ایرانی سیمنٹ کی درآمد پاکستانی کوالٹی سرٹیفکیشن سے مشروط کرنے کا مطالبہ

اسمگل شدہ سیمنٹ کا حجم دھیرے دھیر ے بڑھتے ہوئے خطرناک حد کو چھو چکا ہے


Business Reporter November 21, 2015
سیمنٹ کی مقامی صنعت کو جو بالواسطہ اور بلاواسطہ 5 لاکھ خاندانوں کو روزگار فراہم کر رہی ہے، محمد علی ٹبا۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR/ CHARSADDA: آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررزایسوسی ایشن (اے پی سی ایم اے) نے وزارت تجارت سے ایرانی سیمنٹ کی زمینی راستے سے درآمد معطل کرکے اس کی بحالی پی ایس کیوسی اے کی سرٹیفکیشن سے مشروط کی جائے۔

وفاقی سیکریٹری تجارت محمد شہزاد کے نام خط میں آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررزایسوسی ایشن (اے پی سی ایم اے) کے چیئرمین محمد علی ٹبا نے کہاکہ کسٹم حکام کے نوٹس میں لانے کے باوجود پاکستان میں زمینی راستے سے ایرانی سیمنٹ کی اسمگلنگ بلاتعطل جاری ہے، مزید برآں ایرانی سیمنٹ کا معیار پی ایس کیو سی اے کی جانب سے متعین کردہ معیار کے مطابق ٹیسٹ نہ ہونے کے باعث مشکوک ہے۔

اسمگل شدہ سیمنٹ کا حجم دھیرے دھیر ے بڑھتے ہوئے خطرناک حد کو چھو چکا ہے اور روزانہ تقریباً 2ہزار ٹن ایرانی سیمنٹ پاکستان پہنچ رہی ہے، تفتان پوسٹ اور مند کسٹمز چیک پوسٹ کے ذریعے آنے والی سیمنٹ کی کھیپوں کو کسٹم حکام کی ملی بھگت سے قانونی کسٹم ڈیوٹی اور دیگر وفاقی لیویز کی ادائیگی کے بغیر آنے کی اجازت دی جا رہی ہے جو ٹوکن کے طور پر محدود مقدار پر یہ ڈیوٹیاں چارج کرتے ہیں جبکہ سیمنٹ کی بھاری مقدار قانونی اخراجات کی ادائیگی کے بغیر ہی جانے دی جاتی ہے۔

خط میں کہا گیاکہ اس صورت حال کے نتیجے میں ایرانی سرحد سے منسلک علاقوں کی مقامی منڈیوں میں اور اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں سستی ایرانی سیمنٹ کا سیلاب امڈ آیا ہے،نتیجتاً مقامی طور پر تیار کردہ سیمنٹ بڑی تیزی سے اپنی منڈی کھو رہی ہے اور ایرانی سیمنٹ کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں جو مقامی سیمنٹ کی نسبت 40 فیصد کم قیمت پر فروخت ہو رہی ہے۔ یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہوگا کہ صنعت پہلے ہی پیداواری لاگت کی وجہ سے سنگین صورتحال سے دوچار ہے اور اب ایرانی سیمنٹ کی پاکستانی منڈی میں بھرمار نے مقامی مینوفیکچررز کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

محمد علی ٹبا نے کہا کہ سیمنٹ کی مقامی صنعت کو جو بالواسطہ اور بلاواسطہ 5 لاکھ خاندانوں کو روزگار فراہم کر رہی ہے، ایرانی سیمنٹ کے مقابلے میں تحفظ دینے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف اس صنعت سے منسلک لاکھوں افراد پر مشتمل افرادی قوت کی ملازمتوں کو تحفظ حاصل ہو سکے بلکہ قیمتی زر مبادلہ کی بچت بھی ممکن ہو سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے