پیرس حملے کے مضمرات
گزشتہ سے پیوستہ ہفتے پیرس بدترین دہشت گردی کا شکار ہوا جس کی دوسری جنگ عظیم کے بعد کوئی مثال نہیں ملتی۔
ISLAMABAD:
گزشتہ سے پیوستہ ہفتے پیرس بدترین دہشت گردی کا شکار ہوا جس کی دوسری جنگ عظیم کے بعد کوئی مثال نہیں ملتی۔ صرف آٹھ دہشت گردوں نے پیرس کو خون میں نہلا دیا۔ دہشت گرد پورے شہر میں پھیل گئے اور شہر میں قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا۔ ہم پاکستانیوں سے زیادہ دہشت گردوں کے طریقہ واردات سے کون واقف ہو گا جن کے ساٹھ ہزار سے زیادہ سویلین اور فوجی شہیدہو چکے ہیں۔ دہشت گردوںسے نہ مسجدیں بچیں نہ امام بار گاہیں نہ درگاہیں اور گِرجے۔ داعش کے پیچھے جو ذہن کام کر رہے ہیں وہ انسانی نفسیات کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں۔ اگر یہی حملے پیرس کے بجائے سیکیورٹی تنصیبات پر ہوتے تو وہ اثرات پیرس، یورپ اور پوری دنیا میں مرتب نہ ہوتے جو شہریوں پر حملہ کرنے سے ہوئے ہیں۔ نہتے شہریوں پر حملہ کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان میں اس درجہ خوف پیدا کر دیا جائے کہ وہ ذہنی طور پر مفلوج ہو جائیں اور مزاحمت کرنے کے قابل نہ رہیں۔
پیرس حملہ ان مسلمانوں کے لیے آزمائش ہے جو مغرب میں آباد ہیں۔ فرانس میں مسلمانوں کی تعداد پچاس لاکھ ہے جوشمالی افریقہ الجزائر مراکش تیونس وغیرہ سے آ کر آباد ہوئے ہیں۔ فرانس کی آبادی کتنی ہے۔ اس میں مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی کا ہونا معمولی بات نہیں۔ لیکن فرانس میں اس دہشت گردی کے بعد مسلمانوں کے خلاف کوئی ردعمل نہیں ہوا بلکہ وہاں سب مسلمانوں کی عزت جان و مال محفوظ ہے۔ مسلمانوں کو فرانسیسیوں کے برابر سیاسی معاشی ثقافتی حقوق حاصل ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے اپنے مذاہب پر عمل درآمد، تبلیغ کرنے کی کھلی آزادی حاصل ہے۔ جس کے نتیجے میں فرانسیسی باشندے بھی مسلمان ہوتے رہتے ہیں لیکن اس بات سے انھیں کوئی خوف ڈر نہیں۔ مذہب ان کے لیے ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ اصل چیز حب الوطنی ہے وہاں کسی مذہب سے تعلق رکھنا باعث اہمیت و شناخت نہیں اہم چیز فرانسیسی و یورپیئن ہونا ہے۔
ایک ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ فرانس کا صدر مسلمان ہو گا۔ اور تو اور کوئی مسلمان فرانسیسی نژاد عیسائی عورت سے نکاح کر کے مشرف بہ اسلام کر لیتا ہے لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ بھی بھلا کوئی بات ہوئی۔ عجیب قوم کے عجیب لوگ ہیں۔ ان کے چرچوں کی مسجد بنا لو۔ یورپیوں کو مسلمان کر لو۔ ان پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ یہاں کسی عیسائی سکھ ہندو کی جرات ہے کہ وہ اپنا نیا مذہبی مرکز قائم کر سکے' ان کے پرانے مذہبی مقامات ہی خطرے میں ہیں۔ پیرس حملے کا وہ ردعمل کیوں نہیں ہوا جو انسان کو جنونی وحشی درندہ بنا دیتا ہے۔ اس کی وجہ ان کا ایمان سیکولر ازم پر ہے۔ اس نظام میں کسی سے مذہب کی بنیاد پر نفرت نہیں کی جا سکتی۔ مذہب کی بنیاد پر کسی ایک کے جرم کی سزا پوری کمیونٹی کو نہیں دی جا سکتی۔ سیکولر ازم میں ریاست کی نظر میں تمام مذاہب برابر ہوتے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر نہ کوئی فرد نہ ریاست تعصب برت سکتی ہے۔ ریاست کی نظر میں تمام لوگ برابر ہیں چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔
سیاسی معاشی ثقافتی اور مذہبی طور پر برابر۔ تو اس میں خرابی کی کیا بات ہے۔ تاریخ انسانی میں ہونے والی تباہی و بربادی کی بڑی وجہ انسانوں کے درمیان مختلف قسم کے تعصبات اور نابرابری رہی ہے۔ یہ تو انسان کا خواب ہے جو وہ ہزاروں سال سے دیکھ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کبھی نہ کبھی یہ خواب پورا ہو جائے جس کے مستقبل نادیدہ میں قوی امکانات ہیں۔ سیکولرازم میں کوئی مذہب دوسرے مذاہب پر بالادستی قائم نہیں رکھ سکتا۔دنیا میں بعض قوتیں رنگ نسل یا مذہب کی بنیاد پر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے جنگ و جدل کرا رہے ہیں حالانکہ ان لوگوں کا مقصد صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہے اور اقتدار بھی وہ اس لیے چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ دولت پر قبضہ کر سکیں۔
بعض طبقات کی سمجھداری دیکھیں انھیں دوسرے ملکوں میں سیکولرازم پسند ہے کیونکہ اس طرح انھیں مغرب میں مقامیوں کے برابر ہر طرح کے حقوق حاصل ہو جاتے ہیں لیکن وہ اپنے ملکوں میں اسے نافذ کرنے سے انکاری ہیں۔ انڈیا یورپ امریکا اور پورے مغرب میں ہمیں سیکولر ازم بہت پسند ہے لیکن اپنے ملک میں ہم اس کے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔ذرا سوچیں کہ اگر فرانس بھی عہد قدیم کا کوئی مسیحی ملک ہوتا تو پیرس واقعے کے بعد وہاں آباد مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا۔ سوچنے کی بات ہے کہ آج سے کئی سو سال پہلے یورپین بھی ہم جیسے تھے۔ متشدد تنگ نظر مذہبی جنونی۔ صرف وقت نے انھیں بدل دیا۔ جس میں فیصلہ کن کردار جدید علوم سائنس اور ٹیکنالوجی نے ادا کیا۔
فرانس کے تمام تر صبر و تحمل کے باوجود پیرس حملے کا اصل نقصان مسلمانوں کو پہنچے گا۔ وہ مسلمان جو یورپ میں پونے دو کروڑ کی تعداد میں آباد ہیں اس حملے کا اصل فائدہ یورپ میں قائم نسل پرست تنظیموں کو اس طرح ملے گا کہ ان کے ہم خیالوں میں مزید اضافہ ہو گا کہ مسلمانوں کو یورپ سے نکال کر ان کے اپنے ملکوں میں واپس بھیجا جائے۔ اور وہ تمام لوگ جو نائن الیون اور پیرس حملے کے بعد مغرب میں مقیم مسلمانوں کی حمایت کرتے ہیں مزید کمزور ہوں گے۔ ان حملوں نے مسلمان مخالف نسل پرستانہ تحریک کو ایک بڑی قوت میں بدل دیا ہے۔یورپ میں نفرت اور تعصبات کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ ابھی تک یہ بیج ننھے منھے پودوں کی شکل اختیار کر سکے ہیں۔ درخت بننے میں انھیں بہت دیر لگے گی لیکن ان کی بڑھاتری شروع ہو چکی ہے اور یہ کام یورپ کی حکومتیں نہیں بلکہ داعش جیسی تنظیمیں کر رہی ہیں۔ ممکن ہے کہ یورپ اور امریکا کے نسل پرست خفیہ طور پر ان تنظیموں کی مدد کر رہے ہوں لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ مسلم ممالک کیا کر رہے ہیں وہ اپنے ملکوں میں ان تنظیموں کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
چند ہفتے پہلے اسی کالم میں پیش گوئی کی گئی کہ شام کے مسئلے کا پہلی مرتبہ حقیقی معنوں میں حل کا سلسلہ نومبر دسمبر سے شروع ہو جائے گا ... اور یہ ہے پیرس حملے کا نتیجہ۔
27,25,24 نومبر تا 12 دسمبر داعش کے حوالے سے اہم فیصلوں کا آغاز ہو جائے گا۔
سیل فون: 0346-4527997
گزشتہ سے پیوستہ ہفتے پیرس بدترین دہشت گردی کا شکار ہوا جس کی دوسری جنگ عظیم کے بعد کوئی مثال نہیں ملتی۔ صرف آٹھ دہشت گردوں نے پیرس کو خون میں نہلا دیا۔ دہشت گرد پورے شہر میں پھیل گئے اور شہر میں قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا۔ ہم پاکستانیوں سے زیادہ دہشت گردوں کے طریقہ واردات سے کون واقف ہو گا جن کے ساٹھ ہزار سے زیادہ سویلین اور فوجی شہیدہو چکے ہیں۔ دہشت گردوںسے نہ مسجدیں بچیں نہ امام بار گاہیں نہ درگاہیں اور گِرجے۔ داعش کے پیچھے جو ذہن کام کر رہے ہیں وہ انسانی نفسیات کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں۔ اگر یہی حملے پیرس کے بجائے سیکیورٹی تنصیبات پر ہوتے تو وہ اثرات پیرس، یورپ اور پوری دنیا میں مرتب نہ ہوتے جو شہریوں پر حملہ کرنے سے ہوئے ہیں۔ نہتے شہریوں پر حملہ کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان میں اس درجہ خوف پیدا کر دیا جائے کہ وہ ذہنی طور پر مفلوج ہو جائیں اور مزاحمت کرنے کے قابل نہ رہیں۔
پیرس حملہ ان مسلمانوں کے لیے آزمائش ہے جو مغرب میں آباد ہیں۔ فرانس میں مسلمانوں کی تعداد پچاس لاکھ ہے جوشمالی افریقہ الجزائر مراکش تیونس وغیرہ سے آ کر آباد ہوئے ہیں۔ فرانس کی آبادی کتنی ہے۔ اس میں مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی کا ہونا معمولی بات نہیں۔ لیکن فرانس میں اس دہشت گردی کے بعد مسلمانوں کے خلاف کوئی ردعمل نہیں ہوا بلکہ وہاں سب مسلمانوں کی عزت جان و مال محفوظ ہے۔ مسلمانوں کو فرانسیسیوں کے برابر سیاسی معاشی ثقافتی حقوق حاصل ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے اپنے مذاہب پر عمل درآمد، تبلیغ کرنے کی کھلی آزادی حاصل ہے۔ جس کے نتیجے میں فرانسیسی باشندے بھی مسلمان ہوتے رہتے ہیں لیکن اس بات سے انھیں کوئی خوف ڈر نہیں۔ مذہب ان کے لیے ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ اصل چیز حب الوطنی ہے وہاں کسی مذہب سے تعلق رکھنا باعث اہمیت و شناخت نہیں اہم چیز فرانسیسی و یورپیئن ہونا ہے۔
ایک ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ فرانس کا صدر مسلمان ہو گا۔ اور تو اور کوئی مسلمان فرانسیسی نژاد عیسائی عورت سے نکاح کر کے مشرف بہ اسلام کر لیتا ہے لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ بھی بھلا کوئی بات ہوئی۔ عجیب قوم کے عجیب لوگ ہیں۔ ان کے چرچوں کی مسجد بنا لو۔ یورپیوں کو مسلمان کر لو۔ ان پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ یہاں کسی عیسائی سکھ ہندو کی جرات ہے کہ وہ اپنا نیا مذہبی مرکز قائم کر سکے' ان کے پرانے مذہبی مقامات ہی خطرے میں ہیں۔ پیرس حملے کا وہ ردعمل کیوں نہیں ہوا جو انسان کو جنونی وحشی درندہ بنا دیتا ہے۔ اس کی وجہ ان کا ایمان سیکولر ازم پر ہے۔ اس نظام میں کسی سے مذہب کی بنیاد پر نفرت نہیں کی جا سکتی۔ مذہب کی بنیاد پر کسی ایک کے جرم کی سزا پوری کمیونٹی کو نہیں دی جا سکتی۔ سیکولر ازم میں ریاست کی نظر میں تمام مذاہب برابر ہوتے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر نہ کوئی فرد نہ ریاست تعصب برت سکتی ہے۔ ریاست کی نظر میں تمام لوگ برابر ہیں چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔
سیاسی معاشی ثقافتی اور مذہبی طور پر برابر۔ تو اس میں خرابی کی کیا بات ہے۔ تاریخ انسانی میں ہونے والی تباہی و بربادی کی بڑی وجہ انسانوں کے درمیان مختلف قسم کے تعصبات اور نابرابری رہی ہے۔ یہ تو انسان کا خواب ہے جو وہ ہزاروں سال سے دیکھ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کبھی نہ کبھی یہ خواب پورا ہو جائے جس کے مستقبل نادیدہ میں قوی امکانات ہیں۔ سیکولرازم میں کوئی مذہب دوسرے مذاہب پر بالادستی قائم نہیں رکھ سکتا۔دنیا میں بعض قوتیں رنگ نسل یا مذہب کی بنیاد پر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے جنگ و جدل کرا رہے ہیں حالانکہ ان لوگوں کا مقصد صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہے اور اقتدار بھی وہ اس لیے چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ دولت پر قبضہ کر سکیں۔
بعض طبقات کی سمجھداری دیکھیں انھیں دوسرے ملکوں میں سیکولرازم پسند ہے کیونکہ اس طرح انھیں مغرب میں مقامیوں کے برابر ہر طرح کے حقوق حاصل ہو جاتے ہیں لیکن وہ اپنے ملکوں میں اسے نافذ کرنے سے انکاری ہیں۔ انڈیا یورپ امریکا اور پورے مغرب میں ہمیں سیکولر ازم بہت پسند ہے لیکن اپنے ملک میں ہم اس کے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔ذرا سوچیں کہ اگر فرانس بھی عہد قدیم کا کوئی مسیحی ملک ہوتا تو پیرس واقعے کے بعد وہاں آباد مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا۔ سوچنے کی بات ہے کہ آج سے کئی سو سال پہلے یورپین بھی ہم جیسے تھے۔ متشدد تنگ نظر مذہبی جنونی۔ صرف وقت نے انھیں بدل دیا۔ جس میں فیصلہ کن کردار جدید علوم سائنس اور ٹیکنالوجی نے ادا کیا۔
فرانس کے تمام تر صبر و تحمل کے باوجود پیرس حملے کا اصل نقصان مسلمانوں کو پہنچے گا۔ وہ مسلمان جو یورپ میں پونے دو کروڑ کی تعداد میں آباد ہیں اس حملے کا اصل فائدہ یورپ میں قائم نسل پرست تنظیموں کو اس طرح ملے گا کہ ان کے ہم خیالوں میں مزید اضافہ ہو گا کہ مسلمانوں کو یورپ سے نکال کر ان کے اپنے ملکوں میں واپس بھیجا جائے۔ اور وہ تمام لوگ جو نائن الیون اور پیرس حملے کے بعد مغرب میں مقیم مسلمانوں کی حمایت کرتے ہیں مزید کمزور ہوں گے۔ ان حملوں نے مسلمان مخالف نسل پرستانہ تحریک کو ایک بڑی قوت میں بدل دیا ہے۔یورپ میں نفرت اور تعصبات کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ ابھی تک یہ بیج ننھے منھے پودوں کی شکل اختیار کر سکے ہیں۔ درخت بننے میں انھیں بہت دیر لگے گی لیکن ان کی بڑھاتری شروع ہو چکی ہے اور یہ کام یورپ کی حکومتیں نہیں بلکہ داعش جیسی تنظیمیں کر رہی ہیں۔ ممکن ہے کہ یورپ اور امریکا کے نسل پرست خفیہ طور پر ان تنظیموں کی مدد کر رہے ہوں لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ مسلم ممالک کیا کر رہے ہیں وہ اپنے ملکوں میں ان تنظیموں کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
چند ہفتے پہلے اسی کالم میں پیش گوئی کی گئی کہ شام کے مسئلے کا پہلی مرتبہ حقیقی معنوں میں حل کا سلسلہ نومبر دسمبر سے شروع ہو جائے گا ... اور یہ ہے پیرس حملے کا نتیجہ۔
27,25,24 نومبر تا 12 دسمبر داعش کے حوالے سے اہم فیصلوں کا آغاز ہو جائے گا۔
سیل فون: 0346-4527997