میانمار کے انتخابات آنگ سان سوچی کی تاریخی کام یابی
دوتہائی اکثریت حاصل کرنے والی جماعت جرنیلوں سے اپنی پالیسیاں منواسکے گی؟
طویل انتظار، برسراقتدار حکومتوں کی مخالفانہ پالیسیوں اور سیاسی نشیب و فراز کے بعد بالآخر میانمار کے عام انتخابات میں آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (NLD) نے تاریخی کام یابی حاصل کرلی۔ 70 سال کی عمر میں آنگ سان سوچی کو میانمار (سابقہ برما) کے عوام نے فوجی جرنیلوں کی نگرانی میں ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ دے کر حکومت بنانے اور حکومت کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے دونوں ایوانوں کی مجموعی طور پر 664نشستوں میں سے 348 نشستیں جیت کر اپنی مقبولیت اور اپنی لیڈر آنگ سان سوچی کی عوامی مقبولیت کا اعلان کردیا ہے۔
25 سال بعد میانمار میں ہوئے عام انتخابات میں شان دار کام یابی نے یہ بات تو ثابت کردی کہ میانمار کے عوام اب بھی آنگ سان سوچی کے دیوانے ہیں۔ لوگوں کو جب ووٹ ڈالنے اور اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملا تو انھوں نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے کام کرنے والی آنگ سان سوچی کو اپنا راہ نما چن لیا۔ عالمی میڈیا کے اندازوں کے مطابق آنگ سان سوچی کی جماعت نے اس الیکشن میں 80 فی صد سے زاید نشستیں حاصل کرلی ہیں جو دوتہائی اکثریت سے بھی بہت زیادہ ہیں۔
واضح رہے کہ میانمار کے قانون و آئین کے مطابق پارلیمینٹ پر کنٹرول حاصل کرنے اور صدر بننے کے لیے کسی بھی امیدوار کو اسمبلی میں دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے اس سے کہیں زیادہ نشستیں جیت لی ہیں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اب آنگ سان سوچی کے لیے ملک کا سربراہ بننے اور حکومت سنبھالنے کے لیے میدان بالکل صاف ہے لیکن ایک چوتھائی نشستیں فوج کے پاس ہی رہنے سے حکومتی امور اور پالیسیوں میں فوجی جرنیلوں کا کردار نمایاں رہے گا اور کچھ آئینی و قانونی پیچیدگیاں بھی سلجھانا ہوں گی۔
میانمار کے عام انتخابات میں تاریخی کام یابی کے بعد یہ سوالات اہم ہیں کہ عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے والی 70سالہ راہ نما بڑی ذمے داری نبھا سکیں گی؟ اور کیا فوجی جرنیلوں کی موجودگی میں اُن کی پالیسیاں اور اقدامات کو ارباب اقتدار میں پذیرائی مل سکے گی؟ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ میانمار کے عوام کی حمایت سے اقتدار میں آنے والی آنگ سان سوچی روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے کیا کرتی ہیں؟
روہنگیا مسلمان بھی انتخابات کے ذریعے آنے والی اس تبدیلی سے امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو قانونی حیثیت دے کر انھیں میانمار کا شہری تسلیم کرنا تو ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا، لیکن اگر آنگ سان سوچی اُن کے حالات زندگی میں ہی کچھ مثبت تبدیلیاں لانے میں کام یاب ہوگئیں تو ابتدائی طور پر روہنگیا مسلمانوں کو کچھ اطمینان وسکون مل جائے گا۔
اب کچھ مختصر تفصیلات آنگ سان سوچی کی زندگی اور سیاسی سفر کے حوالے سے نذرقارئین ہیں:
19 جون 1945 کو جنم لینے والی آنگ سان سوچی کی ساری زندگی حزب اختلاف میں گزری ہے۔ وہ گذشتہ دہائیوں میں موجودہ میانمار میں اقتدار سنبھالنے والی شخصیات اور حکومتوں کی پالیسیوں اور اقدامات کی سخت ناقد رہی ہیں۔ برمی عوام کے لیے اُن کی شخصیت کرشماتی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کو آنگ سان سوچی کی شخصیت کی وجہ سے ہی زبردست انتخابی کام یابی ملی ہے۔
یاد رہے کہ 1990 میں ہونے والے انتخابات میں بھی سوچی کی جماعت نے 59 فی صد ووٹ حاصل کیے تھے اور پارلیمنٹ کی 485 نشستوں میں سے 392 نشستیں جیت لی تھیں۔
اس وقت بھی سب کو خاص طور پر آنگ سان سوچی کے مداحوں کو تقریباً یقین تھا کہ اب اُن کی پسندیدہ لیڈر اقتدار سنبھالیں گی، لیکن الیکشن سے قبل ہی نظر بند کی جانے والی آنگ سان سوچی کی نظربندی طویل سے طویل تر ہوتی چلی گئی اور وہ تقریباً اٹھارہ سال سے زاید عرصے تک نظربندی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئیں۔ نومبر 2010 میں میانمار پر برسراقتدار لوگوں نے سوچی کی نظر بندی ختم کی، عالمی میڈیا کے مطابق آنگ سان سوچی کو دنیا کی نمایاں ترین سیاسی قیدی کی حیثیت حاصل ہے۔
طویل اور تاریخی سیاسی جدوجہد اور عوام کے حقوق کی آواز اٹھانے اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے کام کرنے کے اعتراف میں آنگ سان سوچی کو1990 میں رافٹو ایوارڈ (Rafto Prize) اور سخاروف پرائز ( Sakharov Prize ) بھی ملے۔ انھیں امن کا نوبیل انعام بھی ملا ہے۔
اس کے علاوہ 1992 میں سوچی کو بھارتی حکومت کی جانب سے جواہر لال نہرو ایوارڈ اور وینزویلا سے سائمن بولیور پرائز (Simón Bolívar Prize) بھی ملے، جب کہ 2012 میں پاکستان نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے اور جدوجہد کرنے پر انھیں ''شہید بینظیر بھٹو ایوارڈ برائے جمہوریت '' دیا۔ سوچی کے پاس امریکا کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ (Presidential Medal of Freedom) بھی ہے۔ یہ اور ان کے علاوہ دیگر عالمی ایوارڈ و اعزازات اس بات کا ثبوت ہیں کہ دنیا بھر میں آنگ سان سوچی کی جمہوریت کے لیے جدوجہد کو تسلیم کیا جاتا ہے اور انھیں ایک ایسی سیاسی شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے، جس نے اپنی ساری زندگی جمہوریت کی بحالی کے لیے وقف کردی۔
میانمار کے صدر کی حیثیت سے کام کرنے کی خواہش کا اظہار آنگ سان سوچی نے جون 2013 میں اس وقت کیا جب ورلڈ اکنامک فورم کی ویب سائٹ پر اُن کی جانب سے ایک بیان سامنے آٰیا کہ وہ اپنے ملک میں بطور صدر کام کرنا چاہتی ہیں۔
تاہم موجودہ صورت حال میں میانمار کے آئین و قانون کے مطابق آنگ سان سوچی ملک کی صدر نہیں بن سکتیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی ہے جو میانمار (برما) کا شہری نہیں، آئین کے مطابق اس قانونی رکاوٹ کو دور کرنے تک سوچی کے صدر بننے کا کوئی امکان نہیں اور اس معاملے کو سلجھانے کے لیے انھیں فوجی قانون سازوں کی اجازت لینا ہوگی ۔
اگر ہم آنگ سان سوچی کے نام کو دیکھیں تو اس کے کئی حصے ہیں، ''آنگ سان (Aung San)''، اُن کے والد، ''سُو (Suu)'' ان کی نانی اور ''کی یا چی (Kyi) '' اُن کی والدہ کے نام کا حصہ ہے۔ برمی عوام اُن کے نام کے ساتھ بطور احترام ''آنٹی '' بھی شامل کرتے ہیں۔
دیکھا جائے تو آنگ سان سوچی کے سیاسی سفر کا آغاز 1988 میں اس وقت ہوا جب وہ برما (میانمار) واپس آئیں، اُن کی واپسی کے ساتھ ہی طویل عرصے سے برسراقتدار فوجی حکم راں جنرل نے ون نے اقتدار چھوڑدیا۔ 8 اگست 1988 کو جمہوریت کے لیے شروع ہونے والی تحریک کو اپنے منفرد اعداد کی وجہ سے میانمار میں بہت اہمیت حاصل ہے۔
یعنی 8-8-88 ، لیکن سوچی کی شعلہ فشاں تقریروں اور لاکھوں کے مجمع سے خطاب کے باوجود اُسی سال ستمبر میں ایک اور فوجی جنرل نے عنان اقتدار سنبھال لی۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران نظر بندی اور عارضی رہائی کے دوران آنگ سان سوچی پر کئی بار قاتلانہ حملے بھی کیے گئے، تاکہ انھیں راستے سے ہٹایا جاسکے، لیکن اُن کے دشمن اپنی اس مذموم سازش میں کام یاب نہیں ہوسکے۔
آنگ سان سوچی کی سیاسی زندگی کا مقصد پُرامن جمہوری جدوجہد ہے۔ انھوں نے ہی 1988 میں اپنی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی بنیاد رکھی۔ لیکن 1989-90 میں نظربند ہونے کے بعد انھیں صرف ایک صورت میں رہائی کی پیش کش کی گئی کہ اگر وہ ملک چھوڑدیں تو نظر بندی ختم کی جاسکتی ہے، لیکن سیاسی دبائو، پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ اور حکم رانوں کے جبر کے باوجود آنگ سان سوچی ڈٹی رہیں۔ 20 سال کی نظر بندی کے عرصے میں انھیں وقفے وقفے سے کچھ دنوں کے لیے رہائی بھی ملتی رہی، لیکن انھیں کبھی بھی باضابطہ طور پر پروانۂ رہائی نہیں ملا۔
دو دہائیوں سے زاید عرصے بعد اب انھیں اپنی جدوجہد اور صبر کا پھل مل گیا ہے، لیکن یہ بھی سوالیہ نشان ہے کہ کیا میانمار کی فوج آنگ سان سوچی کی اس شان دار فتح کو آسانی سے ہضم کرپائے گی؟ اس کا جواب آنے والے دنوں میں مل ہی جائے گا۔ ایسے کچھ اشارے مل رہے ہیں کہ فوجی حکم رانوں نے این ایل ڈی کی پارٹی کی فتح کو تسلیم کرنے اور آنگ سان سوچی کی حکومت سے تعاون کا عندیہ دیا ہے لیکن اصل صورت حال کچھ دنوں میں ہی واضح ہوگی۔
2012 اور پھر رواں سال میں جب روہنگیا مسلمانوں پر ظلم وستم، قتل عام اور مسلسل زیادتیوں کے واقعات پر پوری دنیا چیخ رہی تھی تو آنگ سان سوچی کی خاموشی کو بھی عالمی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سوچی کی پراسرار خاموشی معنی خیز بھی تھی اور باعث ِحیرت بھی کہ ایک ایسی لیڈر جو عوام کے حقوق کے لیے ساری زندگی آواز اٹھاتی رہی، روہنگیا مسلمانوں کی ابتر حالت پر خاموش کیوں ہے اور اس کی کیا وجوہ ہیں؟ سوچی کی خاموشی پر یہ بھی خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ وہ برمی عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس معاملے پر خاموش ہیں۔
مہاتماگاندھی اور مہاتما بدھ کی تعلیمات سے متاثر اور اُن پر عمل کرنے والی آنگ سان سوچی کے لیے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار بہتر بنانا بہت ضروری ہے، ورنہ اُن کی ساری جدوجہد، کامی ابی اور عوامی پذیرائی پس منظر میں چلی جائے گی۔ اس حوالے سے آنگ سان سوچی اور ان کی پارٹی کو انسانی ہم دردی کے تحت فیصلے کرنے ہوں گے۔
ابھی انتخابات کے غیرحتمی نتائج آئے ہیں، حتمی نتائج آنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا اور اس کے بعد ہی صورت حال واضح ہوگی کہ میانمار کی مسنداقتدار پر آنگ سان سوچی کو بیٹھنا نصیب ہوتا ہے یا نہیں؟
آنگ سانی سوچیکے حریفوں پر کیا گزری
میانمار میں سوچی کی جماعت کے بعد دوسری بڑی پارٹی فوجی حکام کی سرپرستی میں یونین سالیڈیریٹی اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (USDP) ہے۔
راکھینا اسٹیٹ میں ایک اور پارٹی آراکان نیشنل پارٹی کے چیئرمین آئے مانگAye Maung) ( راکھینہ ریاست میں اپنی نشست سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے، انھیں این ایل ڈی کے امیدوار نے ہی ہرایا۔
قومیتوں کے ایوان یعنی (House of Nationalities) کی مجموعی طور پر 224 نشستوں میں سے آنگ سان سوچی کی جماعت 134 نشستیں جیت گئی۔ یو ایس ڈی پی کو 12، اراکان نیشنل پارٹی کو 7 نشستیں مل سکیں۔ مون نیشنل پارٹی، پی این او، زیڈ سی ڈی بھی چند حلقوں میں کامیاب ٹھیریں جب کہ ایک سیٹ آزاد امیدوار کو ملی۔ بعض جماعتوں کو تو ایک ایک سیٹ پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
ایوان نمائندگان یعنی (House of Representatives) میں مجموعی نشستیں 440 ہیں جن میں سے 330 پر الیکشن ہوئے۔ آنگ سان سوچی کی پارٹی نے یہاں 253 نشستیں جیت کر واضح برتری حاصل کرلی ہے۔ یو ایس ڈی پی اس ایوان کی 29نشستیں جیت سکی جب کہ ایس این ایل ڈی کو 12، اراکان نیشنل پارٹی (اے این پی) کو 8 حلقوں میں کام یابی ملی۔
آنگ سان سوچی کی اس فقیدالمثال کام یابی کو کئی سیاسی جماعتوں نے ملکی نظام کے لیے خوش آئند بھی قرار دیا ہے۔ کچھ راہ نمائوں کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ این ایل ڈی کی اس کام یابی سے ملکی حالات کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے۔ دوسری جانب آنگ سان سوچی کے مخالف بعض عناصر انتخابی نتائج پر شکوک و شبہات کا بھی اظہار کررہے ہیں لیکن ان کی تنقید اور تحفظات کو فی الحال زیادہ پذیرائی نہیں مل پارہی۔
الیکشن لڑنے والی تمام جماعتوں نے اپنے ووٹروں سے میانمار میں قانون کی حکم رانی، سستے انصاف، جمہوری اقدار کے فروغ ، امن وامان اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے وعدے کیے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ اسمبلی میں جانے والے کس طرح اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہیں اور وعدے وفا نہ کرنے کی صورت میں کس کو ذمے دار ٹھیراتے ہیں۔
غیرحتمی انتخابی نتائج کے فوری بعد حکم راں فوج کی جانب سے بھی ایک بیان سامنے آیا ہے، جس میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ یہ خبر آنگ سان سوچی کے مداحوں کے لیے امید افزا ہے، لیکن حکومت سازی کا اصل مرحلہ حتمی نتائج کے بعد ہی شروع ہوگا جس میں ابھی کافی وقت ہے۔
25 سال بعد میانمار میں ہوئے عام انتخابات میں شان دار کام یابی نے یہ بات تو ثابت کردی کہ میانمار کے عوام اب بھی آنگ سان سوچی کے دیوانے ہیں۔ لوگوں کو جب ووٹ ڈالنے اور اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملا تو انھوں نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے کام کرنے والی آنگ سان سوچی کو اپنا راہ نما چن لیا۔ عالمی میڈیا کے اندازوں کے مطابق آنگ سان سوچی کی جماعت نے اس الیکشن میں 80 فی صد سے زاید نشستیں حاصل کرلی ہیں جو دوتہائی اکثریت سے بھی بہت زیادہ ہیں۔
واضح رہے کہ میانمار کے قانون و آئین کے مطابق پارلیمینٹ پر کنٹرول حاصل کرنے اور صدر بننے کے لیے کسی بھی امیدوار کو اسمبلی میں دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے اس سے کہیں زیادہ نشستیں جیت لی ہیں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اب آنگ سان سوچی کے لیے ملک کا سربراہ بننے اور حکومت سنبھالنے کے لیے میدان بالکل صاف ہے لیکن ایک چوتھائی نشستیں فوج کے پاس ہی رہنے سے حکومتی امور اور پالیسیوں میں فوجی جرنیلوں کا کردار نمایاں رہے گا اور کچھ آئینی و قانونی پیچیدگیاں بھی سلجھانا ہوں گی۔
میانمار کے عام انتخابات میں تاریخی کام یابی کے بعد یہ سوالات اہم ہیں کہ عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے والی 70سالہ راہ نما بڑی ذمے داری نبھا سکیں گی؟ اور کیا فوجی جرنیلوں کی موجودگی میں اُن کی پالیسیاں اور اقدامات کو ارباب اقتدار میں پذیرائی مل سکے گی؟ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ میانمار کے عوام کی حمایت سے اقتدار میں آنے والی آنگ سان سوچی روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے کیا کرتی ہیں؟
روہنگیا مسلمان بھی انتخابات کے ذریعے آنے والی اس تبدیلی سے امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو قانونی حیثیت دے کر انھیں میانمار کا شہری تسلیم کرنا تو ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا، لیکن اگر آنگ سان سوچی اُن کے حالات زندگی میں ہی کچھ مثبت تبدیلیاں لانے میں کام یاب ہوگئیں تو ابتدائی طور پر روہنگیا مسلمانوں کو کچھ اطمینان وسکون مل جائے گا۔
اب کچھ مختصر تفصیلات آنگ سان سوچی کی زندگی اور سیاسی سفر کے حوالے سے نذرقارئین ہیں:
19 جون 1945 کو جنم لینے والی آنگ سان سوچی کی ساری زندگی حزب اختلاف میں گزری ہے۔ وہ گذشتہ دہائیوں میں موجودہ میانمار میں اقتدار سنبھالنے والی شخصیات اور حکومتوں کی پالیسیوں اور اقدامات کی سخت ناقد رہی ہیں۔ برمی عوام کے لیے اُن کی شخصیت کرشماتی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کو آنگ سان سوچی کی شخصیت کی وجہ سے ہی زبردست انتخابی کام یابی ملی ہے۔
یاد رہے کہ 1990 میں ہونے والے انتخابات میں بھی سوچی کی جماعت نے 59 فی صد ووٹ حاصل کیے تھے اور پارلیمنٹ کی 485 نشستوں میں سے 392 نشستیں جیت لی تھیں۔
اس وقت بھی سب کو خاص طور پر آنگ سان سوچی کے مداحوں کو تقریباً یقین تھا کہ اب اُن کی پسندیدہ لیڈر اقتدار سنبھالیں گی، لیکن الیکشن سے قبل ہی نظر بند کی جانے والی آنگ سان سوچی کی نظربندی طویل سے طویل تر ہوتی چلی گئی اور وہ تقریباً اٹھارہ سال سے زاید عرصے تک نظربندی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئیں۔ نومبر 2010 میں میانمار پر برسراقتدار لوگوں نے سوچی کی نظر بندی ختم کی، عالمی میڈیا کے مطابق آنگ سان سوچی کو دنیا کی نمایاں ترین سیاسی قیدی کی حیثیت حاصل ہے۔
طویل اور تاریخی سیاسی جدوجہد اور عوام کے حقوق کی آواز اٹھانے اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے کام کرنے کے اعتراف میں آنگ سان سوچی کو1990 میں رافٹو ایوارڈ (Rafto Prize) اور سخاروف پرائز ( Sakharov Prize ) بھی ملے۔ انھیں امن کا نوبیل انعام بھی ملا ہے۔
اس کے علاوہ 1992 میں سوچی کو بھارتی حکومت کی جانب سے جواہر لال نہرو ایوارڈ اور وینزویلا سے سائمن بولیور پرائز (Simón Bolívar Prize) بھی ملے، جب کہ 2012 میں پاکستان نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے اور جدوجہد کرنے پر انھیں ''شہید بینظیر بھٹو ایوارڈ برائے جمہوریت '' دیا۔ سوچی کے پاس امریکا کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ (Presidential Medal of Freedom) بھی ہے۔ یہ اور ان کے علاوہ دیگر عالمی ایوارڈ و اعزازات اس بات کا ثبوت ہیں کہ دنیا بھر میں آنگ سان سوچی کی جمہوریت کے لیے جدوجہد کو تسلیم کیا جاتا ہے اور انھیں ایک ایسی سیاسی شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے، جس نے اپنی ساری زندگی جمہوریت کی بحالی کے لیے وقف کردی۔
میانمار کے صدر کی حیثیت سے کام کرنے کی خواہش کا اظہار آنگ سان سوچی نے جون 2013 میں اس وقت کیا جب ورلڈ اکنامک فورم کی ویب سائٹ پر اُن کی جانب سے ایک بیان سامنے آٰیا کہ وہ اپنے ملک میں بطور صدر کام کرنا چاہتی ہیں۔
تاہم موجودہ صورت حال میں میانمار کے آئین و قانون کے مطابق آنگ سان سوچی ملک کی صدر نہیں بن سکتیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی ہے جو میانمار (برما) کا شہری نہیں، آئین کے مطابق اس قانونی رکاوٹ کو دور کرنے تک سوچی کے صدر بننے کا کوئی امکان نہیں اور اس معاملے کو سلجھانے کے لیے انھیں فوجی قانون سازوں کی اجازت لینا ہوگی ۔
اگر ہم آنگ سان سوچی کے نام کو دیکھیں تو اس کے کئی حصے ہیں، ''آنگ سان (Aung San)''، اُن کے والد، ''سُو (Suu)'' ان کی نانی اور ''کی یا چی (Kyi) '' اُن کی والدہ کے نام کا حصہ ہے۔ برمی عوام اُن کے نام کے ساتھ بطور احترام ''آنٹی '' بھی شامل کرتے ہیں۔
دیکھا جائے تو آنگ سان سوچی کے سیاسی سفر کا آغاز 1988 میں اس وقت ہوا جب وہ برما (میانمار) واپس آئیں، اُن کی واپسی کے ساتھ ہی طویل عرصے سے برسراقتدار فوجی حکم راں جنرل نے ون نے اقتدار چھوڑدیا۔ 8 اگست 1988 کو جمہوریت کے لیے شروع ہونے والی تحریک کو اپنے منفرد اعداد کی وجہ سے میانمار میں بہت اہمیت حاصل ہے۔
یعنی 8-8-88 ، لیکن سوچی کی شعلہ فشاں تقریروں اور لاکھوں کے مجمع سے خطاب کے باوجود اُسی سال ستمبر میں ایک اور فوجی جنرل نے عنان اقتدار سنبھال لی۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران نظر بندی اور عارضی رہائی کے دوران آنگ سان سوچی پر کئی بار قاتلانہ حملے بھی کیے گئے، تاکہ انھیں راستے سے ہٹایا جاسکے، لیکن اُن کے دشمن اپنی اس مذموم سازش میں کام یاب نہیں ہوسکے۔
آنگ سان سوچی کی سیاسی زندگی کا مقصد پُرامن جمہوری جدوجہد ہے۔ انھوں نے ہی 1988 میں اپنی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی بنیاد رکھی۔ لیکن 1989-90 میں نظربند ہونے کے بعد انھیں صرف ایک صورت میں رہائی کی پیش کش کی گئی کہ اگر وہ ملک چھوڑدیں تو نظر بندی ختم کی جاسکتی ہے، لیکن سیاسی دبائو، پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ اور حکم رانوں کے جبر کے باوجود آنگ سان سوچی ڈٹی رہیں۔ 20 سال کی نظر بندی کے عرصے میں انھیں وقفے وقفے سے کچھ دنوں کے لیے رہائی بھی ملتی رہی، لیکن انھیں کبھی بھی باضابطہ طور پر پروانۂ رہائی نہیں ملا۔
دو دہائیوں سے زاید عرصے بعد اب انھیں اپنی جدوجہد اور صبر کا پھل مل گیا ہے، لیکن یہ بھی سوالیہ نشان ہے کہ کیا میانمار کی فوج آنگ سان سوچی کی اس شان دار فتح کو آسانی سے ہضم کرپائے گی؟ اس کا جواب آنے والے دنوں میں مل ہی جائے گا۔ ایسے کچھ اشارے مل رہے ہیں کہ فوجی حکم رانوں نے این ایل ڈی کی پارٹی کی فتح کو تسلیم کرنے اور آنگ سان سوچی کی حکومت سے تعاون کا عندیہ دیا ہے لیکن اصل صورت حال کچھ دنوں میں ہی واضح ہوگی۔
2012 اور پھر رواں سال میں جب روہنگیا مسلمانوں پر ظلم وستم، قتل عام اور مسلسل زیادتیوں کے واقعات پر پوری دنیا چیخ رہی تھی تو آنگ سان سوچی کی خاموشی کو بھی عالمی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سوچی کی پراسرار خاموشی معنی خیز بھی تھی اور باعث ِحیرت بھی کہ ایک ایسی لیڈر جو عوام کے حقوق کے لیے ساری زندگی آواز اٹھاتی رہی، روہنگیا مسلمانوں کی ابتر حالت پر خاموش کیوں ہے اور اس کی کیا وجوہ ہیں؟ سوچی کی خاموشی پر یہ بھی خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ وہ برمی عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس معاملے پر خاموش ہیں۔
مہاتماگاندھی اور مہاتما بدھ کی تعلیمات سے متاثر اور اُن پر عمل کرنے والی آنگ سان سوچی کے لیے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار بہتر بنانا بہت ضروری ہے، ورنہ اُن کی ساری جدوجہد، کامی ابی اور عوامی پذیرائی پس منظر میں چلی جائے گی۔ اس حوالے سے آنگ سان سوچی اور ان کی پارٹی کو انسانی ہم دردی کے تحت فیصلے کرنے ہوں گے۔
ابھی انتخابات کے غیرحتمی نتائج آئے ہیں، حتمی نتائج آنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا اور اس کے بعد ہی صورت حال واضح ہوگی کہ میانمار کی مسنداقتدار پر آنگ سان سوچی کو بیٹھنا نصیب ہوتا ہے یا نہیں؟
آنگ سانی سوچیکے حریفوں پر کیا گزری
میانمار میں سوچی کی جماعت کے بعد دوسری بڑی پارٹی فوجی حکام کی سرپرستی میں یونین سالیڈیریٹی اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (USDP) ہے۔
راکھینا اسٹیٹ میں ایک اور پارٹی آراکان نیشنل پارٹی کے چیئرمین آئے مانگAye Maung) ( راکھینہ ریاست میں اپنی نشست سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے، انھیں این ایل ڈی کے امیدوار نے ہی ہرایا۔
قومیتوں کے ایوان یعنی (House of Nationalities) کی مجموعی طور پر 224 نشستوں میں سے آنگ سان سوچی کی جماعت 134 نشستیں جیت گئی۔ یو ایس ڈی پی کو 12، اراکان نیشنل پارٹی کو 7 نشستیں مل سکیں۔ مون نیشنل پارٹی، پی این او، زیڈ سی ڈی بھی چند حلقوں میں کامیاب ٹھیریں جب کہ ایک سیٹ آزاد امیدوار کو ملی۔ بعض جماعتوں کو تو ایک ایک سیٹ پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
ایوان نمائندگان یعنی (House of Representatives) میں مجموعی نشستیں 440 ہیں جن میں سے 330 پر الیکشن ہوئے۔ آنگ سان سوچی کی پارٹی نے یہاں 253 نشستیں جیت کر واضح برتری حاصل کرلی ہے۔ یو ایس ڈی پی اس ایوان کی 29نشستیں جیت سکی جب کہ ایس این ایل ڈی کو 12، اراکان نیشنل پارٹی (اے این پی) کو 8 حلقوں میں کام یابی ملی۔
آنگ سان سوچی کی اس فقیدالمثال کام یابی کو کئی سیاسی جماعتوں نے ملکی نظام کے لیے خوش آئند بھی قرار دیا ہے۔ کچھ راہ نمائوں کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ این ایل ڈی کی اس کام یابی سے ملکی حالات کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے۔ دوسری جانب آنگ سان سوچی کے مخالف بعض عناصر انتخابی نتائج پر شکوک و شبہات کا بھی اظہار کررہے ہیں لیکن ان کی تنقید اور تحفظات کو فی الحال زیادہ پذیرائی نہیں مل پارہی۔
الیکشن لڑنے والی تمام جماعتوں نے اپنے ووٹروں سے میانمار میں قانون کی حکم رانی، سستے انصاف، جمہوری اقدار کے فروغ ، امن وامان اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے وعدے کیے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ اسمبلی میں جانے والے کس طرح اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہیں اور وعدے وفا نہ کرنے کی صورت میں کس کو ذمے دار ٹھیراتے ہیں۔
غیرحتمی انتخابی نتائج کے فوری بعد حکم راں فوج کی جانب سے بھی ایک بیان سامنے آیا ہے، جس میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ یہ خبر آنگ سان سوچی کے مداحوں کے لیے امید افزا ہے، لیکن حکومت سازی کا اصل مرحلہ حتمی نتائج کے بعد ہی شروع ہوگا جس میں ابھی کافی وقت ہے۔