لاہور کی سردیاں کہاں گئیں

وطن عزیز پاکستان کو چار موسموں کا اعزاز حاصل ہے، گرمی، سردی، بہار اور خزاں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

وطن عزیز پاکستان کو چار موسموں کا اعزاز حاصل ہے، گرمی، سردی، بہار اور خزاں۔ یہ چاروں موسم اپنے اپنے وقت پر جی بھر کر اپنا جشن مناتے ہیں۔ پاکستان کو خوبصورت اور پرفضا ملکوں کی صف میں شامل کرتے ہیں اور یوں ہم پاکستانی زمین کے ہر موسم سے جی بھر کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی موسم اپنے مقررہ وقت سے آگے پیچھے ہو جائے، اس لیے پاکستانی ہر موسم کی آمد سے پہلے ہی اس کے استقبال پر تیار ہو جاتے ہیں اور اس کے لیے مناسب کپڑے نکال لیتے ہیں اور کھانے پینے کا سامان بھی۔ نئے موسم کے کپڑوں کے لیے درزی بھی مصروف ہو جاتے ہیں اور ہر موسم کے استقبال میں وہ بھی اپنی سلائی مشینوں کو تیز کر لیتے ہیں۔

پاکستانی امیر ہوں یا غریب ان کے بدن سے موسم کی تبدیلی ضرور ظاہر ہوتی ہے اور وہ جہاں بھی ہوں اپنے ملک کے تعارف میں اس کے چار موسموں کا ذکر بھی ضرور کرتے ہیں کیونکہ دنیا کے بعض حصوں میں موسم کنجوسی کر جاتے ہیں اور اپنے وقت سے ادھر ادھر ہو جاتے ہیں۔ جب کبھی کوئی موسم سستی کر جاتا ہے تو مناسب موسم کے عادی پاکستانی بے چین اور پریشان ہو جاتے ہیں۔

ان دنوں سردیوں کے موسم میں میدانی علاقوں تک تاخیر ہو رہی ہے اور جیسے سردیاں خود کسی گرم آرام گاہ میں نئے سرد موسم سے بچ کر بیٹھی ہیں۔ نوجوان ابھی تک صرف قمیض میں گھومتے پھر رہے ہیں۔ بزرگ زیادہ سے زیادہ صبح و شام سویٹر پہن لیتے ہیں لیکن سردیوں کا جو اپنا خاص رنگ ہوتا ہے اور یہ رنگ جس طرح انسانی بدنوں پر چڑھتا ہے وہ بھی پوری طرح دکھائی نہیں دے رہا۔ لاہور شہر تو راوی کے فراق کے موسموں سے مستقل اداس رہنے لگا ہے۔ راوی دریا لاہور کی پہچان ہے جو کچھ وقت سے قریب قریب خشک چلا آ رہا ہے۔ یہ دریا بھی بھارت سے آتا ہے۔

لاہور کا موسم ہمیشہ راوی دریا کا محتاج رہا ہے۔ اس کی گرمی سردی اور بہار سب راوی کے پانی میں بہہ کر اس شہر میں داخل ہوتے ہیں۔ راوی اونچی نیچی لہروں کی وجہ سے لاہور کا موسم بھی بدلتا تھا۔ گرمیوں میں کبھی لاہور کی راتیں تب ٹھنڈی ہوا کرتی تھیں جب راوی میں پانی کی لہریں اچھلتی تھیں۔

مغلوں نے بھی اسی دریا کے کنارے پرانا اور اپنا سب سے خوبصورت شہر لاہور بسایا سنوارا تھا جسے بعد میں مغلوں کی رعایا نے اسے ہمیشہ دلکش بنا کر رکھا ہے اور اس کی رونق اور آب و تاب میں کمی نہیں آنے دی۔ کوئی لاہوری خواہ وہ کسی بھی اس سے زیادہ خوبصورت جگہ کیوں نہ منتقل ہو گیا ہو وہ لاہور اور اس کے موسموں کو یاد کرتا رہا اور چشم تصور میں وہ نصف وقت لاہور میں ہی رہا شاید اسی کیفیت میں پطرس بخاری جیسے لوگوں نے بھی نیویارک سے خط میں صوفی تبسم مرحوم سے پوچھا تھا کہ کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے۔


میں تو ایک مدت سے لاہور میں رہتا ہوں اس لیے اب اس شہر کو کم ہی پردیس سمجھتا ہوں لیکن اس کی بڑی وجہ شاید خود یہ شہر لاہور ہے جسے لاہوری، لاہور لاہور اے مثال میں یاد رکھتے ہیں کہ ان کے خیال میں اس کے مقابلے کا اور کوئی شہر نہیں ہے اور ''لاہور لاہور اے۔'' میں اس وقت لاہور کے اس پہلو کو اس کے موسم میں تاخیر کی وجہ سے یاد کر رہا ہوں۔

کیلنڈر میں سردیاں شروع ہو چکی ہیں مگر اس شہر میں ابھی سردیاں نہیں آئیں۔ ہمارے ایک مہربان دوست مرحوم عبداللہ ملک خالص لاہوری تھے۔ وہ سردی کا موسم آنے سے پہلے ہی سویٹر بازو پر لٹکا لیتے تھے اور بڑی بے چینی سے لاہور کی سردی کا انتظار کرتے تھے۔ گرمی، بہار، خزاں اپنی جگہ لیکن لاہور کی سردی کا مزہ منفرد ہوتا ہے۔ گرمی وغیرہ میں یہ شہر اپنے علاقے کے دوسرے شہروں کی طرح ہے لیکن سردیوں میں اس شہر کے باشندوں کے رنگ بھی نکھر جاتے ہیں اور لباس بھی ان کے جسموں پر اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیتا ہے۔

ان دنوں میں نے گھر بیٹھ کر بھی دیکھا ہے اور پارک میں نکل کر بھی، کہیں کسی وقت سردی کا جھونکا آتا ہے لیکن جسم سردیوں کے مخصوص لباس سے محروم ہیں اور یہ خوبصورت سرد ملبوسات ہی لاہور کی سردیوں کی بہار ہیں اور خوشخبری ہیں۔ اوورکوٹ والی سردی نہیں پڑتی لیکن گرم کوٹ کے ساتھ موٹا گرم سویٹر خوب چلتا ہے جس کی سب سے بہتر 'ورائٹی' ان دنوں لنڈا بازار میں دکھائی دے رہی ہو گی لیکن بیش قیمت مطلوب ہو تو کسی بھی بازار میں موجود ہے۔

ہمارے بڑے ہی فیشنی دوست ہفتہ پندرہ دنوں میں ایک بار لنڈا بازار کا چکر ضرور لگاتے تھے کیونکہ جو مال اور ورائٹی اس بازار میں ملتی ہے وہ دکانوں میں موجود نہیں ہوتی۔ گورے بدنوں کا اتارا ہوا لباس ہم نیم سیاہ اور پکے رنگ والوں کو خوب لگتا ہے۔ مغربی ملکوں میں آپ نے دیکھا ہو گا کہ کپڑا ذرا سا پرانا ہوا یعنی اس پر نیا سیزن آیا تو وہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا جو گھروں کے باہر پڑی ہوتی ہے۔

ہمارے ایک لندنی دوست اپنے گھر کی خواتین کے مسترد کپڑے دکھاتے اور احتجاج کرتے تھے مگر ان کی کوئی نہیں سنتا تھا۔ کہاں ان کا گاؤں اور کہاں لندن جہاں کرسمس پر کسی سیل سے سردیوں کے نئے کپڑے خریدے جاتے ہیں یا اسٹوروں میں سے لیکن گزشتہ سیزن کے کپڑوں کی مرمت کوئی نہیں کرتا۔ ہم پرانے پاکستانی یہ سب دیکھ کر پریشان ہوتے ہیں اور حیران بھی۔ بات یہ ہو رہی تھی کہ کیلنڈر بدل گیا ہے مگر لاہور کا موسم نہیں بدلا اور سردیوں کے خوبصورت موسم کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب لاہور کی حکمرانی پر خوش ذوق لوگ براجمان تھے۔ لاہور کے گورنر ہاؤس میں ایک پہاڑی ہے اس پر دو تین کمرے ہیں، ان میں سے ایک میں گرمیوں کو سرد بنانے کا سامان لگا ہوا ہے جہاں مصنوعی سرد شاموں کو بیٹھ کر خوش ذوق حکمران دل بہلایا کرتے تھے۔ معلوم نہیں اب بھی یہ سب باقی ہے یا نہیں کیونکہ اس کے بعد یہاں جنرل ضیاء کی حکومت بھی تو رہی ہے۔

لاہور کے موسم کا یہ حال ہے کہ اس وقت میں صرف ایک سویٹر پہن کر بیٹھا ہوں اور سردیوں کو یاد کر رہا ہوں۔ جب جسم کو 'ٹکور' کرنی پڑ جاتی ہے یعنی کوئلوں کی، انگیٹھی یا ہیٹر وغیرہ سے اور یوں ایسے میں کوئی اچھی سی کتاب پڑھنا یا دوستوں سے گپ شپ ایک نعمت ہوتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ لاہور کی سردیاں کہاں ہیں۔ ان کے انتظار میں بیٹھا ہوں آپ کی طرح۔
Load Next Story