’’ایمان کی کمزوری پیسے کا لالچ اور گلیمر فکسنگ کی بڑی وجوہات ہیں‘‘
جسٹس(ر)ملک قیوم کی ’’ایکسپریس‘‘ کے ساتھ خصوصی گفتگو
عدل کے ایوانوں کا ایک معتبر نام جسٹس(ر) ملک قیوم ریٹائرہونے کے بعد بھی بطور قانون دان سرگرم ہیں، ان کی زندگی کا ایک اہم حوالہ پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ کے ناسور سے پردہ اٹھاتی تحقیقات بھی بنیں، ستمبر 1998میں انکوائری کا آغاز کرکے 18ماہ کی عرق ریزی کے بعد انھوں نے جو نتائج اخذ کیے جسٹس قیوم رپورٹ کے طور پر تاریخ کا حصہ ہیں۔
اس طویل عمل میں انھوں نے اس وقت کے موجودہ اور سابق کرکٹرز، بورڈ عہدیداروں، ٹیم منیجرز سمیت 33افراد، 3آسٹریلوی پلیئرز، 4صحافیوں اور 13پولیس حکام و دیگر متعلقہ شخصیات کے بیانات لیے، مشکوک میچز کی فہرست میں شامل ایک ایک مقابلے پر غورکیا گیا، تحقیقات مکمل ہونے پر سلیم ملک اور عطاء الرحمان تاحیات پابندی کے سزاوار ٹھہرے، قومی ٹیم کے موجودہ ہیڈکوچ وقار یونس، موجودہ اسپن بولنگ کوچ مشتاق احمد، وسیم اکرم، انضمام الحق، اکرم رضا اور سعید انورپر جرمانے ہوئے۔
شکوک کی زد میں آنے والے بیشتر کھلاڑیوں کو آئندہ پاکستان کرکٹ میں اہم ذمے داریاں نہ دینے کی بھی سفارش ہوئی تھی لیکن پاکستانی کلچر میںاس طرح کے معاملات گوارا کرلینے کا چلن بتدریج کرکٹرز کے لیے راستے صاف کرتاگیا، سب ایک ایک کرکے اہم عہدے حاصل کرتے گئے، کمزور پالیسی کے سبب 2010کا اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل بھی سامنے آیا، سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف کے اسٹنگ آپریشن میں پکڑے جانے پر دنیائے کرکٹ میں بھونچال آگیا تھا۔ ''ایکسپریس'' نے فکسنگ کے ناسور اور کمیشن کی سفارشات کو نظر انداز کیے جانے کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے جسٹس قیوم کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس:آپ نے میچ فکسنگ پر بڑی گہرائی میں جاکر تحقیقات کرنے کے بعد مفصل رپورٹ بھی جاری کی، جن لوگوں کو سزائیں سنائیں اور مشکوک قرار دیا گیا، ان کو آج ملکی کرکٹ میں اہم عہدوں پر براجمان دیکھ کر کیسا محسوس کرتے ہیں، کیا دکھ نہیں ہوتا کہ اتنی محنت کا کیا فائدہ ہوا؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: مجھے کوئی دکھ نہیں ہوتا، ایک جج اور وکیل کے طور پر ہمارا کام کسی نتیجے پر پہنچ کر درست رائے دینا اور انصاف کے تقاضے پورا کرتا ہے، فیصلے پر عملدرآمد حکومت اور اداروں کی ذمے داری ہے، کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے پر اس وقت تو تھوڑے بہت اقدامات اٹھائے گئے تھے، بعد میں حکام نے اسے نظر انداز کردیا جسے بدقسمتی ہی کہوں گا۔
ایکسپریس:ایک جج کے طور پر تو آپ نے رائے دیدی، بطور پاکستانی اور کرکٹ کا شائق ہونے کے ناطے کیا سوچتے ہیں؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: پاکستانی کے طور پر تو مجھے بھی اتنی ہی تشویش ہے جتنی ہر شائق کو ہوگی، کرکٹ ملک میں کھیل ہی نہیں ایک جذبہ اور جنون بن چکی، پی سی بی بھی ایک بڑے ادارے کی صورت اختیار کرگیا ہے، مایوسی کی بات ہے کہ کیا ملکی کرکٹ کی خدمت کے لیے بورڈ حکام کو اچھے لوگ نہیں مل سکتے تھے؟
ایکسپریس:کمیشن رپورٹ کو دیکھا جائے تو وسیم اکرم اور وقار یونس کے ساتھ قدرے نرمی برتی جانے کا تاثر پیدا ہوتا ہے، اس حوالے سے کچھ کہنا چاہیں گے؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: ایک جج کے طور پر میری ٹریننگ میں شامل تھا کہ شک کا فائدہ ملزم کو دیا جائے، دونوں کیخلاف اتنے ٹھوس ثبوت نہیں تھے کہ تاحیات پابندی عائد کردی جاتی تاہم ان کی دیانتداری پر شکوک ضرور تھے، اس لیے رپورٹ میں لکھا گیا کہ انھیں پاکستان کرکٹ میں کوئی اختیار نہ دیا جائے۔
جہاں تک مجھے یاد ہے وقار یونس کیخلاف صرف عاقب جاوید کا بیان تھا کہ ''انھوں نے کسی بکی سے شاید ایک پجیرو جیپ لی تھی لیکن بعد میں میرے کہنے پر واپس کردی'' وسیم اکرم کیخلاف بیان عطاء الرحمان کے اعتراف جرم میں سامنے آیا، ان کو بھی اتھارٹی والی کوئی ذمے داری نہ دینے کی سفارش کی گئی تھی لیکن بورڈ حکام نے اس وقت ہی خلاف ورزی کرتے ہوئے انھیں قومی ٹیم کا کپتان بنا دیا تھا۔
ایکسپریس:وقار یونس پر ان کے ساتھی کھلاڑی نے ہی اتنا بڑا الزام لگایا، کیا آپ کے خیال میں انھیں ہیڈ کوچ جیسا اہم عہدہ دینا مناسب ہے؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: یہ تو انھیں سوچنا چاہیے جنھوں نے ایک اہم ذمے داری سابق ٹیسٹ کرکٹر کو دی، میرے خیال میں وقت گزرنے کے ساتھ لوگ بھول ہی گئے ہیں کہ ان کیخلاف کچھ لکھا بھی گیا تھا۔
ایکسپریس:ہم بھول گئے لیکن آسٹریلیا والے نہیں بھولے، وقار یونس بعض مسائل کی وجہ سے پاکستان میں کوچنگ چھوڑگئے تو آسٹریلوی بورڈ نے خواہش کے باوجود ان کی خدمات حاصل کرنے سے گریز کیا؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: ہمیں تیسری دنیا کے ملکوں میں شمار اسی لیے کیا جاتا ہے کہ یہاں بہت سی ایسی چیزیں گوارا کرلی جاتی ہیں جو پہلی اور دوسری دنیا میں نہیں چلتیں، یہی معاملات کرکٹ نہیں بلکہ ہر شعبے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
ایکسپریس:مشتاق احمد پر بھی تو الزامات تھے، اسپنر کو انگلینڈ نے بولنگ کوچ بنایا، اب وہ پاکستانی اسپنرز کی کوچنگ کررہے ہیں؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: بہت پرانا کیس ہے، بہت سی باتیں اب یاد نہیں، شاید ان کا بھی وسیم اکرم جیسا ہی معاملہ تھا، انھیں بھی کوئی اختیار نہ دینے کی سفارش کی گئی تھی۔
ایکسپریس:سلیم ملک پر تاحیات پابندی عائد کی گئی تھی، سب لوگ ایک ایک کرکے واپس آگئے، پاکستان کرکٹ میں عہدے بھی حاصل کیے، سابق کپتان کیوں الگ تھلگ رہ گئے؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: سلیم ملک بیچارے کا کوئی اثرو رسوخ نہیں ہوگا، کوئی تگڑا بندہ ان کے پیچھے نہیں ہوگا، وہ عدالت میں گئے تھے اور انھیں اجازت بھی مل گئی تھی، میں تو یہی کہوں گا کہ یہ دوہرا معیار ہے۔
ایکسپریس:شین وارن اور دیگر آسٹریلوی کرکٹرز نے کہا تھا کہ ان سے سلیم ملک نے براہ راست فکسنگ کی بات کی تھی، آپ نے ان سے کیا معلومات حاصل کیں؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: مارک وا، مارک ٹیلر اور ایک تیسرا کھلاڑی بھی پیش ہوا تھا، شین وارن نے کہا تھا کہ میری جان کو خطرہ ہے اس لیے نہیں آسکتا، میں نے ایک ذمے دار شخص کو یہاں سے آسٹریلیا بھیجا جو ان کا بیان ریکارڈ کرکے لایا، میرے لیے بڑے دکھ کی بات تھی کہ آسٹریلوی کھلاڑیوں نے بتایا کہ انھیں فکسنگ کے لیے پیسے وصول کرنے کی پیشکش میزبان کپتان پاکستانی ایوان صدر میں دعوت کے دوران کی گئی، دونوں ٹیموں کے اعزاز میں سجائی جانے والی تقریب میں کہا گیا کہ میچ فکسڈکرلیتے ہیں، دونوں کا مالی فائدہ ہوجائے گا۔
ایکسپریس:اب موجودہ صورتحال پر بات کرلیتے ہیں، سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر نے اسپاٹ فکسنگ کیس میں جیل کاٹی، پابندی کی سزا بھی پوری کی، تینوں اب قومی ٹیم میں واپسی کا خواب دیکھ رہے ہیں، ایک جج اور بطور پاکستانی کیا کوئی رائے دیں گے؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: جج اور پاکستانی دونوں کی حیثیت سے میری ایک رائے ہے کہ انھوں نے اپنے کیے کی سزا بھگت لی، کسی جرم میں ایک بار سزا دی جاسکتی ہے، ہمارے مذہب میں بھی اگر کوئی توبہ کرلے تو اللہ بھی معاف کردیتا ہے، اب ان کو دوبارہ سزا تو نہیں دینا چاہیے۔
ایکسپریس:انھوں نے ملک کا نام خراب کیا، فکسنگ کیس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دیتی رہی، کیا ان کو ایک بار پھر پاکستان کی نمائندگی کا موقع دینا درست ہوگا؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: انھوں نے غلط کیا تو اس کی سزا بھی مل گئی جیل میں بھی گئے، پابندی کی مدت بھی پوری کی، ڈبل سزا تو نہیں دے سکتے۔
ایکسپریس:ایک سزا یافتہ شخص کو سرکاری نوکری کے لیے بھی نااہل سمجھا جاتا ہے، ان کھلاڑیوں کو تو ملک کی نمائندگی کرنا ہوگی؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: کرکٹرز کا معاملہ الگ ہے، یہ وکلا کی طرح پروفیشنلز ہیں، اگر وکیل سے اونچ نیچ ہوجائے تو بہت کم ہوتا ہے کہ ساری عمر کے لیے اسے بین کردیا جائے، عام طور پر کسی خاص مدت کے لیے پابندی لگتی جس کے ختم ہونے کے بعد دوبارہ پریکٹس کی اجازت ہوتی ہے، گذشتہ دنوں ایک وکیل کا کسی بات پر عدالت سے مسئلہ ہوا تو انھیں ایک سال کے لیے معطل کردیا گیا تھا۔
اسی طرح کرکٹرز کو آئی سی سی نے 5 سال کے لیے بین کیا تو اس کا مطلب ہے کہ ان پر تاحیات پابندی نہیں لگی، جو سزا انھیں دی گئی تھی وہ پوری ہوگئی، ایک شخص کسی جرم میں سزا پانے پر5 سال کے لیے بین ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ تاحیات پابندی نہیں لگی، جو سزا ان کو دی گئی تھی وہ پوری ہوگئی، اب تو ایک شخص کسی جرم میں سزا پانے کے 5 سال بعد الیکشن بھی لڑسکتا ہے، شروع میں یہ تھا کہ ایک بار سزا ہوگئی تو ہمیشہ کے لیے نااہل ہوگئے،ترمیم کے بعد5 سال گزرنے پر رکن پارلیمنٹ بھی بن سکتے ہیں۔
ایکسپریس:آپ کے خیال میں کیا وجہ تھی کہ ہمارے کرکٹرز بڑی تعداد میں میچ فکسنگ میں ملوث ہوتے چلے گئے؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: ایمان کی کمزوری، پیسے کا لالچ اور گلیمر اس کی بڑی وجوہات ہیں، زیادہ تر لڑکے نوجوانی میں قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنتے ہیں، محمد عامر کی ہی مثال لے لیں صرف 18 سال کا تھا، اس عمر میں آپ پختہ سوچ کی کتنی توقع کرسکتے ہیں؟ اپنی انکوائری میں بھی میں نے قومی ٹیم کے منیجر کی ذمے داریاں نبھانے والے 12,10 افراد کا انٹرویو کیا، اتنے ہی کپتانوں سے بھی بات کی۔
یاورسعید کے سوا سب نے اس حقیقت کو آشکار کیا کہ میچ فکسنگ ہوتی ہے، عمران خان سمیت کپتانوں نے بھی کہا کہ کھیل میں کرپشن کی آلودگی موجود ہے،کھلاڑی ہارنا فکسڈکرلیتے تھے، عمران خان نے ایک واقعہ بتایا کہ انھوں نے تمام پلیئرز کی میچ فیس پاکستان کی جیت پر لگا دی تھی، ان کا خیال تھا کہ کھلاڑی اپنے پیسے خود تو نہیں ہرائیں گے ،اب دو چیزیں ہوئی ہیں۔
ایک تو آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ خاصا سرگرم ہے، دوسرے کرکٹر کو پیسہ اتنا ملنا شروع ہوگیا کہ دوسرے کاموں میں پڑنے سے پہلے سوچتے ہیں کہ معقول آمدن کے جائز طریقوں کو نہ چھوڑیں، عامر کا کیس یہ ہے کہ نوجوان تھا، ہماری ٹیموں میں کپتان خاصا بااثر ہوتا ہے، کھلاڑی کو اس کی بات ماننا پڑتی ہے، اس کیس میں سلمان بٹ زیادہ ذمے دار تھے، انھوں نے عامر سے کہا اور اس نے بات مان لی۔
ایکسپریس:آپ نے انکوائری کے دوران بہت سے لوگوں سے بات چیت کی، ان کے کردار کے بارے میں بھی چھان بین کی، آپ کے خیال میں کون سا کرکٹر ہے جس کی دیانتداری نے متاثر کیا؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: میرے خیال میں راشد لطیف خاصے ایماندار آدمی ہیں، ان کے بارے میں کوئی شکایت نہیں تھی، سعید انور کا ایک واقعہ ہوا تھا لیکن اس کے بعد کوئی نہیں، ان کا مذہب کی طرف رجحان بھی بڑھ گیا تھا، انضمام الحق بھی بچپنے میں کوئی بات کرگیا ہوگا، بعدازاں کیریئر بڑا صاف ستھرا رہا، راشد لطیف نے انکوائری کے دوران معلومات کی فراہمی اور حقائق تک رسائی میں میری بڑی مدد کی تھی۔
ایکسپریس:کیا بورڈ حکام فکسنگ کے سلسلے میں رہنمائی کے لیے رجوع کرتے ہیں؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: میرے موجودہ چیئرمین شہریار خان اور نجم سیٹھی سے بھی اچھے مراسم ہیں لیکن بورڈ حکام میری رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
ایکسپریس:آپ کے خیال میں فکسنگ کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: آج کل ٹیکنالوجی کا دور ہے، میچ یا کھلاڑی کے رویے کو اچانک کروٹ بدلتے دیکھ کر عام شائق بھی اندازہ کرسکتا ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے، مجھے ایک میچ یاد ہے کہ انگلینڈ کا ایک بیٹسمین تھا، ہمارے بولر اسے ایک ہی جگہ گیند کراتے جا رہے تھے، وہ ان پر اپنا پسندیدہ اسٹروک کھیلتا، کوئی ایسی ڈلیوری نظر نہیں آئی جس پر وہ اکثر مشکل محسوس کرتا تھا، اگر میں سمجھ سکتا ہوں تو کرکٹ کے ماہرین کیوں نہیں، بیٹسمین لیگ اسٹمپ پر ہٹ لگاتے جارہا ہے اور بولر آف اسٹمپ ہی بھول گیا تو اس کا کیا مطلب ہے؟اس ناسور پر قابو پانے کیلئے کھیل پر گراس روٹ سطح سے اوپر تک کڑی نظر رکھنی چاہیے، دیانتدار اور کرکٹ سے مخلص لوگ چیزوں کو سختی سے مانیٹر کریں، میچ پر ذرا سابھی شک ہوتو ماہرین اس کا ریویو کریں، کوئی پکڑا جائے تو اسے سزا لازمی دینی ہوگی۔n
ایک اور ون ڈے سیریز میں شکست
کارکردگی میں عدم تسلسل پاکستان کرکٹ کی پہچان بن چکا، بات ون ڈے میچز کی ہو تو اس کی نت نئی مثالیں دیکھنے کو ملیں گی، حال ہی میں میزبان ٹیم نے پہلے میچ میں انگلینڈ کو شکست دی تو شائقین کو آس لگ گئی کہ اس بار سیریز فتح کا 10قحط ختم ہوجائے گا، ابوظہبی میں ہونے والے اس مقابلے میں بولرز نے انگلش ٹیم کو کم ٹوٹل تک محدود رکھا، پھر ابتدائی نقصانات سے سنبھلتے ہوئے محمد حفیظ کی سنچری اور بابراعظم کی ففٹی کی بدولت ہدف عبور بھی کرلیا، اسی وینیو پر دوسرے مقابلے میں کہانی بالکل مختلف ہوگئی۔
انگلینڈ نے شکست کے باوجود اپنی پلیئنگ الیون پر اعتماد برقرار رکھا اور کم بیک کرتے ہوئے پاکستان کو تینوں شعبوں میں آؤٹ کلاس کیا،میزبان بولرز اور فیلڈرز نے انگلش ٹیم کو قابل قدر مجموعہ حاصل کرنے کی ڈھیل دی، منیجنٹ نے نوآموز کرکٹرز کو تجربات کی بھٹی سے گزارتے ہوئے حریف کو حاوی ہونے کا موقع فراہم کیا، پہلے میچ میںوننگ اننگز کھیلنے والے بابر اعظم کو اوپنر بھیج کر اعتماد متزلزل کردیا گیا، افتخار احمد کو ڈیبیو مقابلے میں ہی ٹاپ آرڈر کا بوجھ اٹھانے کا چیلنج دیا گیا جس میں وہ بری طرح ناکام رہے۔
بیٹسمین انتہائی غیر ذمے دارانہ اسٹروکس کھیل کر وکٹیں گنواتے رہے، صرف 188پر ڈھیر ہونے والی ٹیم نے شارجہ میں بیٹنگ وکٹ پر اچھے آغاز کے باوجود حیران کن غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وکٹیں گنوائیں، پورے بیٹنگ آرڈرسے چھیڑ چھاڑ، 3رن آؤٹس اور غیر ضروری اونچے شاٹس نے اس بار بھی بڑے ٹوٹل کی امیدوں پر پانی پھیرا، پھر انگلینڈ کے 4بیٹسمین 93پر آؤٹ کرنے کے بعد پچ میں بہت زیادہ ٹرن ہونے کے باوجود بولرز اور فیلڈرز کا جذبہ بھی ماند پڑگیا، چوتھا ون ڈے سیریز بچانے کا آخری موقع تھا لیکن بولرز خاص طور پر انورعلی اور وہاب ریاض رنز کا سیلاب روکنے میں ناکام رہے۔
کم رفتار شارٹ گیندوں کی بھرمار نے جوز بٹلر کو جی بھر کر دھلائی کا موقع فراہم کیا، بیٹسمین پہاڑ جیسے ہدف کے تعاقب میں تھوڑی ہمت دکھاتے لیکن اہم مواقع پر وکٹیں گنواتے رہے، کسی ایک کی جانب سے سنچری پاکستان کو منزل تک لیجاسکتی تھی مگر کسی نے کریز پر رکنے میں دلچسپی نہیں دکھائی، پوری ٹیم ڈھیر ہوئی تو ایک بار پھر بہت سے رنز اور 10کے قریب اوورز باقی تھے، یوں پوری سیریز تجربات کی بھینٹ چڑھ گئی، اب ایک بار پھر منیجمٹ کی جانب سے بیانات جاری ہونگے کہ شکستوں کے باوجود بہتری کے آثار نظر آئے ہیں۔
چند نئے کرکٹرز میں مستقبل کے بڑے کھلاڑی بننے کی جھلک نظر آگئی، درست کمبی نیشن تشکیل دینے کی کوشش کررہے ہیں، اگلی ایک، دو سیریز میں یہ ہدف بھی حاصل کرلیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام تر خامیوں کے باوجود پاکستان کسی نہ کسی طور چیمپئنز ٹرافی کے لیے تو کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوگیا، خوف اس قدر تھا کہ بی سی بی نے اپنی رینکنگ برقرار رکھنے کے لی زمبابوے کے خلاف سیریز ہی موخر کردی، سوال یہ ہے کہ ہیڈ کوچ وقار یونس کھلاڑیوں کو اندر، باہر، اوپر، نیچے کرکے اپ سیٹ کرتے رہے تو ٹیم کیسے سیٹ ہوگی، کارکردگی کا یہی حال رہا تو ورلڈ کپ میں جگہ بنانے کے لالے نہ پڑجائیں، ہاکی میں یہ صدمہ مل چکا،کہیں کرکٹ بھی اسی نہج پر نہ پہنچ جائے۔ n
اس طویل عمل میں انھوں نے اس وقت کے موجودہ اور سابق کرکٹرز، بورڈ عہدیداروں، ٹیم منیجرز سمیت 33افراد، 3آسٹریلوی پلیئرز، 4صحافیوں اور 13پولیس حکام و دیگر متعلقہ شخصیات کے بیانات لیے، مشکوک میچز کی فہرست میں شامل ایک ایک مقابلے پر غورکیا گیا، تحقیقات مکمل ہونے پر سلیم ملک اور عطاء الرحمان تاحیات پابندی کے سزاوار ٹھہرے، قومی ٹیم کے موجودہ ہیڈکوچ وقار یونس، موجودہ اسپن بولنگ کوچ مشتاق احمد، وسیم اکرم، انضمام الحق، اکرم رضا اور سعید انورپر جرمانے ہوئے۔
شکوک کی زد میں آنے والے بیشتر کھلاڑیوں کو آئندہ پاکستان کرکٹ میں اہم ذمے داریاں نہ دینے کی بھی سفارش ہوئی تھی لیکن پاکستانی کلچر میںاس طرح کے معاملات گوارا کرلینے کا چلن بتدریج کرکٹرز کے لیے راستے صاف کرتاگیا، سب ایک ایک کرکے اہم عہدے حاصل کرتے گئے، کمزور پالیسی کے سبب 2010کا اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل بھی سامنے آیا، سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف کے اسٹنگ آپریشن میں پکڑے جانے پر دنیائے کرکٹ میں بھونچال آگیا تھا۔ ''ایکسپریس'' نے فکسنگ کے ناسور اور کمیشن کی سفارشات کو نظر انداز کیے جانے کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے جسٹس قیوم کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس:آپ نے میچ فکسنگ پر بڑی گہرائی میں جاکر تحقیقات کرنے کے بعد مفصل رپورٹ بھی جاری کی، جن لوگوں کو سزائیں سنائیں اور مشکوک قرار دیا گیا، ان کو آج ملکی کرکٹ میں اہم عہدوں پر براجمان دیکھ کر کیسا محسوس کرتے ہیں، کیا دکھ نہیں ہوتا کہ اتنی محنت کا کیا فائدہ ہوا؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: مجھے کوئی دکھ نہیں ہوتا، ایک جج اور وکیل کے طور پر ہمارا کام کسی نتیجے پر پہنچ کر درست رائے دینا اور انصاف کے تقاضے پورا کرتا ہے، فیصلے پر عملدرآمد حکومت اور اداروں کی ذمے داری ہے، کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے پر اس وقت تو تھوڑے بہت اقدامات اٹھائے گئے تھے، بعد میں حکام نے اسے نظر انداز کردیا جسے بدقسمتی ہی کہوں گا۔
ایکسپریس:ایک جج کے طور پر تو آپ نے رائے دیدی، بطور پاکستانی اور کرکٹ کا شائق ہونے کے ناطے کیا سوچتے ہیں؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: پاکستانی کے طور پر تو مجھے بھی اتنی ہی تشویش ہے جتنی ہر شائق کو ہوگی، کرکٹ ملک میں کھیل ہی نہیں ایک جذبہ اور جنون بن چکی، پی سی بی بھی ایک بڑے ادارے کی صورت اختیار کرگیا ہے، مایوسی کی بات ہے کہ کیا ملکی کرکٹ کی خدمت کے لیے بورڈ حکام کو اچھے لوگ نہیں مل سکتے تھے؟
ایکسپریس:کمیشن رپورٹ کو دیکھا جائے تو وسیم اکرم اور وقار یونس کے ساتھ قدرے نرمی برتی جانے کا تاثر پیدا ہوتا ہے، اس حوالے سے کچھ کہنا چاہیں گے؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: ایک جج کے طور پر میری ٹریننگ میں شامل تھا کہ شک کا فائدہ ملزم کو دیا جائے، دونوں کیخلاف اتنے ٹھوس ثبوت نہیں تھے کہ تاحیات پابندی عائد کردی جاتی تاہم ان کی دیانتداری پر شکوک ضرور تھے، اس لیے رپورٹ میں لکھا گیا کہ انھیں پاکستان کرکٹ میں کوئی اختیار نہ دیا جائے۔
جہاں تک مجھے یاد ہے وقار یونس کیخلاف صرف عاقب جاوید کا بیان تھا کہ ''انھوں نے کسی بکی سے شاید ایک پجیرو جیپ لی تھی لیکن بعد میں میرے کہنے پر واپس کردی'' وسیم اکرم کیخلاف بیان عطاء الرحمان کے اعتراف جرم میں سامنے آیا، ان کو بھی اتھارٹی والی کوئی ذمے داری نہ دینے کی سفارش کی گئی تھی لیکن بورڈ حکام نے اس وقت ہی خلاف ورزی کرتے ہوئے انھیں قومی ٹیم کا کپتان بنا دیا تھا۔
ایکسپریس:وقار یونس پر ان کے ساتھی کھلاڑی نے ہی اتنا بڑا الزام لگایا، کیا آپ کے خیال میں انھیں ہیڈ کوچ جیسا اہم عہدہ دینا مناسب ہے؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: یہ تو انھیں سوچنا چاہیے جنھوں نے ایک اہم ذمے داری سابق ٹیسٹ کرکٹر کو دی، میرے خیال میں وقت گزرنے کے ساتھ لوگ بھول ہی گئے ہیں کہ ان کیخلاف کچھ لکھا بھی گیا تھا۔
ایکسپریس:ہم بھول گئے لیکن آسٹریلیا والے نہیں بھولے، وقار یونس بعض مسائل کی وجہ سے پاکستان میں کوچنگ چھوڑگئے تو آسٹریلوی بورڈ نے خواہش کے باوجود ان کی خدمات حاصل کرنے سے گریز کیا؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: ہمیں تیسری دنیا کے ملکوں میں شمار اسی لیے کیا جاتا ہے کہ یہاں بہت سی ایسی چیزیں گوارا کرلی جاتی ہیں جو پہلی اور دوسری دنیا میں نہیں چلتیں، یہی معاملات کرکٹ نہیں بلکہ ہر شعبے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
ایکسپریس:مشتاق احمد پر بھی تو الزامات تھے، اسپنر کو انگلینڈ نے بولنگ کوچ بنایا، اب وہ پاکستانی اسپنرز کی کوچنگ کررہے ہیں؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: بہت پرانا کیس ہے، بہت سی باتیں اب یاد نہیں، شاید ان کا بھی وسیم اکرم جیسا ہی معاملہ تھا، انھیں بھی کوئی اختیار نہ دینے کی سفارش کی گئی تھی۔
ایکسپریس:سلیم ملک پر تاحیات پابندی عائد کی گئی تھی، سب لوگ ایک ایک کرکے واپس آگئے، پاکستان کرکٹ میں عہدے بھی حاصل کیے، سابق کپتان کیوں الگ تھلگ رہ گئے؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: سلیم ملک بیچارے کا کوئی اثرو رسوخ نہیں ہوگا، کوئی تگڑا بندہ ان کے پیچھے نہیں ہوگا، وہ عدالت میں گئے تھے اور انھیں اجازت بھی مل گئی تھی، میں تو یہی کہوں گا کہ یہ دوہرا معیار ہے۔
ایکسپریس:شین وارن اور دیگر آسٹریلوی کرکٹرز نے کہا تھا کہ ان سے سلیم ملک نے براہ راست فکسنگ کی بات کی تھی، آپ نے ان سے کیا معلومات حاصل کیں؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: مارک وا، مارک ٹیلر اور ایک تیسرا کھلاڑی بھی پیش ہوا تھا، شین وارن نے کہا تھا کہ میری جان کو خطرہ ہے اس لیے نہیں آسکتا، میں نے ایک ذمے دار شخص کو یہاں سے آسٹریلیا بھیجا جو ان کا بیان ریکارڈ کرکے لایا، میرے لیے بڑے دکھ کی بات تھی کہ آسٹریلوی کھلاڑیوں نے بتایا کہ انھیں فکسنگ کے لیے پیسے وصول کرنے کی پیشکش میزبان کپتان پاکستانی ایوان صدر میں دعوت کے دوران کی گئی، دونوں ٹیموں کے اعزاز میں سجائی جانے والی تقریب میں کہا گیا کہ میچ فکسڈکرلیتے ہیں، دونوں کا مالی فائدہ ہوجائے گا۔
ایکسپریس:اب موجودہ صورتحال پر بات کرلیتے ہیں، سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر نے اسپاٹ فکسنگ کیس میں جیل کاٹی، پابندی کی سزا بھی پوری کی، تینوں اب قومی ٹیم میں واپسی کا خواب دیکھ رہے ہیں، ایک جج اور بطور پاکستانی کیا کوئی رائے دیں گے؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: جج اور پاکستانی دونوں کی حیثیت سے میری ایک رائے ہے کہ انھوں نے اپنے کیے کی سزا بھگت لی، کسی جرم میں ایک بار سزا دی جاسکتی ہے، ہمارے مذہب میں بھی اگر کوئی توبہ کرلے تو اللہ بھی معاف کردیتا ہے، اب ان کو دوبارہ سزا تو نہیں دینا چاہیے۔
ایکسپریس:انھوں نے ملک کا نام خراب کیا، فکسنگ کیس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دیتی رہی، کیا ان کو ایک بار پھر پاکستان کی نمائندگی کا موقع دینا درست ہوگا؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: انھوں نے غلط کیا تو اس کی سزا بھی مل گئی جیل میں بھی گئے، پابندی کی مدت بھی پوری کی، ڈبل سزا تو نہیں دے سکتے۔
ایکسپریس:ایک سزا یافتہ شخص کو سرکاری نوکری کے لیے بھی نااہل سمجھا جاتا ہے، ان کھلاڑیوں کو تو ملک کی نمائندگی کرنا ہوگی؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: کرکٹرز کا معاملہ الگ ہے، یہ وکلا کی طرح پروفیشنلز ہیں، اگر وکیل سے اونچ نیچ ہوجائے تو بہت کم ہوتا ہے کہ ساری عمر کے لیے اسے بین کردیا جائے، عام طور پر کسی خاص مدت کے لیے پابندی لگتی جس کے ختم ہونے کے بعد دوبارہ پریکٹس کی اجازت ہوتی ہے، گذشتہ دنوں ایک وکیل کا کسی بات پر عدالت سے مسئلہ ہوا تو انھیں ایک سال کے لیے معطل کردیا گیا تھا۔
اسی طرح کرکٹرز کو آئی سی سی نے 5 سال کے لیے بین کیا تو اس کا مطلب ہے کہ ان پر تاحیات پابندی نہیں لگی، جو سزا انھیں دی گئی تھی وہ پوری ہوگئی، ایک شخص کسی جرم میں سزا پانے پر5 سال کے لیے بین ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ تاحیات پابندی نہیں لگی، جو سزا ان کو دی گئی تھی وہ پوری ہوگئی، اب تو ایک شخص کسی جرم میں سزا پانے کے 5 سال بعد الیکشن بھی لڑسکتا ہے، شروع میں یہ تھا کہ ایک بار سزا ہوگئی تو ہمیشہ کے لیے نااہل ہوگئے،ترمیم کے بعد5 سال گزرنے پر رکن پارلیمنٹ بھی بن سکتے ہیں۔
ایکسپریس:آپ کے خیال میں کیا وجہ تھی کہ ہمارے کرکٹرز بڑی تعداد میں میچ فکسنگ میں ملوث ہوتے چلے گئے؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: ایمان کی کمزوری، پیسے کا لالچ اور گلیمر اس کی بڑی وجوہات ہیں، زیادہ تر لڑکے نوجوانی میں قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنتے ہیں، محمد عامر کی ہی مثال لے لیں صرف 18 سال کا تھا، اس عمر میں آپ پختہ سوچ کی کتنی توقع کرسکتے ہیں؟ اپنی انکوائری میں بھی میں نے قومی ٹیم کے منیجر کی ذمے داریاں نبھانے والے 12,10 افراد کا انٹرویو کیا، اتنے ہی کپتانوں سے بھی بات کی۔
یاورسعید کے سوا سب نے اس حقیقت کو آشکار کیا کہ میچ فکسنگ ہوتی ہے، عمران خان سمیت کپتانوں نے بھی کہا کہ کھیل میں کرپشن کی آلودگی موجود ہے،کھلاڑی ہارنا فکسڈکرلیتے تھے، عمران خان نے ایک واقعہ بتایا کہ انھوں نے تمام پلیئرز کی میچ فیس پاکستان کی جیت پر لگا دی تھی، ان کا خیال تھا کہ کھلاڑی اپنے پیسے خود تو نہیں ہرائیں گے ،اب دو چیزیں ہوئی ہیں۔
ایک تو آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ خاصا سرگرم ہے، دوسرے کرکٹر کو پیسہ اتنا ملنا شروع ہوگیا کہ دوسرے کاموں میں پڑنے سے پہلے سوچتے ہیں کہ معقول آمدن کے جائز طریقوں کو نہ چھوڑیں، عامر کا کیس یہ ہے کہ نوجوان تھا، ہماری ٹیموں میں کپتان خاصا بااثر ہوتا ہے، کھلاڑی کو اس کی بات ماننا پڑتی ہے، اس کیس میں سلمان بٹ زیادہ ذمے دار تھے، انھوں نے عامر سے کہا اور اس نے بات مان لی۔
ایکسپریس:آپ نے انکوائری کے دوران بہت سے لوگوں سے بات چیت کی، ان کے کردار کے بارے میں بھی چھان بین کی، آپ کے خیال میں کون سا کرکٹر ہے جس کی دیانتداری نے متاثر کیا؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: میرے خیال میں راشد لطیف خاصے ایماندار آدمی ہیں، ان کے بارے میں کوئی شکایت نہیں تھی، سعید انور کا ایک واقعہ ہوا تھا لیکن اس کے بعد کوئی نہیں، ان کا مذہب کی طرف رجحان بھی بڑھ گیا تھا، انضمام الحق بھی بچپنے میں کوئی بات کرگیا ہوگا، بعدازاں کیریئر بڑا صاف ستھرا رہا، راشد لطیف نے انکوائری کے دوران معلومات کی فراہمی اور حقائق تک رسائی میں میری بڑی مدد کی تھی۔
ایکسپریس:کیا بورڈ حکام فکسنگ کے سلسلے میں رہنمائی کے لیے رجوع کرتے ہیں؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: میرے موجودہ چیئرمین شہریار خان اور نجم سیٹھی سے بھی اچھے مراسم ہیں لیکن بورڈ حکام میری رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
ایکسپریس:آپ کے خیال میں فکسنگ کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں؟
جسٹس (ر) ملک قیوم: آج کل ٹیکنالوجی کا دور ہے، میچ یا کھلاڑی کے رویے کو اچانک کروٹ بدلتے دیکھ کر عام شائق بھی اندازہ کرسکتا ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے، مجھے ایک میچ یاد ہے کہ انگلینڈ کا ایک بیٹسمین تھا، ہمارے بولر اسے ایک ہی جگہ گیند کراتے جا رہے تھے، وہ ان پر اپنا پسندیدہ اسٹروک کھیلتا، کوئی ایسی ڈلیوری نظر نہیں آئی جس پر وہ اکثر مشکل محسوس کرتا تھا، اگر میں سمجھ سکتا ہوں تو کرکٹ کے ماہرین کیوں نہیں، بیٹسمین لیگ اسٹمپ پر ہٹ لگاتے جارہا ہے اور بولر آف اسٹمپ ہی بھول گیا تو اس کا کیا مطلب ہے؟اس ناسور پر قابو پانے کیلئے کھیل پر گراس روٹ سطح سے اوپر تک کڑی نظر رکھنی چاہیے، دیانتدار اور کرکٹ سے مخلص لوگ چیزوں کو سختی سے مانیٹر کریں، میچ پر ذرا سابھی شک ہوتو ماہرین اس کا ریویو کریں، کوئی پکڑا جائے تو اسے سزا لازمی دینی ہوگی۔n
ایک اور ون ڈے سیریز میں شکست
کارکردگی میں عدم تسلسل پاکستان کرکٹ کی پہچان بن چکا، بات ون ڈے میچز کی ہو تو اس کی نت نئی مثالیں دیکھنے کو ملیں گی، حال ہی میں میزبان ٹیم نے پہلے میچ میں انگلینڈ کو شکست دی تو شائقین کو آس لگ گئی کہ اس بار سیریز فتح کا 10قحط ختم ہوجائے گا، ابوظہبی میں ہونے والے اس مقابلے میں بولرز نے انگلش ٹیم کو کم ٹوٹل تک محدود رکھا، پھر ابتدائی نقصانات سے سنبھلتے ہوئے محمد حفیظ کی سنچری اور بابراعظم کی ففٹی کی بدولت ہدف عبور بھی کرلیا، اسی وینیو پر دوسرے مقابلے میں کہانی بالکل مختلف ہوگئی۔
انگلینڈ نے شکست کے باوجود اپنی پلیئنگ الیون پر اعتماد برقرار رکھا اور کم بیک کرتے ہوئے پاکستان کو تینوں شعبوں میں آؤٹ کلاس کیا،میزبان بولرز اور فیلڈرز نے انگلش ٹیم کو قابل قدر مجموعہ حاصل کرنے کی ڈھیل دی، منیجنٹ نے نوآموز کرکٹرز کو تجربات کی بھٹی سے گزارتے ہوئے حریف کو حاوی ہونے کا موقع فراہم کیا، پہلے میچ میںوننگ اننگز کھیلنے والے بابر اعظم کو اوپنر بھیج کر اعتماد متزلزل کردیا گیا، افتخار احمد کو ڈیبیو مقابلے میں ہی ٹاپ آرڈر کا بوجھ اٹھانے کا چیلنج دیا گیا جس میں وہ بری طرح ناکام رہے۔
بیٹسمین انتہائی غیر ذمے دارانہ اسٹروکس کھیل کر وکٹیں گنواتے رہے، صرف 188پر ڈھیر ہونے والی ٹیم نے شارجہ میں بیٹنگ وکٹ پر اچھے آغاز کے باوجود حیران کن غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وکٹیں گنوائیں، پورے بیٹنگ آرڈرسے چھیڑ چھاڑ، 3رن آؤٹس اور غیر ضروری اونچے شاٹس نے اس بار بھی بڑے ٹوٹل کی امیدوں پر پانی پھیرا، پھر انگلینڈ کے 4بیٹسمین 93پر آؤٹ کرنے کے بعد پچ میں بہت زیادہ ٹرن ہونے کے باوجود بولرز اور فیلڈرز کا جذبہ بھی ماند پڑگیا، چوتھا ون ڈے سیریز بچانے کا آخری موقع تھا لیکن بولرز خاص طور پر انورعلی اور وہاب ریاض رنز کا سیلاب روکنے میں ناکام رہے۔
کم رفتار شارٹ گیندوں کی بھرمار نے جوز بٹلر کو جی بھر کر دھلائی کا موقع فراہم کیا، بیٹسمین پہاڑ جیسے ہدف کے تعاقب میں تھوڑی ہمت دکھاتے لیکن اہم مواقع پر وکٹیں گنواتے رہے، کسی ایک کی جانب سے سنچری پاکستان کو منزل تک لیجاسکتی تھی مگر کسی نے کریز پر رکنے میں دلچسپی نہیں دکھائی، پوری ٹیم ڈھیر ہوئی تو ایک بار پھر بہت سے رنز اور 10کے قریب اوورز باقی تھے، یوں پوری سیریز تجربات کی بھینٹ چڑھ گئی، اب ایک بار پھر منیجمٹ کی جانب سے بیانات جاری ہونگے کہ شکستوں کے باوجود بہتری کے آثار نظر آئے ہیں۔
چند نئے کرکٹرز میں مستقبل کے بڑے کھلاڑی بننے کی جھلک نظر آگئی، درست کمبی نیشن تشکیل دینے کی کوشش کررہے ہیں، اگلی ایک، دو سیریز میں یہ ہدف بھی حاصل کرلیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام تر خامیوں کے باوجود پاکستان کسی نہ کسی طور چیمپئنز ٹرافی کے لیے تو کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوگیا، خوف اس قدر تھا کہ بی سی بی نے اپنی رینکنگ برقرار رکھنے کے لی زمبابوے کے خلاف سیریز ہی موخر کردی، سوال یہ ہے کہ ہیڈ کوچ وقار یونس کھلاڑیوں کو اندر، باہر، اوپر، نیچے کرکے اپ سیٹ کرتے رہے تو ٹیم کیسے سیٹ ہوگی، کارکردگی کا یہی حال رہا تو ورلڈ کپ میں جگہ بنانے کے لالے نہ پڑجائیں، ہاکی میں یہ صدمہ مل چکا،کہیں کرکٹ بھی اسی نہج پر نہ پہنچ جائے۔ n