مادرِ ارض کو بے لباس نہ کیجیے
اوزون کیا ہے؟ اوزون ہماری اس مادر ارض کی حفاظتی تہہ یا غلاف ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ زمین کا حفاظتی غلاف ''اوزون'' جو گزشتہ کئی سال سے مسلسل جل رہا ہے۔ اب اس حفاظتی غلاف میں ریکارڈ حجم کا سوراخ ہوچکا ہے البتہ اس حفاظتی تہہ کو بچانے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔ ورلڈ میٹریالوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق گزشتہ تیس دن کے دوران انٹارکٹیکا کے علاقے میں بلندی پر غیر معمولی طور پر کم درجہ حرارت اور اوزون کو تباہ کرنے والی گیسوں کی موجودگی کی وجہ سے اوزون کا سوراخ ریکارڈ حجم یعنی 2 کروڑ 69 لاکھ مربع کلو میٹر تک پھیل گیا ہے، یہ اتنا بڑا علاقہ ہے جو پورے شمالی امریکا سے بھی بڑا ہے۔ ادارے کے مطابق اس سے پتا چلتا ہے کہ اوزون کے سوراخ کا مسئلہ بدستور ہمارے ساتھ ہے اور ہمیں اس حوالے سے چوکس رہنے اور موثر حفاظتی انتظامات کرنے اور مفید و تعمیری تدابیر اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اوزون کیا ہے؟ اوزون ہماری اس مادر ارض کی حفاظتی تہہ یا غلاف ہے۔ یہ ہمارے سروں سے کئی کلومیٹر اوپر گیس کا ایک پتلا، نازک اور مہین غلاف ہے۔ اس گیسی غلاف میں ہمارا سیارہ لپٹا ہوا ہے۔ اسی حفاظتی تہہ یا غلاف کا سائنسی نام ''اوزون تہہ'' ہے اور ہمارے اس سیارہ کرہ ارض پر زندگی کا بڑا انحصار اسی پر ہے۔ اوزون تہہ کے بغیر یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ اس سیارے پر زندگی ہوتی یا خاموشی! زمین کو ایک گیند، گولہ، کرہ یا انڈہ کچھ بھی سمجھ لیجیے۔ اس کے ارد گرد ہوائی غلاف ہے۔ یہ ہوائی غلاف دراصل گیسوں کا سمندر ہے۔ گیسوں کے اس سمندر کو مردہ مت سمجھیے، یہ اسی طرح زندگی سے بھرپور ہے جیسے کوئی آباد گلشن۔ اس کے سب سے نچلے اور دبیز حصے میں بے شمار پودے اور جانور آباد ہیں۔ جن میں ہم انسانوں کو بھی شامل کرلیجیے۔ یہ اس کا سب سے زندہ اور خوبصورت حصہ ہے۔ اس میں پھول کھلتے اور انسان سانس لیتے ہیں، اس حصے سے اوپر جو حصہ آتا ہے اس میں بھی زندگی ہے۔ تقریباً 6 میل کی بلندی تک ہوا میں بیکٹیریا، فنگس سپورز اور زرگل موجود ہیں۔
تقریباً 14 میل کی بلندی تک اہل سائنس نے زندگی کی نشانیاں پائی ہیں، زندہ چیزوں کے علاوہ ہوائی سمندر میں مردہ چیزیں بھی ہیں جیسے گرد و غبار، کالک، آتش فشاؤں کی راکھ اور نمکیات، کائناتی گردوغبار بھی اس میں شامل ہے اور ہر روز دو تا تین ہزار ٹن گرد و غبار خلا سے زمین پر گرتا ہے۔ زمین کے ہوائی سمندر میں مختلف گیسوں کا کمیت کے لحاظ سے تخمینہ لگایا جائے تو کچھ یہ ترکیب بنتی ہے۔ 75 سے 78 فیصد نائٹروجن، 21 سے 23 فیصد آکسیجن اور آرگون، کاربن ڈائی آکسائیڈ، نی اون، ہیلیم، کرپٹون، ہائیڈروجن، اوزون اور دوسری گیسوں کی خفیف مقداریں۔
ہوائی سمندر ہی کو فضا بھی کہا جاتا ہے اور سائنسی بنیادوں پر اس کی تین منفرد تہیں ہیں۔ سب سے نچلی تہہ کرہ اول یا کرہ متغیرہ میں وہ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں جن سے زمین کا موسم بدلتا ہے۔ یہی وہ طوفانی علاقہ ہے جہاں بادل اور قوس و قزح بنتے ہیں، مون سون بارشوں اور صحرا کے طوفانوں کی تشکیل ہوتی ہے، بادل گرجتے ہیں بجلی چمکتی ہے اور جھکڑ چلتے ہیں۔ کرہ اول کے بعد کرہ قائمہ اور کرہ میانہ کے علاقے ہیں۔ کرہ قائمہ میں اوپر اوزون تہہ کا علاقہ ہے۔ اوزون فضا میں اس وقت بنتی ہے جب سورج سے آنے والی شعاعیں (بالائے بنفشی) آکسیجن کے سالمے کو اس کے دو ایٹموں میں توڑتی ہیں۔ یہ ٹوٹے ہوئے ایٹم تین ایٹمی سالمے بنا لیتے ہیں۔ اسی تین ایٹمی سالمے کا نام اوزون ہے۔ بعد میں اوزون کا سالمہ بھی ٹوٹ جاتا ہے اور آکسیجن پھر سے تشکیل پاتی ہے۔ اوزون سالمہ ٹوٹنے سے شدید شعاعوں کی صورت میں حرارت خارج ہوتی ہے یہ حرارت درجہ حرارت میں اضافہ کردیتی ہے۔
کرہ قائمہ سے اوپر موجود یہ اوزون زندگی کی محافظ ہے۔ اگر سورج کی شدید شعاعیں اپنی پوری شدت سے زمین تک آجائیں تو پوری دنیا میں زبردست حیاتیاتی نقصانات ہوں گے۔ انسانی سرگرمیوں سے اس تہہ کو نقصانات پہنچ رہے ہیں۔ خلائی اور فضائی تحقیق کے دوران انسان مختلف جہاز اور آلات استعمال کر رہا ہے۔ جو اوزون تہہ میں سے گزر کر خلا میں جاتے ہیں، گزرنے کے دوران جو کیمیکلز خارج ہوتے ہیں وہ اوزون کی نازک تہہ کے لیے تباہ کن ہیں، اس کے علاوہ فضائی و ماحولیاتی آلودگی بھی اوزون کے لیے نقصان دہ ہے۔
انٹارکٹیکا پر اوزون شگاف 1982 میں برطانیہ کے سائنسدان فارمین اور ساتھیوں نے دریافت کیا۔ یہ لوگ برٹش سروے ٹیم میں شامل تھے۔ برٹش سروے ٹیم 1950 سے انٹارکٹیکا میں کام کر رہی تھی۔ اس دوران اس نے بے شمار مرتبہ اوزون کا ارتکاز معلوم کیا لیکن 1982 میں جو شواہد انھیں ملے وہ پہلے کبھی نہ ملے تھے۔ تب سے اب تک ہر سال ایسے مشاہدات ہو رہے ہیں۔ طیف پیما اور زمینی مدار کے سیارے دونوں ہی اس بات کی خبریں دے رہے ہیں کہ ہر سال موسم بہار میں اوزون کی تہہ پتلی ہوجاتی ہے۔ پھر جوں جوں موسم گرما آتا ہے، اوزون کا ارتکاز بحال ہوتا ہے۔ انٹارکٹیکا میں اس کی وجہ قدرتی طور پر درجہ حرارت میں کمی بیشی اور برف کا انجماد و پگھلاؤ بھی ہے۔ اوزون تہہ ان علاقوں پر زیادہ پتلی ہوگئی ہے جہاں دنیا کی زیادہ آبادی ہے یعنی کہ شمالی نصف کرہ۔ جوں جوں یہ تہہ پتلی ہو رہی ہے۔
شدید شعاعوں میں اضافہ ہو رہا ہے انسانی صحت، ماحول اور زراعت کو ان شعاعوں سے شدید خطرہ ہے۔ جم لولوک وہ پہلا سائنسدان ہے جس نے کلوروفلورو کاربن کی افراط کو دریافت کیا۔ اس نے اس موقع پر کہا کہ شدید شعاعوں کو ناپنے والے مراکز کی فوری ضرورت ہے۔ نظریات اور آلات صحیح اعداد و شمار کے بغیر زیادہ کارآمد نہیں ہوسکتے۔ تمام اہل سائنس کا مطالبہ یہی ہے کہ ساری دنیا مل کر شدید شعاعوں میں اضافے کو روکے، کرہ قائمہ کی اوزون تہہ کی تباہی میں سب سے خطرناک کردار کلورو فلورو کاربن گیسوں کے اخراج کا رہا ہے نیز مجموعی طور پر بہت سی انسانی سرگرمیوں اور ارضیاتی عوامل ایسے ہیں کہ جو اوزون کی کمی کا سبب بن رہے ہیں۔
زمین کے گرد فضا کے جس حصے ٹروپوسفیر میں اوزون کا بننا بگڑنا مسلسل جاری رہتا ہے وہاں انسانی سرگرمیوں کے اثرات نے توازن کو اس طرح درہم برہم کردیا ہے کہ اوزون کی مقدار مسلسل کم ہو رہی ہے اور اوزون کا سوراخ بڑا ہوکر ریکارڈ حجم کا ہوگیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ زمین کے گرد اس غلاف میں جو زمین پر خطرناک شعاعیں نہیں آنے دیتا تھا، آگ لگ گئی ہے۔ غلاف جہاں جہاں سے جلا ہے وہاں سوراخ ہوگئے ہیں، فضا میں بڑی مقدار میں شامل نقصان دہ کیمیکلز نائٹروجن کے آکسائیڈ وغیرہ نے بھی اسے جلانے میں کردار ادا کیا ہے۔
سورج کی وہ بالائے بنفشی شعاعیں جو زمینی حیات کے لیے خطرناک ہیں اور اوزون غلاف سے گزر نہیں سکتیں۔ ان شعاعوں کا یوں اوزون کے مسلسل متاثر ہونے کے نتیجے میں بڑی مقدار میں زمین پر پڑنا خطرناک ہوگا۔ اوزون غلاف واضح طور پر اس زندگی کے لیے ایک ڈھال ہے جو زمین پر موجود ہے۔ اگر اوزون غلاف یوں ہی جلتا رہا تو اس سیارے پر بھی زندگی ختم ہوسکتی ہے۔ اوزون کے تحفظ اور بچاؤ کے لیے درست آگہی اور منظم اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ انسانی سرگرمیوں اور ارضیاتی عوامل کے تناظر میں سائنسی بنیادوں پر ایسی کارآمد و مفید تدابیر جو اس حفاظتی غلاف کو مزید تباہی سے بچا سکیں انسان کو فوری طور پر اختیار کرنی چاہئیں، بحیثیت انسان ہمیں سوچنا چاہیے کہ کہیں ہم اس شاخ کو تو نہیں کاٹ رہے ہیں جس پر ہمارا نشیمن اور بسیرا ہے، اوزون ہماری مادر ارض کا لباس ہے، اسے بے لباس نہ کیجیے نا صرف اپنے لیے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بھی۔