یونیورسٹیوں میں سائنس کی تعلیم اردومیں ہونی چاہیے ڈاکٹر منوراحمد انیس
معروف اسکالر، مصنف اور محقق ڈاکٹر منور احمد انیس سے خصوصی مکالمہ
بین الاقوامی شہرت یافتہ اسکالر اور محقق ڈاکٹرمنور احمد انیس نے سائنس، مذہب اور اخلاقیات کے شعبوں میں گراں قدر کام کیا ہے۔ ان موضوعات پر ان کی نصف درجن کتابیں اور سیکڑوں مضامین شائع ہو چکے ہیں۔
مذہب اور سائنس سے متعلق مختلف قابل قدر انسائیکلوپیڈیاز میں ان کے کام کو جگہ دی گئی ہے، اس کے علاوہ وہ کئی تحقیقی مجلوں کے ادارتی بورڈز میں شامل ہیں۔ وہ یونیورسٹی آف کیمبرج کی انٹرنیشنل سوسائٹی فار سائنس اینڈ ریلیجن کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ ٹیمپلٹن فائونڈیشن، امریکا سے بھی وہ منسلک ہیں۔ کچھ برس انہوں نے ملائیشیا کے سابق نائب وزیراعظم انور ابراہیم کے مشیر اور سپیچ رائٹر کی حیثیت سے خدمات بھی سرانجام دیں۔ 2002ء میں انہیں نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
گزشتہ دنوں ادارہ علوم ابلاغیات، پنجاب یونیورسٹی، لاہور کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں، ڈاکٹر منور انیس کو سننے کا اتفاق ہوا۔ بعد ازاں ''ایکسپریس'' کے لیے ایک نشست میں ان سے مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی، یہ خصوصی گفتگو قارئین کی نذر کی جا رہی ہے۔
٭٭٭
ایکسپریس: اسلام ایک دین یا مذہب ہے، دوسری طرف سائنس حصول علم کا ایک طریقہ ہے، جسے سائنٹفک میتھڈ کہتے ہیں۔ آپ ''اسلام اور سائنس'' کی ترکیب کو کیسے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر منور انیس: پہلی بات یہ کہ ہمارے ہاں غلط نظریہ زور پکڑ گیا ہے کہ قرآن مجید سائنس کی کتاب ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے۔ قرآن ایک Normative کتاب ہے، جس میں بنیادی اصول، ہدایات، قوانین بتا کر قیامت تک کے لیے ہماری رہنمائی کاسامان کیا گیا ہے۔ قرآن اگر Normative کتاب نہ ہو تو نعوذباللہ مختلف ٹائم اور سپیس (زمان و مکان) میں آ کر غلط ثابت ہو جائے۔ لیکن یہ غلط ثابت نہیں ہو سکتی۔ حصول علم کے بنیادی طور پر دو ذرائع ہیں۔
الہامی اور روحانی علم خدا کی طرف سے حاصل ہوتا ہے، جبکہ انسانی علم انسان سے۔ قرآن پاک میں زیر زبر کی تبدیلی ممکن نہیں۔ سائنس ایک انسانی علم ہے، وہ تبدیلی کا شکار رہتی ہے۔ آج کے سائنسی نظریات 50 سال بعد غلط ثابت ہو جائیں گے۔ لہذا آپ جب کہیں گے کہ سائنس نے قرآن کے سچ کو ثابت کر دیا ہے تو یہ غلط بات ہے۔
قرآن کو کوئی ضرورت نہیں کہ کوئی ایرا غیرا اس کی سچائی کو ثابت کرتا پھرے۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ میں کوئی کتاب لکھوں اور آپ سے کہوں کہ اس پر تبصرہ کر کے اس کتاب کی وقعت بڑھا دیں۔ قرآن ایسی کتاب ہرگز نہیں ہے۔ یہ کسی انسان کی طرف سے تصدیق کی محتاج نہیں۔ قرآن کی سچائی تو پہلے سے ہی ثابت ہے۔ ذلک الکتاب لاریب فیہ۔ قرآن نے اپنی سچائی کو اعلان کر دیا ہے۔ اب جب آپ سائنس کو بیچ میں لاتے ہیں تو گڑبڑ ہو جاتی ہے۔
مثال کے طور پر آج کسی سائنسی تحقیق کی روشنی میں کوئی نئی بات سامنے آتی ہے، آپ اس کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ قرآن کی فلاں آیت میں بھی اس طرح کی بات کہی گئی ہے، اس لیے قرآن خدا کی سچی کتاب ہے۔ لیکن آج سے 50 سال بعد جب یہ سائنسی تھیوری تبدیل ہو جائے گی، تو پھر آپ کیا کریں گے؟ سائنسی علوم انسانی کاوش ہیں۔ وہ تبدیل اور غلط ثابت ہو سکتے ہیں، لہذا ان کے ذریعے قرآن کی سچائی ثابت کرنا بالکل غلط ہے۔
ایکسپریس: پھر آپ ''اسلام اور سائنس'' کی ترکیب کے متعلق کیا کہیں گے؟ یہ درست ہے تو ''عیسائیت اور سائنس'' یا ''ہندوازم اور سائنس'' بھی ٹھیک ہونی چاہیں؟
ڈاکٹر منور انیس: فلاسفی آف سائنس یہ ہے کہ کائنات کو کنٹرول کرنا ہے۔ راجر بیکن نے کہا تھا:
Nature reveals its secrets under torture (قدرت اپنے راز تشدد کے ذریعے عیاں کرتی ہے)
قرآن پاک ہمیں کائنات پر غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ اسلام کے اخلاقی احکامات اور سائنس کی فلاسفی میں بنیادی فرق ہے۔ اسلام یہ کائنات ایک امانت کے طور پر انسان کو دیتا ہے کہ تم اس سے شعور حاصل کرو اور استفادہ کرو۔ سائنس کہتی ہے کہ نہیں تم توڑ پھوڑ کرو اور مسخر کرو۔ اس سے کوئی شعور حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ اس پس منظر میں ہم ''اسلام اور سائنس'' کی بات کرتے ہیں۔ اسلامک سائنس کی بات کرتے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ اسلامک پروٹان ہے اور وہ کرسچن نیوٹران ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اصل میں یہ ورلڈ ویو (world view) کا معاملہ ہے کہ آپ دنیا کو کس تناظر سے دیکھتے ہیں۔ قرآن مجید میں 800 سے زیادہ جگہ پر مختلف انداز میں علم حاصل کرنے پر زور دیا گیا ہے، اور علم نافع کی بات کی گئی ہے، نقصان دہ علم جیسے جادو وغیرہ سیکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ صرف سائنس کے ماننے والے ہیروک امیج آف سائنس (Heroic image of Science) کے قائل ہیں۔ یعنی ان کی نظر میں سائنس ہیرو ہے اور سب کچھ اس کی مدد سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اب ویسے ان کو کچھ عقل آئی ہے اور انہیں اپنی محدودات کا علم ہوا ہے۔ چنانچہ یہ ورلڈ ویو کی بات ہے کہ اسلامی فلاسفی کیا ہے اور سائنس کیا کہتی ہے۔
ایکسپریس: جو لوگ صرف سائنس کو مانتے ہیں، وہ ''اسلام اور سائنس'' یا ''مذہب اور سائنس'' کی بات کو کیسے قبول کریں گے؟
ڈاکٹر منور انیس: سائنس اب مجبور ہے کہ اپنے ورلڈ ویو کو تبدیل کرے۔ پہلے اصرار تھا کہ پوری دنیا کو سائنسی اصولوں پر چلایا جا سکتا ہے۔ وہ قابل تصدیق ثبوت (verifiable evidence) کی بات کرتے تھے۔ کسی زمانے میں ''سائنٹفک مینجمنٹ'' کے نام سے ایک تحریک چلی تھی، یعنی سب کچھ سائنسی انداز میں چلایا جائے۔
مگر اب یہ نظریہ ایک مذاق ہے۔ انسان مشین نہیں ہے، انسان صرف کیلشیم، پوٹاشیم کا مجموعہ نہیں ہے۔ جو انفرادی خواص آپس میں مل کر انسان کی تشکیل کرتے ہیں، وہ مربوط شکل میں مختلف انسان بناتے ہیں۔ سائنس ان انفرادی اجزا کو تو بیان کر سکتی ہے، لیکن مجموعی شکل میں جو انسان ہوتا ہے، اس کی وضاحت نہیں کرتی۔ تو یہ ورلڈ ویو کی بات ہے۔ دوسری بات بلیف یعنی عقیدے کی ہے۔ اگر آپ مسلمان نہیں ہیں، جو دلائل یا باتیں ہم نے پیش کی ہیں، اس میں آپ عقلی بنیاد پر کوئی جھول، غلطی دکھا دیں۔ تو یہ بنیادی بات ہے۔
ایکسپریس:کسی زمانے میں مسلمانوں نے سائنسی علوم کی ترویج و ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ لیکن اب اس روایت کو دوبارہ سے زندہ کرنے کے بجائے، ہم مغرب پر اپنے ''احسانات'' گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم دوبارہ عمل، تحقیق اور سائنسی خدمات کی طرف راغب ہو جائیں؟
ڈاکٹر منور انیس: ایک زمانے میں مسلمانوں کی تہذیب کو سولائزیشن آف بک، یعنی کتاب کی تہذیب کہا جاتا تھا۔کیونکہ مسلمان پڑھائی لکھائی میں مصروف رہتے تھے۔ ہندی ، یونانی اور دوسری زبانوں میں جو علوم موجود تھے، مسلمانوں نے ان کو اکٹھا کیا اور ترجمہ کر کے عربی میں منتقل کیا۔ دنیا کی جو سب سے پہلی ببلیوگرافی (Bibliography) ہے، وہ مسلمان کے نام سے ہے۔ اس کا نام ہے ابن الندیم الوراق اور یہ مسلمانوں کی تاریخ کے پہلے 400 سال کا ریکارڈ ہے۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں اس کے بعد، پچھلے 700 سال کے دوران کون سی کتاب ہے، جو مسلمان نے لکھی ہے، یا کون سی ایجاد ہے، جو مسلمان نے کی ہے۔ بطور خاص جسے ہم نشاۃ ثانیہ اور جدیدیت کا دور کہتے ہیں، اس کے بعد سے مسلمانوں کی علمی خدمات کیا ہیں؟ کہنے کا مطلب ہے کہ جس زمانے میں آپ نے محنت اور تحقیق کی، اس دور میں آپ کا کام سامنے آیا۔ لیکن یہ اس دور کی بات ہے۔ آج مسلمان علم کی پیداوار (production of knowledge) نہیں کر رہے، وہ صارف ہیں۔
ہر دور کی تہذیب نے اپنے وقت میں کنٹری بیوشن دی۔ کیا پرشین تہذیب کی کوئی خدمات نہیں تھیں؟ کیا ہندی تہذیب کی کوئی کنٹری بیوشن نہیں تھی؟ اسی طرح اپنے وقت پر مسلمانوں نے بھی کنٹری بیوشن دی۔ لیکن اب یہ ''پدرم سلطان بود'' کی بات کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم اسی روح کو پیدا کریں، جس نے ''الفہرس'' کے ابن الندیم الوراق کو پیدا کیا۔ یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ آپ اسی تہذیب کے کنزیومر (صارف) ہو کے اس کا مذاق اڑاتے ہو۔ یعنی آپ لائوڈ اسپیکر پہ اعلان کرتے ہو کہ لائوڈ اسپیکر حرام ہے۔ تو یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے مسلم دنیا کے لیے۔
جتنے بھی سوشل انڈیکیٹر ہیں ترقی کے، مثلاً علم کی شرح، دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی رینکنگ، سائنٹفک پروڈکٹویٹی وغیرہ۔ آپ دیکھ لیں، بحثیت مجموعی مسلمان ممالک سب سے نیچے ہیں۔ دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی، تیونس میں الکیروان یونیورسٹی تھی اور یہ عورت نے بنائی تھی۔ ہمارے ہاں ابھی تک یہ بحث چل رہی ہے کہ عورتوں کی تعلیم صحیح ہے یا غلط۔ مغربی بنگال، ہندوستان کے ایک کالج میں، خواجہ سرا لیکچرار کو میرٹ پر پرنسپل بنا دیا جاتاہے، ہم اب آ کر یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ خواجہ سرائوں کو شناختی کارڈ ایشو کیے جائیں۔
ایکسپریس: کچھ عرصہ پہلے بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا گیا کہ پولیو کے قطرے، آگے چل کر بچوں کی جنسی صلاحیت پر اثر انداز ہوتے ہیں، جس سے لوگ اس کے متعلق شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گئے اور اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا۔ آپ اس فیلڈ کے آدمی ہیں، ہمیں بتائیں کہ حقیقت کیا ہے؟
ڈاکٹر منور انیس: مجھے یاد ہے حکومت نے 60 کی دہائی میں برتھ کنٹرول پروگرام شروع کیا تھا۔ اس پر بھی اس زمانے میں اعتراض ہوا۔ اس کو امریکی، یہودی سازش کہا گیا۔ حالانکہ کلاسیکل اسلامی لٹریچر کے مطابق برتھ کنٹرول کی اجازت ہے۔ یہی حال پولیو کا ہے۔
ہمارا جسم اللہ تعالی کی امانت ہے۔ اس لیے اسلام میں خودکشی کی ممانعت ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو زندہ نہیں کیا، لہذا ہم اپنے آپ کو مار بھی نہیں سکتے۔ اس لیے اپنے جسم اور صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ہمیں جو دعا سکھائی جاتی ہے: ربنا آتنا فی الدنیا۔۔۔ ہمارے رب، ہمیں دنیا میں بھی آسانیاں عطا فرما اور آخرت میں بھی۔
بہت سی احادیث نبوی ﷺ میں صحت کا خیال رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ ہماری عبادات، روزہ، نماز، وضو وغیرہ، ہماری صحت پر بہت اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں کہ پولیو کے قطرے پینے سے، مستقبل کی زندگی میں جنسی صلاحیت پر کوئی منفی اثر پڑتا ہے، یا صحت متاثر ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں بچوں نے پولیو کے قطرے پیے ہیں، لیکن ایسی کوئی بھی ریسرچ کبھی سامنے نہیں آئی۔ چنانچہ پولیو کے قطروں کے بارے میں یہ منفی تاثر سراسر بے بنیاد ہے۔
ایکسپریس: بائیو ایتھکس (Bio-ethics) اور اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں آپ پاکستان میں سیکس (Sex) کی تعلیم کے متعلق کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر منور انیس: دوسرے مذاہب کے برعکس اسلام میں سیکس کو مثبت سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں لفظ 'سیکس' سے برا مطلب مراد لیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں شوہر اور بیوی کے درمیان جنسی تعلق کا ذکر ملتا ہے، لیکن غیر قانونی جنسی تعلقات، ہم جنس پرستی اور زنا کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔ احادیث نبوی ﷺ میں کئی جگہوں پر شوہر اور بیوی کے درمیان جنسی تعلق اور اس سے متعلقہ مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔
فقہ کے مطابق جنسی صلاحیت کے قابل نہ ہونا، کسی شادی کو ختم کرنے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ چنانچہ ہمیں سیکس ایجوکیشن کی طرف مثبت انداز میں دیکھنا چاہیے۔ سیکس کے لفظ کو منفی تصورات، جیسے پورنوگرافی، ہم جنس پرستی اور زنا سے بچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ درحقیقت مثبت انداز میں سکیس کی تعلیم، ہماری کچھ معاشرتی برائیوں کو ختم کر دے گی۔ سیکس ایجوکیشن میں، اس کے بایولوجیکل پہلو اور مختلف مراحل کو واضح کرنا چاہیے اور یہ بتانا چاہیے کہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس کے بارے میں ہماری اخلاقی ذمہ داریاں کیا ہیں۔
ایکسپریس: ہمارا نظام تعلیم اچھے ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے پروفیشنلز تو پیدا کر رہا ہے، لیکن اچھے معیار کے سائنسدان پیدا نہیں کر رہا۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا یونیورسٹی کی سطح پر سائنس کی تعلیم اردو میں ہونی چاہیے اور یہ اچھے نتائج سامنے لا سکتی ہے؟
ڈاکٹر منور انیس: نیوکلیئر فزکس کے علاوہ، جہاں ہمارے قابل سائنسدانوں نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا ہے، سائنس کے دیگر شعبوں میں، ہمارے سائنسدانوں نے کسی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سائنٹفک جرنل رینکنگ (SJR) کے مطابق، پاکستان 46ویں درجے پر ہے، جبکہ بھارت 9ویں درجے پہ موجود ہے۔ سائنسی میدان میں ہم اس لیے پیچھے رہ گئے ہیں کہ ہم نے پاکستان میں سائنسی کلچر پیدا ہی نہیں کیا۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں سرقہ بازی کا چلن عام ہو گیا ہے۔
آئے دن اخبارات میں خبریں چھپتی رہتی ہیں کہ فلاں یونیورسٹی کا وی سی سرقہ بازی میں پکڑا گیا وغیرہ۔ جب تک ہم اپنے تعلیمی نظام میں شفافیت اور ایمانداری نہیں لائیں گے، ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کو اپنی قومی ذمہ داری نہیں بنایا، تعلیم اور سائنس پر ہم بہت کم خرچ کرتے ہیں، جسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ زبان تعلیم میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ میری رائے کے مطابق سائنس اردو میں پڑھائی جا سکتی ہے اور اسے اردو میں پڑھانا بھی چاہیے۔
عرب سائنس کو عربی میں پڑھاتے ہیں، روسی رشین زبان میں سائنس پڑھاتے ہیں، اور چائنا والے چینی زبان میں۔ انہوں نے یہ جھوٹا دعوی نہیں کیا کہ قومی زبان میں سائنس پڑھانے سے اس کے خاطرخواہ نتائج نہیں نکلتے۔ قیام پاکستان سے پہلے، عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد میں، سائنسی علوم اردو زبان میں پڑھائے جاتے تھے۔ انہوں نے سائنسی اصطلاحات کی اردو لغات کی مکمل فہرست تیار کر رکھی تھی۔ چنانچہ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم قومی سطح پر اردو کے ساتھ کیسا سلوک کر رہے ہیں اور اس کو کیا مقام دے رہے ہیں۔
ایکسپریس: دنیا کے تعلیمی اداروں کے مقابلے میں ہمارے ہاں تعلیم و تحقیق کا معیار کیا ہے؟
ڈاکٹر منور انیس: ایشیائی یونیورسٹیوں سے متعلق دی ٹائمز ہائر ایجوکیشن رینکنگ 2015ء کے مطابق ایشیا کی بہترین 100یونیورسٹیوں میں ہماری ایک یونیورسٹی بھی شامل نہیں ہے۔ ہندوستان کی 9یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ انڈیا میں تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار جامعات ہیں، جبکہ پاکستان میں یہ تعداد 160کے قریب ہے۔ لیکن بات تعداد کی نہیں، بلکہ معیار کی ہے۔ پاکستان میں تعلیم کامعیار دیکھ کر رونا آتا ہے۔ پڑھے لکھے ڈگری یافتہ لوگ بھی ڈھنگ سے انگریزی کی دو عبارتیں نہیں لکھ سکتے۔ کسی زمانے میں پی ٹی وی پر جو لوگ خبریں پڑھتے تھے، وہ الفاظ کی درست ادائیگی اور تلفظ کے لیے معیار کا درجہ رکھتے تھے۔
اس کے مقابلے میں آج کل مختلف چینلز کے خواتین و حضرات ہیں، جو چلاتے رہتے ہیں۔ ریسرچ کا یہ عالم ہے کہ اساتذہ اور وائس چانسلر تک کا تحقیقی مقالہ، سرقہ شدہ نکلتا ہے۔ ایچ ای سی کی پالیسی کاغذ پر ضرور موجود ہے، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ طلبا کا اس پر کوئی اطلاق ہے۔ تحقیق کی روح عنقا ہے۔ ہم اس کو میکانکی سرگرمی سمجھتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ نقصان ہوا ہے کہ وہاں جعلی آن لائن جرنلز شائع ہوتے ہیں، جو کسی معیار کو ملحوظ رکھے بغیر، پیسے لے کر مضمون چھاپ دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ سکھایا ہی نہیں جاتا کہ ریسرچ کیا ہوتی ہے، اس کا طریقہ اور ضروریات کیا ہیں، اور اس کے لیے کتنی محنت درکار ہے۔ غیر معیاری ریسرچ سے ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ مغربی ادارے سرقہ بازی کو برداشت نہیں کرتے۔ مصنف اور سی این این کے اینکر فرید زکریا پر الزام لگا کہ اس کے ایک کالم کے کچھ حصے، کسی دوسرے کالم نویس کے کالم سے لیے گئے ہیں۔ سی این این نے اگلے دن ہی اسے معطل کر دیا اور تحقیقات مکمل ہونے تک معطل رکھا گیا۔ اس کو ہم انٹلکچول پراپرٹی کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں انٹلکچول آئوٹ پُٹ کی رسپکٹ نہیں ہے۔
لکھنے والوں کو نہیں پتا کہ کسی چیز کا حوالہ کیسے دینا ہے۔ کاپی رائٹ ایکٹ کا پتا نہیں ہے۔ کتابیں شائع ہو جاتی ہیں، مگر ان پر سن اشاعت اور ایڈیشن نمبر درج نہیں ہوتا۔ طلبا کو ان سب چیزوں کے بارے میں بتانا چاہیے۔
ایکسپریس: آپ کے خیال میں مذہبی انتہاپسندی اور عدم برداشت کا تدارک کیسے ممکن ہے؟
ڈاکٹر منور انیس: قائداعظمؒ نے پاکستان کا جو تصور پیش کیا تھا کہ آپ اپنی مساجد، مندر، چرچ وغیرہ جانے کے لیے آزاد ہیں، یہ تصور قائداعظم نے نہیں دیا، بلکہ یہ اسلامی تصور ہے۔
اگر ہندوستان میں مسلمانوں نے بزور شمشیر لوگوں کو مسلمان کیا ہوتا، وہاں آج ہندو نہ ہوتے۔ انڈونیشیا، جو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلمان ملک ہے، وہاں تو کسی نے لشکرکشی نہیں کی۔
وسط ایشیا، ترکمانستان، کرغزستان، وغیرہ یہاں کون سی مسلمان فوجیں گئیں تھیں؟ کاشغر (چائنا) میں مسلمانوں کی جواکثریت ہے، وہ آسمان سے تو نہیں اترے۔ یہ سب اسلام کے پیغام سے ممکن ہوا ہے۔ ہم چودہ سو سال بعد دنیا میں صرف 23 فیصد ہیں، اگر دوسرے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینی ہے تو ہمیں اپنے عمل سے ان کو اپنی طرف لانا ہو گا۔ ہمارے دین میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے، مگر پاکستان کا شمار دنیا کے گندے ملکوں میں ہوتا ہے۔ ہم لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن اسلامی احکامات پر عمل نہیں کرتے۔
ایکسپریس: پاکستان کو ترقی یافتہ اور پرامن بنانے کے لیے کون سی بنیادی تبدیلیاں درکار ہیں؟
ڈاکٹر منور انیس: اقلیتوں کو تحفظ دینا ضروری ہے۔ وہ پاکستانی ہیں، چاہے ان کا کسی بھی مذہب یا عقیدے سے تعلق ہے۔ ہمیں خود اپنا احتساب کرتے ہوئے اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ اقوام عالم میں ہمارا مقام کیا ہے۔ سب سے اہم بات نظام تعلیم ہے۔ ہمارے نظام تعلیم میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ یہ ہماری قومی شخصیت کی تعمیر نہیں کرتا۔ دوسرے الفاظ میں یہ ہمارے اندر ''پاکستانیت'' پیدا نہیں کرتا۔ قومی شخصیت کا تعین زبان سے ہوتا ہے، اور ہم نے اردو زبان پر ظلم کیا۔ جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے اردو زبان کے حق میں فیصلہ دے کر بہت اچھا کیا ہے۔ اردو زبان کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے ہماری قومی شخصیت کی تعمیر نہیں ہو سکی۔ ہم پنجابی، پٹھان، بلوچی اور سندھی وغیرہ تو ہیں، لیکن پاکستانی نہیں ہیں۔ جب تک قومی شخصیت کا تعین نہیں ہو گا، ہمیں پتا نہیں چلے گا کہ ہم کون ہیں اور ہمارا کردار کیا ہے۔
ڈاکٹر منور انیس 27 ستمبر 1948ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی انہیں کتابیں پڑھنے کا شوق تھا، پانچویں جماعت میں ''انیس لائبریری'' کے نام سے اپنی لائبریری بنا لی۔ قرآن مجید کی تعلیم کے لیے والد صاحب نے گھرمیں ہی استاد کا بندوبست کر دیا تھا۔ میٹرک کرنے کے بعد ایف ایس سی، پری میڈیکل میں داخلہ لے لیا۔ فرسٹ ایئر میں کالج کی لائبریری میں ''اسلامک ایجوکیشن'' کے نام سے ایک رسالہ دیکھا، جو بہت پسند آیا۔ ان دنوں انہوں نے سٹینلے ملر کا زندگی کے آغاز کے بارے میں experiment پڑھا تھا، جس میں پہلی بار زندگی کی ابتدا کی سائنسی انداز میں وضاحت کی گئی تھی۔
طالب علم منور انیس سمجھتے تھے کہ کسی خالق کے بغیر کائنات کا اس قدر پیچیدہ نظام، کس طرح ہم آہنگی اور بغیر کسی سقم کے چل سکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے میگزین کے ایڈیٹر کو خط لکھا کہ وہ اس موضوع پر ایک مضمون لکھنا چاہتے ہیں۔ ایڈیٹر ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے، جو اقبالیات پر اتھارٹی تھے، جوابی خط میں ان کی حوصلہ افزائی کی اور مشورہ دیا کہ انہیں میڈیکل ڈاکٹر کے بجائے بیالوجسٹ بننا چاہیے۔ تاکہ وہ بیالوجیکل فینامنا (phenomenon) سے ظاہر کر سکیں کہ یہ کائنات خدا نے تخلیق کی ہے۔ خط میں انہوں نے یہ بھی لکھا:You have an old head on young shoulders (تمھارے جوان کندھوں پر ایک بوڑھا دماغ ہے)
1968ء میں ''اسلامک ایجوکیشن'' میں "Cell Reveals God" کے عنوان سے ان کا پہلا مضمون شائع ہوا۔ منور انیس نے زوالوجی میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ 1976ء میں انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا، لیکن اکیڈمی کی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ جرمانے کے طور پر اس زمانے میں والد کو 20 ہزار روپے ادا کرنے پڑے۔ مزید تعلیم کے لیے وہ انڈیانا (امریکا) چلے گئے۔
پی ایچ ڈی میں فلاسفی آف سائنس کے سیمنار کے لیے انہوں نے ''اسلام اور سائنس'' کے موضوع پر ریسرچ پیپر لکھنے کا فیصلہ کیا۔ منور انیس کہتے ہیں: ''ڈاکٹر محمد رفیع الدین کا خط اور فلاسفی آف سائنس کا یہ سمینار میرے کریئر کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئے، اس کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں پیور (pure) بیالوجی پر کام نہیں کروں گا، بلکہ آئندہ بیالوجی اور اسلام کے ریلیشن شپ پر میرا فوکس ہو گا۔''
کورس ورک مکمل کرنے کے بعد انہوں نے امریکا میں ایک پبلشنگ کمپنی قائم کی، بعد ازاں کمپیوٹر کے ایک بزنس میں شراکت اختیار کر لی۔ 1986ء میں انہوں نے سائنس ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ برس بعد ملائیشیا چلے گئے، جہاں سیاسی رہنما اور سابق نائب وزیراعظم انور ابراہیم کے مشیر اورتقریر نویس کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ 1998ء میں مہاتیر کی حکومت نے سیاسی اختلافات پر انور ابراہیم اور ان کے بھائی (جسے والدین نے گود لیا تھا) کے علاوہ، ڈاکٹر منور انیس پر بھی ہم جنس پرستی کے جھوٹے الزامات لگائے اور انہیں گرفتار کر لیا۔
انور ابراہیم کے خلاف جھوٹی گواہی دینے کے لیے انہیں بدترین جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انہیں ''ضمیر کے قیدی'' کا خطاب دیا۔ 1999ء میں کچھ عرصہ پاکستان میں قیام کے بعد علاج کے لیے امریکا چلے گئے، جہاں دو سال تک وہ زیر علاج رہے۔ صحت کی بحالی کے بعد انہوں نے پڑھنے لکھنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور امریکا میں ٹیمپلٹن فائونڈیشن سے وابستہ ہو گئے۔
ڈاکٹر منور انیس آج کل لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ ''انسٹیٹیوٹ فار ریلیجن، سائنس اینڈ ایتھکس'' کے نام سے اپنے ایک ادارے کے قیام کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں، جو پاکستان میں اپنی نوعیت کا منفرد ادارہ ہو گا۔ بیٹی عائشہ نے فرانس سے سائیکاٹرسٹ میڈیسن میں سپیشلائزیشن کی ہے، جبکہ صاحبزادے عمران بارایٹ لاء کرنے کے بعد ہیومن رائٹس کی ایک انٹرنیشنل آرگنائزیشن سے وابستہ ہیں۔
ڈاکٹر منور انیس کی کتاب ''اسلام اینڈ بیالوجیکل فیوچرز'' اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک منفرد کتاب ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ جدید دنیا میں بیالوجی جس طرح کے مسائل ( مثلاً سروگیسی، ٹیسٹ ٹیوب بے بی، کلوننگ) پیش کر رہی ہے، اس پر اسلامی نقطہ نظر کیا ہے۔ ڈاکٹر منور انیس کا کہنا ہے، ''ایک طرف فقہ ہے اور دوسری طرف ان چیزوں کے پروسیجر کا علم ہے۔ ہمارے ہاں ان چیزوں کے پروسیجر کو سمجھے بغیر فتوی دے دیا جاتا ہے، جو کہ غلط ہے۔ جس چیز کے متعلق آپ فتوی دے رہے ہیں، اس کے بارے میں آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ ہے کیا، پھر آپ کو اس پر فقہ کے اصولوں کا اطلاق کرنا چاہیے۔
پاکستان میں جو مختلف فرٹیلیٹی کلینکس کام کر رہے ہیں، ان کی ریگولیشن کی سخت ضرورت ہے۔ کسی کو نہیں پتا کہ یہ کون لوگ ہیں اور ان کا طریقہ کار کیا ہے۔ یہ چیز بائیو ایتھکس (اخلاقیات) کے دائرے میں آتی ہے، چنانچہ ایسے کلینکس کی سرکاری سطح پر ریگولیشن ہونی چاہیے۔''
ڈاکٹر انیس کی کتاب ''ہیلتھ سائنسز ان ارلی اسلام'' امریکا کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس کتاب میں اصل عربی متن کا براہ راست انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہے، اس موضوع پر جو دوسری کتابیں ہیں، وہ سیکنڈری سورسز پر مبنی ہیں۔ دو جلدوں میں شائع ہونے والی اس کتاب میں عربی عبارتوں کا عکس بھی شائع کیا گیا ہے۔ "Hadith and Sira Literature in Western Languages: A Bibliographic Study" (مغربی زبانوں میں حدیث اور سیرت لٹریچر) بھی اپنے موضوع اور متن کے اعتبار سے ایک اہم کتاب ہے۔
ڈاکٹر منور انیس نے 1991ء میں کوالالمپور (ملائیشیا) سے پیراڈیکا اسلامیکا (Periodica Islamica) کے نام سے ایک رسالہ شروع کیا تھا، جس میں دنیا بھر سے سکالرز نے اسلام اور مسلم دنیا سے متعلق مختلف موضوعات پر مضامین لکھے۔ وہ انٹرنیشنل جرنل آف اسلامک اینڈ اریبک اسڈیز (بلومنگٹن) ، جرنل آف اسلامک سائنس (علی گڑھ) اور کچھ دوسرے قابل ذکر مجلات کی مجلس ادارت میں شامل ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا آف دی ماڈرن اسلامک ورلڈ (نیویارک) اور انسائیکلوپیڈیا آف دی ہسٹری آف سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ میڈیسن کے علاوہ کئی دوسری کتابوں میں بھی ان کے کام کو شامل کیا گیا ہے۔
ملائیشیا کی ترقی کا راز؟
ملائیشیا کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہاں پر غیر ضروری آزادیاں نہیں ہیں۔ پاکستانی صحافی بہت شور مچاتے ہیں کہ ہم پر بہت ظلم ہوتا ہے اور ہمیں آزادیاں حاصل نہیں ہیں، میں سمجھتا ہوں، جتنی آزادی پاکستانی صحافیوں کو حاصل ہے، اتنی دنیا میں کسی کو حاصل نہیں۔ خیر، اس کے علاوہ انہوں نے انفراسٹرکچر کو سب سے پہلے ڈویلپ کیا۔ بلین ڈالر کا نیا ایئر پورٹ بنایا۔ ہمارے ہاں، ایک موٹر وے بنا کر اس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، ملائیشیا نے پورے ملک میں سٹرکوں کا جال بچھا دیا۔ انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ وہاں مختلف قومیتوں اور مذاہب کو ماننے والے موجود ہیں، بدھسٹ، مسلم ، چائنیز وغیرہ۔ ہر ایک کو اپنے عقیدے کے مطابق آزادی دی۔ ہم نے پاکستان میں اقلیتوں کو تباہ کیا ہے۔
ان کا سلوک بھی آئیڈیل نہیں ہے، لیکن پاکستان کی نسبت بہت فرق ہے۔ وہاں کے سماجی نظام کو زمینی حقائق کے مطابق بنایا۔ ریاست کا مذہب اسلام ہے، کیونکہ مسلمان وہاں اکثریت میں ہیں، اور اس کا وہاں کوئی ایشو نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے سب کو اکاموڈیٹ کیا ہے، چائنیز، سکھوں، بدھسٹ، سب کو۔ دولت کی تقسیم پہ توجہ دی ہے۔ تعلیم پر بھی زور دیا ہے۔ وہاں ٹورازم بڑھ گیا ہے، چھ بلین ڈالر سیاحت کی وجہ سے ملائیشیا کماتا ہے۔ حالانکہ وہاں کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے صرف اپنی ساحلی علاقے کو ڈویلپ کیا ہے اور وہاں فائیو سٹار ہوٹل کھول دیے ہیں۔ تو ان چیزوں نے ان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔
مجھے یاد ہے ، میں جب پہلی دفعہ ملائیشیا گیا، سات بجے کوالالمپور بند ہو جاتا تھا۔ وہاں ایئر پورٹ میں جیٹ طیارہ بھی کھڑا نہیں ہو سکتا تھا، لیکن ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے پانچ سات برسوں میں بلند و بالا ٹاور بنا دیے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری لائے، حوصلہ افزائی کی اور مراعات دیں۔ ٹھیک ہے ادھر بھی کرپشن ہوتی ہے، لیکن آپ کہہ سکتے ہیں کہ 80 فیصد صحیح خرچ ہوتا ہے اور 20 فیصد کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کے برعکس صورتحال ہے۔
مہاتیر اپنے نائب وزیراعظم انور ابراہیم کے خلاف کیوں ہوا؟
انور ابراہیم کو مہاتیر نے گروم کیاکہ یہ میرا جانشین بنے گا۔ 1998ء میں وہ دو مہینے کی چھٹی پر چلا گیا اور انور ابراہیم کو قائم مقام وزیراعظم بنا دیا۔ انور کو میں 1977/78ء سے جانتا ہوں۔ وہ نہایت شریف، متقی اور پرہیز گار آدمی ہے۔ اسلامی امہ پہ یقین رکھتا ہے۔ وہ دقیانوسی خیالات کا حامل نہیں ہے بلکہ جدید سوچ رکھتا ہے۔ پاکستان میں بھی انور ابراہیم کو بہت مقبولیت حاصل ہے۔ اگر وہ کرپٹ ہوتا، اگر اس نے کوئی مالی کرپشن کی تھی تو حکومت نے اسے کیوں نہیں پکڑا؟ وہ چھ دفعہ وزیر پھر نائب وزیر اعظم اور قائممقام وزیراعظم بنا، لیکن اس کے خلاف اکنی کا ثبوت بھی نہیں ہے۔
میں اس کی ایمانداری کی گواہی دیتا ہوں۔ کابینہ کے ایک دوسرے وزیر کے پاس 27 گاڑیاں ہیں، انور کے پاس کبھی مرسیڈیز نہیں تھی۔ ملائیشیا کی بنی ہوئی کار پروٹون ساگا، جو سادہ ماڈل ہے، یہ گاڑی تھی اس کے پاس۔ سوائے آبائی گھر کے، جو اس کے والد ابراہیم صاحب کا تھا، اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اگر کوئی کرپشن کی ہوتی تو اس کے مخالفین نکال باہر لاتے۔ جس وقت انور قائم مقام وزیراعظم تھا، اس وقت یہ اختلافات پیدا ہوئے۔ اختلاف یہ پیدا ہوا کہ انور نے مہاتیر کے بیٹے کی کرپشن کو قانونی تحفظ دینے سے انکار کر دیا۔ کابینہ کے دوسرے ارکان کے بارے میں انتظامیہ کو کہا کہ ان کی کرپشن کو بے نقاب کیا جائے۔ مہاتیر واپس آئے تو ان کے درمیان چپقلش شروع ہو گئی۔ کابینہ کے دوسرے ارکان بھی انور ابراہیم کے خلاف بھرے بیٹھے تھے۔ ان کو لگتا تھا کہ مہاتیر وزارت عظمی انور ابراہیم کو سونپ دے گا اور ہماری شامت آ جائے گی۔
اس لیے اس کے خلاف جو بھی ہو سکتا ہے، وہ کر ڈالو۔ اس کو کسی طرح سے بھی وزیر اعظم بننے سے روک لو۔ چنانچہ اس پرہم جنس پرستی کے جھوٹے الزامات لگا کر گرفتار کر لیا گیا۔ وہاں کی عدلیہ میں بے انتہا کرپشن ہے اور وہ حکومت کے اشاروں پر کام کرتی ہے۔ اب تیسری دفعہ اسے گرفتار کر کے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ پچھلی دفعہ چھ سال کی قید تنہائی کے بعد رہا ہوا تو اس کے پاس اسمبلی میں ایک نشست تھی۔ تین مہینے بعد الیکشن ہوئے، تو اس کی پارٹی کو 86 نشستیں مل گئیں۔ تو ملائیشیا کی حکومت کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ انور کی عوامی سطح پر کیا مقبولیت ہے۔ ان کو خطرہ ہے کہ اس پر سے پابندیاں مکمل طور پر ہٹا دی گئیں، تو حکومت بنانے کے لیے مزید جو نشستیں درکار ہیں، وہ حاصل نہ کرلے۔
ملائیشیا میں بدترین تشدد سہنے کے بعد آپ کی سوچ اور شخصیت میں کیا تبدیلی آئی؟
دو سال علاج کے بعد جب میری صحت کچھ بحال ہوئی، میں اپنی ای میلز دیکھ کر حیران رہ گیا۔ مجھے اس وقت 60 ہزار سے زیادہ ای میلز موصول ہوئیں، جس میں میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔ ہم سنتے آئے ہیں کہ انسان، دوسرے انسان کا دشمن ہوتا ہے، ان کے درمیان نفرت ہوتی ہے وغیرہ۔ لیکن میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ انسانی ہمدردی بہت طاقت ور ہے۔ ہیومین کمپیشن (human compassion) دنیا کو تبدیل کر سکتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کردار سامنے آیا۔
ہم لوگ آزادی کی قدر نہیں کرتے، اسے فار گرانٹڈ لیتے ہیں، لیکن جب آپ کو اپنی آزادی سے محروم کر دیا جائے تو آپ کی زندگی کا وہ حصہ واپس نہیں آ سکتا۔ آزادی کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ ہوا۔ مراشس سے ایک صاحب کا خط ملا جس میں دوسو ڈالر کے نوٹ تھے۔ اس نے لکھا کہ آپ جب انگلستان سے رسالہ 'انکوائری' نکالتے تھے، میں اس وقت سے آپ کو جانتا ہوں۔ میرے پاس اس وقت یہی پونجی ہے، جو میں آپ کو بھجوا رہا ہوں۔ خیر وہ پیسے میں نے واپس بھجوا دیے۔ ایسی ہزاروں مثالیں مجھے ملیں۔ دوستوں نے 'فرینڈز آف ڈاکٹر انیس' کے نام سے ویب سائٹ بنا دی۔ میڈیا کا کردار بھی بہت اہم تھا۔ ایلوین ٹوفلر، جس نے فیوچر ازم پر کام کیا ہے ،اس کی دو مشہور کتابیں ہیں: ''تھرڈ ویو'' اور ''فیوچر شاک'' ۔انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبیون میں اس کا مضمون شائع ہوا۔ اس کی ملائیشیا میں بہت گونج سنائی دی۔
اسلاموفوبیا اور ہمارا ردعمل
اسلاموفوبیا (اسلام دشمنی یا اسلام سے نفرت) پر ہمیں سوچ سمجھ کر پوری ذمہ داری اور معلومات کے ساتھ اپنا ردعمل دینا چاہیے۔ اصلاح احوال کے لیے ردعمل دیتے وقت ہمیں پوری محنت کرنی چاہیے۔ اسلاموفوبیا آج پیدا نہیں ہوا۔ ہمیں انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ بہت بڑھا ہوا نظر آتا ہے۔ آپ ابھی گوگل پر ٹائپ کریں 'اسلاموفوبیا' آپ کو 3 ملین سے زیادہ انٹریز مل جائیں گی۔ شروع کے زمانے میں جن لوگوں نے اسلام کی مخالفت کی، وہ بھی اسلاموفوبک تھے۔
اب جدید دور میں اس کا طریقہ اور سیاق و سباق مختلف ہو گیا ہے۔ لہٰذا پہلے اپنے دشمن کے طریقہ واردات کو سمجھیں اور پھر اس کے مطابق دفاعی حکمت عملی اختیار کریں۔ یوٹیوب پر پابندی یا صرف نعرے بازی سے کام نہیں چلے گا۔ اسلاموفوبک لٹریچر کا جواب دینا چاہیے۔ پچھلے کچھ برسوں میں سیکڑوں کتابیں اسلام اور جہاد کے خلاف آئیں، آپ نے اس کے جواب میں کتنی کتابیں لکھیں؟ تو یہ سیلف ٹاکنگ (خود کلامی) بند کریں۔
ہم کو اسوۂ رسول ﷺ کی روشنی میں اپنا ردعمل دینا چاہیے مگر ہم سیرت نہیں پڑھتے۔ میں ایک نئے ادارے کی فیکلٹی کے انتخاب کے لیے انٹرویو کر رہا تھا، انٹرویو دینے والوں نے اسلامیات کی تعلیم حاصل کی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا کہ سیرت النبی ﷺ کی اولین کتاب کا نام بتائیں، جو آج بھی موجود ہے اور اس کا اردو ترجمہ دستیاب ہے۔ سوائے ایک صاحب کے کسی نے جواب نہیں دیا۔ ہم نے سیرت کو نہیں پڑھا۔ ہم آپ ﷺکی زندگی کو نہیں جانتے، جن کے بارے میں قرآن نے کہا: ہم نے آپ ﷺکو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔سیرت کی اس پہلی کتاب ''سیرت النبی ﷺ''کے مصنف ابن اسحاق ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد ابن ہشام نے اس میں کچھ ترمیم و اضافے کیے۔ چونکہ ہم نے سیرت کو نہیں پڑھا، اس لیے ہم سطحی باتیں کرتے ہیں۔
مذہب اور سائنس سے متعلق مختلف قابل قدر انسائیکلوپیڈیاز میں ان کے کام کو جگہ دی گئی ہے، اس کے علاوہ وہ کئی تحقیقی مجلوں کے ادارتی بورڈز میں شامل ہیں۔ وہ یونیورسٹی آف کیمبرج کی انٹرنیشنل سوسائٹی فار سائنس اینڈ ریلیجن کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ ٹیمپلٹن فائونڈیشن، امریکا سے بھی وہ منسلک ہیں۔ کچھ برس انہوں نے ملائیشیا کے سابق نائب وزیراعظم انور ابراہیم کے مشیر اور سپیچ رائٹر کی حیثیت سے خدمات بھی سرانجام دیں۔ 2002ء میں انہیں نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
گزشتہ دنوں ادارہ علوم ابلاغیات، پنجاب یونیورسٹی، لاہور کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں، ڈاکٹر منور انیس کو سننے کا اتفاق ہوا۔ بعد ازاں ''ایکسپریس'' کے لیے ایک نشست میں ان سے مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی، یہ خصوصی گفتگو قارئین کی نذر کی جا رہی ہے۔
٭٭٭
ایکسپریس: اسلام ایک دین یا مذہب ہے، دوسری طرف سائنس حصول علم کا ایک طریقہ ہے، جسے سائنٹفک میتھڈ کہتے ہیں۔ آپ ''اسلام اور سائنس'' کی ترکیب کو کیسے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر منور انیس: پہلی بات یہ کہ ہمارے ہاں غلط نظریہ زور پکڑ گیا ہے کہ قرآن مجید سائنس کی کتاب ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے۔ قرآن ایک Normative کتاب ہے، جس میں بنیادی اصول، ہدایات، قوانین بتا کر قیامت تک کے لیے ہماری رہنمائی کاسامان کیا گیا ہے۔ قرآن اگر Normative کتاب نہ ہو تو نعوذباللہ مختلف ٹائم اور سپیس (زمان و مکان) میں آ کر غلط ثابت ہو جائے۔ لیکن یہ غلط ثابت نہیں ہو سکتی۔ حصول علم کے بنیادی طور پر دو ذرائع ہیں۔
الہامی اور روحانی علم خدا کی طرف سے حاصل ہوتا ہے، جبکہ انسانی علم انسان سے۔ قرآن پاک میں زیر زبر کی تبدیلی ممکن نہیں۔ سائنس ایک انسانی علم ہے، وہ تبدیلی کا شکار رہتی ہے۔ آج کے سائنسی نظریات 50 سال بعد غلط ثابت ہو جائیں گے۔ لہذا آپ جب کہیں گے کہ سائنس نے قرآن کے سچ کو ثابت کر دیا ہے تو یہ غلط بات ہے۔
قرآن کو کوئی ضرورت نہیں کہ کوئی ایرا غیرا اس کی سچائی کو ثابت کرتا پھرے۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ میں کوئی کتاب لکھوں اور آپ سے کہوں کہ اس پر تبصرہ کر کے اس کتاب کی وقعت بڑھا دیں۔ قرآن ایسی کتاب ہرگز نہیں ہے۔ یہ کسی انسان کی طرف سے تصدیق کی محتاج نہیں۔ قرآن کی سچائی تو پہلے سے ہی ثابت ہے۔ ذلک الکتاب لاریب فیہ۔ قرآن نے اپنی سچائی کو اعلان کر دیا ہے۔ اب جب آپ سائنس کو بیچ میں لاتے ہیں تو گڑبڑ ہو جاتی ہے۔
مثال کے طور پر آج کسی سائنسی تحقیق کی روشنی میں کوئی نئی بات سامنے آتی ہے، آپ اس کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ قرآن کی فلاں آیت میں بھی اس طرح کی بات کہی گئی ہے، اس لیے قرآن خدا کی سچی کتاب ہے۔ لیکن آج سے 50 سال بعد جب یہ سائنسی تھیوری تبدیل ہو جائے گی، تو پھر آپ کیا کریں گے؟ سائنسی علوم انسانی کاوش ہیں۔ وہ تبدیل اور غلط ثابت ہو سکتے ہیں، لہذا ان کے ذریعے قرآن کی سچائی ثابت کرنا بالکل غلط ہے۔
ایکسپریس: پھر آپ ''اسلام اور سائنس'' کی ترکیب کے متعلق کیا کہیں گے؟ یہ درست ہے تو ''عیسائیت اور سائنس'' یا ''ہندوازم اور سائنس'' بھی ٹھیک ہونی چاہیں؟
ڈاکٹر منور انیس: فلاسفی آف سائنس یہ ہے کہ کائنات کو کنٹرول کرنا ہے۔ راجر بیکن نے کہا تھا:
Nature reveals its secrets under torture (قدرت اپنے راز تشدد کے ذریعے عیاں کرتی ہے)
قرآن پاک ہمیں کائنات پر غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ اسلام کے اخلاقی احکامات اور سائنس کی فلاسفی میں بنیادی فرق ہے۔ اسلام یہ کائنات ایک امانت کے طور پر انسان کو دیتا ہے کہ تم اس سے شعور حاصل کرو اور استفادہ کرو۔ سائنس کہتی ہے کہ نہیں تم توڑ پھوڑ کرو اور مسخر کرو۔ اس سے کوئی شعور حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ اس پس منظر میں ہم ''اسلام اور سائنس'' کی بات کرتے ہیں۔ اسلامک سائنس کی بات کرتے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ اسلامک پروٹان ہے اور وہ کرسچن نیوٹران ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اصل میں یہ ورلڈ ویو (world view) کا معاملہ ہے کہ آپ دنیا کو کس تناظر سے دیکھتے ہیں۔ قرآن مجید میں 800 سے زیادہ جگہ پر مختلف انداز میں علم حاصل کرنے پر زور دیا گیا ہے، اور علم نافع کی بات کی گئی ہے، نقصان دہ علم جیسے جادو وغیرہ سیکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ صرف سائنس کے ماننے والے ہیروک امیج آف سائنس (Heroic image of Science) کے قائل ہیں۔ یعنی ان کی نظر میں سائنس ہیرو ہے اور سب کچھ اس کی مدد سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اب ویسے ان کو کچھ عقل آئی ہے اور انہیں اپنی محدودات کا علم ہوا ہے۔ چنانچہ یہ ورلڈ ویو کی بات ہے کہ اسلامی فلاسفی کیا ہے اور سائنس کیا کہتی ہے۔
ایکسپریس: جو لوگ صرف سائنس کو مانتے ہیں، وہ ''اسلام اور سائنس'' یا ''مذہب اور سائنس'' کی بات کو کیسے قبول کریں گے؟
ڈاکٹر منور انیس: سائنس اب مجبور ہے کہ اپنے ورلڈ ویو کو تبدیل کرے۔ پہلے اصرار تھا کہ پوری دنیا کو سائنسی اصولوں پر چلایا جا سکتا ہے۔ وہ قابل تصدیق ثبوت (verifiable evidence) کی بات کرتے تھے۔ کسی زمانے میں ''سائنٹفک مینجمنٹ'' کے نام سے ایک تحریک چلی تھی، یعنی سب کچھ سائنسی انداز میں چلایا جائے۔
مگر اب یہ نظریہ ایک مذاق ہے۔ انسان مشین نہیں ہے، انسان صرف کیلشیم، پوٹاشیم کا مجموعہ نہیں ہے۔ جو انفرادی خواص آپس میں مل کر انسان کی تشکیل کرتے ہیں، وہ مربوط شکل میں مختلف انسان بناتے ہیں۔ سائنس ان انفرادی اجزا کو تو بیان کر سکتی ہے، لیکن مجموعی شکل میں جو انسان ہوتا ہے، اس کی وضاحت نہیں کرتی۔ تو یہ ورلڈ ویو کی بات ہے۔ دوسری بات بلیف یعنی عقیدے کی ہے۔ اگر آپ مسلمان نہیں ہیں، جو دلائل یا باتیں ہم نے پیش کی ہیں، اس میں آپ عقلی بنیاد پر کوئی جھول، غلطی دکھا دیں۔ تو یہ بنیادی بات ہے۔
ایکسپریس:کسی زمانے میں مسلمانوں نے سائنسی علوم کی ترویج و ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ لیکن اب اس روایت کو دوبارہ سے زندہ کرنے کے بجائے، ہم مغرب پر اپنے ''احسانات'' گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم دوبارہ عمل، تحقیق اور سائنسی خدمات کی طرف راغب ہو جائیں؟
ڈاکٹر منور انیس: ایک زمانے میں مسلمانوں کی تہذیب کو سولائزیشن آف بک، یعنی کتاب کی تہذیب کہا جاتا تھا۔کیونکہ مسلمان پڑھائی لکھائی میں مصروف رہتے تھے۔ ہندی ، یونانی اور دوسری زبانوں میں جو علوم موجود تھے، مسلمانوں نے ان کو اکٹھا کیا اور ترجمہ کر کے عربی میں منتقل کیا۔ دنیا کی جو سب سے پہلی ببلیوگرافی (Bibliography) ہے، وہ مسلمان کے نام سے ہے۔ اس کا نام ہے ابن الندیم الوراق اور یہ مسلمانوں کی تاریخ کے پہلے 400 سال کا ریکارڈ ہے۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں اس کے بعد، پچھلے 700 سال کے دوران کون سی کتاب ہے، جو مسلمان نے لکھی ہے، یا کون سی ایجاد ہے، جو مسلمان نے کی ہے۔ بطور خاص جسے ہم نشاۃ ثانیہ اور جدیدیت کا دور کہتے ہیں، اس کے بعد سے مسلمانوں کی علمی خدمات کیا ہیں؟ کہنے کا مطلب ہے کہ جس زمانے میں آپ نے محنت اور تحقیق کی، اس دور میں آپ کا کام سامنے آیا۔ لیکن یہ اس دور کی بات ہے۔ آج مسلمان علم کی پیداوار (production of knowledge) نہیں کر رہے، وہ صارف ہیں۔
ہر دور کی تہذیب نے اپنے وقت میں کنٹری بیوشن دی۔ کیا پرشین تہذیب کی کوئی خدمات نہیں تھیں؟ کیا ہندی تہذیب کی کوئی کنٹری بیوشن نہیں تھی؟ اسی طرح اپنے وقت پر مسلمانوں نے بھی کنٹری بیوشن دی۔ لیکن اب یہ ''پدرم سلطان بود'' کی بات کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم اسی روح کو پیدا کریں، جس نے ''الفہرس'' کے ابن الندیم الوراق کو پیدا کیا۔ یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ آپ اسی تہذیب کے کنزیومر (صارف) ہو کے اس کا مذاق اڑاتے ہو۔ یعنی آپ لائوڈ اسپیکر پہ اعلان کرتے ہو کہ لائوڈ اسپیکر حرام ہے۔ تو یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے مسلم دنیا کے لیے۔
جتنے بھی سوشل انڈیکیٹر ہیں ترقی کے، مثلاً علم کی شرح، دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی رینکنگ، سائنٹفک پروڈکٹویٹی وغیرہ۔ آپ دیکھ لیں، بحثیت مجموعی مسلمان ممالک سب سے نیچے ہیں۔ دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی، تیونس میں الکیروان یونیورسٹی تھی اور یہ عورت نے بنائی تھی۔ ہمارے ہاں ابھی تک یہ بحث چل رہی ہے کہ عورتوں کی تعلیم صحیح ہے یا غلط۔ مغربی بنگال، ہندوستان کے ایک کالج میں، خواجہ سرا لیکچرار کو میرٹ پر پرنسپل بنا دیا جاتاہے، ہم اب آ کر یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ خواجہ سرائوں کو شناختی کارڈ ایشو کیے جائیں۔
ایکسپریس: کچھ عرصہ پہلے بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا گیا کہ پولیو کے قطرے، آگے چل کر بچوں کی جنسی صلاحیت پر اثر انداز ہوتے ہیں، جس سے لوگ اس کے متعلق شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گئے اور اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا۔ آپ اس فیلڈ کے آدمی ہیں، ہمیں بتائیں کہ حقیقت کیا ہے؟
ڈاکٹر منور انیس: مجھے یاد ہے حکومت نے 60 کی دہائی میں برتھ کنٹرول پروگرام شروع کیا تھا۔ اس پر بھی اس زمانے میں اعتراض ہوا۔ اس کو امریکی، یہودی سازش کہا گیا۔ حالانکہ کلاسیکل اسلامی لٹریچر کے مطابق برتھ کنٹرول کی اجازت ہے۔ یہی حال پولیو کا ہے۔
ہمارا جسم اللہ تعالی کی امانت ہے۔ اس لیے اسلام میں خودکشی کی ممانعت ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو زندہ نہیں کیا، لہذا ہم اپنے آپ کو مار بھی نہیں سکتے۔ اس لیے اپنے جسم اور صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ہمیں جو دعا سکھائی جاتی ہے: ربنا آتنا فی الدنیا۔۔۔ ہمارے رب، ہمیں دنیا میں بھی آسانیاں عطا فرما اور آخرت میں بھی۔
بہت سی احادیث نبوی ﷺ میں صحت کا خیال رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ ہماری عبادات، روزہ، نماز، وضو وغیرہ، ہماری صحت پر بہت اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں کہ پولیو کے قطرے پینے سے، مستقبل کی زندگی میں جنسی صلاحیت پر کوئی منفی اثر پڑتا ہے، یا صحت متاثر ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں بچوں نے پولیو کے قطرے پیے ہیں، لیکن ایسی کوئی بھی ریسرچ کبھی سامنے نہیں آئی۔ چنانچہ پولیو کے قطروں کے بارے میں یہ منفی تاثر سراسر بے بنیاد ہے۔
ایکسپریس: بائیو ایتھکس (Bio-ethics) اور اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں آپ پاکستان میں سیکس (Sex) کی تعلیم کے متعلق کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر منور انیس: دوسرے مذاہب کے برعکس اسلام میں سیکس کو مثبت سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں لفظ 'سیکس' سے برا مطلب مراد لیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں شوہر اور بیوی کے درمیان جنسی تعلق کا ذکر ملتا ہے، لیکن غیر قانونی جنسی تعلقات، ہم جنس پرستی اور زنا کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔ احادیث نبوی ﷺ میں کئی جگہوں پر شوہر اور بیوی کے درمیان جنسی تعلق اور اس سے متعلقہ مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔
فقہ کے مطابق جنسی صلاحیت کے قابل نہ ہونا، کسی شادی کو ختم کرنے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ چنانچہ ہمیں سیکس ایجوکیشن کی طرف مثبت انداز میں دیکھنا چاہیے۔ سیکس کے لفظ کو منفی تصورات، جیسے پورنوگرافی، ہم جنس پرستی اور زنا سے بچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ درحقیقت مثبت انداز میں سکیس کی تعلیم، ہماری کچھ معاشرتی برائیوں کو ختم کر دے گی۔ سیکس ایجوکیشن میں، اس کے بایولوجیکل پہلو اور مختلف مراحل کو واضح کرنا چاہیے اور یہ بتانا چاہیے کہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس کے بارے میں ہماری اخلاقی ذمہ داریاں کیا ہیں۔
ایکسپریس: ہمارا نظام تعلیم اچھے ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے پروفیشنلز تو پیدا کر رہا ہے، لیکن اچھے معیار کے سائنسدان پیدا نہیں کر رہا۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا یونیورسٹی کی سطح پر سائنس کی تعلیم اردو میں ہونی چاہیے اور یہ اچھے نتائج سامنے لا سکتی ہے؟
ڈاکٹر منور انیس: نیوکلیئر فزکس کے علاوہ، جہاں ہمارے قابل سائنسدانوں نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا ہے، سائنس کے دیگر شعبوں میں، ہمارے سائنسدانوں نے کسی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سائنٹفک جرنل رینکنگ (SJR) کے مطابق، پاکستان 46ویں درجے پر ہے، جبکہ بھارت 9ویں درجے پہ موجود ہے۔ سائنسی میدان میں ہم اس لیے پیچھے رہ گئے ہیں کہ ہم نے پاکستان میں سائنسی کلچر پیدا ہی نہیں کیا۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں سرقہ بازی کا چلن عام ہو گیا ہے۔
آئے دن اخبارات میں خبریں چھپتی رہتی ہیں کہ فلاں یونیورسٹی کا وی سی سرقہ بازی میں پکڑا گیا وغیرہ۔ جب تک ہم اپنے تعلیمی نظام میں شفافیت اور ایمانداری نہیں لائیں گے، ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کو اپنی قومی ذمہ داری نہیں بنایا، تعلیم اور سائنس پر ہم بہت کم خرچ کرتے ہیں، جسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ زبان تعلیم میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ میری رائے کے مطابق سائنس اردو میں پڑھائی جا سکتی ہے اور اسے اردو میں پڑھانا بھی چاہیے۔
عرب سائنس کو عربی میں پڑھاتے ہیں، روسی رشین زبان میں سائنس پڑھاتے ہیں، اور چائنا والے چینی زبان میں۔ انہوں نے یہ جھوٹا دعوی نہیں کیا کہ قومی زبان میں سائنس پڑھانے سے اس کے خاطرخواہ نتائج نہیں نکلتے۔ قیام پاکستان سے پہلے، عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد میں، سائنسی علوم اردو زبان میں پڑھائے جاتے تھے۔ انہوں نے سائنسی اصطلاحات کی اردو لغات کی مکمل فہرست تیار کر رکھی تھی۔ چنانچہ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم قومی سطح پر اردو کے ساتھ کیسا سلوک کر رہے ہیں اور اس کو کیا مقام دے رہے ہیں۔
ایکسپریس: دنیا کے تعلیمی اداروں کے مقابلے میں ہمارے ہاں تعلیم و تحقیق کا معیار کیا ہے؟
ڈاکٹر منور انیس: ایشیائی یونیورسٹیوں سے متعلق دی ٹائمز ہائر ایجوکیشن رینکنگ 2015ء کے مطابق ایشیا کی بہترین 100یونیورسٹیوں میں ہماری ایک یونیورسٹی بھی شامل نہیں ہے۔ ہندوستان کی 9یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ انڈیا میں تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار جامعات ہیں، جبکہ پاکستان میں یہ تعداد 160کے قریب ہے۔ لیکن بات تعداد کی نہیں، بلکہ معیار کی ہے۔ پاکستان میں تعلیم کامعیار دیکھ کر رونا آتا ہے۔ پڑھے لکھے ڈگری یافتہ لوگ بھی ڈھنگ سے انگریزی کی دو عبارتیں نہیں لکھ سکتے۔ کسی زمانے میں پی ٹی وی پر جو لوگ خبریں پڑھتے تھے، وہ الفاظ کی درست ادائیگی اور تلفظ کے لیے معیار کا درجہ رکھتے تھے۔
اس کے مقابلے میں آج کل مختلف چینلز کے خواتین و حضرات ہیں، جو چلاتے رہتے ہیں۔ ریسرچ کا یہ عالم ہے کہ اساتذہ اور وائس چانسلر تک کا تحقیقی مقالہ، سرقہ شدہ نکلتا ہے۔ ایچ ای سی کی پالیسی کاغذ پر ضرور موجود ہے، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ طلبا کا اس پر کوئی اطلاق ہے۔ تحقیق کی روح عنقا ہے۔ ہم اس کو میکانکی سرگرمی سمجھتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ نقصان ہوا ہے کہ وہاں جعلی آن لائن جرنلز شائع ہوتے ہیں، جو کسی معیار کو ملحوظ رکھے بغیر، پیسے لے کر مضمون چھاپ دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ سکھایا ہی نہیں جاتا کہ ریسرچ کیا ہوتی ہے، اس کا طریقہ اور ضروریات کیا ہیں، اور اس کے لیے کتنی محنت درکار ہے۔ غیر معیاری ریسرچ سے ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ مغربی ادارے سرقہ بازی کو برداشت نہیں کرتے۔ مصنف اور سی این این کے اینکر فرید زکریا پر الزام لگا کہ اس کے ایک کالم کے کچھ حصے، کسی دوسرے کالم نویس کے کالم سے لیے گئے ہیں۔ سی این این نے اگلے دن ہی اسے معطل کر دیا اور تحقیقات مکمل ہونے تک معطل رکھا گیا۔ اس کو ہم انٹلکچول پراپرٹی کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں انٹلکچول آئوٹ پُٹ کی رسپکٹ نہیں ہے۔
لکھنے والوں کو نہیں پتا کہ کسی چیز کا حوالہ کیسے دینا ہے۔ کاپی رائٹ ایکٹ کا پتا نہیں ہے۔ کتابیں شائع ہو جاتی ہیں، مگر ان پر سن اشاعت اور ایڈیشن نمبر درج نہیں ہوتا۔ طلبا کو ان سب چیزوں کے بارے میں بتانا چاہیے۔
ایکسپریس: آپ کے خیال میں مذہبی انتہاپسندی اور عدم برداشت کا تدارک کیسے ممکن ہے؟
ڈاکٹر منور انیس: قائداعظمؒ نے پاکستان کا جو تصور پیش کیا تھا کہ آپ اپنی مساجد، مندر، چرچ وغیرہ جانے کے لیے آزاد ہیں، یہ تصور قائداعظم نے نہیں دیا، بلکہ یہ اسلامی تصور ہے۔
اگر ہندوستان میں مسلمانوں نے بزور شمشیر لوگوں کو مسلمان کیا ہوتا، وہاں آج ہندو نہ ہوتے۔ انڈونیشیا، جو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلمان ملک ہے، وہاں تو کسی نے لشکرکشی نہیں کی۔
وسط ایشیا، ترکمانستان، کرغزستان، وغیرہ یہاں کون سی مسلمان فوجیں گئیں تھیں؟ کاشغر (چائنا) میں مسلمانوں کی جواکثریت ہے، وہ آسمان سے تو نہیں اترے۔ یہ سب اسلام کے پیغام سے ممکن ہوا ہے۔ ہم چودہ سو سال بعد دنیا میں صرف 23 فیصد ہیں، اگر دوسرے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینی ہے تو ہمیں اپنے عمل سے ان کو اپنی طرف لانا ہو گا۔ ہمارے دین میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے، مگر پاکستان کا شمار دنیا کے گندے ملکوں میں ہوتا ہے۔ ہم لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن اسلامی احکامات پر عمل نہیں کرتے۔
ایکسپریس: پاکستان کو ترقی یافتہ اور پرامن بنانے کے لیے کون سی بنیادی تبدیلیاں درکار ہیں؟
ڈاکٹر منور انیس: اقلیتوں کو تحفظ دینا ضروری ہے۔ وہ پاکستانی ہیں، چاہے ان کا کسی بھی مذہب یا عقیدے سے تعلق ہے۔ ہمیں خود اپنا احتساب کرتے ہوئے اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ اقوام عالم میں ہمارا مقام کیا ہے۔ سب سے اہم بات نظام تعلیم ہے۔ ہمارے نظام تعلیم میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ یہ ہماری قومی شخصیت کی تعمیر نہیں کرتا۔ دوسرے الفاظ میں یہ ہمارے اندر ''پاکستانیت'' پیدا نہیں کرتا۔ قومی شخصیت کا تعین زبان سے ہوتا ہے، اور ہم نے اردو زبان پر ظلم کیا۔ جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے اردو زبان کے حق میں فیصلہ دے کر بہت اچھا کیا ہے۔ اردو زبان کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے ہماری قومی شخصیت کی تعمیر نہیں ہو سکی۔ ہم پنجابی، پٹھان، بلوچی اور سندھی وغیرہ تو ہیں، لیکن پاکستانی نہیں ہیں۔ جب تک قومی شخصیت کا تعین نہیں ہو گا، ہمیں پتا نہیں چلے گا کہ ہم کون ہیں اور ہمارا کردار کیا ہے۔
ڈاکٹر منور انیس 27 ستمبر 1948ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی انہیں کتابیں پڑھنے کا شوق تھا، پانچویں جماعت میں ''انیس لائبریری'' کے نام سے اپنی لائبریری بنا لی۔ قرآن مجید کی تعلیم کے لیے والد صاحب نے گھرمیں ہی استاد کا بندوبست کر دیا تھا۔ میٹرک کرنے کے بعد ایف ایس سی، پری میڈیکل میں داخلہ لے لیا۔ فرسٹ ایئر میں کالج کی لائبریری میں ''اسلامک ایجوکیشن'' کے نام سے ایک رسالہ دیکھا، جو بہت پسند آیا۔ ان دنوں انہوں نے سٹینلے ملر کا زندگی کے آغاز کے بارے میں experiment پڑھا تھا، جس میں پہلی بار زندگی کی ابتدا کی سائنسی انداز میں وضاحت کی گئی تھی۔
طالب علم منور انیس سمجھتے تھے کہ کسی خالق کے بغیر کائنات کا اس قدر پیچیدہ نظام، کس طرح ہم آہنگی اور بغیر کسی سقم کے چل سکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے میگزین کے ایڈیٹر کو خط لکھا کہ وہ اس موضوع پر ایک مضمون لکھنا چاہتے ہیں۔ ایڈیٹر ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے، جو اقبالیات پر اتھارٹی تھے، جوابی خط میں ان کی حوصلہ افزائی کی اور مشورہ دیا کہ انہیں میڈیکل ڈاکٹر کے بجائے بیالوجسٹ بننا چاہیے۔ تاکہ وہ بیالوجیکل فینامنا (phenomenon) سے ظاہر کر سکیں کہ یہ کائنات خدا نے تخلیق کی ہے۔ خط میں انہوں نے یہ بھی لکھا:You have an old head on young shoulders (تمھارے جوان کندھوں پر ایک بوڑھا دماغ ہے)
1968ء میں ''اسلامک ایجوکیشن'' میں "Cell Reveals God" کے عنوان سے ان کا پہلا مضمون شائع ہوا۔ منور انیس نے زوالوجی میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ 1976ء میں انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا، لیکن اکیڈمی کی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ جرمانے کے طور پر اس زمانے میں والد کو 20 ہزار روپے ادا کرنے پڑے۔ مزید تعلیم کے لیے وہ انڈیانا (امریکا) چلے گئے۔
پی ایچ ڈی میں فلاسفی آف سائنس کے سیمنار کے لیے انہوں نے ''اسلام اور سائنس'' کے موضوع پر ریسرچ پیپر لکھنے کا فیصلہ کیا۔ منور انیس کہتے ہیں: ''ڈاکٹر محمد رفیع الدین کا خط اور فلاسفی آف سائنس کا یہ سمینار میرے کریئر کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئے، اس کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں پیور (pure) بیالوجی پر کام نہیں کروں گا، بلکہ آئندہ بیالوجی اور اسلام کے ریلیشن شپ پر میرا فوکس ہو گا۔''
کورس ورک مکمل کرنے کے بعد انہوں نے امریکا میں ایک پبلشنگ کمپنی قائم کی، بعد ازاں کمپیوٹر کے ایک بزنس میں شراکت اختیار کر لی۔ 1986ء میں انہوں نے سائنس ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ برس بعد ملائیشیا چلے گئے، جہاں سیاسی رہنما اور سابق نائب وزیراعظم انور ابراہیم کے مشیر اورتقریر نویس کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ 1998ء میں مہاتیر کی حکومت نے سیاسی اختلافات پر انور ابراہیم اور ان کے بھائی (جسے والدین نے گود لیا تھا) کے علاوہ، ڈاکٹر منور انیس پر بھی ہم جنس پرستی کے جھوٹے الزامات لگائے اور انہیں گرفتار کر لیا۔
انور ابراہیم کے خلاف جھوٹی گواہی دینے کے لیے انہیں بدترین جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انہیں ''ضمیر کے قیدی'' کا خطاب دیا۔ 1999ء میں کچھ عرصہ پاکستان میں قیام کے بعد علاج کے لیے امریکا چلے گئے، جہاں دو سال تک وہ زیر علاج رہے۔ صحت کی بحالی کے بعد انہوں نے پڑھنے لکھنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور امریکا میں ٹیمپلٹن فائونڈیشن سے وابستہ ہو گئے۔
ڈاکٹر منور انیس آج کل لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ ''انسٹیٹیوٹ فار ریلیجن، سائنس اینڈ ایتھکس'' کے نام سے اپنے ایک ادارے کے قیام کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں، جو پاکستان میں اپنی نوعیت کا منفرد ادارہ ہو گا۔ بیٹی عائشہ نے فرانس سے سائیکاٹرسٹ میڈیسن میں سپیشلائزیشن کی ہے، جبکہ صاحبزادے عمران بارایٹ لاء کرنے کے بعد ہیومن رائٹس کی ایک انٹرنیشنل آرگنائزیشن سے وابستہ ہیں۔
ڈاکٹر منور انیس کی کتاب ''اسلام اینڈ بیالوجیکل فیوچرز'' اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک منفرد کتاب ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ جدید دنیا میں بیالوجی جس طرح کے مسائل ( مثلاً سروگیسی، ٹیسٹ ٹیوب بے بی، کلوننگ) پیش کر رہی ہے، اس پر اسلامی نقطہ نظر کیا ہے۔ ڈاکٹر منور انیس کا کہنا ہے، ''ایک طرف فقہ ہے اور دوسری طرف ان چیزوں کے پروسیجر کا علم ہے۔ ہمارے ہاں ان چیزوں کے پروسیجر کو سمجھے بغیر فتوی دے دیا جاتا ہے، جو کہ غلط ہے۔ جس چیز کے متعلق آپ فتوی دے رہے ہیں، اس کے بارے میں آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ ہے کیا، پھر آپ کو اس پر فقہ کے اصولوں کا اطلاق کرنا چاہیے۔
پاکستان میں جو مختلف فرٹیلیٹی کلینکس کام کر رہے ہیں، ان کی ریگولیشن کی سخت ضرورت ہے۔ کسی کو نہیں پتا کہ یہ کون لوگ ہیں اور ان کا طریقہ کار کیا ہے۔ یہ چیز بائیو ایتھکس (اخلاقیات) کے دائرے میں آتی ہے، چنانچہ ایسے کلینکس کی سرکاری سطح پر ریگولیشن ہونی چاہیے۔''
ڈاکٹر انیس کی کتاب ''ہیلتھ سائنسز ان ارلی اسلام'' امریکا کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس کتاب میں اصل عربی متن کا براہ راست انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہے، اس موضوع پر جو دوسری کتابیں ہیں، وہ سیکنڈری سورسز پر مبنی ہیں۔ دو جلدوں میں شائع ہونے والی اس کتاب میں عربی عبارتوں کا عکس بھی شائع کیا گیا ہے۔ "Hadith and Sira Literature in Western Languages: A Bibliographic Study" (مغربی زبانوں میں حدیث اور سیرت لٹریچر) بھی اپنے موضوع اور متن کے اعتبار سے ایک اہم کتاب ہے۔
ڈاکٹر منور انیس نے 1991ء میں کوالالمپور (ملائیشیا) سے پیراڈیکا اسلامیکا (Periodica Islamica) کے نام سے ایک رسالہ شروع کیا تھا، جس میں دنیا بھر سے سکالرز نے اسلام اور مسلم دنیا سے متعلق مختلف موضوعات پر مضامین لکھے۔ وہ انٹرنیشنل جرنل آف اسلامک اینڈ اریبک اسڈیز (بلومنگٹن) ، جرنل آف اسلامک سائنس (علی گڑھ) اور کچھ دوسرے قابل ذکر مجلات کی مجلس ادارت میں شامل ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا آف دی ماڈرن اسلامک ورلڈ (نیویارک) اور انسائیکلوپیڈیا آف دی ہسٹری آف سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ میڈیسن کے علاوہ کئی دوسری کتابوں میں بھی ان کے کام کو شامل کیا گیا ہے۔
ملائیشیا کی ترقی کا راز؟
ملائیشیا کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہاں پر غیر ضروری آزادیاں نہیں ہیں۔ پاکستانی صحافی بہت شور مچاتے ہیں کہ ہم پر بہت ظلم ہوتا ہے اور ہمیں آزادیاں حاصل نہیں ہیں، میں سمجھتا ہوں، جتنی آزادی پاکستانی صحافیوں کو حاصل ہے، اتنی دنیا میں کسی کو حاصل نہیں۔ خیر، اس کے علاوہ انہوں نے انفراسٹرکچر کو سب سے پہلے ڈویلپ کیا۔ بلین ڈالر کا نیا ایئر پورٹ بنایا۔ ہمارے ہاں، ایک موٹر وے بنا کر اس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، ملائیشیا نے پورے ملک میں سٹرکوں کا جال بچھا دیا۔ انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ وہاں مختلف قومیتوں اور مذاہب کو ماننے والے موجود ہیں، بدھسٹ، مسلم ، چائنیز وغیرہ۔ ہر ایک کو اپنے عقیدے کے مطابق آزادی دی۔ ہم نے پاکستان میں اقلیتوں کو تباہ کیا ہے۔
ان کا سلوک بھی آئیڈیل نہیں ہے، لیکن پاکستان کی نسبت بہت فرق ہے۔ وہاں کے سماجی نظام کو زمینی حقائق کے مطابق بنایا۔ ریاست کا مذہب اسلام ہے، کیونکہ مسلمان وہاں اکثریت میں ہیں، اور اس کا وہاں کوئی ایشو نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے سب کو اکاموڈیٹ کیا ہے، چائنیز، سکھوں، بدھسٹ، سب کو۔ دولت کی تقسیم پہ توجہ دی ہے۔ تعلیم پر بھی زور دیا ہے۔ وہاں ٹورازم بڑھ گیا ہے، چھ بلین ڈالر سیاحت کی وجہ سے ملائیشیا کماتا ہے۔ حالانکہ وہاں کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے صرف اپنی ساحلی علاقے کو ڈویلپ کیا ہے اور وہاں فائیو سٹار ہوٹل کھول دیے ہیں۔ تو ان چیزوں نے ان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔
مجھے یاد ہے ، میں جب پہلی دفعہ ملائیشیا گیا، سات بجے کوالالمپور بند ہو جاتا تھا۔ وہاں ایئر پورٹ میں جیٹ طیارہ بھی کھڑا نہیں ہو سکتا تھا، لیکن ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے پانچ سات برسوں میں بلند و بالا ٹاور بنا دیے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری لائے، حوصلہ افزائی کی اور مراعات دیں۔ ٹھیک ہے ادھر بھی کرپشن ہوتی ہے، لیکن آپ کہہ سکتے ہیں کہ 80 فیصد صحیح خرچ ہوتا ہے اور 20 فیصد کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کے برعکس صورتحال ہے۔
مہاتیر اپنے نائب وزیراعظم انور ابراہیم کے خلاف کیوں ہوا؟
انور ابراہیم کو مہاتیر نے گروم کیاکہ یہ میرا جانشین بنے گا۔ 1998ء میں وہ دو مہینے کی چھٹی پر چلا گیا اور انور ابراہیم کو قائم مقام وزیراعظم بنا دیا۔ انور کو میں 1977/78ء سے جانتا ہوں۔ وہ نہایت شریف، متقی اور پرہیز گار آدمی ہے۔ اسلامی امہ پہ یقین رکھتا ہے۔ وہ دقیانوسی خیالات کا حامل نہیں ہے بلکہ جدید سوچ رکھتا ہے۔ پاکستان میں بھی انور ابراہیم کو بہت مقبولیت حاصل ہے۔ اگر وہ کرپٹ ہوتا، اگر اس نے کوئی مالی کرپشن کی تھی تو حکومت نے اسے کیوں نہیں پکڑا؟ وہ چھ دفعہ وزیر پھر نائب وزیر اعظم اور قائممقام وزیراعظم بنا، لیکن اس کے خلاف اکنی کا ثبوت بھی نہیں ہے۔
میں اس کی ایمانداری کی گواہی دیتا ہوں۔ کابینہ کے ایک دوسرے وزیر کے پاس 27 گاڑیاں ہیں، انور کے پاس کبھی مرسیڈیز نہیں تھی۔ ملائیشیا کی بنی ہوئی کار پروٹون ساگا، جو سادہ ماڈل ہے، یہ گاڑی تھی اس کے پاس۔ سوائے آبائی گھر کے، جو اس کے والد ابراہیم صاحب کا تھا، اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اگر کوئی کرپشن کی ہوتی تو اس کے مخالفین نکال باہر لاتے۔ جس وقت انور قائم مقام وزیراعظم تھا، اس وقت یہ اختلافات پیدا ہوئے۔ اختلاف یہ پیدا ہوا کہ انور نے مہاتیر کے بیٹے کی کرپشن کو قانونی تحفظ دینے سے انکار کر دیا۔ کابینہ کے دوسرے ارکان کے بارے میں انتظامیہ کو کہا کہ ان کی کرپشن کو بے نقاب کیا جائے۔ مہاتیر واپس آئے تو ان کے درمیان چپقلش شروع ہو گئی۔ کابینہ کے دوسرے ارکان بھی انور ابراہیم کے خلاف بھرے بیٹھے تھے۔ ان کو لگتا تھا کہ مہاتیر وزارت عظمی انور ابراہیم کو سونپ دے گا اور ہماری شامت آ جائے گی۔
اس لیے اس کے خلاف جو بھی ہو سکتا ہے، وہ کر ڈالو۔ اس کو کسی طرح سے بھی وزیر اعظم بننے سے روک لو۔ چنانچہ اس پرہم جنس پرستی کے جھوٹے الزامات لگا کر گرفتار کر لیا گیا۔ وہاں کی عدلیہ میں بے انتہا کرپشن ہے اور وہ حکومت کے اشاروں پر کام کرتی ہے۔ اب تیسری دفعہ اسے گرفتار کر کے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ پچھلی دفعہ چھ سال کی قید تنہائی کے بعد رہا ہوا تو اس کے پاس اسمبلی میں ایک نشست تھی۔ تین مہینے بعد الیکشن ہوئے، تو اس کی پارٹی کو 86 نشستیں مل گئیں۔ تو ملائیشیا کی حکومت کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ انور کی عوامی سطح پر کیا مقبولیت ہے۔ ان کو خطرہ ہے کہ اس پر سے پابندیاں مکمل طور پر ہٹا دی گئیں، تو حکومت بنانے کے لیے مزید جو نشستیں درکار ہیں، وہ حاصل نہ کرلے۔
ملائیشیا میں بدترین تشدد سہنے کے بعد آپ کی سوچ اور شخصیت میں کیا تبدیلی آئی؟
دو سال علاج کے بعد جب میری صحت کچھ بحال ہوئی، میں اپنی ای میلز دیکھ کر حیران رہ گیا۔ مجھے اس وقت 60 ہزار سے زیادہ ای میلز موصول ہوئیں، جس میں میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔ ہم سنتے آئے ہیں کہ انسان، دوسرے انسان کا دشمن ہوتا ہے، ان کے درمیان نفرت ہوتی ہے وغیرہ۔ لیکن میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ انسانی ہمدردی بہت طاقت ور ہے۔ ہیومین کمپیشن (human compassion) دنیا کو تبدیل کر سکتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کردار سامنے آیا۔
ہم لوگ آزادی کی قدر نہیں کرتے، اسے فار گرانٹڈ لیتے ہیں، لیکن جب آپ کو اپنی آزادی سے محروم کر دیا جائے تو آپ کی زندگی کا وہ حصہ واپس نہیں آ سکتا۔ آزادی کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ ہوا۔ مراشس سے ایک صاحب کا خط ملا جس میں دوسو ڈالر کے نوٹ تھے۔ اس نے لکھا کہ آپ جب انگلستان سے رسالہ 'انکوائری' نکالتے تھے، میں اس وقت سے آپ کو جانتا ہوں۔ میرے پاس اس وقت یہی پونجی ہے، جو میں آپ کو بھجوا رہا ہوں۔ خیر وہ پیسے میں نے واپس بھجوا دیے۔ ایسی ہزاروں مثالیں مجھے ملیں۔ دوستوں نے 'فرینڈز آف ڈاکٹر انیس' کے نام سے ویب سائٹ بنا دی۔ میڈیا کا کردار بھی بہت اہم تھا۔ ایلوین ٹوفلر، جس نے فیوچر ازم پر کام کیا ہے ،اس کی دو مشہور کتابیں ہیں: ''تھرڈ ویو'' اور ''فیوچر شاک'' ۔انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبیون میں اس کا مضمون شائع ہوا۔ اس کی ملائیشیا میں بہت گونج سنائی دی۔
اسلاموفوبیا اور ہمارا ردعمل
اسلاموفوبیا (اسلام دشمنی یا اسلام سے نفرت) پر ہمیں سوچ سمجھ کر پوری ذمہ داری اور معلومات کے ساتھ اپنا ردعمل دینا چاہیے۔ اصلاح احوال کے لیے ردعمل دیتے وقت ہمیں پوری محنت کرنی چاہیے۔ اسلاموفوبیا آج پیدا نہیں ہوا۔ ہمیں انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ بہت بڑھا ہوا نظر آتا ہے۔ آپ ابھی گوگل پر ٹائپ کریں 'اسلاموفوبیا' آپ کو 3 ملین سے زیادہ انٹریز مل جائیں گی۔ شروع کے زمانے میں جن لوگوں نے اسلام کی مخالفت کی، وہ بھی اسلاموفوبک تھے۔
اب جدید دور میں اس کا طریقہ اور سیاق و سباق مختلف ہو گیا ہے۔ لہٰذا پہلے اپنے دشمن کے طریقہ واردات کو سمجھیں اور پھر اس کے مطابق دفاعی حکمت عملی اختیار کریں۔ یوٹیوب پر پابندی یا صرف نعرے بازی سے کام نہیں چلے گا۔ اسلاموفوبک لٹریچر کا جواب دینا چاہیے۔ پچھلے کچھ برسوں میں سیکڑوں کتابیں اسلام اور جہاد کے خلاف آئیں، آپ نے اس کے جواب میں کتنی کتابیں لکھیں؟ تو یہ سیلف ٹاکنگ (خود کلامی) بند کریں۔
ہم کو اسوۂ رسول ﷺ کی روشنی میں اپنا ردعمل دینا چاہیے مگر ہم سیرت نہیں پڑھتے۔ میں ایک نئے ادارے کی فیکلٹی کے انتخاب کے لیے انٹرویو کر رہا تھا، انٹرویو دینے والوں نے اسلامیات کی تعلیم حاصل کی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا کہ سیرت النبی ﷺ کی اولین کتاب کا نام بتائیں، جو آج بھی موجود ہے اور اس کا اردو ترجمہ دستیاب ہے۔ سوائے ایک صاحب کے کسی نے جواب نہیں دیا۔ ہم نے سیرت کو نہیں پڑھا۔ ہم آپ ﷺکی زندگی کو نہیں جانتے، جن کے بارے میں قرآن نے کہا: ہم نے آپ ﷺکو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔سیرت کی اس پہلی کتاب ''سیرت النبی ﷺ''کے مصنف ابن اسحاق ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد ابن ہشام نے اس میں کچھ ترمیم و اضافے کیے۔ چونکہ ہم نے سیرت کو نہیں پڑھا، اس لیے ہم سطحی باتیں کرتے ہیں۔