’’اب بچہ بخوشی کھانا کھائے گا‘‘

زور زبردستی سے کھلانا مسئلے کا حل نہیں


سویرا فلک November 23, 2015
زور زبردستی سے کھلانا مسئلے کا حل نہیں۔ فوٹو: فائل

BRUSSELS: ''میرا بچہ کھانا نہیں کھاتا۔۔۔''

بیش تر ماؤں کو یہی شکایت رہتی ہے۔ بچوں کا کھانا نہ کھانا یقیناً فکر مندی کی بات ہے، مگر اصل تشویش کی بات یہ ہے کہ 'کیا آپ کا بچہ غذائیت سے بھرپور کھانا کھاتا ہے؟' بچوں کی غذا اور خوراک کے حوالے سے مائیں درج ذیل نکات کو مدنظر رکھیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ آپ کا بچہ ایک بھرپور غذا سے محروم رہ جائے۔

٭بچے کی پسند

بچہ چاہے بہت چھوٹا کیوں نہ ہو، یہ نہ سمجھیں کہ اس کی اپنی کوئی پسند نہیں یا اسے کوئی ذائقہ محسوس نہیں ہوتا۔ آپ بغور مشاہدہ کریں، تو جانیں گی کہ بہت چھوٹی عمر سے ہی بچے نمکین یا میٹھی چیزوں سے رغبت یا عدم دل چسپی کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اپ کو بچوں کو ہر شے کھانے کا عادی بنانا چاہیے، مگر اس کے لیے آپ کو تحمل سے کام لینا ہو گا۔ بچہ ایک ہی دن میں آپ کی پسند اور مرضی کے مطابق چلنا شروع نہیں کر دے گا۔ بچے پر یہ واضح کر دیں کہ اگر ایک وقت یا ایک دن اس کی پسند کا مینو ہو گا، تو دوسری بار اسے آپ کے دیے ہوئے کھانے کو بھی قبول کرنا ہوگا۔

٭معیار پر نظر رکھیں

بچہ کیا کھا رہا ہے، یہ بات اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ وہ کتنا کھا رہا ہے، مثال کے طور پر اگر وہ مٹھی بھر کر ٹافیاں کھا رہا ہے، تو اس کی زائد مقدار بھی اس کے لیے نقصان دہ ہوگی۔ اس کی بہ نسبت اگر وہ چھے بادام یا کاجو کھا رہا ہے، تو یقیناً وہ اس کے لیے مفید ثابت ہو گا۔ اسی طرح اگر وہ گلاس بھر کولڈرنک نہیں پی رہا صرف ایک پیالی شیک پی رہا ہے، تو آپ خود اندازہ لگا سکتی ہیں کہ مقدار اہم ہے یا معیار۔

٭ ''چھپائیں اور کھلائیں''

آپ کی لاکھ کوشش کے باوجود اگر چند ایسی صحت بخش اشیا ہیں، جو بچہ کھانے پر ہرگز تیار نہیں، تو آپ بھی بچے کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا شروع کر دیں۔ مثلاً اگر بچہ دودھ سے بھاگتا ہے، تو یا تو اسے ملک شیک اور کھیر اور کسٹرڈ کی شکل میں دودھ دیں یا پھر کیلشیم کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کباب میں پنیر کی چھوٹی سے گولی بنا کر چھپا دیں، اسی طرح میوہ جات کا پاؤڈر بنا کر اسے مختلف میٹھے پکوانوں میں استعمال کر لیں۔

٭تنوع (ورائٹی) لائیں

بچے بھی بڑوں کی طرح ایک ہی قسم کا کھانا کھاتے کھاتے اکتا جاتے ہیں۔ جیسے اگر آپ بچوں کو روز اُبلا ہوا انڈہ دیتی ہیں، تو ایک دن ان کا دل بھر جاتا ہے، ایسے میں انڈے کو تل کے یا اس کا سینڈوچ بنا کر دیں۔ اسی طرح روزانہ کھچڑی اور دال چاول بھی بچوں کے آگے نہ رکھیں۔ چاولوں کی نت نئی قسم کی ڈشیں بنا کر کھلائیں۔

https://img.express.pk/media/images/Kid-self-eat/Kid-self-eat.webp

٭وقفے وقفے سے کھلائیں

بچوں کا پیٹ عموماً جلد ہی بھر جاتا ہے اور پھر کھیل کود میں جلد ہی کھانا ہضم ہونے سے انہیں بھوک بھی لگنے لگتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو دو، دو گھنٹوں کے وقفے سے کھلائیں اور پلائیں۔ جی ہاں یہ ضروری نہیں کہ ہر دو گھنٹے کے بعد آپ اسے کچھ کھانے کے لیے دیں۔ تین سال سے بڑے بچوں کو پانچ وقت ٹھوس خوراک دیں اور باقی وقت پانی یا اور کوئی مشروب یا پھلوں کا رس وغیرہ دیں۔ ہلکی پھلکی غذا کے طور پر موسم کی مناسبت سے کچی سبزیاں، میوہ جات اور پھل وغیرہ بہترین انتخاب ہو سکتے ہیں۔

٭کھیل کھیل میں کھلائیں

کھانا کھلاتے ہوئے بچوں کے ساتھ زیادہ سختی اور جبر نہ کریں۔ تین سال سے کم عمر بچے آپ کی ڈانٹ کی وجہ نہیں جان سکتے اور ویسے بھی آپ کے منفی رد عمل سے بچے کو کھانے کے نام سے ہی چڑ ہو جائے گی۔ کھانے کے اوقات کار ضرور باندھیں، مگر اس وقت ان سے باتیں کریں، کارٹون دکھادیں یا چھوٹے بچوں کے ساتھ بلاکس کھیلیں یا جھولے یا وا کر وغیرہ پر بٹھا دیں۔

٭کھانے کو پرکشش بنائیں

کہتے ہیں کہ 'زبان سے پہلے آنکھ کھاتی ہے۔' یہ مقولہ بچوں پر تو سو فی صد صادق آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بچوں کو تو کھانے کی افادیت و اہمیت نہیںمعلوم ہوتی۔ اس لیے یہ آپ کی ذمے داری ہے کہ بچوں کے کھانے کو ذرا پرکشش بنائیں۔ بچوں کے لیے خوب صورت رنگوں اور ڈیزائن والے برتنوں کا انتخاب کریں۔ آج کل بازار میں مختلف کھلونوں کی شکل کے برتن بہ آسانی دست یاب ہیں۔ اس کے علاوہ کھانوں کو دیدہ زیب طریقے سے آراستہ کریں، جیسے کسٹرڈ اور کھیر وغیرہ کو رنگ برنگی بنٹیز سے سجائیں۔ شیک اور جوس پر ہلکی سی چاکلیٹ کش کر کے شامل کریں۔

٭کبھی نظر انداز بھی کریں

بچوں کو کھانے کے معاملے میں نظر انداز بھی کرنا چاہیے۔ زبردستی، جبر اور ڈانٹ ڈپٹ سے بچہ کھانا کھا کر بھی مطمئن اور پر سکون نہیں ہو گا۔ آپ جو کچھ بھی اسے کھلانا چاہیں، اس کے لیے اس کو بھوک لگنے کا انتظار کریں۔ اگر ایک دفعہ بچہ بھوکا رہ بھی جائے، تو خدانخواستہ اس کی صحت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، البتہ آپ کو یہ فائدہ ہوگا کہ بچہ کھانے کے معاملے میں ضدی رویہ چھوڑ دے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں