٹے چن لئے گئے۔
وطن بن گیا اور آزادی بھی مل گئی لیکن قوم 70 سال سے بھٹک رہی ہے۔ بنی اسرائیل نے تو سینا میں 40 سال گذارے تھے، ہم 7 دہائیوں سے حکمرانوں کے بنائے ہوئے صحرا میں مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن ارض موعودہ مل کر نہیں دیتی۔
آج پاکستان مسائل کا گڑھ بن کر رہ گیا ہے، یہاں ہر آنیوالی حکومت کا خزانہ خالی ہوتا ہے جبکہ جانیوالی حکومت کی جیب بھری ہوئی ہوتی ہے ۔ حکمرانوں اور سیاست دانوں کی لغزشوں نے قوم کو بھوک، بیماری، افلاس اور طاقت کے قانون کےسوا کچھ نہیں دیا، بلکہ الٹا قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کی جڑوں کو کرپشن سے کھوکھلا کردیا۔ اِسی کرپشن کی وجہ سے کوئی بھی شعبہ مناسب کارکردگی دکھانے میں ناکام ہے کیونکہ سب کو ''پرسنٹیج'' مل رہی ہے، ایسے میں کون پاگل قابلیت اور کارکردگی کا معیار جانچے گا؟ پورا
نظام ہی بدعنوانی کی دھند میں لپٹا ہوا ہے، ایسے میں ترقی کی کرن کھیتوں اور بھٹیوں میں اپنا خون پسینہ ایک کرتے محنت کش تک کیسے پہنچے گی۔
دنیا اسپیس ایج میں جی رہی ہے اور ہم دیا سلائی کے دور میں پہنچے جارہے ہیں۔ کبھی ہم گیس بندش کے باعث لکڑی پر کھانا پکاتے ہیں تو کبھی لوڈ شیڈنگ کی مہربانی سے ہاتھ والا پنکھا جھلتے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے توانائی بحران کا جادو یوں سرچڑھ کر بول رہا ہے کہ کوئی سبیل نظر نہیں آتی نہ ہی حکمران اس مسئلہ کو حل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ کوئی منصوبہ بندی یا پیش بندی نہیں کی گئی۔ ہم نے شاید قسم کھالی ہے کہ بھلے ملک معاشی اور معاشرتی طور پر بنجر ہوجائے لیکن ڈیم پر سیاست کرکے قوم کو تقسیم در تقسیم کردینگے۔ ملک سے سرمایہ دار بھاگ رہے ہیں، کوئی دبئی تو کوئی بنگلہ دیش منتقل ہوگیا ہے۔ صنعتوں کی بندش مزدوروں کیلئے تباہ کن ہے، لیکن کس کو فکر ہے، یہاں تو صرف نعرے بازی ہوتی ہے یا تاریخ پر تاریخ دیکر وقت گذاری کی جاتی ہے، اگر ایک دو منصوبے بنائے بھی گئے تو وہ نا اہلی اور ابتری کی مثال بن گئے جیسے نندی پور۔
نندی پور منصوبے کا بہت شور کیا گیا، ہر کوئی اسکا کریڈٹ لیجانے کو بیتاب تھا لیکن یہ پروجیکٹ اپنے اندر ایسی ایک ہزار ایک داستان لیکر آیا کہ چھپانے کی لاکھ کوشش کے باوجود نندی پور پاور پراجیکٹ کی ناکامی میں کرپشن سرفہرست ہے۔ ایک یہی نہیں یہاں
تو جگہ جگہ کرپشن پڑی ہے۔ پی آئی اے کو کرپشن کھا گئی، اسٹیل مل کو لے ڈوبی، آئل اور گیس کے محکمے، کس کس کا نام لیں ابھی تو میٹرو میں بھی بھید چُھپے ہیں جبکہ منی لانڈرنگ کیسز تو ویسے ہی لاجواب ہیں، یعنی جو کچھ
پچھلی حکومت سے بچ گیا تھا وہ کسر یہ حکومت پوری کرکے چھوڑے گی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت مرکز میں تھی تو ریکارڈ ساز کرپشن کرتی رہی اب سندھ حکومت میں بھی اپنا وطیرہ نہ بدل سکی۔ مفاہمتی سیاست تو ایک طرف ہے، یہ لوٹ کھسوٹ ہی ہے جو پیپلز پارٹی کو سارے ملک سے سمیٹ کر سندھ کی گوٹھوں تک محدود کرگئی ہے۔
بلاول بھٹو کے کبھی نرم کبھی گرم بیانات، سب کچھ اس پارٹی کی ساکھ بحال کرنے میں ناکام ہیں کیونکہ آئے دن میڈیا چیخ چیخ کر
کرپشن کی کوئی نئی کہانی سنا رہا ہوتا ہے اور لوگ منہ کھولے سن رہے ہوتے ہیں۔ ایسے ایسے طریقے ایجاد کئے ہیں کھانے اور کھلانے کے، کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، لیکن کہنے والے بھی سچ ہی کہتے ہیں کہ جب پنجاب پر ہاتھ پڑیگا تو وہاں بھی داستان امیر حمزہ سے ہی شروع ہوگی۔
سنگا پور تھرڈ ورلڈ سے نکل کر ترقی اس لئے کرگیا کیونکہ اس نے تمام برائیوں کی جڑ یعنی کرپشن کو ختم کردیا۔ پاکستان کی ترقی کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ بدعنوانی ہے۔ آپ اس لعنت سے چھٹکارہ حاصل کرلیں ملک خود بخود ترقی کرنے لگے گا۔ احتساب اور دیانت کا ساتھ ازلی ہے، بد قسمتی سے ہمارے یہاں دونوں ہی ناپید ہیں سو ہر کوئی حسب توفیق خود کو اور ''اپنوں'' کو نواز رہا ہے۔ ہر حکومت ہمیشہ کرپشن ختم کرنے کی بات کرتی ہے لیکن زبانی جمع خرچ سے آگے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ سیاسی حد بندیاں پر جلانے لگتی ہیں۔ نیب موجود ہے پر اسکے ہاتھ بھی اقتدار، مصلحت اور مفاہمت کی رسی سے اس قدر سختی سے بندھے ہیں کہ وہ کرپشن کے خلاف قوانین کا اطلاق کرنے سے معذور ہے۔
ریاست آخر کب تک یوں ہی یرغمال بنی رہےگی؟ کبھی تو اس کی بہتری کا سوچیں۔ ملکی معیشت کو چلانے کیلئے آئی۔ ایم۔ ایف سے نئے قرضے فخریہ حاصل کرکے انکا بوجھ عوام پر نئے قرضوں کی مد میں ڈالنے کے بجائے ملکی اثاثوں کی لوٹ سیل بند کرنی چاہیئے۔ کب تک؟ آخر کب تک ہم غیر ملکی امداد اور قرضوں کے سہارے چل سکتے ہیں؟
[poll id="777"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ
[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔