قابلِ احترام لوگ
ادب کے میدان میں اس نظام کو بدلنے کے لیے کام کرنے والے بے شمار دوست اپنی ساری زندگی جدوجہد کرتے رہے
میں کافی دنوں سے دو محترم مرحومین واحد بشیر اور کاوش رضوی کے حوالے سے اپنے تاثرات لکھنے کا سوچ رہا تھا لیکن میرے اندر سے بار بار ایک ہی سوال ابھر رہا تھا کہ جن لوگوں نے اپنی ساری زندگی اس ظالمانہ عوام دشمن نظام کو بدلنے کی جد و جہد میں گزار دی اور بے بہا قربانیاں دیں، کیا اس کا معاوضہ صرف ایک کالم ہونا چاہیے؟
واحد بشیر 60ء کے عشرے میں ہر روز بائیں بازو کے کارکنوں کی تربیت کے لیے اسٹڈی سرکل کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ ٹریڈ یونین میں کام کرتے تھے ''ارتقاء'' جیسا سہ ماہی جریدہ برسوں نکالتے رہے، سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے غرض ان کی زندگی کا ہر لمحہ اس نظام کو بدلنے کی جد و جہد میں گزرا تھا، کیا ایسے انقلابی کارکنوں کی لگاتار محنت اور قربانیوں کا صلہ صرف ایک مختصر کالم ہونا چاہیے۔
کاوش رضوی ایک ٹھیٹ انقلابی کارکن تھے، ان کی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ بھی اس گلے سڑے نظام کو بدلنے کی جدوجہد میں گزرا۔ کاوش رضوی نے مظلوم عوام مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کی جد و جہد میں زندگی گزار دی۔ ایک ایکسیڈنٹ میں ان کے دونوں پیر بے کار ہو گئے اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے لیکن اس حال میں بھی وہ میٹنگوں، کانفرنسوں، مظاہروں وغیرہ میں کسی نہ کسی طرح پہنچ جاتے تھے یہ ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کی لگن تھی جو معذوری کے باوجود انھیں بائیں بازو کی سیاسی سرگرمیوں میں کھینچ لاتی تھی، کاوشوں رضوی اور واحد بشیر کی قربانیوں کے اعتراف میں بڑی بڑی تقاریب ہونی چاہیے تھی لیکن بائیں بازو کے انتشار اور مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے ان کی یاد میں کوئی بڑی تقریب منعقد نہ ہو سکی۔
ہمارے ملک میں جو ڈاکو، لٹیروں کے جہنم رسید ہونے کے بعد ان کی خدمات کے حوالے سے بڑی بڑی یادگاری تقاریب منعقد کی جاتی ہیں، اخبارات میں خصوصی مضامین شایع ہوتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا میں انھیں بھرپور کوریج ملتی ہے حکام بالا کی طرف سے ''ان کی خدمات'' کے حوالے سے خراچ عقیدت پیش کیے جاتے ہیں۔ ''ان کی خدمات'' کے اعتراف میں سڑکوں اور آبادیوں کے نام ان کے نام پر رکھے جاتے ہیں۔
ادب کے میدان میں اس نظام کو بدلنے کے لیے کام کرنے والے بے شمار دوست اپنی ساری زندگی جدوجہد کرتے رہے۔ یہاں صرف چند دوستوں کا ذکر کروں گا۔ حسن بخاری، حسن عابد، نعیم آروی، شوکت صدیقی، محمد علی صدیقی، وہاب صدیقی وغیرہ یہ وہ لوگ تھے جو ساری زندگی ادبی میدان میں اس نظام کے خلاف قلم کی لڑائی لڑتے رہے۔
ان میں سے ہمارے عوام کس کو جانتے ہیں۔ میں یہاں مزدوروں میں کام کرنے والے ایک بے نیاز دوست کا ذکر خاص طور پر کروں گا جس کا نام محمد زبیر تھا یہ عظیم انسان متحدہ ہندوستان ریلوے یونین کا ایک معروف کارکن تھا، پاکستان آنے کے بعد لانڈھی انڈسٹریل ایریا کے مزدوروں میں کام کرتا رہا۔ لانڈھی کی ایک بستی معین آباد کی جھونپڑی اس کا محل تھی اس نے انقلابی جد و جہد سے ہی شادی کر لی تھی، لانڈھی کی ایک جھونپڑی میں دل کا دورہ پڑنے پر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ آج کوئی اس کے نام اس کی قربانیوں اس کی جد و جہد سے واقف نہیں۔ وہ لانڈھی کی ایک مزدور بستی فیوچر کالونی کے قبرستان میں دفن ہے، اب تو اس کی قبر کا نشان بھی نہیں ملتا۔
پاکستان کے مختلف شہروں میں ایسے بے شمار انقلابی کارکن رہے ہیں، جن کی زندگی کا واحد مقصد اس ظالمانہ استحصالی نظام کو بدلنا رہا، لیکن پاکستان کے عوام نے ان کی زندگی سے واقف ہیں نہ موت سے۔ ڈاکٹروں میں بے شمار ڈاکٹر ایسے تھے جن کا اوڑھنا بچھونا عوام تھے، ان میں ڈاکٹر منظور، ڈاکٹر ہاشمی، ڈاکٹر رحمان، ڈاکٹر عزیر، ڈاکٹر رشید حسن خان وغیرہ شامل ہیں۔ کیا پاکستان کے عوام انھیں ان کی خدمات سے واقف ہیں؟
جی بالکل نہیں ان کی گمنامی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک، ہمارے معاشرے میں انسان کی بڑائی اور عظمت کا معیار انسانوں کی عوامی خدمات اور ان کی قربانیاں نہیں بلکہ لٹیری اشرافیہ سے ان کا تعلق ہے۔ آج جو بناسپتی لیڈر عوام کے سروں پر سوار ہیں اور میڈیا جن کے چھینکنے، اٹھنے بیٹھنے کی خبروں سے لدا رہتا ہے کیا یہ عوام دشمن بناسپتی رہنما اس ملک کے بیس کروڑ عوام کے لیے قابل احترام ہیں؟ جب تک انسانی احترام کا کوئی منصفانہ معیار طے نہیں ہوتا یہ ظلم یہ نا انصافی جاری رہے گی واحد بشیر اور کاوش رضوی گمنامی کی قبروں میں دفن ہوتے رہیں گے۔
بعض اعلیٰ قسم کے خدمت گاروں کی خدمات کے حوالے سے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی انھیں کوئی اعزازات سے نوازا جاتا ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو 99 فی صد چور لٹیرے بددیانت اور کرپٹ لوگ ہی ملیں گے لیکن ان کی تمام خامیاں ان کی تمام برائیاں اس وجہ سے نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں کہ ان کا تعلق حکمران اشرافیہ سے رہا تھا۔
کیا قابل احترام لوگوں کے احترام کے تعین کا یہی معیار ہونا چاہیے؟ حکمران اور نام نہاد اپوزیشن کے محترمین ساری زندگی لوٹ مار بددیانتی میں گزار دیتے ہیں، کیا اسی کارکردگی کو احترام کا معیار تسلیم کیا جانا چاہیے میرے علم میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جن کی زندگی کا ایک ایک پل انقلابی جدوجہد میں گزرا لیکن وہ زندگی میں بھی گمنام رہے اور منے کے بعد بھی گمنامی ہی کی قبر میں دفن ہو گئے۔
ہمارے ملک میں اقتدار کی خواہش میں مخالف طاقتوں کے ہاتھوں مارے جانے والوں کو شہادت کا درجہ دے کر انھیں شہید کہا جاتا ہے اور جو محترم لوگ اس ظالمانہ استحصالی نظام کو بدلنے کی جد و جہد میں قتل کیے گئے انھیں باغی اور ملک دشمن کا نام دیا جاتا رہا، حسن ناصر کا تعلق حیدرآباد دکن کے ایک جاگیردار خاندان سے تھا حسن ناصر جاگیردارانہ عیاشیوں اور پر تعیش زندگی کو لات مار کر مزدور بستیوں لانڈھی، سائٹ مزدوروں کے ساتھ ان کی جھونپڑیوں میں رہتے تھے انھی کے ساتھ کھاتے پیتے انھی کی جھونپڑیوں میں سوتے تھے۔
اس عوام دوست انسان کو لاہور کے قلعے میں محض اس لیے قتل کرادیا گیا کہ وہ اس استحصالی نظام کا باغی تھا۔ بائیں بازو کے سیکڑوں کارکن زندگی بھر فقر و فاقے کے ساتھ اس سڑے گلے نظام کو بدلنے کی جدوجہد میں ڈٹے رہے اور اپنی اولاد کے لیے فقر فاقے کا ورثہ چھوڑ گئے کیا ہمارے عوام، ہمارا معاشرہ ان سے ان کی خدمات سے واقف ہے، کیا آج کا مزدور طبقہ یہ جانتا ہے کہ حسن ناصر ان ہی کی جھونپڑیوں میں ان کے ساتھ رہتا تھا اور اپنی زندگی کے ہر پل کو عوامی حقوق کی جد و جہد میں گزارتا تھا۔