’’ہم گوشت مانگنے جائیں تو دروازہ ہی نہیں کھولتے یہ ہے قربانی آپ کی‘‘

آپ گوشت بھی اس کے گھر بھیجتے ہیں جس نے خود قربانی کی ہوتی ہے


Abdul Latif Abu Shamil October 26, 2012
قربانی کا گوشت تو غریب کی امانت ہوتا ہے۔ یہ تو اُن کو دینا چاہیے، جو سال بھر گوشت سے محروم رہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

SUKKUR: ریل کی پٹریوں کے ساتھ یہ بستی اور اس کے مکین نہ جانے کیسے زندہ ہیں۔

جگہ جگہ کچرے اور غلاظت کے ڈھیر، اور پھر اس کچرے میں لگی ہوئی آگ اور دھواں جس میں سانس لینا عذاب ہے۔ پھٹے پرانے بوسیدہ کپڑوں میں نام نہاد ملبوس ننگے سر و ننگے پاؤں، لڑتے اور روتے ہوئے بچے اور بچیاں، ٹوٹی ہوئی چارپائیوں پر بیٹھے حالات کا رونا روتے ہوئے بوڑھے، اور کہیں پرانی پلاسٹک کی تھیلیوں سے رسّی بٹتی ہوئی عورتیں۔ سر جھکائے اچھے دنوں کا نہیں، آج کے دن کے گزرنے کا خواب دیکھنے والی دوشیزائیں۔ وہ لمبے چوڑے خواب ضرور دیکھتے ہوں گے، لیکن اُنہیں بس آج کا دن اچھّا گزارنے کی فکر سرگرداں رکھتی ہے۔

سلمیٰ مجھے اس بستی میں مل گئی تھی ۔

''کیا میں آپ لوگوں سے بات کرسکتا ہوں۔''

''کیوں صاب! ہم سے کیا بات کرنی ہے۔ ہم نے کیا کیا ہے۔'' وہ بہت تلخ تھی۔

''نہیں میں آپ لوگوں سے آپ کے حالات جاننا چاہتا ہوں۔''

''کیا حالات؟'' ہم تو سب ٹھیک ہیں، ہمیں کیا ہوا ہے ؟''

بس یہ بتاؤ کیسی ہے یہاں کی زندگی، بہت مشکل ہے ناں۔

اُس نے مجھے حیرت سے دیکھا۔ چند لمحے سوچا اور پھر کہا۔ ''آئیں صاب!'' وہ میرے ساتھ چل رہی تھی اور لوگ مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ نہ جانے کیا کچھ سوچتے ہوئے۔ میں نے سلمیٰ سے پوچھا۔ یہ سب ہمیں ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟ وہ پہلی دفعہ مسکرائی اور کہنے لگی:

''لوگوں کا تو کام ہی سوچنا اور باتیں بنانا ہے۔ بہت کچھ سوچ رہے ہوں گے لیکن اچھّا نہیں سوچ رہے ہوں گے۔''
کیا مطلب اچھّا نہیں سوچ رہے ہوں گے۔

''جانے دیں صاب! چلیں اِن کی طرف دیکھیں ہی نہیں۔ آپ تو چلے جائیں گے۔ اور یہ پھر مجھ سے پتا نہیں کیا کیا پوچھیں گے۔ لیکن مجھے اس کی پروا نہیں ہے۔ ساری زندگی ہوگئی گالیاں سنتے، ہمیں کوئی اچھّا سمجھے نہ سمجھے ہمیں کیا۔ ہمیں تو بس کام کرنا ہے۔ ہمیں تو کوئی انسان سمجھتا ہی نہیں۔ باہر کی تو کیا بات کریں، ہم خود بھی ایسے ہی ہیں۔ کوئی جان بوجھ کر ٹکراتا ہے۔ کوئی گندی بات کرتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ عادت پڑگئی ہے۔ ایسے جینے کی، یہ ہے ہمارا کواٹر (کوارٹر)''

دروازے پر بوسیدہ چادر لٹک رہی تھی۔ درودیوار پر ویرانی بسیرا کیے ہوئے۔ رنگ و روغن سے بے نیاز جگہ جگہ سے اُدھڑی ہوئی دیواریں۔ نشیب میں اترتے ہوئے مجھے دقّت ہوئی۔ چھوٹا سا گڑھا، جسے وہ صحن کہہ رہے تھے۔ اور ایک ٹن کی چادروں کی چھت سے ڈھکا ہوا ''ڈبا''، جسے وہ کمرہ کہتے ہیں۔ مجھے ادھڑی ہوئی چارپائی پر بٹھا کر وہ کمرے میں داخل ہوئی اور پھر ایک بزرگ خاتون کو لے کر باہر آ کر میرے سامنے بیٹھ گئی۔
''یہ اخبار والے ہیں امّاں!''

'' کون اخبار والے، ہم سے کیا کام ہے اسے۔''

'' پوچھ رہے ہیں کیسے جی رہے ہو؟''

''شکر الحمداﷲ رب کا شکر ہے، روکھی سوکھی مل جاتی ہے، گزارہ کرنا ہے۔''

یہ جیراں مائی تھیں۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئیں۔

''پُتّر! ہم غریب لوگ ہیں۔ ہمارا خیال رکھنا، کوئی ایسی ویسی بات نہ لکھنا جس سے ہمارا جیون خراب ہوجائے۔''

آپ یقین رکھیں امّاں جی! بالکل پریشان نہ ہوں۔

''یقین ہی تو نہیں آتا اس دنیا پر، سگے بیٹے پر بھی یقین نہیں آتا۔ نفسانفسی ہے۔ مارم ما ر ہے پُتر! رب سائیں بس عزت سے رکھّے اور عزت سے اپنے پاس بلالے۔ حالات بہت خراب ہیں۔ ہمیں ہر حال میں رب سائیں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ سلمیٰ اسے شاہ جی کے ڈیرے پر لے جا۔ وہاں مرد ہیں تو بات کرلے گا۔''

سلمیٰ مجھے پاس ہی شاہ جی کے ڈیرے پر لے گئی۔

میں اُس بستی میں نکل آیا ہوں، جسے ہمارے محلاّت نما مکانوں نے گھیر رکھا ہے۔ جسے ہم تحقیر سے ''کچّی بستی '' کا نا م دیتے ہیں۔ ایسی ہی بستیاں جن میں انسان ہیں، جنہیں ہم انسان نہیں سمجھتے۔ جو زندگی کی سفاک گیلری میں لٹک رہے ہیں، اُداس و بے کل، بے آسرا۔ بے یارو مددگار، زندگی کی تلخ حقیقتوں نے اُنہیں چلتی پھرتی لاشوں میں بدل کے رکھ دیا ہے۔ ویران آنکھیں، مدقوق چہرے، جو اپنے ہونے کا احساس تک کھو بیٹھے ہیں۔ جنہیں سوائے دھتکار کے کچھ نہیں ملتا۔ جھڑکیاں، گالیاں، دھکّے جن کا نصیب بن گئے ہیں۔ کیوں؟ بس یہی کیوں تو اصل سوال ہے اور ہم سب سے جواب کے منتظر!

پہلے تو وہ سب مجھے اپنے درمیان دیکھ کر خوف زدہ ہوئے اور کیوں نہ ہوں کہ ہم نے اپنا وقار، اپنا اعتبار خود کھو دیا ہے۔ خاصی دیر گزر گئی تھی، لیکن وہ مجھ سے بات کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ مجھے اُنہیں دیکھ کر یاد آیا، شاید وہ مجھ سے سوال کر رہے تھے ؎

پیدائش کے دن سے موت کی زد میں ہیں
اس مقتل میں کون ہمیں لے آیا ہے
کیا جواب تھا میرے پاس۔ آخر ایک نوجوان نے بات کی۔ ''سر! آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟''
''تمہاری باتیں سننا چاہتا ہوں۔ کیا نام ہے تمہارا؟''

''محمد صدیق ہے میرا نا م سر! آپ کیا باتیں سنیں گے ہماری۔ ہمارے پاس کرنے کو، کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ اتنی بدبو میں، اتنی گندگی میں آ پ آکر بیٹھ گئے۔ ہم تو عادی ہیں، آپ کیوں ہمارے ساتھ خوار ہور ہے ہیں۔
''نہیں تم تو بہت اچھّے اور کارآمد ہو۔ تم اور یہ سب جو تمہارے ساتھ بیٹھے ہیں کیا کرتے ہیں؟''

آخر وہ بہہ نکلا اور پھر بولتا چلا گیا۔ سن سکتے ہیں آپ؟ ہاں اگر آپ کے سینے میں دل ہے تو ضرور سنیے۔

میرا نام محمد صدیق ہے سر! ہم چھے بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ ابّا اور اماں بوڑھے ہیں۔ ہمارے خاندان میں کوئی بھی پڑھا لکھا نہیں ہے۔ آنکھ کھولی تو بس یہی بستی تھی۔ اور اب تک ہے۔ گندگی، بدبو، غلاظت ہی ہماری زندگی ہے۔ پہلے جھونپڑی بنالیا کرتے تھے، اب تو وہ بھی کوئی نہیں بنانے دیتا۔ چھوٹے چھوٹے کوارٹر، جن میں بجلی ہے نہ پانی، بس سر چھپانے کا ایک بہانہ ہے اور ان کے کرائے بھی پانچ ہزار ہیں۔ انسان جائے تو جائے کہاں۔ پیٹ ہے تو بھوک تو لگتی ہے۔ چھوٹے موٹے کام کر کے گزارہ کرتے ہیں۔ کوئی بوتلیں اور کچرا چنتا ہے۔ کوئی کسی ہوٹل پر کام کرتا ہے۔ کوئی بچوں کی ٹافیاں بیچتا ہے، جس کام میں دو پیسے مل جائیں۔

صج ناشتا، وہ بھی آپ لوگوں کی طرح کا نہیں بس رات کی روٹی صبح چائے سے کھالی تو دوپہر کو کچھ نہیں ہوتا، پھر محنت مزدوری اور رات کا بس گزارہ کرتے ہیں۔ بھوک اور افلاس نے مار ڈالا ہے۔ حالات کا رونا کیا رونا، ہم نے تو آنکھ ہی انہیں حالات میں کھولی ہے، گٹروں کا پانی پی کر تو ہم بڑے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم ہیں کیوں۔ پھر خود ہی سوچتا ہوں کہ بس گالیاں کھانے کے لیے ہیں ہم۔ ہم بھیک نہیں مانگتے، ہم کام کرتے ہیں۔ گلیوں میں کچرا، کاغذ، پرانی بوتلیں وغیرہ چنتے ہیں۔ ہم لوگوں سے کچھ مانگتے نہیں، پھر بھی وہ ہمیں جینے نہیں دیتے۔

غریب بندے کو تو کوئی منہ ہی نہیں لگاتا۔ ہم سے تو دس قدم دور بیٹھ کے بات کرتے ہیں، سلام دُعا تو دور کی بات۔ ہم نے اپنی یہ حالت خود نہیں بنائی، ہم بھی خوش حال ہونا چاہتے ہیں۔ کوشش بھی کرتے ہیں، لیکن کیا کریں؟ ہمارے سینے میں بھی دل ہے، ہماری بھی خواہش ہے کہ ہم ترقی کریں۔ میرے چار بچّے ہیں، میرا بھی دل چاہتا ہے کہ وہ اسکول جائیں، پڑھائی کریں، تاکہ کچھ تو بدلے، لیکن کیسے؟ ہم اُن کے کھانے پینے کا صحیح طرح بندوبست نہیں کرسکتے تو پڑھائیں کیسے؟ ہر آدمی تقریر بہت کرتا ہے۔ اُس کا پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے ناں، لیکن عملی طور پر تو کوئی کچھ نہیں کرتا۔ بس خالی خولی تقریر۔ آپ ناراض نہ ہونا۔ آپ بھی کیا کریں گے؟ بس جھوٹ سچ لکھ کر اخبار میں دے دیں گے۔

کیا ہوگا اُس سے؟ ہم بھی آخر انسان ہیں کہاں جائیں ہم۔ گھر کا ہر فرد کام کرتا ہے، لیکن حالات ہیں کہ بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ روز کماؤ۔ روز کھاؤ۔ اکثر تو بھوکا ہی سونا پڑتا ہے۔ پوری بستی گندگی کا ڈھیر ہے۔ مچھروں اور کھٹملوں کی وجہ سے اکثر لوگ خارش کے مرض میں مبتلا ہیں۔ لیکن کیا کریں، ڈاکٹر کے پاس جائیں تو پیسے کہاں سے لائیں۔ سرکاری اسپتال جائیں تو دیہاڑی خراب کرکے رنگ والا پانی لے آئیں کیا۔

بہت بُرے ہیں حالات۔ ہماری مائیں بہنیں کام پر جاتی ہیں تو اُنہیں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ آوازیں کسنا، پتھر مارنا اور چھیڑچھاڑ کرنا تو عام سی بات ہے۔ زور زبردستی تو کوئی بات ہی نہیں رہی۔ کوئی کچھ کہے تو گولی مارنے میں منٹ نہیں لگاتے۔ آپ مجھ سے یہ سب کچھ سن رہے ہیں، کیا آپ خود نہیں جانتے کیا حالات ہیں؟ آپ اخبار والوں کو تو سب سے زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ اب آپ ہمارے گھر آگئے ہیں۔ ہم تو آپ کو پانی بھی نہیں پلا سکتے۔ اس لیے کہ وہ آپ خود بھی نہیں پییں گے۔ اس میں جراثیم ہوتے ہیں۔ گلاس بھی ہمارے پاس اچھّا نہیں ہے۔ آپ لوگ تو ہوتے بھی نازک ہیں۔ آپ انسان ہیں گوشت پوست کے انسان۔ ہم تو پتھر کے بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں تو کچھ ہوتا ہی نہیں ہے۔
میں مسکرادیا۔

''آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟'' پھر خود ہی بولا، ''ہماری تو زندگی ہی ہنسی مذاق بن گئی ہے۔ آپ ہنس رہے ہیں تو کیا ہوا؟ ہم پر تو ساری دنیا ہی ہنستی ہے.......''

نہیں صدیق بھائی! آپ نے کہا ناں کہ آپ گوشت پوست کے انسان ہیں، تو مجھے یاد آیا کہ کچھ دن کے بعد تو عید ہے۔ کیا کرتے ہیں عید پر؟ کچھ سہولت تو ہوجائے گی ناں۔ قربانی کا گوشت وغیرہ مل جائے گا، کچھ دن تو اچھّے گزریں گے ناں؟

''کیا اچھے گزریں گے دن سر جی! چار دنوں کی چاندنی ہے اور پھر اندھیری رات۔ ہم عید پر چربی جمع کرتے ہیں۔ ہڈیاں جمع کرتے ہیں۔ ہم کسی سے کچھ چھینتے نہیں ہیں۔ جو آلائشیں لوگ پھینک دیتے ہیں، اُن میں جو چربی رہ جاتی ہے، وہ ہم جمع کرتے ہیں، ہم خود کو مسلمان سمجھتے ہیں، لیکن کیا ہم کام بھی مسلمانوں جیسے کرتے ہیں۔ مسلمان کے ہاتھوں مسلمان قتل ہوتا رہتا ہے۔ کوئی بھی تو محفوظ نہیں ہے سر۔ ''

''آپ تو قربانی کرتے ہوں گے سر؟ اس نے مجھ سے سوال کر ڈالا۔''،''جی کرتا ہوں۔'' وہ بہت ہنسا، اور کہنے لگا کہ ''آپ قربانی کرتے ہیں، اﷲ توفیق دے، لیکن کلیجی خود کھا جاتے ہوں گے۔ اچھّا اچھّا گوشت خود رکھ لیتے ہوں گے۔ اپنا فریج بھرلیتے ہوں گے، اور پھر بچاکھچا ہم جیسوں کو دے بھی دیتے ہوں گے۔ آپ بھی کمال کے لوگ ہیں۔ آپ گوشت بھی اس کے گھر بھیجتے ہیں جس نے خود قربانی کی ہوتی ہے۔ اُسے کیا ضرورت ہے گوشت کی۔ آپ لوگ قربانی نہیں یاری دوستی نبھاتے ہیں۔ قربانی کا گوشت تو غریب کی امانت ہوتا ہے۔ یہ تو اُن کو دینا چاہیے، جو سال بھر گوشت سے محروم رہتے ہیں۔

لیکن آپ کیا کرتے ہیں؟ اب آپ خود بتائیں اتنے لاکھ کا بکرا ، اتنے لاکھ کی گائے، کسی کے پاس لاکھوں ہیں اور کسی کے پاس ایک وقت کا کھانا کھانے کے پیسے بھی نہیں۔ سر جی! قربانی کا تو نام ہے، بس شو بازی ہے۔ آ پ کو غُصّہ آرہا ہوگا، لیکن ہے تو یہی سچی بات۔ سر جی! سرائے ہے یہ دنیا۔ سب کچھ فانی ہے۔ باقی تو ہے، بس ذات خدا کی۔ کسی نے بھی یہاں نہیں رہنا۔ کسی کو کچھ بھی نہ دیں، لیکن جینے تو دیں۔ اب آپ خود دیکھیں لوگوں نے گھروں کے باہر کیمرے لگادیے ہیں۔ ہم گوشت مانگنے جائیں، تو لوگ دروازہ ہی نہیں کھولتے اور گارڈ ہمیں گلیوں میں ہی داخل نہیں ہونے دیتے۔ یہ ہے قربانی آپ کی۔ میری بات بری لگی ہو تو معاف کرنا۔''

محمد صدیق اور اُس کے دوست کام پر جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ کیا مر د کیا عورتیں ۔ ان کے نام رفیق، مبشر، اشرف، مختار، سلطانہ بی بی، رضیہ مختلف ضرور ہیں، لیکن ان کی کہانی کم و بیش ایک جیسی ہے۔ بھوک اور افلاس، غربت و تنگ دستی کی کہانی۔ وہ ہر پل اک نئے طوفان کا سامنا کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو زندہ نظر آتے ہیں، نہ جانے زندہ ہیں بھی ۔۔۔

صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا
اپنی ہی لاش کا خود مزار آدمی
روز جیتا ہوا روز مرتا ہوا
ہر نئے دن۔۔۔ نیا انتظار آدمی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں