وہ جہادی تھے نہ پاکستانی
نتھو رام گاڈسے بنیادی طور پر ایک فرقہ پرست ہندو تنظیم آر ایس ایس سے تعلق رکھتا تھا۔
تقریباً سات برس قبل اسی مہینے کی 26 تاریخ کو بھارت کا معروف شہر، ممبئی، بم دھماکوں اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ ممبئی ریلوے اسٹیشن اور ممبئی کا سب سے بڑا ہوٹل، تاج محل، اس سانحہ کے مین مرکز تھے۔ بتایا گیا تھا کہ تقریباً 164 بھارتی اور غیر ملکی شہری ہلاک ہوئے ہیں اور نصف درجن سے زائد حملہ آور بھی مار ڈالے گئے لیکن ایک مرکزی ملزم اجمل قصاب نامی شخص گرفتار ہوا۔ بعدازاں اس پر مقدمہ چلا اور بھارتی حکومت نے اسے پھانسی پر چڑھا دیا۔
جب ممبئی سانحہ پیش آیا تو بھارتی حکومت نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، فوری طور پر پاکستان، پاکستان کے حساس اداروں اور مبینہ طور پر پاکستان کی ایک جہادی تنظیم پر سارا ملبہ گرا دیا۔ بھارتی حکومت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایک جنگجو کمانڈر ذکی الرحمن لکھوی اس حملے کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ 26 نومبر 2008ء کو جب ممبئی کا یہ حملہ ظہور میں آیا، پاکستان میں صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت تھی۔ بھارتی حکومت کا بے پناہ الزاماتی دباؤ آیا تو بھارت کو مطمئن کرنے کے لیے، نہایت غیر حکیمانہ انداز میں، گیلانی حکومت نے ایک ایسا فیصلہ بھی کیا جو قابلِ عمل تھا ہی نہیں۔ اس دباؤ کا بہرحال ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ذکی الرحمن لکھوی کو گرفتار کر لیا گیا۔ گزشتہ سات برسوں میں لکھوی صاحب کئی بار ضمانتوں پر رہا ہوئے ہیں اور کئی بار جیل کے دروازے ہی سے دوبارہ حراست میں لے لیے گئے۔
دس اپریل 2015ء سے ضمانت پر رہا ہو کر اپنے گھر میں ہیں لیکن بھارت کا مسلسل اصرار ہے کہ لکھوی کو دوبارہ گرفتار کیا جائے یا انھیں بھارت کے حوالے کیا جائے۔ پاکستان ایسا ہر گز نہیں کر سکتا۔ ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان نے پچھلے سات برسوں میں لکھوی صاحب کے حوالے سے جتنے بھی ثبوتوں کا مطالبہ کیا ہے، بھارت دانستہ فراہم کرنے سے گریز پا رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر پاکستان کی اعلیٰ معزز عدالتیں لکھوی کو رہا کرتی ہیں تو پاکستان کے حکمران انھیں کیونکر زیرِحراست رکھ سکتے ہیں اور کس بنیاد پر بھارت کے حوالے کر سکتے ہیں؟ بھارت اس پر سخت ناراض ہے اور پاکستان کے خلاف، مقامی اور عالمی فورموں پر، زہریلا پروپیگنڈہ کرتا آ رہا ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کا ہونا اور پاک بھارت مذاکرات کے تعطل میں ایک وجہ ممبئی حملہ اور ذکی الرحمن لکھوی کا قضیہ بھی ہے۔ بھارت مگر یہ ماننے اور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اس کے اپنے بھی بہت سے ناراض عناصر ممبئی میں یہ قیامت ڈھا سکتے تھے۔
پچھلے چھ سات عشروں کے دوران بھارت میں دہشت گردی اور قتل و غارت گری کے ایسے تین واقعات جنم لے چکے ہیں جن کی بازگشت ساری دنیا میں سنائی دی گئی ہے لیکن اس کے ذمے دار بھارت کے مسلمان تھے نہ پاکستان کی کسی جہادی تنظیم یا کسی پاکستانی خفیہ ادارے کا اس میں کوئی کردار تھا۔ بھارت میں دہشت گردی کی پہلی واردات 30 جنوری 1948ء کو ہوئی جب بھارت کے بابائے قوم مہاتما گاندھی قتل کر دیے گئے۔ انھیں کسی مسلمان نے نہیں بلکہ ایک کٹڑ بنیاد پرست ہندو نوجوان نتھو رام گاڈسے نے گولی سے مار ڈالا تھا۔ گاڈسے کا تعلق پاکستان کی کسی جہادی تنظیم سے ہر گز نہیں تھا اور نہ ہی وہ حافظ سعید صاحب کا مرید تھا۔
نتھو رام گاڈسے بنیادی طور پر ایک فرقہ پرست ہندو تنظیم آر ایس ایس سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ بھارت کے ممتاز اور معتبر ہندو اخبارات اس کی گواہی دے رہے ہیں۔ مثلاً: انڈیا کے کئی شہروں سے بیک وقت شایع ہونے والا کثیر الاشاعت انگریزی اخبار ''دی ہندو'' تین نومبر 2015ء کو ''دی ہندو'' میں وِکاس پاٹھک کا ایک مفصّل آرٹیکل شایع ہوا ہے جس میں تاریخی حقائق سے ثابت کیا گیا ہے کہ گاندھی جی کو قتل کرنے پر آر ایس ایس نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں۔ اس کا اعتراف کانگریس کے ایک سینئر ترین لیڈر سردار ولبھ بھائی پٹیل، جو گاندھی جی کے قتل کے موقع پر بھارت کے وزیرِ داخلہ تھے، نے بھی کیا تھا۔
اس انکشاف خیز مضمون میں بتایا گیا ہے کہ گاندھی جی کے قتل کے ایک ماہ بعد، 27 فروری 1948ء کو وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے بھارتی وزیر اعظم جوہر لال نہرو کو ایک خفیہ خط لکھا جس میں کہا گیا تھا: ''مسلمانوں سے نفرت کرنے والی ہندو مہاسبھا کے لیڈر ساورکر کے اکسانے پر نتھو رام گاڈسے اور اس کے ساتھیوں نے گاندھی جی کو قتل کیا۔'' ولبھ بھائی پٹیل بھی چونکہ آر ایس ایس، جس کے نریندر مودی بھی رکن ہیں، سے گہرا یارانہ رکھتے تھے، اس لیے انھوں نے گاندھی کے قتل میں آر ایس ایس کی قیادت کو ملزم ٹھہرانے سے گریز ہی کیا۔ شدت پسند ہندوؤں کے ڈر سے اصل ماسٹر مائنڈ ساورکر کو کچھ نہ کہا گیا۔ اتنا ضرور کیا گیا کہ آر ایس ایس پر طویل عرصہ کے لیے پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
بھارت میں دہشت گردی کا دوسرا بڑا واقعہ 31 اکتوبر 1984 ء کو پیش آیا جب وزیر اعظم اندرا گاندھی کو قتل کر دیا گیا۔ مسز اندرا گاندھی کے قاتل نہ پاکستانی تھے، نہ جہادی تھے اور نہ ہی قاتلوں کا کوئی ناتہ مجاہدینِ کشمیر سے تھا۔ یہ خالصتاً بھارتی غیر مسلم اور سکھ تھے جنہوں نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اڑا کر رکھ دیا۔ انھیں قلق اور دلی رنج تھا کہ اندرا نے سکھوں کے مقدس ترین مقام، گولڈن ٹیمپل پر حملہ کر کے زبردست مذہبی توہین کا ارتکاب کیا ہے۔ سکھ قاتل، بینت سنگھ اور ستونت سنگھ، بعد ازاں ہلاک کر ڈالے گئے لیکن بھارتی ہندوؤں نے غیض اور انتقام سے مغلوب ہو کر ملک بھر میں بھارتی سکھوں کا قتلِ عام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آٹھ ہزار سکھ تہ تیغ کر دیے گئے۔
''را'' کے سابق چیف امرجیت سنگھ دولت، جو خود بھی پنجابی سکھ ہیں اور ڈاڑھی نہیں رکھتے، نے بھی بمشکل قاتل اور خونخوار ہندوؤں سے جان بچائی تھی۔ وہ کہتے ہیں: ''بھوپال جاتے ہوئے مَیں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ٹرین میں بیٹھے سکھوں کو ہندوؤں نے تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔ میرے سامنے وہ سب جل کر مر گئے۔ اگر اس دن میرا کڑا آستیں سے ڈھکا نہ ہوتا تو شاید مجھے بھی قتل کر دیا جاتا۔'' سکھوں کو قتل کرنے والوں کا تعلق پاکستان سے ہر گز نہیں تھا۔ سکھوں کے خلاف بندوقیں اور تلواریں لہرانے والے بھارتی ہندو تھے جنہوں نے بابا گرو نانک کے پیروکاروں کے خون سے اپنے انتقام کی پیاس بجھائی۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم نے اس ظلم اور خونریزی کو روکنے اور اس کی مذمت کرنے کے بجائے کہا تھا: ''جب کوئی بڑا درخت گِرتا ہے تو زمین ہل ہی جاتی ہے۔''
اور کیا وزیر اعظم کے نواسے، وزیر اعظم کے بیٹے اور خود بھارت کے وزیر اعظم رہنے والے راجیو گاندھی کا قتل کسی مسلمان شدت پسند تنظیم یا ادارے نے کیا تھا؟ کیا راجیو گاندھی کو لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد، حزب المجاہدین، جماعت الدعوۃ یا فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے کسی جنگجو یا کارکن نے ہلاک کیا تھا؟ ہر گز نہیں۔ راجیو گاندھی کو خود ایک تامل بھارتی ہندو عورت، دھانو، نے 21 مئی 1991ء کو خود کش حملے میں دنیا سے رخصت کیا تھا اور بھارت بھر میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی۔ راجیو گاندھی کو اس لیے جان دینی پڑی کہ بھارت اپنے ہمسایوں کے گھروں میں مداخلت کرتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے بھارت نے اپنے ایک اور دہشت گرد اور قاتل، چھوٹا راجن، کو انڈونیشیا سے گرفتار کیا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی زیادتیوں اور مظالم کے کارن ہی بھارت کے اندر دہشت گردیوں اور دہشت گردوں نے جنم لیا ہے؛ چنانچہ اسے پاکستان پر آئے روز الزامات عائد کرنے کی روش سے باز آ جانا چاہیے۔
نتھو رام گاڈسے سے لے کر چھوٹا راجن تک سب بھارت کے اپنے دہشت گرد تھے۔ بھارت کو مہذب قوموں کی طرح پاکستان کے سامنے مکالمے کی میز پر بیٹھنا چاہیے تا کہ طرفین کی شکر رنجیاں بھی دور ہوں اور فریقین اپنے اپنے متنازعہ مسائل کا حل بھی احسن انداز میں نکال سکیں۔ پاکستان سے کُٹّی کر کے جناب نریندر مودی کب تک زمینی حقائق سے فرار حاصل کرتے رہیں گے۔ اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو اپنی شرائط اور دباؤ سے ڈھب پر لا سکیں گے تو ایسا کبھی ممکن نہ ہو سکے گا۔ پاکستان نے اگرچہ لشکرِ طیبہ، جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندیاں عائد کر دی ہیں لیکن بھارت پھر بھی مطمئن ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس کے مطالبات مزید بڑھتے جا رہے ہیں۔