مہابیر اور جین مت برصغیر کاقدیم مذہب جو آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے

جینیوں کی ایک معقول آبادی تقسیم سے قبل پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد تھی لیکن وہ آہستہ آہستہ یہاں سے ہجرت کرگئی

جینیوں کی ایک معقول آبادی تقسیم سے قبل پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد تھی لیکن وہ آہستہ آہستہ یہاں سے ہجرت کرگئی:فوٹو : فائل

تقریباً 2500سال قبل یعنی 527قبل مسیح میں ہندوستان میں وردھمان نام کا ایک بچہ پیدا ہوا، جو بعد میں جین مت کے چوبیسیویں تر تھنکر مہابیر (بہت بہادر) کے نام سے مشہور ہوا۔ مہابیر نے جس مقام پر آنکھ کھولی اُس کے بارے میں تاریخ دانوں میں مختلف رائے پائی جاتی ہے اور اُن کی زندگی پر لکھی گئی کتابوں میں بھی تین مختلف مقامات کا ذکر ملتا ہے۔

''سویتامبر'' فرقے کی کتابوں کے مطابق وہ لچھواڑ ضلع گیا میں پیدا ہوئے اور ''دِگمابر'' فرقے سے تعلق رکھنے والے جینیوں کے مطابق وہ کُنڈل پور میں پیدا ہوئے تھے۔ اس کے باوجود موجودہ دور کے بہت سارے علاقائی اور بین الاقوامی تاریخ داں اور محقق اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ وردھمان مہابیر کی پیدائش ویشالی ضلع مظفرپور میں ہوئی تھی۔



مہاتما بدھ کی پیدائش جوانی اور ان کے کام کی زندگی کی طرح وردھمان کی زندگی کے بارے میں جو داستانیں بیان کی گئی ہیں وہ کسی افسانے سے کم نہیں۔ ان میں بہت سارے واقعات تو ایک دوسرے سے ملتے بھی ہیں۔ یعنی بادشاہ کے گھر میں جنم لینا، عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنا اور پھر گھر کو چھوڑ دینا۔ مہابیر کے ماننے والوں کا ایک بڑا فرقہ یہ کہتا ہے کہ انہوں نے شادی ہی نہیں کی تھی، مگر دوسرے فرقے کا یہ کہنا ہے کہ انہوں نے نہ صرف شادی کی تھی بل کہ اُن کے ہاں ایک بیٹی ''انوجا'' نے بھی جنم لیا تھا۔

ویشالی اُس وقت بڑی آبادی والا شہر نہیں تھا، مگر اب یہ ایک ضلع ہے جو صوبہ بہار میں شامل ہے۔ اس سے قبل یہ علاقہ مظفرپور میں شامل تھا، مگر 1972 ء میں اسے الگ ضلع بنادیا گیا، جس کا ہیڈ کوارٹر حاجی پور ہے۔ یہاں بجکا، ہندی اور میتھلی زبان بولی جاتی ہے، جو اس علاقے کے علاوہ، جھاڑ کھنڈ، شمالی بہار اور نیپال کے کچھ علاقوں میں سمجھی جاتی ہے۔

اس زبان کو لگ بھگ 35 ملین افراد لکھتے پڑھتے اور بولتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخی طور پر یہ دنیا کی پہلی جمہوریہ ہے اور اس علاقے میں 16انتہائی اہم لوگوں کی پیدائش ہوئی تھی۔

نیپال کی ترائی سے لے کر گنگا کے درمیانی علاقوں پر وجیوں اور لچھیوں کے مشورے سے ہی جمہوری نظام قائم ہوا تھا اور چھٹی صدی عیسوی کے زمانے میں یہاں کا حکم راں عوام کے نمائندوں کی مرضی سے منتخب ہوتا تھا۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دنیا کو جمہوریت سے متعارف کروانے والا شہر ویشالی ہی تھا۔ تاریخی طور پر اس شہر کا نام مہابھارت کے دور کے ایک راجا ''وشال'' کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اشوک نے اس کے قریب پاواپوری کے مقام پر ایک بدھ اسٹوپا تعمیر کروایا جو ''جل مندر'' کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مقام ''سویتامبر'' اور ''دگمابر'' دونوں فرقوں کے ماننے والوں کے لیے انتہائی مقدس حیثیت کا حامل ہے، مگر یہ بات طے ہے کہ اب ویشالی کو ہی وردھمان مہابیر کی پیدائش کا مقام تسلیم کیا جاتا ہے۔



ویشالی کے قریب ہی '' کولھُوا '' واقع ہے، جہاں مہاتما بدھ نے آخری خطبہ دیا تھا اور اس سے قبل بھی جب وہ یہاں آئے تھے تو ہزاروں لوگوں نے بدھ مت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اسی جگہ پر تیسری صدی میں اشوک نے بدھ کی ایک یادگار بھی بنوائی تھی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں مہاتما بدھ کے نروان کے 100سال بعد دوسری بدھ کونسل منعقد ہوئی تھی۔ یہاں دو بدھ اسٹوپے تعمیر کروائے گئے تھے۔ ویشالی کے قریب ہی وہ بدھ خانقاہ ہے جہاں مہاتما بدھ تبلیغ کیا کرتے تھے۔

یاد رہے کہ مہاتما بدھ کے سب سے محبوب شاگرد ''آنند'' کی راکھ بھی اسی مقام پر رکھی گئی ہے۔ اس علاقے میں مہابیر نے اپنی پیدائش کے بعد 22 سال گزارے۔ اسی لیے ویشالی کو ہندوستان کے دو اہم مذاہب یعنی بدھ مت اور جین مت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے سیاحوں کے ساتھ ان مذاہب کے ماننے والوں کے لیے یہ علاقہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل رہا ہے کہ یہاں پر دونوں مذاہب کی قدیم یادگاریں اب بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔

٭جین مت کے سات بنیادی عقائد یہ ہیں۔
1۔روح ایک حقیقت ہے۔
2۔ غیرروح (یعنی جن چیزوں میں روح نہیں ہوتی، چاہے پتھر ہی کیوں نہ ہوں) بھی ایک حقیقت ہے جسے مادہ کہا جاتا ہے۔
3۔ روح میں مادہ شامل ہو جاتا ہے۔
4۔ جب روح میں مادے کی ملاوٹ ہوتی ہے تو روح مادے کی قیدی بن جاتی ہے۔
5۔ روح میں مادے کی ملاوٹ کو روکا جا سکتا ہے۔
6۔ روح میں موجود مادے کو زائل بھی کیا جا سکتا ہے۔
7۔ روح اور مادے کی ایک دوسرے سے علیحدگی کے بعد نجات مل جاتی ہے۔

یہاں اگر جینی عقیدے کی تفصیل بیان کی جائے تو بات کافی طویل ہوجائے گی، مگر مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی بنیادی شرط عدم تشدد ہے اور پانچ حلفیہ اقرار اُس کے بنیادی اصول ہیں۔ یہ بنیادی اصول قتل، چوری، جھوٹ، جنسی عمل اور حصول جائیداد سے مکمل دوری کا سبق دیتے ہیں۔



چندرگپت موریا کے دور تک کی تاریخ سے راہ نمائی حاصل کرنے کے لیے بدھ مت اور جین مت کی کتابوں ہی کو تاریخ کا سب سے بڑا حوالہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے اُس دور میں ویدک دور سے چلی آ رہی مذہبی سوچ میں دراڑ پڑگئی جس کے نتیجے میں کچھ دھڑوں نے روایتی ہندو مذہب اور اس کے فلسفے سے بغاوت کردی اور یوں اُس وقت کی آبادی کی دو واضح راہیں متعین ہوئیں۔ یہ دو راہیں بھارت میں دو طرح کی قدیم فلسفیانہ روایات ہیں جن میں سے ایک کا نام ''برہمن'' ہے اور دوسری کو ''شرمن'' روایت کہتے ہیں۔

اگر ہندو مذہب کی گہرائی میں جاکر ان دونوں روایات کا مطالعہ یا تفصیل بیان کی جائے تو اس کے لیے کئی صفحات درکار ہوں گے، مگر مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسی روایت جسے وید، اپنشد اور پرانوں پر یقین ہو اور جو برہمنوں کے بنائے اصولوں اور قوانین کے ساتھ جُڑی ہو وہ برہمن روایت کہلائے گی اور جو اس کے مخالف ہوگی وہ شرمن روایت کہلائے گی۔ ایک مفکر کا کہنا ہے،''اگر یہ کہا جائے کہ 'برہمن' روایت زیادہ قدیم ہے تو بات ادھوری رہ جائے گی۔ اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ 'شرمن' روایت زیادہ قدیم ہے تب بھی بات ادھوری رہ جائے گی۔''

روشن خیال مفکرین کے مطابق بھارت کی تاریخ برہمن اور شرمن ثقافت کے درمیان ہونے والی جدوجہد کی تاریخ ہے، جو موجودہ دور میں بھی جاری ہے۔ اُن کے بقول شرمن ثقافت محنت پر یقین رکھنے والوں کی ثقافت ہے جو اعمال پر مبنی ہے، مگر برہمن ثقافت دوسروں کی محنت پر موج اُڑانے والوں کی ثقافت ہے۔2000 ق۔م میں یہ جدوجہد وادیٔ سندھ کی تہذیب کے دور میں شروع ہوئی تو اس کے ایک طرف آریا اور براہمن تھے اور دوسری طرف اس دھرتی کے موروثی وارث تھے، جو شرمن ثقافت پر یقین رکھتے تھے۔ برہمن ذات سے تعلق رکھنے والے سام، دام، دنڈ اور بھید (موسیقی، پیسے، سزا اور امتیازی تقسیم) کے سہارے کسی طرح جیت تو گئے لیکن تعداد میں وہ بہت کم تھے۔ اب اُن کے لیے سب سے مشکل کام یہ تھا کہ اُن مفتوح لوگوں پر کس طرح حکومت کی جائے یا انھیں کس طرح کنٹرول کیا جائے، جو اُن سے اختلافات رکھتے ہیں یا اُن کی بات سننے کو تیار نہیں۔

اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے ذات پات کا نظام قائم کیا اور محنت کرنے والوں کو سب سے نچلی ذات یعنی ''شودر'' کا نام دے دیا۔ صرف یہی نہیں بل کہ اُنھیں علم، دولت اور ہتھیار رکھنے کے حق سے بھی محروم کردیا۔ اس ثقافت کے ماننے والے غیرملکی آریا اور مقامی برہمنوں کے خلاف موروثی حیثیت اور شرمن سوچ رکھنے والے مقامی لوگ برسرپیکار رہے اور اب تک برسرپیکار ہیں، جس کی سب سے بڑی مثال بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ حکومت ہے۔



جس نے ذ ات پات کا سہارا لیتے ہوئے نہ صرف ہندوستان میں صدیوں سے آباد کئی دلت گھرانوں پر مظالم ڈھائے بل کہ دوسری اقلیتوں کا جینا بھی دو بھر کیا ہوا ہے۔ شرمن سوچ سے تعلق رکھنے والے دھڑوں کا نظریہ ہے کہ اس کائنات کو بنانے والا کوئی بھی نہیں، بل کہ یہ فطرت کے اصولوں کے تحت چل رہی ہے۔ اس سوچ کے تحت ہندی فلسفہ بھی دو دھڑوں میں بٹا نظر آتا ہے یعنی ''آستک'' (کسی بڑی یا ماورائی طاقت کو ماننے والے) اور ''ناستک'' (مادہ پرست اور ملحد)۔ ہندو اساطیر میں جین مت اور بدھ مت کے بعد چارواک ایسا فلسفیانہ نظریہ ہے جسے ''ناستک'' نظریہ کہا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ چندر گپت موریا298 ق م میں مگدھ میں پیدا ہوا اور 240 م ق م تک زندہ رہا ۔ وہ ہندوستان کا پہلا بادشاہ تھا جس کے ادوار کے تذکرے بدھ مت اور جین مت کی مصدقہ روایتوں میں درج ہیں۔ یہ تاریخ ان بودھی کہانیوں میں بھی پائی جاتی ہے، جن میں سے ایک نام ''مہا ونس ٹیکا '' ہے اور جس کے مصنف ''اپ تسس'' بتائے جاتے ہیں۔

اس کتاب کی کی تخلیق لگ بھگ دسویں صدی عیسوی کے اختتام پر ہوئی۔ دوسری کتاب کا نام ''سیہل ٹٹھکا'' ہے اور یہ بھی اُسی دور کی تصنیف ہے جو اشوک کے بیٹے ''رمحد'' اور اُس کے ساتھ مگدھ سے آئے ہوئے دوسرے راہبوں نے کی تھی۔ چندرگپت موریا کی پیدائش اور ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت ساری کہانیاں ملتی ہیں۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اُس وقت اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے بچے جب سولہ سال کے ہوجاتے تو انہیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ٹیکسلا بھیجا جاتا تھا۔

چندرگپت کو بھی سولہ سال کی عمر میں ٹیکسلا ہی بھیجا گیا جہاں سے اُس نے علم و ادب اور سماجی علوم کا گیان حاصل کیا ۔ کچھ تاریخ داں یہ بھی کہتے ہیں کہ اُس کی پیدائش ایک غریب گھرانے میں ہوئی اور وہ بچپن ہی میں یتیم ہوگیا تھا۔ جینیوں کی روایات بتاتی ہیں کہ چندر گپت موریا نے جین مت قبول کرلیا تھا اور تخت و تاج اپنے بیٹے کے حوالے کرنے کے بعد وہ سنیاسی ہو گیا تھا۔ جس کے بعد جینی منیوں کی مذہبی رسم پر قائم رہتے ہوئے بھوکے رہ کر اُس نے آہستہ آہستہ اپنی زندگی کا اختتام کر لیا تھا۔ چندر گپت موریا کے دور میں بہت بڑا قحط پڑا تھا جس نے سب کو پریشان کرکے رکھ دیا تھا۔ قحط کی وجہ سے جین منیوں نے گنگا یا اجین سے ہجرت کی اور وہ جنوب کی جانب چلے گئے۔ یہیں سے جین مت میں پہلی دفعہ دو فرقوں کی بنیاد پڑی۔




قحط کے زمانے میں جن لوگوں نے ہجرت کی ان کے سربراہ ''بھدر باہو'' کا کہنا تھا کہ انسان دنیا میں برہنہ آیا ہے اور اُسے فطری حالت میں رہتے ہوئے ہمیشہ برہنہ ہی رہنا چاہیے۔ ''بھدر باہو'' کا یہ بھی کہنا تھا کہ جین مت کے آخری تر تھنکر ''مہاویر'' بھی برہنہ ہی رہتے تھے۔ اس صورت حال میں جو فرقہ بنا اُس کا نام ''دگامبر'' پڑا۔ یعنی خلا کو پہننے والے، جس کی تین مزید شاخوں کے نام یہ ہیں:
1۔ مندر مارگی 2۔ مُورت پوجک 3۔ تیرا پنتھی۔
دگامبر فرقے کو ماننے والے جین مت کی قدامت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جین مت سے تعلق رکھنے والوں کو نہ ہی کوئی لباس رکھنا چاہیے اور نہ ہی ان کی کوئی جائیداد ہونی چاہیے۔ قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں دگامبروں کا کافی اثر و رسوخ تھا۔ وہ جین مت کے دوسرے بڑے فرقے کے سویتامبروں کی ترتیب دی ہوئی مذہبی کتابوں کو نہیں مانتے تھے۔ ان کا کہنا تھا (اور اب بھی یہی کہنا ہے ) کہ اتنا زمانہ گزرنے کے بعد جین مت کی کتابیں دنیا میں باقی نہیں رہیں اور ابتدائی ادب کو آہستہ آہستہ بھلا دیا گیا جو پہلی صدی عیسوی ہی تک باقی تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ:

1۔ کسی سنت کو زندہ رہنے کے لیے نجات (موکش) کے بعد کھانے کی ضرورت نہیں۔
2۔مہاویر نے کبھی شادی نہیں کی۔
3۔تمام ترتھنکروں کی مورتیاں بناتے وقت انہیں برہنہ رکھا جائے، زیور نہ پہنایا جائے اور ان کی ایسی تصویر بنانی چاہیے جس میں یہ نظر آئے کہ وہ نیچے دیکھ رہے ہیں۔ اس فرقے کے زیادہ تر ماننے والے جنوبی بھارت اور اترپردیش میں پائے جاتے ہیں۔ دگامبر فرقے سے تعلق رکھنے والے جینی اپنے مندروں میں رکھی گئی ترتھنکروں کی مورتیوں کو بھی برہنہ رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ تر تھنکر جین مت میں بھگوان کا درجہ رکھتے ہیں۔

اس کے معنیٰ ہیں ایسا شخص جس نے دنیا کا سمندر تیر کر پار کیا ہو۔ ترتھنکر اُن راہ نماؤں کو بھی کہتے ہیں جو مختلف ادوار کے دوران اس دنیا میں آتے رہے۔ جینی روایات کے مطابق پہلے تر تھنکر کا نام ''رشبھ ناتھ'' تھا۔ ان کا ''نشان '' بیل ہے اور وہ اجودھیا میں پیدا ہوئے تھے۔ چوبیسویں ترتھنکر ''مہابیر'' کا نشان شیر ہے۔ ان کی والدہ کا نام ترشلا اور والد کا نام سدہارتھ تھا اور وہ 72سال تک زندہ رہے۔


دگامبروں کے مقابلے میں بچ جانے والے جینیوں نے دوسرے فرقے کی بنیاد رکھی جوسفید کپڑے پہننے پر زور دیتے تھے۔ اس فرقے کا سربراہ ''ستھول بھدر'' تھا، جس نے دوسرے فرقے کا نام ''سویتامبر'' رکھا، یعنی سفیدپوش۔ اس فرقے سے بھی مزید دو شاخیں نکلیں جن میں سے ایک کو مندر مارگی اور دوسرے کو ستھانک واسی کہتے ہیں۔

مندر مارگی شاخ کے سلسلے میں دونوں فرقوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں مگر ''ستھانک واسی'' فرقہ ذرا مختلف سوچ کا حامل ہے۔ ستھان سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کسی ترتھنکر یا جین رشی نے قیام کیا ہو۔ یہ مندر کے بجائے کھلی فضا میں مذہبی فرائض کی ادائی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جین مذہب میں بت پرستی کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ اس فرقے کی بنیاد سترہویں صدی میں پڑی تھی، جو بت پرستی اور مندر کے ضابطوں کے خلاف تھا۔ اس فرقے کے زیادہ تر ماننے والے گجرات اور کاٹھیاواڑ میں پائے جاتے ہیں۔

سویتامبر فرقے کے جینی اپنے مندروں میں رکھے ہوئے جین تر تھنکروں کی مورتیوں کو لنگوٹ باندھ کر رکھتے ہیں۔ اس فرقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب سے پہلے آنے والے سارے جین تر تھنکروں کی مورتیوں کو بھی لباس پہنایا جائے۔ دو بڑے فرقوں میں دو چار چیزوں کے علاوہ کوئی بڑا فرق نہیں پایا جاتا، مگر دونوں کی عبادت گاہوں کے اوپر یہ ضرور لکھا ہوتا ہے کہ یہ دگامبروں کی عبادت گاہ ہے یا سویتامبروں کی۔ ایک دوسرے کے لیے دونوں فرقوں کے ماننے والوں کے دلوں میں کینہ بھی پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ''جین دھرم کے مقدس مقامات'' کے مصنف بابو نیمی داس ایک سو سال قبل لکھتے ہیں:

''پھاگل پور کا اسٹیشن شہر میں ہے۔ سڑک سے دوسری طرف ''سویتامبری جینیوں'' کا دھرم شالہ ہے، مگر سویتامبری لوگ ''دگامبری جینیوں'' کے دھرم شالہ میں ٹھیرنے سے خوش نہیں ہوتے۔ اکثر مزاحمت بھی کرتے ہیں۔''



جین مت سے تعلق رکھنے والے سادھو اپنے ہاتھوں میں کمنڈلی اور ایک ٹوکری رکھتے ہیں اور کھڑے ہو کر بھیک وصول کرتے ہیں۔ دن میں ایک دفعہ کھانا کھاتے ہیں۔ وہ بھی سورج غروب ہونے سے قبل۔ اگر بھیک نہ ملے تو بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔ اگر کھانے میں کوئی بال یاکیڑا مکوڑا نظر آجائے تب بھی کھانا نہیں کھاتے اور اگلے دن تک بھوکے رہتے ہیں۔ ہمیشہ ننگے پاؤں ہی چلتے ہیں۔ ہاتھ میں مورپنکھوں کی جو ٹوکری رکھتے ہیں اُس سے اُڑنے والے کیڑے مکوڑوں کو اڑاتے ہیں، تاکہ انہیں تکلیف نہ ہو۔ دو ماہ میں ایک دفعہ اپنے ہاتھوں سے سر، داڑھی اور مونچھوں کے بال ہاتھ سے نوچتے ہیں۔ کمنڈل میں گرم اور چھنا ہوا پانی رکھتے ہیں، مگر اسے پیتے نہیں بل کہ طہارت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اپنی ناک پر ایک کپڑا بھی باندھ کر رکھتے ہیں تاکہ کوئی چھوٹا کیڑا سانس کے ذریعے ناک میں جانے کے بعد مر نہ جائے۔

کہا جاتا ہے کہ ''بھدر باہو'' نامی جین راہب نہ صرف ایک جین راہب تھے بل کہ چندر گپت موریا کے گرو بھی تھے۔ چندر گپت موریا کے دور میں جو قحط پڑا تھا اُس کی پیش گوئی بھدر باہو نے ہی کی تھی۔ گو کہ چندر گپت موریا کے دور ہی میں جین مت کے دو فرقے بنے تھے جن میں ''دگامبر'' فرقہ ان کے زیر اثر ہی وجود میں آیا، مگر دوسرا فرقہ ''سویتامبر'' بھی بھدر باہو کی اتنی ہی تعظیم کرتا ہے جتنی پہلا فرقہ۔ بھدرباہو اتنے ذہین تھے کہ ایک دفعہ جو بات سنتے انہیں یاد رہ جاتی تھی۔ جین مت میں انہیں ''شرت کیولی'' مانا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے ایسا گیانی جو اپنے مذہب، یعنی جین مذہب کی تمام کتابوں کو زبانی یاد رکھ سکے۔ ان کے علاوہ پانچ دوسرے شرت کیولی یہ ہیں:

پربھو، شمبھو، وشو بھدر، سوبھت وجے اور ستھول بھدر، مگر ''سویتامبر'' فرقے سے تعلق رکھنے والے ستھول بھدر کو ''شرت کیولی'' کا درجہ نہیں دیتے۔ قحط کے زمانے کی ایک روایت کے مطابق ایک دن بھدر باہو کھانا کھانے کی غرض سے شہر میں گئے۔ وہ ایک گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ گھر میں کوئی شخص موجود نہیں تھا، مگر پالنے میں ایک دودھ پیتا بچہ لیٹا ہوا تھا، جس نے انہیں دیکھتے ہی کہا،''تم یہاں سے چلے جاؤ! فوراً چلے جاؤ۔'' تب بھدر باہو نے اندازہ لگایا کہ یہاں بارہ سال تک بارش نہیں ہوگی اور ایسا قحط پڑے گا کہ کھانے پینے کی تمام اشیاء ختم ہوجائیں گی۔ ملک کے خزانے خالی ہوجائیں گے اور انسان ایک دوسرے کو کھانے کے لیے دوڑیں گے۔ وہ فوراً واپس چلے گئے اور دوسرے سادھوؤں سے کہا کہ یہاں قحط پڑنے والا ہے لہٰذا جنوبی علاقے میں سمندر کے کنارے کوچ کر جائیں۔ اسی دوران چندر گپت نے بھی سولہ خواب دیکھے، جس کے بعد وہ بھدرباہو کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان خوابوں کی تعبیر پوچھی۔ بھدر باہو نے بادشاہ سے کہا کہ تمہارے خواب انتہائی بری تعبیر کے حامل ہیں۔ اس ملک میں قحط پڑنے والا ہے جو بارہ سال تک رہے گا۔



جین مت میں ''بھدر باہو'' کے ساتھ ''ستھول بھدر'' کا نام بھی جُڑا ہوا ہے۔ اس لیے کہ اس مذہب میں چندر گپت موریا کے زمانے مین دو فرقوں کی بنیاد رکھنے والے یہی دو بڑے نام ہمارے سامنے آتے ہیں، مگر ستھول بھدر جین مت میں وہ مقام نہیں رکھتے جس پر بھدر باہو ہمیں نظر آتے ہیں۔ ''سویتامبر'' روایات کے مطابق ''ستھول بھدر'' مہابیر کے آٹھویں جانشین اور آخری شرت کیولی'' تھے۔ وہ ''ویر پربھو'' اور ''اندر بھوت گوتم'' نامی اچاریہ کے بعد ایک بڑے اچاریہ مانے جاتے ہیں۔ انہیں اچاریہ بھدرباہو ہی کی طرف سے اس عہدے پر مقرر کیا گیا تھا اور اُن کے بعد اُس دور کا یہ آخری اور بڑا نام سمجھا جاتا ہے۔ وہ ایک برہمن خاندان میں مگدھ کے دارالحکومت پاٹلی پتر میں پیدا ہوئے تھے۔

جین مت اور بدھ مت نے بھارت کے سب سے بڑے مذہب ہندومت کی گود میں پل کر اسی مذہب سے بغاوت کی، اپنے الگ بھگوان بنائے یا بہت سارے بھگوانوں سے جان چھڑا کر خدمت خلق، نیکی، ایمان داری اور مخلوق خدا کے ساتھ رحم کے اصولوں کو اپنایا۔ ان دونوں مذاہب کی جنم بھومی بھی ایک ہے اور ان کی ابتدائی مدت بھی تقریباً ایک ہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جین مت سے تعلق رکھنے والے علما اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جین مت کی ابتدا اُس وقت نہیں ہوئی تھی جب مہابیر نے اسے اپنایا تھا، بل کہ اس سے صدیوں پہلے اُس وقت ہوئی تھی جب اس کے پہلے تر تھنکر ''رشبھ دیو'' جنھیں اد ناتھ بھی کہا جاتا ہے، ایودھیا میں پیدا ہوئے تھے۔

بھارت میں اس مذہب سے جڑی آبادی کا کم ہونا اس لیے بھی قدرتی تھا کہ خود اس کے ماننے والے اس سے آہستہ آہستہ دور ہو کر ہندو مذہب میں ضم ہوتے گئے اور انھوں نے اپنی مذہبی رسومات کے لیے ہندو پنڈتوں کا سہارا لینا شروع کردیا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جین مت کا تعلق بنیادی طور پر عبادات سے زیادہ اعمال پر ہے اور یہ کسی بھگوان یا ایسی ذات کو نہیں مانتا جو مستقبل میں نجات دہندہ ہو۔ لہٰذا اس سے تعلق رکھنے والوں کی عبادت اور عقیدت کا معاملہ بھی وہیں دم توڑ دیتا ہے جہاں ان کا ایک فرقہ یہ کہتا ہے کہ بتوں کی پوجا اور عبادت درست نہیں اور ان میں اختلافات ہونے کے بعد لوگ دو فرقوں میں بٹ جاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لگ بھگ تین سو سال قبل دو فرقوں ''دگامبر'' اور ''سویتامبر'' کے بعد جب اس کی کچھ مزید شاخیں وجود میں آئیں تو اس کی کم آبادی اُن شاخوں میں تقسیم ہونے کے بعد مزید کم ہوتی چلی گئی۔ آخری شاخ ''ستھانک واسی'' کے وجود میں آنے کے بعد بہت سارے جینی اس کی طرف راغب ہوئے اور یوں ان کی آبادی پر مزید اثرات مرتب ہوئے۔ تیسری بڑی وجہ اس مذہب کے پیروکاروں کی آبادی میں کمی آنے کی یہ ہے کہ اس نے بدھ مت کی طرح اپنے اصولوں میں لچک پیدا نہیں کی جس کی وجہ سے یہ صرف بھارت یا اُس سے قبل برصغیر تک ہی محدود رہا۔ یہ بات درست ہے کہ اس کے ماننے والے امریکا اور کینیڈا جیسے ممالک میں بھی موجود ہیں۔

اعدادوشمار پر نظر ڈالی جائے تو امریکا اور کینیڈا میں اس وقت 85000ہزار جینی رہ رہے ہیں۔ 2001 میں ہونے والی بھارت کی مردم شماری ہمیں بتاتی ہے کہ وہاں رہنے والے جینیوں کی تعداد اُس وقت 4,225,053تھی۔ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ جینیوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، مگر اس کے کوئی ثبوت موجود نہیں تھے۔ ہاں یہ بات ضرور تھی کہ اس مردم شماری کے دوران بہت سارے جینیوں نے اپنی شناخت چھپائے رکھی یا مردم شماری کے عملے نے انہیں ہندوؤں کی فہرست میں ڈال دیا۔

تقسیم سے قبل بھارت میں رہنے والے جینیوں کی آبادی جو 1881ء میں % 0.49تھی 1941ء میں گھٹ کر 0.37% تک رہ گئی، مگر آزادی کے بعد کی تین دہائیوں میں اس میں استحکام پیدا ہوا اور یہ بھارت کی دوسری آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب کی صف میں شامل ہوگئی۔ 1981ء میں جینیوں کی آبادی جو % 47 0. تھی صرف دس سال کے دوران یعنی 1991ء میں 0.40%رہ گئی اور 2001ء تک اسی سطح پر رہی۔ اس حساب سے اگر آبادی کے تناسب میں کمی کی رفتار کو دیکھا جائے تو مستقبل میں اس میں مزید کمی کے امکانات ہیں۔

روزگار اور تجارت کے سلسلے میں جین مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد دنیا کے مختلف حصّوں میں پائے جاتے ہیں، جن میں زیادہ تر پنجابی اور تمل زبان بولنے والے ہیں، گو کہ اُن کی تعداد اتنی نہیں ہے جتنی ان کے ہم عصر مذہب بدھ مت کے ماننے والوں کی ہے، مگر وہ اپنی الگ پہچان ضرور رکھتے ہیں۔ اس وقت سب سے بڑی جین آبادی والا صوبہ مہاراشٹر ہے جہاں 1.32%جین آباد ہیں۔ مدھیہ پردیش میں 0.91%گجرات میں 1.03%اور کرناٹک میں0.74%جینی رہتے ہیں۔ بھارت کا کوئی بھی ایسا صوبہ نہیں ہے جہاں 2% یا اس سے زیادہ جینی آباد ہوں۔ صرف تین اضلاع ایسے ہیں جہاں جینیوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ اُن میں سے ممبئی میں 4.76%، کولہاپور 4.18% اور بلگرام میں 4.02 فی صد آبادی ہے۔ احمد آباد، اندور، اُدے پور، جے پور، بڑودا اور پونا میں جینیوں کی قابل ذکر آبادی پائی جاتی ہے۔

پچھلی صدی کے اختتام تک روزگار اور کاروبار کے سلسلے میں دوسرے ممالک جانے والے جینیوں نے محنت کے شعبے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں بیرون وطن جانے کا سب سے پہلا سلسلہ کینیا اور یوگنڈا سے شروع ہوا، جس کے بعد 1997ء میں جینی تارکین وطن نے امریکا، کینیڈا اور انگلینڈ کا رخ کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت امریکا اور کینیڈا میں 85,000جینی رہتے تھے۔ تب سے لے کر اب تک یہ آبادی بڑھ کر 160,000تک پہنچ چکی ہے۔ اب 15,000سے 20,000جینی برطانیہ میں بھی رہتے ہیں۔ 14,000کینیا میں اور کچھ بلجیئم، دبئی، ابوظبی، نیپال، سنگا پور، ملائیشیا، انڈونیشیا، جاپان اور آسٹریلیا میں بھی آباد ہیں۔

ایسے تارکین وطن جو ابتدا میں مشرقی افریقا کے ممالک میں گئے زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے، مگر اپنے کاروبار میں خوش حال ہونے کے بعد برطانیہ منتقل ہوگئے۔ مغرب کی طرف موجودہ دور میں منتقل ہونے والے زیادہ تر افراد پڑھے لکھے، انجنیئر، ڈاکٹر، ماہرمعاشیات اور تاجر تھے۔ ان ممالک میں رہنے والے جینی ایشیا کے دوسرے مذاہب اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رکھے ہوئے ہیں اور ان کی کسی بھی عمل سے ایسا نہیں لگتا کہ وہ دوسروں سے مختلف ہیں۔ اب جینی نوجوان اپنی برادری سے باہر بھی شادی کر رہے ہیں۔ اس عمل سے نئے خاندان میں جین مت کی روایات سے جُڑے رہنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ جین تنظیمیں جو ہندوستان اور دوسرے ممالک میں کام کر رہی ہیں جینی نوجوانوں کی ضروریات اور دل چسپی کو نہیں سمجھ پارہیں، جس کی وجہ سے نوجوان جینی روایات سے اکتا جاتے ہیں۔ جینیوں کے یہ مراکز پرانی نسل کی ضروریات ہی کو پورا کرتے ہیں۔ ایسے مراکز بعض دفعہ انتہائی سخت مذہبی اور فرقہ وارانہ رویہ بھی اختیار کرتے ہیں، جس کی وجہ سے جینی نوجوان عبادت گاہوں کی انتظامیہ سے اپنے تعلقات نہیں بڑھا پا رہے۔

بھارت کے بہت سارے علاقوں میں بھی جینیوں کی آبادی بڑی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ کچھ علاقوں، جیسا کہ کرناٹک کے ساحلی علاقے اور تامل ناڈو کی کئی برادریاں جین مت سے جڑی رہی ہیں، مگر اب کافی تلاش کے بعد ہی ان کی پہچان سامنے آتی ہے۔ راجستھان اور گجرات میں ''وشنو'' کے فرقے سے تعلق رکھنے والے بہت سارے خاندانوں کے بزرگ بھی جینی تھے۔ جنوبی انڈیا کی تقریباً آدھی اگروال آبادی بھی مغلیہ دور تک جین مت سے تعلق رکھتی تھی، مگر اب اس آبادی کے وہ افراد جن کا تعلق جین مت سے ہے صرف 8.10% ہی باقی بچے ہیں۔

جینیوں کی ایک معقول آبادی تقسیم سے قبل پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد تھی، مگر اس کے بعد وہ آہستہ آہستہ یہاں سے ہجرت کرگئی۔ اس کے باوجود یہاں کے مختلف علاقوں میں اُن کے خوب صورت مندر اب بھی اُن کی یاد دلاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مندر سندھ کے علاقے تھر کے مرکزی شہر مٹھی اور اس کے پاس پائے جاتے ہیں جو تعداد میں سات ہیں۔ اس کے علاوہ لاہور، ملتان، گوجرانوالہ اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی جین مندروں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔
Load Next Story