فیس بک پیرس اٹیک اور یکجہتی

میں مارک زوکر برگ کو مورد الزام کبھی نہیں ٹھہراؤں گا


Noman Ahmed Ansari November 21, 2015

میں مارک زوکر برگ کو مورد الزام کبھی نہیں ٹھہراؤں گا۔ وہ ایک کھرب پتی نوجوان ہے جس نے انسانوں کو ابلاغ ، رابطہ ، دوستی اور اظہار خیال کا دنیا کا سب سے بڑا پلیٹ فارم دیا۔ ایک ایسا سماجی رابطوں کا نیٹ ورک جس نے تعلقات، معلومات اور ان دونوں کی ترسیلات کو ایک نئی شکل دی۔ مارک اس سب سے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو کنٹرول کرتا ہے جس پر تقریباََ ہر ملک کا باشندہ کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی حد تک جڑا ہوا ہے۔

فیس بک میں وقت کے ساتھ نت نئی جدت متعارف کروانے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ مارک کے ارادوں سے لگتا ہے کہ وہ رکنے والا نہیں، کچھ اور بھی کرنیوالا ہے۔ ستاروں پر کمند ڈالنے والے نوجوان جدید تعلیم کے بل پر ایسی ہی خواہشات رکھتے ہیں اور ان خواہشات کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے وہ زیادہ پرجوش ہوتے ہیں۔ یہ ان کا حق ہے اور مارک یہ سب کچھ کرنے میں حق بجانب ہیں لیکن کیا یہ درست امر ہے کہ دنیا کی ترقی یافتہ اور سپر پاور ریاست کے ایک نوجوان کی خواہشات اور پسند ناپسند، ترجیحات اور ذاتی انانیت پوری دنیا کے انسانوں کے احساسات کے اظہار کے لیے کسوٹی کا کام کرے۔

کیا فیس بک مارک زوکر برگ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس کی پالیسی کے مطابق اس سے جڑے انسان اپنی پسند اور ناپسند کو ترتیب دیتے ہیں؟ کیا یورپ اور امریکا کے بین الاقوامی تعلقات اور سفارتکاری کے دہرے معیار کی طرح فیس بک بھی ڈبل اسٹینڈرڈ پلیٹ فارم ہے جو ظلم اور بربریت کا شکار انسانوں کے ایک گروہ کو تو نظر انداز کردیتا ہے جب کہ دوسرے سے اظہار یکجہتی کے نت نئے ذرایع پیش کرتا ہے۔

فیس بک ایک ایسا فورم ہے جہاں ہر کوئی باہمی طور پر ایک دوسرے سے مخاطب ہوتا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق فیس بک پر مسلمانوں کی موجودگی یورپ اور امریکا کے مقابلے میں پہلے ہی کم تھی تاہم اب تک جتنی بھی تھی اس کے لیے بھی سخت دوراہا سامنے ہے۔ بات صرف چند مٹھی بھر یا بڑی تعداد میں مسلمانوں کی قتل و غارتگری کی نہیں ہے جنھیں ظالم اپنے پوشیدہ مذموم عزائم کے حصول کی خاطر اس دنیا میں تہس نہس کر رہا ہے بلکہ اچانک ایسا ہوگیا ہے کہ اس ظالم کے اپنے گھر میں مختلف ممالک کے باشندے مارے گئے ہیں۔ اس سانحے کی آواز ایک دہشتگرد اور نام نہاد اسلام کے نام لیوا گروپ کے ساز کے ساتھ بین الاقوامی میڈیا کی بانسری سے نت نئے سروں میں بج رہی ہے۔

جی ہاں !اس سانحے کو پیرس اٹیک کہا جا رہا ہے۔ یہ پیرس اٹیک ہی تھا جس سے ایک ماہ قبل یورپ نے اسرائیل کی فلسطینی علاقوں میں بننے والی مصنوعات کی درآمدات پر پابندی لگائی تھی۔ یہی پیرس اٹیک تھا جس سے قبل فرانس کے حکمران شام میں اور عالمی سطح پر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اتحادی طاقتوں کے آپریشن سے باہر نکل چکے تھے۔ ظلم و زیادتی کا کاروبار یا طریقہ یا حکمرانی یا معاملات ایسے ہیں جس میں جو ایک بار پڑ گیا تو پھر اس کے لیے واپسی کا راستہ ناممکن ہوتا ہے۔ ظلم کرنیوالے بھیڑیے اپنے جتھے سے باہر جانے والے بھیڑیے کو نہیں بخشتے اور اسے واپس اس دلدل میں پھنسنے پر مجبورکردیتے ہیں، کبھی اس پر حملہ کر کے اور کبھی کسی اور طریقے سے۔

پیرس اٹیک انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ یہ حملہ ترقی یافتہ ملک کی تہذیب یافتہ قوم پرکیا گیا ۔ اس بے رحمانہ حملے نے یورپی اقوام کو باورکرایا ہے کہ وہ کتنی طاقتور ہونے کے باوجود کتنی بے بس ہیں۔ ان حملوں سے یورپیوں کو یہ احساس شدت سے ہوا ہوگا کہ ماضی کے آزاد فلسطین پر قابض اسرائیل کی صیہونی فوج اور انتہا پسند یہودی عوام کیسے معصوم نہتے فلسطینیوں کا روز قتل کرتے ہیں۔

کشمیر میں کس طرح مقبوضہ ہندو افواج کشمیری مرد و خواتین کے سینے گولیوں سے بھونتی ہے لیکن نہیں ایسا سوچنا بھی غلط ہے۔ یورپی اقوام کے لیے کشمیر ، فلسطین، لیبیا، عراق، مصر، شام، اور لبنان کے روز ہونے والے سانحات کے درد کا احساس کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ ترقی یافتہ یورپی اقوام کے لیے یہ سوچنا بھی محال ہے کہ پیرس اٹیک جیسا درد تیسری دنیا بالخصوص مسلم دنیا پر حملوں کی طرح محسوس کیا جانا چاہیے۔

اس دہرے معیار سے ایک بھرپور پیغام ملتا ہے کہ صرف پیرس کے رہنے والے لوگ اہم ہیں لیکن اس حملے سے ایک روز قبل بیروت میں دہشت گرد حملے اور اس کے نتیجے میں مرنے والے لوگ ایسی اہمیت کے حامل نہیں اور یہ پیغام ہمیں ملتا ہے فیس بک سے۔ فیس بک تصویر کا صرف وہی رخ دکھاتا ہے جس سے صرف مغرب کو ترجیح ملتی ہے۔ فیس بک صرف ایک مخصوص رنگ و نسل ، علاقے اور لوگوں کے درمیان ہونے والے سانحات کو اجاگر کرتا ہے۔

فیس بک اپنے مخصوص نقطہ نظر کے تحت اپنے فلٹر کے ذریعے فرانس کے پرچم کو اظہار یکجہتی کے لیے تو پیش کرتا ہے مگر فلسطین کا پرچم ڈھونڈنے سے بھی نہیں دیتا۔ نہ لبنان کا اور نہ پاکستان کا۔ کبھی انفرادی طور پر فلسطین ، کشمیر، شام، یا عراق کی حمایت اور یکجہتی کی پوسٹس کی بھی جائیں تب بھی فیس بک کی جانب سے انھیںبالکل پذیرائی نہیں دی جاتی۔ آپ فلسطین کی حمایت میں ایک نئے پیج کا اضافہ کریں ، اگلے ہی چند گھنٹوں میں آپ کے سامنے اسرائیل سے حمایت کی تشہیر چلنے لگے گی۔

اس بنیاد پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ فیس بک دراصل مسٹر مارک زوکر برگ کا ذاتی ایجنڈا یا ذاتی نقطہ نظر ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر مارک کی سیاسی طرفداریاں سخت گیر ری پبلکنز جماعت کے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہوتیں تو اب تک اسے امریکا میں قومی ہیرو کا درجہ دیا جاچکا ہوتا ۔ دکھوں اور زخموں سے چور ہماری اس دنیا کے ہر ملک کے باشندوں کی جانوں کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ ہر قوم اپنے لوگوں کے حوادث اور سانحات پر غمگین ہوتی ہے، یہ اس کا حق ہے اور ایک اٹل حقیقت ،لیکن فیس بک جیسے فورم کا نقطہ نظر انسانوں کو یہ کہتا ہے کہ دنیا کے کچھ انسانوں کی جانوں کی اہمیت ہے لیکن باقیوں کی نہیں۔ یہ اصول انسانی تہذیب اور انسانی معیار کے خلاف ہے۔

ہماری نئی نسل کے ساتھ بدقسمتی سے ایک پرانی نسل بھی اس حقیقت سے بے خبر ہے ۔ان نسلوں کے لوگ سانحات کی بنیادی وجوہات جانے بغیر صرف ایک مخصوص رنگ و نسل اور خطے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے دکھ درد اور تکلیف پر ان سے اظہار یکجہتی کرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ فیس بک انھیں صرف یہی آپشن دیتاہے۔

فیس بک کی یہ روش انسانیت کو ناکام بنانے کا مشن ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اپنی پروفائل پکچر پر فرانس کا پرچم لگا کر لبنان، فلسطین، پاکستان، کشمیر یا کسی اور ملک سے اظہار یکجہتی کر کے اس کی دل جوئی کروں۔ پشاور قتل وغارت گری پر دنیا کے کتنے بڑے اخبارات نے انھیں شہ سرخیوں کی زینت بنایا تھا؟ کتنے ممالک میں پاکستان سے اظہار یکجہتی کی گئی تھی؟کیا فیس بک نے دنیا بھر کے لوگوں کو پاکستانی پرچم لگانے کا آپشن پیش کیا تھا۔؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں