آنکھوں کا مرا ہوا پانی
یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ہر روز 22 ہزار بچے غربت کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔
یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ہر روز 22 ہزار بچے غربت کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں تقریباً 85 کروڑ افراد ایسے ہیں جنھیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں جب کہ 75 کروڑ سے زائد افراد صاف پانی جیسی بنیادی ضرورت کے حصول سے محروم ہیں اور یہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے تقریباً 2300 جانیں ہر روزضایع ہوجاتی ہیں اورجہاں تک ہمارا تعلق ہے تو افسوس! ہم بد قسمتی سے ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں سور اورگدھے سمیت کئی جانوروں کو حلال جانوروں کے نام پر فروخت کیا جاتا ہے جہاں مردہ جانوروں کا گوشت بھی بک جاتا ہے، جہاں دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے جہاں ناپ تول میں کمی کی جاتی ہے۔
یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آیندہ جنگیں صرف پانی کے حصول کے لیے ہوںگی۔ ہماری زمین پر ایک جائزے کے مطابق تقریباً 1385 ملین کیوبک پانی ہے جس میں 97.5 فی صد کھارا پانی سمندروں کی صورت میں ہے اور صرف اور صرف 2.5 فی صد صاف پانی انسانوں، جانوروں اور زراعت کے لیے میسر ہے، تاہم اس میں سے بھی 90 فی صد صاف پانی قطب جنوب میں برف کی صورت میں ہے، لہٰذا یوں صرف 0.26 فی صد صاف پانی انسانوں، جانوروں اور زراعت کے لیے دستیاب ہے جو تقریباً 93 کیوبک کلو میٹر بنتا ہے اس میں سے بھی صرف 0.014 فی صد صاف پانی پینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی، صنعتی اور معاشی شہر کراچی میں گزشتہ دو تین سالوں سے پانی کا بحران بہت بڑے اژدھے کی طرح منہ کھولے کھڑا شہریوں کو ہڑپ کرنے کو تیار ہے لیکن ہمارے ارباب اختیار اپنی اپنی ڈفلی پر اپنا اپنا راگ الاپنے میں مصروف ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے کراچی شہر میں پانی کی شدید قلت اور بحران سے متعلق دائر درخواست پر واٹر بورڈ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب داخل کرنے کی ہدایت کردی ہے، مقام شکر ہے کہ ہمارے شہر کراچی میں طویل عرصے بعد کوئی مرد آہن خواب غفلت سے جاگا اور قانون کا دروازہ کھٹکھٹاکر اپنا فرض منصبی کو پہچاننے کے لائق ہوا۔
اس بات سے کون واقف نہیں کہ گزشتہ دو ڈھائی سالوں سے بالخصوص ہمارے شہر کراچی کو ملنے اور گھروں میں وافر مقدار سے مسلسل آنے والا پانی انسانی آنکھوں کی شرم کی طرح غائب اور ندارد ہوگیا ہے۔
کلفٹن، ڈیفنس، طارق روڈ، نارتھ کراچی، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، گلشن اقبال، فیڈرل بی ایریا، اورنگی ٹاؤن، سرجانی ٹاؤن، ملیر، لانڈھی اورکورنگی وغیرہ سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی قلت شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے اور یہ بات بھی ہر خاص و عام کو پتہ ہے کہ شہریوں کے حصے کا پانی بڑے پیمانے پر چوری کیا جارہاہے اور اس گھناؤنے فعل میں خود واٹر بورڈ کے لوگ بھی پوری طرح ملوث ہیں۔ یہ بڑے بڑے کارخانے داروں سے بھاری معاوضے لے کر رہائشی علاقوں کا پانی روک کر یا غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے ذریعے پیسے والوں کو بھاری پیمانے پر فروخت کرکے راتوں رات کروڑ پتی بن گئے ہیں۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ سالوں سے رہائشی علاقوں کو پانی سپلائی نہیں کیا جارہا لیکن واٹر بورڈ کی طرف سے ہر ماہ بڑی باقاعدگی سے پانی کا بل ضرور بھیج دیا جاتا ہے جسے ہم جیسے باشعور لوگ بڑی خندہ پیشانی سے ادا بھی کرتے چلے آرہے ہیں کراچی کے درخواست گزار نے ''ڈی جی رینجرز'' کو پانی چوری روکنے کے لیے اقدامات کی اجازت دینے کا بھی کہا ہے اور ایسا شاید اس لیے بھی کیا گیا ہے کہ جس طرح ایک زمانے میں ہمارے سابقہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری''سوموٹو ایکشن'' (از خود نوٹس) لیا کرتے تھے بالکل اسی طرح ہمارے شہر کراچی میں بھی گزشتہ دو برسوں سے ''رینجرز'' کا سوموٹو ایکشن بہت شہرت حاصل کرچکا ہے اور اگر رینجرز پانی چوروں کے خلاف بھی ایکشن لے لے تو پانی چوروں کی آنکھوں کا مرا ہوا پانی بھی اس سے زندہ ہوسکتا ہے۔
ہنوز واٹر بورڈ کے بلند و بانگ دعوے جاری ہیں، پانی اس طرح چوری کیا جارہاہے، گوشت کے دو ناغے ہوتے ہیں لیکن پانی مختلف علاقوں میں کئی کئی دنوں کے ناغوں کے بعد اچھے دنوں کی طرح چند ساعتوں کے لیے آتا ہے اور سہانے دنوں کی طرح چلا جاتا ہے اور شہری دیدہ و دل فرش راہ کیے اس کے انتظار میں دن گنتے رہتے ہیں۔ کراچی شہر کو اس وقت 250 ملین گیلن کی کمی کا سامنا ہے اور یومیہ 25 کروڑ گیلن پانی کی کمی ہر گھر کو ہے۔ واٹر بورڈ کے ملازمین کو کروڑوں روپے تنخواہوں کی مد میں ادا کیے جارہاہے ہیں لیکن وہ اپنا فرض احسن طریقے سے ادا نہیں کررہے اور صارفین کے پانی کے کنکشن میں سے پانی چوری کرکے اپنی اپنی جیبیں گرم کرنے میں مصروف ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کی جانے والی کارروائی پر تفصیلی اور جامع رپورٹ طلب کی ہے اور حکم دیا ہے کہ بتایاجائے کہ عدالتی احکامات پر اب تک غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی گئی ہے دوران سماعت درخواست گزار نے عدالت کو بتایاکہ شہر بھر میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس قائم ہیں جب کہ واٹر بورڈ کا ماہانہ بل ادا کرنے والے شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور متعلقہ حکام کی مرضی کے بغیر قانونی ہائیڈرنٹس قائم نہیں ہوسکتے اس موقع پر درخواست گزار نے شہر بھر میں قائم قانونی اور غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی تفصیلات بھی عدالت کے رو برو پیش کی جس میں عدالت کو بتایاگیا کہ سب سے زیادہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس سائٹ کے علاقے میں واقع ہیں۔
یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آیندہ جنگیں صرف پانی کے حصول کے لیے ہوںگی۔ ہماری زمین پر ایک جائزے کے مطابق تقریباً 1385 ملین کیوبک پانی ہے جس میں 97.5 فی صد کھارا پانی سمندروں کی صورت میں ہے اور صرف اور صرف 2.5 فی صد صاف پانی انسانوں، جانوروں اور زراعت کے لیے میسر ہے، تاہم اس میں سے بھی 90 فی صد صاف پانی قطب جنوب میں برف کی صورت میں ہے، لہٰذا یوں صرف 0.26 فی صد صاف پانی انسانوں، جانوروں اور زراعت کے لیے دستیاب ہے جو تقریباً 93 کیوبک کلو میٹر بنتا ہے اس میں سے بھی صرف 0.014 فی صد صاف پانی پینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی، صنعتی اور معاشی شہر کراچی میں گزشتہ دو تین سالوں سے پانی کا بحران بہت بڑے اژدھے کی طرح منہ کھولے کھڑا شہریوں کو ہڑپ کرنے کو تیار ہے لیکن ہمارے ارباب اختیار اپنی اپنی ڈفلی پر اپنا اپنا راگ الاپنے میں مصروف ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے کراچی شہر میں پانی کی شدید قلت اور بحران سے متعلق دائر درخواست پر واٹر بورڈ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب داخل کرنے کی ہدایت کردی ہے، مقام شکر ہے کہ ہمارے شہر کراچی میں طویل عرصے بعد کوئی مرد آہن خواب غفلت سے جاگا اور قانون کا دروازہ کھٹکھٹاکر اپنا فرض منصبی کو پہچاننے کے لائق ہوا۔
اس بات سے کون واقف نہیں کہ گزشتہ دو ڈھائی سالوں سے بالخصوص ہمارے شہر کراچی کو ملنے اور گھروں میں وافر مقدار سے مسلسل آنے والا پانی انسانی آنکھوں کی شرم کی طرح غائب اور ندارد ہوگیا ہے۔
کلفٹن، ڈیفنس، طارق روڈ، نارتھ کراچی، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، گلشن اقبال، فیڈرل بی ایریا، اورنگی ٹاؤن، سرجانی ٹاؤن، ملیر، لانڈھی اورکورنگی وغیرہ سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی قلت شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے اور یہ بات بھی ہر خاص و عام کو پتہ ہے کہ شہریوں کے حصے کا پانی بڑے پیمانے پر چوری کیا جارہاہے اور اس گھناؤنے فعل میں خود واٹر بورڈ کے لوگ بھی پوری طرح ملوث ہیں۔ یہ بڑے بڑے کارخانے داروں سے بھاری معاوضے لے کر رہائشی علاقوں کا پانی روک کر یا غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے ذریعے پیسے والوں کو بھاری پیمانے پر فروخت کرکے راتوں رات کروڑ پتی بن گئے ہیں۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ سالوں سے رہائشی علاقوں کو پانی سپلائی نہیں کیا جارہا لیکن واٹر بورڈ کی طرف سے ہر ماہ بڑی باقاعدگی سے پانی کا بل ضرور بھیج دیا جاتا ہے جسے ہم جیسے باشعور لوگ بڑی خندہ پیشانی سے ادا بھی کرتے چلے آرہے ہیں کراچی کے درخواست گزار نے ''ڈی جی رینجرز'' کو پانی چوری روکنے کے لیے اقدامات کی اجازت دینے کا بھی کہا ہے اور ایسا شاید اس لیے بھی کیا گیا ہے کہ جس طرح ایک زمانے میں ہمارے سابقہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری''سوموٹو ایکشن'' (از خود نوٹس) لیا کرتے تھے بالکل اسی طرح ہمارے شہر کراچی میں بھی گزشتہ دو برسوں سے ''رینجرز'' کا سوموٹو ایکشن بہت شہرت حاصل کرچکا ہے اور اگر رینجرز پانی چوروں کے خلاف بھی ایکشن لے لے تو پانی چوروں کی آنکھوں کا مرا ہوا پانی بھی اس سے زندہ ہوسکتا ہے۔
ہنوز واٹر بورڈ کے بلند و بانگ دعوے جاری ہیں، پانی اس طرح چوری کیا جارہاہے، گوشت کے دو ناغے ہوتے ہیں لیکن پانی مختلف علاقوں میں کئی کئی دنوں کے ناغوں کے بعد اچھے دنوں کی طرح چند ساعتوں کے لیے آتا ہے اور سہانے دنوں کی طرح چلا جاتا ہے اور شہری دیدہ و دل فرش راہ کیے اس کے انتظار میں دن گنتے رہتے ہیں۔ کراچی شہر کو اس وقت 250 ملین گیلن کی کمی کا سامنا ہے اور یومیہ 25 کروڑ گیلن پانی کی کمی ہر گھر کو ہے۔ واٹر بورڈ کے ملازمین کو کروڑوں روپے تنخواہوں کی مد میں ادا کیے جارہاہے ہیں لیکن وہ اپنا فرض احسن طریقے سے ادا نہیں کررہے اور صارفین کے پانی کے کنکشن میں سے پانی چوری کرکے اپنی اپنی جیبیں گرم کرنے میں مصروف ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کی جانے والی کارروائی پر تفصیلی اور جامع رپورٹ طلب کی ہے اور حکم دیا ہے کہ بتایاجائے کہ عدالتی احکامات پر اب تک غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی گئی ہے دوران سماعت درخواست گزار نے عدالت کو بتایاکہ شہر بھر میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس قائم ہیں جب کہ واٹر بورڈ کا ماہانہ بل ادا کرنے والے شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور متعلقہ حکام کی مرضی کے بغیر قانونی ہائیڈرنٹس قائم نہیں ہوسکتے اس موقع پر درخواست گزار نے شہر بھر میں قائم قانونی اور غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی تفصیلات بھی عدالت کے رو برو پیش کی جس میں عدالت کو بتایاگیا کہ سب سے زیادہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس سائٹ کے علاقے میں واقع ہیں۔