نیشنل ایکشن پلان کو مزید موثر بنانے کی ضرورت
دہشتگردی کے فروغ کے خلاف وسیع پیمانے پر اقدامات کا فیصلہ کیا گیا
قومی ایکشن پلان (این اے پی) کو ماہرین کے ایک پینل نے اے پی ایس پشاور پر دسمبر 2014ء کے دہشت گردی کے حملے کے بعد ہنگامی طور پر تیار کیا تھا۔ نیپ کی کارکردگی کا میکنزم تین سطحوں والے ایک ڈھانچے پر مشتمل ہے، جس میں ایک وفاقی ایپکس کمیٹی ہے جس کے سربراہ وزیر اعظم ہیں اس کے علاوہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) اور صوبائی ایپکس کمیٹیاں شامل ہیں تا کہ نیپ کو موثر طور پر نافذ کر کے اس پر عملدرآمد کیا جائے۔
تاہم وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے نیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی (این آئی ایس پی) کے تحت جس جامع ڈیٹرنس اور رسپانس منصوبے کا کئی ماہ قبل اعلان کیا تھا ان پر یا تو جزوی طور پر عمل ہوا ہے یا بالکل عمل نہیں ہوا۔ زرداری دور میں زیادہ تر زبانی جمع خرچ سے کام لیا گیا۔ نیکٹا کو دوسری سطح پر بریگیڈ میکنزم کے طور پر استعمال کیا گیا لیکن یہ بھی بے اختیار ادارہ تھا کیونکہ اس کی قیادت کے لیے کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا گیا تھا۔ ایک سینئر پولیس افسر کو' جو کہ بلاشبہ پیشہ ورانہ طور پر اپنی اہلیت ثابت کر چکا تھا، نیکٹا اور نیشنل پولیس بیورو (این پی بی) دونوں کا دوہرا چارج دیدیا گیا ہے۔
دہشتگردی کے فروغ کے خلاف وسیع پیمانے پر اقدامات کا فیصلہ کیا گیا تا کہ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا، نیز انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والی انتہا پسندی' فرقہ واریت اور عدم برداشت پر قابو پایا جا سکے۔ نیپ کے نمایاں اہداف میں ریڈیو' ٹی وی' لٹریچر، اخبارات و رسائل وغیرہ کے ذریعے نفرت اور خوف کو پھیلانے سے سختی کے ساتھ روکنا ہے۔ بہت سے ''چیٹ رومز'' اور سوشل میڈیا چینلز بے دریغ نفرت پھیلا رہے ہیں، جب کہ اس زہریلے مواد کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کوئی جامع منصوبہ موجود نہیں ہے۔ اس حوالے سے نفرت پھیلانے والے میڈیا کے خلاف اگر کوئی اقدامات کیے گئے ہیں تو 1997ء کے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں اس قسم کے جرائم کرنے والوں پر فرد جرم عائد کرنے کا کوئی مناسب طریقہ موجود نہیں ہے۔
سب سے زیادہ زور دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کی اندرونی یا بیرونی ذرایع سے فنڈنگ کے روکنے پر دیا گیا ہے جس کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی بعض اقدامات کیے ہیں لیکن اس قسم کی ''منی لانڈرنگ'' کو روکنے کے لیے کوئی عملی منصوبہ موجود نہیں ہے۔ ایک بڑے منی چینجر کو اب امریکا میں گرفتار کیا گیا ہے حالانکہ پاکستان میں اس کے خلاف ثبوت موجود تھے اس کے باوجود عدالتوں سے وہ بہ آسانی بری ہو گیا۔
پاکستان میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو گرفتار چینجر کے انکشافات کی صورت میں وعدہ معاف گواہ بننے کی تیاری کر رہے ہیں تا کہ یا تو ان کو معاف کر دیا جائے یا ان کی سزا میں کمی کر دی جائے۔ دہشت گردوں نے پہلے ہی رقوم کی ترسیل کے متبادل ذرایع تلاش کر لیے ہیں جو زیادہ تر ''حوالہ'' کی بنیاد پر ہیں۔جہاں تک مذہبی درسگاہوں کو ملنے والی غیر ملکی رقوم کا تعلق ہے تو ان پر کنٹرول کرنے کے لیے جوش و جذبے کی واضح طور پر کمی نظر آتی ہے۔ بہت سی کالعدم قرار دی جانے والی تنظیمیں اب مختلف ناموں سے کام کر رہی ہیں اور انھیں خاصی مقدار میں فنڈز بھی موصول ہو رہے ہیں۔
دور دراز کے علاقوں میں بہت سے مدرسے کھمبیوں کی طرح نمودار ہو رہے ہیں جن کے بارے میں قابل اعتبار معلومات کی کمی ہے۔ایک عام اندازے کے مطابق ان کی تعداد 12,000 تک ہے جو کہ غیر رجسٹرڈ ہیں جب کہ رجسٹرڈ مدرسوں کی تعداد 28000 ہے۔ غیر رجسٹر مدارس کی زیادہ تعداد جنوبی پنجاب میں کہی جاتی ہے۔
ان علاقوں میں بڑے جاگیرداروں کا غلبہ ہے جو بڑی وسیع زرعی اراضی کے مالک ہیں، جب کہ اس علاقے کے شہروں میں زیادہ تر غریب عوام آباد ہیں۔ سعودی عرب' یو اے ای اور کویت سے نجی شہری بڑی فراخدلی سے فنڈز مہیا کرتے ہیں۔ اگرچہ باتیں تو بہت بڑی بڑی کی جاتی ہیں لیکن صدر مشرف نے 2002ء میں مدرسوں کی اصلاح کے جو وعدے کیے تھے ان میں سے کوئی بھی پورا نہیں کیا گیا، بلکہ پورا کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ مشرف حکومت کے دوران 2002ء میں کیے جانے والے وعدوں کو پورا کرنے کی بڑی سخت ضرورت ہے۔
ایک اور اہم تشویش کی بات یہ ہے کہ بسا اوقات میڈیا بھی دہشت گردوں کی مدد کرتا محسوس ہوتا ہے، کیونکہ وہ عام شہریوں کے گھروں میں خوف پھیلاتا ہے، اگرچہ اس سے اس کا مقصد اپنے قارئین و ناظرین کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوتا ہے لیکن اس طرح عوام کے دلوں سے یہ اعتماد کم ہو جاتا ہے کہ ریاست ان کے تحفظ کی مکمل اہلیت نہیں رکھتی۔
مثال کے طور پر پیرس میں ہونیوالے حالیہ واقعے کو جس انداز سے ٹی وی پر پیش کیا گیا اس سے پیرس کی آبادی میں خوف و دہشت پھیل گیا۔ جدید الیکٹرونک اور مواصلات کی ترقی اور مختلف پابندیاں لگانے کے باوجود مغربی ممالک اسلامی اسٹیٹ (آئی ایس) کے منفی اور بدصورت پیغامات کو انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلانے سے نہیں روک سکے۔ اس کے برعکس پاکستان کے پاس ضروری انفراسٹرکچر ہی موجود نہیں کہ وہ اس قسم کا منفی پراپیگنڈا کا منہ بند کر سکے۔
فوجداری عدالتوں اور انسداد دہشت گردی کے اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی کہ صرف خواہش کی جا سکتی ہے جب کہ انھیں عملی طور پر نافذ کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ یہ بات بہت خوش آیند ہے کہ سپریم کورٹ اب دہشت گردی سے متعلق مشکلات سے مکمل طور پر آگاہ ہے جس کے لیے کراچی کی سینٹرل جیل میں 10 انسداد دہشت گردی کی عدالتوں (اے ٹی سی) قائم کر دی گئی ہیں تا کہ دہشت گردی سے متعلق مقدمات ایک محفوظ ماحول میں تیز رفتاری کے ساتھ چلائے جا سکیں۔
وزیر اعظم بار بار کہتے ہیں کہ انتہا پسندی کو ملک کے کسی حصے میں بھی برداشت نہیں کیا جائے گا لیکن کیا ہم وزیر اعظم کے اس قول کو کہیں پر بھی عملی صورت میں نافذ دیکھتے ہیں؟ کور کمانڈرز کے پچھلے اجلاس میں حکومت کی گورننس کی خامیوں کے لیے تذکرے کے جواب میں حکومت کی طرف سے ناکافی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی حالانکہ جہاں تک بری گورننس کا تعلق ہے تو سب جانتے ہیں کہ یہ پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔