جدید دہشت گردی کا احیا
جس ملک کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار یا کسی ملک کی منڈی پر تسلط مقصود ہو
جس ملک کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار یا کسی ملک کی منڈی پر تسلط مقصود ہو یا پھر ان ہی مقاصدکے لیے کوئی ملک کسی اور ملک پر حملہ کرنے کی حکمتِ عملی تیارکرنے میں معاون ہو یا پھر طاقت کا توازن بگڑ رہا ہو اور کسی مختلف خطے میں اقتصادی 'ترقی' کے عمل کا آغاز ہوچکا ہو،تو اس سارے عمل کے مخالفین ان ممالک میں سب سے پہلے ایک دہشتگرد تنظیم کی بنیاد رکھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔
اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ کروڑوں ڈالرز، پاؤنڈز اور یوروز لگا کر اس تنظیم کی ہرلحاظ سے تربیت کی جاتی ہے۔انھیں ہر طرح کے جدید ترین ہتھیار فراہم کیے جاتے ہیں، خود کش حملوں میں استعمال ہونے والے ریموٹ کنٹرول بھی انھیں دیے جاتے ہیں۔ جب تنظیم مکمل طور پر مضبوط ہو چکی ہو تو اس سے چند انتہائی وحشت ناک اور رقت انگیز قسم کے حملے کرائے جاتے ہیں۔ بعد ازاںاپنے ہی ذرائع ابلاغ سے اس دہشتگرد تنظیم کا مکمل تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
جس ملک میں یہ دہشتگرد تنظیم پرورش پا رہی ہوتی ہے، ممکن ہے وہاں کے لوگوں کو اس کی تنظیم سازی کے عمل کی خبرکچھ نہ ہو، لیکن مغربی ذرائع ابلاغ کو اس کے عام کارکن سے لے کر اس کے سربراہ، مختلف حملوں کے پیچھے اس کے ماسٹر مائنڈ، اس کی تمام شاخوں تک کی خبر ہوتی ہے۔ یہ دہشتگرد تنظیم جن دیگر ممالک میں اپنی جڑیں گہری کرنے جارہی ہے، اس کی بھی ساری خبر رکھی جاتی ہے۔
یہ جدید دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آنے کے بعد پہلا کام یہ کرتی ہیں کہ وہ اسلام کے نام پر مسلمانوں کو ہی ذبح کرنے لگتی ہیں۔اس سے یہ تاثر قائم کرنا مقصود ہوتا ہے کہ ان کی اسلام کی تشریح دوسروں کی تشریح سے مختلف ہے۔یہ خود کو صحیح سمجھتے ہیں اور باقیوں کو غلط گردانتے ہیں۔
جب یہ دہشتگرد تنظیمیں مسلمانوں کا قتال کرتی ہیں توعام لوگ پریشان ہونے لگتے ہیں کہ کافروں کو مارکر تو جنت ملنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے، مگر مسلمان کہلوانیوالی یہ دہشتگرد تنظیمیں ہرطرف مسلمانوں ہی کو کیوں ذبح کررہی ہے! اس سوال کا کوئی جامع جواب نہیں ملتا۔البتہ مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ دہشت گرد تنظیم کا تعلق اسلام کے کسی مختلف فرقے سے ہے۔ وہ اس میں یہ اضافہ کرتے ہیں کہ اسلام کے سبھی فرقے ایک دوسرے کو قابل قتال ہی سمجھتے ہیں۔تاریخ سے چند ایک مثالیں بھی پیش کردی جاتی ہیں۔
تاہم چند لوگ ان خطوط پر بھی سوچتے ہیں کہ ممکن ہے ان کا واحد مقصد مسلمانوں میں تقسیم پیدا کرنا ہو، تاکہ جس ملک میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے حملہ کرنا ہے اس ملک میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر تشدد و دہشت کا احیا کرنے سے ہی طے شدہ اہداف کا حصول ممکن ہوسکتا ہے، کیونکہ ایک فرقے کو تو ساتھ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ اور جامعات میں شیعہ، سنی وہابی جیسے الفاظ عام استعمال ہورہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں وہاں کے پیدائشی اسلام میں فرقہ پرستی کے احیا و ارتقا سے کافی حد تک واقف ہوچکے ہیں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ اس تقسیم کے باوجود جہاں دہشت گردی کاسوال اٹھتا ہے تو وہاں اسلام کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
دہشتگرد تنظیمیں سامراجی ممالک کے لیے بہت مفید ثابت ہورہی ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں ہی ہیں جو کسی ملک پر حملے کا جواز فراہم کرتی ہیں۔اگر یہ دہشتگرد تنظیمیں نہیں ہوں گی، تو حملے کا جواز بھی نہیں ہوگا اور اگرحملہ نہیں کیا جائے گا تو سرمایہ داری نظام کیسے چلے گا! اندرونی طبقاتی تضادات ابھر کر اس شدت سے سامنے آجائیں گے کہ اپنے ہی ممالک کے لوگ اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ان پر تشدد کرنے کی صورت میںانسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا ٹائٹل کھوجانے کا خطرہ ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی کسی اورخطے میں کی جائے۔
دہشت گرد تنظیم کی تشکیل کا خیال نظام کی ساخت میں تشکیل پاتا ہے۔ جونہی خیال منکشف ہوتا ہے تو اپنی ٹھوس شکل میں وہ دہشت گرد تنظیم کہلاتا ہے۔عہد حاضر کی جدید و مابعد جدید دہشتگرد تنظیمیں سرمایہ داری کا ''اٹوٹ انگ'' ہیں۔اس کا سب سے اہم اثاثہ ہیں۔ سرمایہ داری کہ جس کی رگوں سے خون خشک ہوچکا ہے، اسے لاکھوں لوگوں کے خون کا غسل دیے بغیر زندہ نہیں رکھا جاسکتا! لہذا سرمایہ داری کو زندہ رکھنے کے لیے دہشتگردی کو بھی زندہ رکھنا ضروری ہے۔سرمایہ داری نظام کے لیے جتنی' لبرل' اقدار ضروری ہیں، اتنی ہی دہشت گرد تنظیمیں لازمی ہیں۔ سرمایہ داری کے بحران کی چھپانے اور اس سے بچ نکلنے کا اور کوئی راستہ اتنا مؤثر نہیں ہے!
دہشت گرد تنظیموں سے دو سطح پر کام لیا جاتا ہے: ایک جب نظام ارتقا کی منازل طے کرتا ہے، دوسرا جب نظام کا بحران شروع ہوتا ہے۔ نظام کے ارتقا کی مثال کے طور پر پاکستان کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان، چین معاہدے کے بعدضروری ہوگیا ہے کہ ملک سے 'ترقی' کے راستے میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ یعنی دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کردیا جائے۔فوج اس حکمتِ عملی پر قائم ہے۔ وہ ممالک جو پاکستان کی 'ترقی' نہیں چاہتے، دہشت گرد تنظیمیں ان کی ضرورت بن گئی ہیں۔
جیسا کہ پاکستان میں ان ہی دہشتگرد تنظیموں کے ذریعے ہندوستان ، افغانستان اور مغربی ممالک اپنا کام لے رہے ہیں، جب کہ ان کے خلاف آپریشن پاکستانی ریاست کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف ان دہشتگرد تنظیموں کی ازسرِ نو تشکیل کی جاتی ہے،ان ہی لوگوں کو دوسرے علاقوں میں منتقل کردیا جاتا ہے، تنظیموں کے نام تبدیل کردیے جاتے ہیں، لیکن ان کا اصل کام دہشت مسلط کرنا ہی ہوتا ہے۔
دہشتگرد تنظیموں سے بڑے وسیع پیمانے پرکام لیا جاتا ہے۔ ان کی وجہ سے حکومتیں بنائی جاتی ہیں، یہی حکومتیں گرانے کا سبب بھی بنتی ہیں۔اگر کسی ملک کی قیادت مغربی ممالک کے مفادات کے لیے مفید نہیں ہے،اس کو تبدیل کرنا ضروری ہوچکا ہے ، یا اس ملک میں داخل ہوکر کسی اور ملک پر حملہ کرنا ہو تو اس کا واحد اور آسان راستہ یہ ہے کہ کسی دہشتگرد تنظیم سے ایک آدھ حملہ اپنے ملک کے معصوم لوگوں پر کرادیا جائے۔
اس سے اپنے ملک کے عوام کو خاموش بھی کرا دیا جاتا ہے اور حملے کا جواز بھی مل جاتا ہے۔ سو ڈیڑھ سوعام لوگوں کی زندگی کی حیثیت ہی کیا ہے! ایسی صورت میں دہشتگردی جوکہ پالیسی کے وسط میں شامل ہوتی ہے، وہ اس پالیسی کو عملی جامہ پہناننے میں مدد دیتی ہے۔ نائن الیون کے بعد کی ساری مغربی حکمتِ عملی جو کہ حملے سے پہلے تیار کی گئی تھی، حملے کے بعد اس کی تکمیل کا سلسلہ آج تک جاری ہے! لبرل پالیسیوں کی تکمیل کے لیے انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ انسان کی جان صرف نظام کے دفاع کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
غورکریں تو صورتحال اکیسویں صدی کے آغاز میں بھی مختلف نہیں ہے۔اذہان اب بھی تبدیل نہیں ہوئے۔سوچنے کا اندازآج بھی ویسا ہی ہے۔سوچ تبدیل ہو بھی نہیں سکتی، کیونکہ سوچ خلا میں جنم نہیں لیتی۔سوچ کی جڑیں نظام میں پیوست ہوتی ہیں۔ جب کسی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ساری کاوش کی جاتی ہے تو سوچ ان ہی خطوط پر تشکیل پاتی ہے۔نظام کے سوتے جب خشک ہوجائیں تو اس کے محافظ بظاہر تو مہذب دکھائی دیتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ وحشی بن چکے ہوتے ہیں۔یہ جنگیں مسلط کرنیوالے تہذیب یافتہ وحشی ہیں۔ 'مہذب' فرانس نے اسی حکمتِ عملی کے تحت شام پر حملہ کردیا ہے۔
پوپ پال نے یہ بیان دیا ہے کہ یہ تیسری جنگ عظیم کا آغاز ہے۔ اگر یہ تیسری جنگِ عظیم ہوئی تو اس کی وجہ یہ ہوگی کہ چند دہشتگردوں نے فرانس کے شہر پیرس میں بلاتفریق فائرنگ کر کے کوئی سو لوگوں کو ہلاک کردیا تھا۔ اس کے بعد روشن خیالوں کی اس سرزمین کے اعلیٰ اذہان نے یہ فیصلہ کیا کہ چلیں شام میں جاکر بلاتفریق قتال کے عمل کا آغاز کردیا جائے۔ لیکن چند لوگوں کے قتال سے اگر تیسری جنگِ عظیم شروع ہوتی ہے تو ذہن میں یہ سوال اٹھے گا کہ کیا ''ترقی یافتہ '' اور ''مہذب'' ممالک کی دانش اس سطح پر تھی کہ مستقبل میں حملوں سے بچنے کے لیے کوئی واضح حکمتِ عملی تیار کرنے کی بجائے نوعِ انسانی ہی کو لقمہ اجل بنانے پر تُل گئی؟ کیا اسی کا نام روشن خیالی ہے؟
اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ کروڑوں ڈالرز، پاؤنڈز اور یوروز لگا کر اس تنظیم کی ہرلحاظ سے تربیت کی جاتی ہے۔انھیں ہر طرح کے جدید ترین ہتھیار فراہم کیے جاتے ہیں، خود کش حملوں میں استعمال ہونے والے ریموٹ کنٹرول بھی انھیں دیے جاتے ہیں۔ جب تنظیم مکمل طور پر مضبوط ہو چکی ہو تو اس سے چند انتہائی وحشت ناک اور رقت انگیز قسم کے حملے کرائے جاتے ہیں۔ بعد ازاںاپنے ہی ذرائع ابلاغ سے اس دہشتگرد تنظیم کا مکمل تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
جس ملک میں یہ دہشتگرد تنظیم پرورش پا رہی ہوتی ہے، ممکن ہے وہاں کے لوگوں کو اس کی تنظیم سازی کے عمل کی خبرکچھ نہ ہو، لیکن مغربی ذرائع ابلاغ کو اس کے عام کارکن سے لے کر اس کے سربراہ، مختلف حملوں کے پیچھے اس کے ماسٹر مائنڈ، اس کی تمام شاخوں تک کی خبر ہوتی ہے۔ یہ دہشتگرد تنظیم جن دیگر ممالک میں اپنی جڑیں گہری کرنے جارہی ہے، اس کی بھی ساری خبر رکھی جاتی ہے۔
یہ جدید دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آنے کے بعد پہلا کام یہ کرتی ہیں کہ وہ اسلام کے نام پر مسلمانوں کو ہی ذبح کرنے لگتی ہیں۔اس سے یہ تاثر قائم کرنا مقصود ہوتا ہے کہ ان کی اسلام کی تشریح دوسروں کی تشریح سے مختلف ہے۔یہ خود کو صحیح سمجھتے ہیں اور باقیوں کو غلط گردانتے ہیں۔
جب یہ دہشتگرد تنظیمیں مسلمانوں کا قتال کرتی ہیں توعام لوگ پریشان ہونے لگتے ہیں کہ کافروں کو مارکر تو جنت ملنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے، مگر مسلمان کہلوانیوالی یہ دہشتگرد تنظیمیں ہرطرف مسلمانوں ہی کو کیوں ذبح کررہی ہے! اس سوال کا کوئی جامع جواب نہیں ملتا۔البتہ مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ دہشت گرد تنظیم کا تعلق اسلام کے کسی مختلف فرقے سے ہے۔ وہ اس میں یہ اضافہ کرتے ہیں کہ اسلام کے سبھی فرقے ایک دوسرے کو قابل قتال ہی سمجھتے ہیں۔تاریخ سے چند ایک مثالیں بھی پیش کردی جاتی ہیں۔
تاہم چند لوگ ان خطوط پر بھی سوچتے ہیں کہ ممکن ہے ان کا واحد مقصد مسلمانوں میں تقسیم پیدا کرنا ہو، تاکہ جس ملک میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے حملہ کرنا ہے اس ملک میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر تشدد و دہشت کا احیا کرنے سے ہی طے شدہ اہداف کا حصول ممکن ہوسکتا ہے، کیونکہ ایک فرقے کو تو ساتھ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ اور جامعات میں شیعہ، سنی وہابی جیسے الفاظ عام استعمال ہورہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں وہاں کے پیدائشی اسلام میں فرقہ پرستی کے احیا و ارتقا سے کافی حد تک واقف ہوچکے ہیں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ اس تقسیم کے باوجود جہاں دہشت گردی کاسوال اٹھتا ہے تو وہاں اسلام کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
دہشتگرد تنظیمیں سامراجی ممالک کے لیے بہت مفید ثابت ہورہی ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں ہی ہیں جو کسی ملک پر حملے کا جواز فراہم کرتی ہیں۔اگر یہ دہشتگرد تنظیمیں نہیں ہوں گی، تو حملے کا جواز بھی نہیں ہوگا اور اگرحملہ نہیں کیا جائے گا تو سرمایہ داری نظام کیسے چلے گا! اندرونی طبقاتی تضادات ابھر کر اس شدت سے سامنے آجائیں گے کہ اپنے ہی ممالک کے لوگ اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ان پر تشدد کرنے کی صورت میںانسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا ٹائٹل کھوجانے کا خطرہ ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی کسی اورخطے میں کی جائے۔
دہشت گرد تنظیم کی تشکیل کا خیال نظام کی ساخت میں تشکیل پاتا ہے۔ جونہی خیال منکشف ہوتا ہے تو اپنی ٹھوس شکل میں وہ دہشت گرد تنظیم کہلاتا ہے۔عہد حاضر کی جدید و مابعد جدید دہشتگرد تنظیمیں سرمایہ داری کا ''اٹوٹ انگ'' ہیں۔اس کا سب سے اہم اثاثہ ہیں۔ سرمایہ داری کہ جس کی رگوں سے خون خشک ہوچکا ہے، اسے لاکھوں لوگوں کے خون کا غسل دیے بغیر زندہ نہیں رکھا جاسکتا! لہذا سرمایہ داری کو زندہ رکھنے کے لیے دہشتگردی کو بھی زندہ رکھنا ضروری ہے۔سرمایہ داری نظام کے لیے جتنی' لبرل' اقدار ضروری ہیں، اتنی ہی دہشت گرد تنظیمیں لازمی ہیں۔ سرمایہ داری کے بحران کی چھپانے اور اس سے بچ نکلنے کا اور کوئی راستہ اتنا مؤثر نہیں ہے!
دہشت گرد تنظیموں سے دو سطح پر کام لیا جاتا ہے: ایک جب نظام ارتقا کی منازل طے کرتا ہے، دوسرا جب نظام کا بحران شروع ہوتا ہے۔ نظام کے ارتقا کی مثال کے طور پر پاکستان کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان، چین معاہدے کے بعدضروری ہوگیا ہے کہ ملک سے 'ترقی' کے راستے میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ یعنی دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کردیا جائے۔فوج اس حکمتِ عملی پر قائم ہے۔ وہ ممالک جو پاکستان کی 'ترقی' نہیں چاہتے، دہشت گرد تنظیمیں ان کی ضرورت بن گئی ہیں۔
جیسا کہ پاکستان میں ان ہی دہشتگرد تنظیموں کے ذریعے ہندوستان ، افغانستان اور مغربی ممالک اپنا کام لے رہے ہیں، جب کہ ان کے خلاف آپریشن پاکستانی ریاست کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف ان دہشتگرد تنظیموں کی ازسرِ نو تشکیل کی جاتی ہے،ان ہی لوگوں کو دوسرے علاقوں میں منتقل کردیا جاتا ہے، تنظیموں کے نام تبدیل کردیے جاتے ہیں، لیکن ان کا اصل کام دہشت مسلط کرنا ہی ہوتا ہے۔
دہشتگرد تنظیموں سے بڑے وسیع پیمانے پرکام لیا جاتا ہے۔ ان کی وجہ سے حکومتیں بنائی جاتی ہیں، یہی حکومتیں گرانے کا سبب بھی بنتی ہیں۔اگر کسی ملک کی قیادت مغربی ممالک کے مفادات کے لیے مفید نہیں ہے،اس کو تبدیل کرنا ضروری ہوچکا ہے ، یا اس ملک میں داخل ہوکر کسی اور ملک پر حملہ کرنا ہو تو اس کا واحد اور آسان راستہ یہ ہے کہ کسی دہشتگرد تنظیم سے ایک آدھ حملہ اپنے ملک کے معصوم لوگوں پر کرادیا جائے۔
اس سے اپنے ملک کے عوام کو خاموش بھی کرا دیا جاتا ہے اور حملے کا جواز بھی مل جاتا ہے۔ سو ڈیڑھ سوعام لوگوں کی زندگی کی حیثیت ہی کیا ہے! ایسی صورت میں دہشتگردی جوکہ پالیسی کے وسط میں شامل ہوتی ہے، وہ اس پالیسی کو عملی جامہ پہناننے میں مدد دیتی ہے۔ نائن الیون کے بعد کی ساری مغربی حکمتِ عملی جو کہ حملے سے پہلے تیار کی گئی تھی، حملے کے بعد اس کی تکمیل کا سلسلہ آج تک جاری ہے! لبرل پالیسیوں کی تکمیل کے لیے انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ انسان کی جان صرف نظام کے دفاع کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
غورکریں تو صورتحال اکیسویں صدی کے آغاز میں بھی مختلف نہیں ہے۔اذہان اب بھی تبدیل نہیں ہوئے۔سوچنے کا اندازآج بھی ویسا ہی ہے۔سوچ تبدیل ہو بھی نہیں سکتی، کیونکہ سوچ خلا میں جنم نہیں لیتی۔سوچ کی جڑیں نظام میں پیوست ہوتی ہیں۔ جب کسی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ساری کاوش کی جاتی ہے تو سوچ ان ہی خطوط پر تشکیل پاتی ہے۔نظام کے سوتے جب خشک ہوجائیں تو اس کے محافظ بظاہر تو مہذب دکھائی دیتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ وحشی بن چکے ہوتے ہیں۔یہ جنگیں مسلط کرنیوالے تہذیب یافتہ وحشی ہیں۔ 'مہذب' فرانس نے اسی حکمتِ عملی کے تحت شام پر حملہ کردیا ہے۔
پوپ پال نے یہ بیان دیا ہے کہ یہ تیسری جنگ عظیم کا آغاز ہے۔ اگر یہ تیسری جنگِ عظیم ہوئی تو اس کی وجہ یہ ہوگی کہ چند دہشتگردوں نے فرانس کے شہر پیرس میں بلاتفریق فائرنگ کر کے کوئی سو لوگوں کو ہلاک کردیا تھا۔ اس کے بعد روشن خیالوں کی اس سرزمین کے اعلیٰ اذہان نے یہ فیصلہ کیا کہ چلیں شام میں جاکر بلاتفریق قتال کے عمل کا آغاز کردیا جائے۔ لیکن چند لوگوں کے قتال سے اگر تیسری جنگِ عظیم شروع ہوتی ہے تو ذہن میں یہ سوال اٹھے گا کہ کیا ''ترقی یافتہ '' اور ''مہذب'' ممالک کی دانش اس سطح پر تھی کہ مستقبل میں حملوں سے بچنے کے لیے کوئی واضح حکمتِ عملی تیار کرنے کی بجائے نوعِ انسانی ہی کو لقمہ اجل بنانے پر تُل گئی؟ کیا اسی کا نام روشن خیالی ہے؟