زیادہ پیدل چل کر اچھی صحت کے ساتھ ڈالر بھی کمایئے
افریقہ میں ملاوی کے غریب افراد اس پیشکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رقم کما رہے ہیں۔
زیادہ سے زیادہ پیدل چلنا نہ صرف اچھی صحت کا ضامن ہوتا ہے بلکہ اس سے انسان موٹاپے جیسے مہلک مرض سے بھی بچا رہتا ہے اور اسی حوالے سے ماہرین نے ایک ایسی ایپ تیار کی ہے جس کے ذریعے زیادہ پیدل چلنے والے افراد اچھی صحت کے ساتھ ساتھ ڈالروں میں بھی کھیل سکتے ہیں۔
جاپان نے ڈجیٹل کوئن کو برطانیہ سمیت 4 ممالک میں متعارف کرایا ہے جہاں لوگوں کو پیدل چلنے پر ڈیجیٹل ڈالر دیئے جائیں گے اور وہ اس سے آن لائن خریداری کرسکیں گے۔ اس کے لیے ایک فون ایپ متعارف کرائی گئی ہے جو 10 ہزار قدم چلنے کے بدلے ایک ڈالر دیں گی جسے بٹ واکنگ ڈالر ( بی ڈبلیوڈالر) کا نام دیا گیا ہے۔ ان ڈالروں کو آن لائن اسٹورسے خریداری یا اصل نقدی حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکے گا۔ اس پیشکش کا مقصد لوگوں کو پیدل جانے کی تحریک دینا ہے تاکہ وہ صحتمند رہ سکیں۔
یہ منصوبہ دو ماہرین نسان بہار اور فرینکی امبیسی نے پیش کیا ہے اور جاپانی سرمایہ کاروں کی جانب سے اس میں ایک کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جس سے کرنسی اور بینک قائم کیا جارہا ہے جو رقم کی منتقلی اور دیگر معاملات پر غور کرے گا۔ اسی طرح ایک جاپانی کمپنی موراتا نے کلائی پر پہننے والی ایک بٹی بنائی ہےجو اسمارٹ فون سے منسلک ہوکر چلنے والے کے قدم شمار کرتی ہے۔
برطانیہ میں جوتے بنانے اور فروخت کرنے والے کئی اداروں نے بی ڈبلیوڈالر قبول کرنے کی حامی بھری ہے۔ اسی طرح ایک اور برطانوی بینک سے بھی مذاکرات جاری ہیں جس کی شاخوں سے رقم حاصل کی جاسکے گی۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر ہیلتھ سروسز، ہیلتھ انشورنس کمپنیوں، ماحولیاتی گروہوں اور مشتہر کمپنیوں سے بھی مزید تعاون کے لئے مذاکرات ہورہے ہیں۔
غریب ممالک میں لوگوں کی بڑی تعداد پیدل چلتی ہے اور اسی لیے افریقی ممالک ملاوی اور کینیا میں بٹ واکنگ ڈالر متعارف کرائے گئے ہیں۔ اگر کوشش کی جائے تو بلوچستان، سندھ اور تھر وغیرہ کے غریب افراد بھی اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو روزانہ کئی کلومیٹر پیدل چل کر جانوروں کو چراتے یا کھیتی باڑی کرتے ہیں کیونکہ یہ منصوبہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی متعارف کرایا جائے گا۔
ملاوی میں غریب استاد کی آمدنی دوگنا
ملاوی کے ایک گاؤں کے استاد سلیم آدم اسکول تک جانے کے لیے روزانہ 10 کلومیٹر پیدل چلتے ہیں جن کی تنخواہ صرف 26 ڈالر ہے جو پاکستانی 2600 روپے کے برابر ہے۔ انہوں نے یہ بٹ واکنگ ایپ ڈاؤن لوڈ کرکے روزانہ مزید ڈیڑھ ڈالر کمائے ہیں اور اس طرح ان کی آمدنی دوگنا ہوچکی ہے۔
جاپان نے ڈجیٹل کوئن کو برطانیہ سمیت 4 ممالک میں متعارف کرایا ہے جہاں لوگوں کو پیدل چلنے پر ڈیجیٹل ڈالر دیئے جائیں گے اور وہ اس سے آن لائن خریداری کرسکیں گے۔ اس کے لیے ایک فون ایپ متعارف کرائی گئی ہے جو 10 ہزار قدم چلنے کے بدلے ایک ڈالر دیں گی جسے بٹ واکنگ ڈالر ( بی ڈبلیوڈالر) کا نام دیا گیا ہے۔ ان ڈالروں کو آن لائن اسٹورسے خریداری یا اصل نقدی حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکے گا۔ اس پیشکش کا مقصد لوگوں کو پیدل جانے کی تحریک دینا ہے تاکہ وہ صحتمند رہ سکیں۔
یہ منصوبہ دو ماہرین نسان بہار اور فرینکی امبیسی نے پیش کیا ہے اور جاپانی سرمایہ کاروں کی جانب سے اس میں ایک کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جس سے کرنسی اور بینک قائم کیا جارہا ہے جو رقم کی منتقلی اور دیگر معاملات پر غور کرے گا۔ اسی طرح ایک جاپانی کمپنی موراتا نے کلائی پر پہننے والی ایک بٹی بنائی ہےجو اسمارٹ فون سے منسلک ہوکر چلنے والے کے قدم شمار کرتی ہے۔
برطانیہ میں جوتے بنانے اور فروخت کرنے والے کئی اداروں نے بی ڈبلیوڈالر قبول کرنے کی حامی بھری ہے۔ اسی طرح ایک اور برطانوی بینک سے بھی مذاکرات جاری ہیں جس کی شاخوں سے رقم حاصل کی جاسکے گی۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر ہیلتھ سروسز، ہیلتھ انشورنس کمپنیوں، ماحولیاتی گروہوں اور مشتہر کمپنیوں سے بھی مزید تعاون کے لئے مذاکرات ہورہے ہیں۔
غریب ممالک میں لوگوں کی بڑی تعداد پیدل چلتی ہے اور اسی لیے افریقی ممالک ملاوی اور کینیا میں بٹ واکنگ ڈالر متعارف کرائے گئے ہیں۔ اگر کوشش کی جائے تو بلوچستان، سندھ اور تھر وغیرہ کے غریب افراد بھی اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو روزانہ کئی کلومیٹر پیدل چل کر جانوروں کو چراتے یا کھیتی باڑی کرتے ہیں کیونکہ یہ منصوبہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی متعارف کرایا جائے گا۔
ملاوی میں غریب استاد کی آمدنی دوگنا
ملاوی کے ایک گاؤں کے استاد سلیم آدم اسکول تک جانے کے لیے روزانہ 10 کلومیٹر پیدل چلتے ہیں جن کی تنخواہ صرف 26 ڈالر ہے جو پاکستانی 2600 روپے کے برابر ہے۔ انہوں نے یہ بٹ واکنگ ایپ ڈاؤن لوڈ کرکے روزانہ مزید ڈیڑھ ڈالر کمائے ہیں اور اس طرح ان کی آمدنی دوگنا ہوچکی ہے۔