حالات کے بدلتے منظر میں
پوری دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں،ارضی وسماوی آفات کے ساتھ عالمی دہشت گردی عروج پر پہنچ چکی ہے،
پوری دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں،ارضی وسماوی آفات کے ساتھ عالمی دہشت گردی عروج پر پہنچ چکی ہے، امت مسلمہ ہر محاذ پر پسپا ہورہی ہے،کبھی شام پر طاقت کے بل پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں تو کبھی کفر وشرک کی قوتوں کے حکم پر فلسطین میں ننھے بچوں، عورتوں اور نوجوانوں، دوشیزاؤں کے خون کی ندیاں بہادی جاتی ہیں، کشمیر میں تو ایک زمانہ گزرا ایسی ہی صورت حال ہے، شام میں رہنے والوں پر بھی منصوبہ بندی کے تحت انھیں گھروں سے بے گھر کرکے مہاجرین بنانے پر مجبورکیا گیا۔ آج لاکھوں شامی ہجرت کرگئے ہیں اور لاکھوں اپنے خاندانوں کے ساتھ جائے پناہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
بھارت میں بھی مسلمانوں کے ساتھ ایسی ہی صورتحال ہے، مزید ظلم و ستم ڈھانے کے لیے نت نئے بہانے تراشے جارہے ہیں لیکن دنیا خاموش ہے کوئی بربریت کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا ہے لیکن اب جب کہ پیرس جو خوشبوؤں کا خطہ کہلاتا ہے بے قصور لوگوں کے خون سے رنگین ہوچکا ہے تو اس کے لیے تمام ممالک نہ کہ ہمدردی کررہے ہیں بلکہ اپنے مشترکہ دشمن کو ٹھکانے لگانے کی بات کرکے اپنوں کو تحفظ دینے کے لیے اقدامات کررہے ہیں، انسانیت کے ناتے ہم سب انسانوں کا دکھ سانجھا ہے لیکن انسانوں نے ہی انسانی جذبوں کی توہین کی ہے۔
گزرے سالوں میں جب نائن الیون کا واقعہ پیش آیا تو اس کے بعد بے شمار تبدیلیاں رونما ہوئیں اور مسلمانوں کو شک اورحقارت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا اسامہ بن لادن اور ان کی جماعت القاعدہ کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا، جب کہ حقیقت کچھ اور تھی، مسلمانوں سے نفرت و تعصب کی بنیاد پر مسلم ممالک اور حکمرانوں پر غضب ڈھایا جاتا ہے۔
مسلمانوں کے حق میں ایک خبر اور آگئی ہے کہ 9/11 کی فنڈنگ بھارت سے ہوئی ہے اور اس بات کا انکشاف بھارتی خفیہ ایجنسی سی بی آئی کے اعلیٰ افسر اور نئی دہلی کے سابق پولیس افسر نے کیا ہے۔ جس طرح مغربی دنیا نے اسامہ بن لادن کو ذمے دار بغیر کسی ثبوت کے ٹھہرایا تھا۔ بالکل اسی طرح خبر کے مطابق 4 ہزار پاکستانیوں کو واچ لسٹ میں شامل کرلیا گیا ہے جب کہ دہشت گرد مارے جاچکے ہیں اور داعش نے ذمے داری قبول کرلی ہے اور ماسٹر مائنڈ عبدالحمید اباغور اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے اور اس کی بیوی نے پولیس آپریشن کے دوران اپنے آپ کو اڑالیا، صالح عبدالسلام نامی دہشت گرد کی تلاش جاری ہے ایک لاکھ پندرہ ہزار سیکیورٹی اہلکار حرکت میں آگئے ہیں اور مختلف رہائشی علاقوں میں آپریشن کیا جارہاہے۔
فرانسیسی وزیر اعظم مینوئل والٹر نے واضح الفاظ میں اس بات کا اعلان کیا ہے کہ شام میں داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا اس اعلان پر عمل کرتے ہوئے فرانسیسی لڑاکا طیاروں اور دیگر فورسز کے فضائی حملوں میں تین روز کے دوران داعش کے 33 جنگجو مارے جاچکے ہیں۔ درجنوں زخمی ہوئے ہیں، ساتھ میں کینیڈا اور یورپ کی متعدد علاقائی حکومتوں نے شامی مہاجرین کو پناہ دینے کے منصوبوں کی مخالفت کردی ہے۔
اب بھلا مظلوم شامیوں کا کیا قصور ہے؟ کہ انھیں ظلم کی بھٹی میں مختلف طریقوں سے جھونکا جارہاہے، ظلم بھی کرتے ہیں، پناہ بھی دیتے ہیں اور پھر اجاڑ بھی دیتے ہیں، بھوک و افلاس بانٹتے ہیں اور پھر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے روٹی کے ٹکڑے زمین پر گراتے ہیں، کبھی القاعدہ تو کبھی طالبان اور اب داعش دہشت کی علامت بن چکے ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ انھیں دہشت گرد منظم طریقے سے کون بنا رہا ہے،کون ان پر ڈالروں کی بارش کررہاہے؟ دوست بھی وہی اور دشمن بھی وہی کیسا امتحان ہے یہ امت مسلمہ کا؟ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنانے اور اپنے مفاد کو مد نظر رکھنے کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔
داعش کی فتوحات نے برطانیہ پر دہشت و وحشت کے سائے بڑھادیے ہیں، یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ امریکا، عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر محض اس لیے بمباری کررہا ہے کہ وہ یہ ظاہر کرسکے کہ اس تنظیم کے پیچھے اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے ان ہی حالات کے تناظر میں برطانوی حکومت نے شام کی طرف جانے والے جہادیوں پر ڈرون حملے کیے جس کے نتیجے میں کئی جہادی ہلاک ہوئے اور اب اپنے ملک میں شدت پسندی کے خلاف نئی حکمت عملی کا بھی اعلان بالکل اسی طرح کردیا ہے جس طرح پچاس کی دہائی میں کمیونسٹوں کے خالف مہم شروع کی گئی تھی۔
یہ مہم زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کررہی تھی اور کمیونسٹوں کے لیے جینا مشکل ہوگیا تھا۔ اس مہم کے روح رواں سینیٹر میکارتھی تھے، اسی وجہ سے میکارتھی ازم سے مشہور ہوئی اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے بھی میکارتھی مہم سے محفوظ نہیں رہ سکے تھے بعض پر تو کمیونسٹ ہونے کا الزام لگاکر ان پر ذہنی و جسمانی طور پر تشدد کیا گیا تھا۔ برطانیہ میں اس نئے جنگ کو پھیلانے اور نفرت کی آگ بھڑکانے میں وزیر داخلہ ٹریسامے اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور انتہا پسندوں کے خلاف پیش پیش ہیں۔
وزیر داخلہ ٹریسامے نے کہاکہ ''ہم انتہا پسندی کا منظم طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کریں گے، لیکن مسلمانوں کی تنظیموں کے اتحاد مسلم کونسل آف برٹ نے واضح الفاظ میں اپنا یہ موقف بیان کیا ہے کہ نئی حکمت عملی کا الٹا اثر ہوگا، کونسل کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر شجاع شفیع نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ نئی حکمت عملی برطانیہ کے مسلمانوں کو بدگمان کردے گی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ داعش اور القاعدہ کا مقابلہ کرنے کے لیے برطانوی مسلمانوں کا تعاون اشد ضروری ہے۔
اپنی طاقت اور اہمیت کو جتانے کے لیے امریکا نے چین کے خلاف آسٹریلیا، جاپان، جنوبی کوریا اور بھارت کا محاذ بناکر تیاری کرلی ہے، گویا وہ کسی بھی وقت حملہ کرسکتا ہے، بھارت نے اس محاذ میں شمولیت اختیار کرنے کی بجائے دس سالہ معاہدہ امریکا سے کرلیا ہے اور اپنی کم ظرفی کا مظاہرہ کرنے کے لیے چین پاکستان معاشی کوریڈور کی مخالفت کے لیے دوسرے ملکوں کو ملاکرکمر بستہ ہوچکا ہے، بنگلہ دیش میں جاکر تو اس نے بنگلہ دیش کی خاص شخصیات کو اس بات کی بھی یاد دہانی کرائی ہے کہ بھارتی فوجیوں نے مکتی باہنی سے مل کر پاکستان کے خلاف جنگ لڑی تھی اور اب پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں ۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ آرمی چیف راحیل شریف نے ملک کو ہر طرح سے مضبوط کردیا ہے اور پاکستان کو ہماری بہادر اور جری افواج کے ہوتے ہوئے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے جب وہ ''اﷲ اکبر'' کا نعرہ لگاکر میدان جنگ میں کودتے ہیں تو ان کے ساتھ سب سے بڑی اور عظیم وہ طاقت ہوتی ہے جس کے ''کن'' کہنے سے پوری دنیا وجود میں آگئی۔پاکستان اور مسلمانوں کے دشمنوں نے ہر محاذ پر کمزور اور برباد کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں مسلمان ملکوں اور جماعتوں کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے وہ سازشیں کرتے ہیں، برما اور کشمیرکی ہی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ انھوں نے 8 نومبر 2015 کے الیکشن لڑنے کے حوالے سے برما میں پابندیاں لگائیں، مسلمان امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کرنے کی کوشش کی گئی، اسی طرح حزب اختلاف کی امریکی حمایت یافتہ رہنما آنگ سان سوچی کی پارٹی بھی ایسا ہی سلوک کرنے کی باتیں کررہی ہے۔
جوکہ ناانصافی پر مبنی ہیں۔ مقامی اخبارات نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ ان ہی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو منظور کیا جائے کہ جن کے والدین میں کوئی ایک برمی ہوگا اور جن کے ماں باپ دونوں ہی مسلمان ہوں گے انھیں اس حق سے محروم رکھا جائے گا ،کشمیر میں پوری دنیا میں ایسی ہی منافقت اور دوہری پالیسی کو مسلمانوں کے خلاف آزمایا جاتا رہا ہے، فلسطین، عراق، شام، کشمیر، برما بھارت اور دوسرے بہت سے ممالک شخصی آزادی سے محروم کردیے گئے ہیں۔
اس ظالمانہ سلوک پر پوری دنیا نے خاموشی اختیار کرلی ہے، پاکستان خود سالہا سال سے دہشتگردی کا شکار ہے اور اب اگر پیرس میں حملے کیے جاتے ہیں تو ہر طرف ایک شور اٹھ گیا ہے اور اپنے دشمنوں کے خاتمے کے لیے مسلم ممالک میں ڈرون حملے کیے جارہے ہیں وہ اپنے عزم، راسخ منصوبہ بندی کی بدولت بے قصور لوگوں کو بھی مارنے سے گریز نہیں کریں گے۔
بھارت میں بھی مسلمانوں کے ساتھ ایسی ہی صورتحال ہے، مزید ظلم و ستم ڈھانے کے لیے نت نئے بہانے تراشے جارہے ہیں لیکن دنیا خاموش ہے کوئی بربریت کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا ہے لیکن اب جب کہ پیرس جو خوشبوؤں کا خطہ کہلاتا ہے بے قصور لوگوں کے خون سے رنگین ہوچکا ہے تو اس کے لیے تمام ممالک نہ کہ ہمدردی کررہے ہیں بلکہ اپنے مشترکہ دشمن کو ٹھکانے لگانے کی بات کرکے اپنوں کو تحفظ دینے کے لیے اقدامات کررہے ہیں، انسانیت کے ناتے ہم سب انسانوں کا دکھ سانجھا ہے لیکن انسانوں نے ہی انسانی جذبوں کی توہین کی ہے۔
گزرے سالوں میں جب نائن الیون کا واقعہ پیش آیا تو اس کے بعد بے شمار تبدیلیاں رونما ہوئیں اور مسلمانوں کو شک اورحقارت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا اسامہ بن لادن اور ان کی جماعت القاعدہ کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا، جب کہ حقیقت کچھ اور تھی، مسلمانوں سے نفرت و تعصب کی بنیاد پر مسلم ممالک اور حکمرانوں پر غضب ڈھایا جاتا ہے۔
مسلمانوں کے حق میں ایک خبر اور آگئی ہے کہ 9/11 کی فنڈنگ بھارت سے ہوئی ہے اور اس بات کا انکشاف بھارتی خفیہ ایجنسی سی بی آئی کے اعلیٰ افسر اور نئی دہلی کے سابق پولیس افسر نے کیا ہے۔ جس طرح مغربی دنیا نے اسامہ بن لادن کو ذمے دار بغیر کسی ثبوت کے ٹھہرایا تھا۔ بالکل اسی طرح خبر کے مطابق 4 ہزار پاکستانیوں کو واچ لسٹ میں شامل کرلیا گیا ہے جب کہ دہشت گرد مارے جاچکے ہیں اور داعش نے ذمے داری قبول کرلی ہے اور ماسٹر مائنڈ عبدالحمید اباغور اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے اور اس کی بیوی نے پولیس آپریشن کے دوران اپنے آپ کو اڑالیا، صالح عبدالسلام نامی دہشت گرد کی تلاش جاری ہے ایک لاکھ پندرہ ہزار سیکیورٹی اہلکار حرکت میں آگئے ہیں اور مختلف رہائشی علاقوں میں آپریشن کیا جارہاہے۔
فرانسیسی وزیر اعظم مینوئل والٹر نے واضح الفاظ میں اس بات کا اعلان کیا ہے کہ شام میں داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا اس اعلان پر عمل کرتے ہوئے فرانسیسی لڑاکا طیاروں اور دیگر فورسز کے فضائی حملوں میں تین روز کے دوران داعش کے 33 جنگجو مارے جاچکے ہیں۔ درجنوں زخمی ہوئے ہیں، ساتھ میں کینیڈا اور یورپ کی متعدد علاقائی حکومتوں نے شامی مہاجرین کو پناہ دینے کے منصوبوں کی مخالفت کردی ہے۔
اب بھلا مظلوم شامیوں کا کیا قصور ہے؟ کہ انھیں ظلم کی بھٹی میں مختلف طریقوں سے جھونکا جارہاہے، ظلم بھی کرتے ہیں، پناہ بھی دیتے ہیں اور پھر اجاڑ بھی دیتے ہیں، بھوک و افلاس بانٹتے ہیں اور پھر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے روٹی کے ٹکڑے زمین پر گراتے ہیں، کبھی القاعدہ تو کبھی طالبان اور اب داعش دہشت کی علامت بن چکے ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ انھیں دہشت گرد منظم طریقے سے کون بنا رہا ہے،کون ان پر ڈالروں کی بارش کررہاہے؟ دوست بھی وہی اور دشمن بھی وہی کیسا امتحان ہے یہ امت مسلمہ کا؟ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنانے اور اپنے مفاد کو مد نظر رکھنے کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔
داعش کی فتوحات نے برطانیہ پر دہشت و وحشت کے سائے بڑھادیے ہیں، یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ امریکا، عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر محض اس لیے بمباری کررہا ہے کہ وہ یہ ظاہر کرسکے کہ اس تنظیم کے پیچھے اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے ان ہی حالات کے تناظر میں برطانوی حکومت نے شام کی طرف جانے والے جہادیوں پر ڈرون حملے کیے جس کے نتیجے میں کئی جہادی ہلاک ہوئے اور اب اپنے ملک میں شدت پسندی کے خلاف نئی حکمت عملی کا بھی اعلان بالکل اسی طرح کردیا ہے جس طرح پچاس کی دہائی میں کمیونسٹوں کے خالف مہم شروع کی گئی تھی۔
یہ مہم زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کررہی تھی اور کمیونسٹوں کے لیے جینا مشکل ہوگیا تھا۔ اس مہم کے روح رواں سینیٹر میکارتھی تھے، اسی وجہ سے میکارتھی ازم سے مشہور ہوئی اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے بھی میکارتھی مہم سے محفوظ نہیں رہ سکے تھے بعض پر تو کمیونسٹ ہونے کا الزام لگاکر ان پر ذہنی و جسمانی طور پر تشدد کیا گیا تھا۔ برطانیہ میں اس نئے جنگ کو پھیلانے اور نفرت کی آگ بھڑکانے میں وزیر داخلہ ٹریسامے اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور انتہا پسندوں کے خلاف پیش پیش ہیں۔
وزیر داخلہ ٹریسامے نے کہاکہ ''ہم انتہا پسندی کا منظم طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کریں گے، لیکن مسلمانوں کی تنظیموں کے اتحاد مسلم کونسل آف برٹ نے واضح الفاظ میں اپنا یہ موقف بیان کیا ہے کہ نئی حکمت عملی کا الٹا اثر ہوگا، کونسل کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر شجاع شفیع نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ نئی حکمت عملی برطانیہ کے مسلمانوں کو بدگمان کردے گی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ داعش اور القاعدہ کا مقابلہ کرنے کے لیے برطانوی مسلمانوں کا تعاون اشد ضروری ہے۔
اپنی طاقت اور اہمیت کو جتانے کے لیے امریکا نے چین کے خلاف آسٹریلیا، جاپان، جنوبی کوریا اور بھارت کا محاذ بناکر تیاری کرلی ہے، گویا وہ کسی بھی وقت حملہ کرسکتا ہے، بھارت نے اس محاذ میں شمولیت اختیار کرنے کی بجائے دس سالہ معاہدہ امریکا سے کرلیا ہے اور اپنی کم ظرفی کا مظاہرہ کرنے کے لیے چین پاکستان معاشی کوریڈور کی مخالفت کے لیے دوسرے ملکوں کو ملاکرکمر بستہ ہوچکا ہے، بنگلہ دیش میں جاکر تو اس نے بنگلہ دیش کی خاص شخصیات کو اس بات کی بھی یاد دہانی کرائی ہے کہ بھارتی فوجیوں نے مکتی باہنی سے مل کر پاکستان کے خلاف جنگ لڑی تھی اور اب پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں ۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ آرمی چیف راحیل شریف نے ملک کو ہر طرح سے مضبوط کردیا ہے اور پاکستان کو ہماری بہادر اور جری افواج کے ہوتے ہوئے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے جب وہ ''اﷲ اکبر'' کا نعرہ لگاکر میدان جنگ میں کودتے ہیں تو ان کے ساتھ سب سے بڑی اور عظیم وہ طاقت ہوتی ہے جس کے ''کن'' کہنے سے پوری دنیا وجود میں آگئی۔پاکستان اور مسلمانوں کے دشمنوں نے ہر محاذ پر کمزور اور برباد کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں مسلمان ملکوں اور جماعتوں کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے وہ سازشیں کرتے ہیں، برما اور کشمیرکی ہی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ انھوں نے 8 نومبر 2015 کے الیکشن لڑنے کے حوالے سے برما میں پابندیاں لگائیں، مسلمان امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کرنے کی کوشش کی گئی، اسی طرح حزب اختلاف کی امریکی حمایت یافتہ رہنما آنگ سان سوچی کی پارٹی بھی ایسا ہی سلوک کرنے کی باتیں کررہی ہے۔
جوکہ ناانصافی پر مبنی ہیں۔ مقامی اخبارات نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ ان ہی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو منظور کیا جائے کہ جن کے والدین میں کوئی ایک برمی ہوگا اور جن کے ماں باپ دونوں ہی مسلمان ہوں گے انھیں اس حق سے محروم رکھا جائے گا ،کشمیر میں پوری دنیا میں ایسی ہی منافقت اور دوہری پالیسی کو مسلمانوں کے خلاف آزمایا جاتا رہا ہے، فلسطین، عراق، شام، کشمیر، برما بھارت اور دوسرے بہت سے ممالک شخصی آزادی سے محروم کردیے گئے ہیں۔
اس ظالمانہ سلوک پر پوری دنیا نے خاموشی اختیار کرلی ہے، پاکستان خود سالہا سال سے دہشتگردی کا شکار ہے اور اب اگر پیرس میں حملے کیے جاتے ہیں تو ہر طرف ایک شور اٹھ گیا ہے اور اپنے دشمنوں کے خاتمے کے لیے مسلم ممالک میں ڈرون حملے کیے جارہے ہیں وہ اپنے عزم، راسخ منصوبہ بندی کی بدولت بے قصور لوگوں کو بھی مارنے سے گریز نہیں کریں گے۔