قاتل فیس بک

شدت سوچ میں ہو یا عادات میں، ہمیشہ تباہی کا موجب بنتی ہے، چکوال کی دوشیزہ تہمینہ کا بہیمانہ قتل اس تباہی کا آغاز ہے۔


محمد عاصم November 23, 2015
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کے ذریعے بچے اگر والدین کے قریب نہیں ہیں اور بہن بھائیوں کے درمیان پیار و محبت نہیں تو سمجھو سماج کی اکائی خطرے میں ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

انسان سوچ اور عادات کے مسلسل ارتقائی سفر پر گامزن ہے، جنگل سے چھوٹے گروہ، پھر دیہات، اور اس کے بعد شہر اور ملک بنے۔ آج دنیا گلوبل ویلیج ہے، سماجی روابط کی ویب سائٹس جسکا ستون ہیں۔

ارسطو نے کہا ''انسان معاشرتی حیوان ہے'' یعنی دوسرے انسانوں سے روابط رکھنا اور مل جل کے رہنا اس کی فطرت میں شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا آج کی جدید سماجی روابط کی سہولتیں انسان کے رویوں میں جو تبدیلیاں پیدا کر رہی ہیں آیا انسان کو اپنے اردگرد کے لیے''ماحول دوست'' بنا رہی ہیں؟ کیا یہ سائٹس محبت، احساس، ایثار، رواداری اور اخوت جیسی خوبیوں کو فروغ دے رہی ہیں؟ جو کہ کسی بھی سماج کی روح ہیں۔ مختلف طبقات میں کام کرتے خواتین و حضرات سے جب اس سلسلہ میں بات کی گئی تو مکالمہ بڑا فکر انگیز رہا، آپ بھی پڑھیے۔

ام عمارہ کہتی ہیں کہ وقت کے تفریحی اوقات میں اب ان سائٹس کا استعمال زیادہ جگہ لیتا ہے، پہلے بچے گھر کے کام اور اسکول ٹیچنگ بھی کرلیا کرتے تھے، لیکن اب گھر میں رہ کر بھی کسی کے پاس وقت نہیں، 24 گھنٹے تو ہیں لیکن نہ جانے وقت کہاں چلا گیا ہے؟

مجھے لگا وہ سماجی روابط کی ویب سائٹس سے زیادہ خوش نہیں ہے، 5 سال سے نجی اسکول سے وابستہ مس فرخندہ کہتی ہیں ''میرے فیملی ممبرز بیرون ملک رہتے ہیں اور مجھے ان سے رابطہ کرنے میں اب پہلے کی نسبت بہت زیادہ سہولت ہے۔ ٹیکنالوجی کا دور ہے، آپ اس سے خود کو الگ تو نہیں رکھ سکتے نا؟ یہاں بھی بات ایک استفہامیہ جملہ پر ختم ہوئی۔ لیکن ابھی بات کی گہرائی تک جانے میں کافی کچھ جاننا ضروری تھا۔

میں نےاسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر سے یہی سوال کیا تو ان کا کہنا تھا، ہاں پاکستانی سماج میں کافی بدلاؤ آیا ہے۔ شہروں کی اجنبیت اب دیہات اور گاؤں تک پہنچ گئی ہے۔ آپ میلوں دور تو کسی کے حال سے واقف ہوتے ہیں لیکن پاس بیٹھے فرد سے بیگانے۔

علی اکبر قائد اعظم یونیورسٹی میں ایم فل کے ریسرچ اسکالر رہے ہیں، جب ان سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ''گذشتہ 3 سال، میں دیکھ رہا ہوں کہ پہلے کہ مقابلہ میں اب حالات بالکل بدل سے گئے ہیں، میرے تین بچے ہیں جن سے میں روزانہ رات اسکائپ پر بات کرتا ہوں۔ گویا کہ میں گھر پر موجود ہوں، طلبہ کی بڑی تعداد ان سائٹس سے فائدہ حاصل نہیں کرتی اور بے راہ روی کا شکار ہوجاتی ہے، یہ آج کا چیلنج ہے''۔

اب کی بار مجھے لگا جیسے وقت کا صحیح استعمال اور آلات کا درست کنٹرول ہی زیادہ اہمیت کا حامل ہے، جس سے سماجی روابط کی ان ویب سائٹس کا بہتر استعمال ممکن ہے، اسی سوچ کے ساتھ جب میں نے ارم بانو سے سوال کیا تو ان کا تجزیہ تھا ''سماجی روابط کی ویب سائٹس تو ٹھیک، لیکن ان کے استعمال کے لیے نئے اور مہنگے موبائل بھی ایک سماجی بیماری کی وجہ بن رہے ہیں، آپ خود بتائیں والدین بچوں کی فیسوں کا بوجھ برداشت کریں یا موبائل فونز اور اس سے جڑے اخراجات کا؟

مس ارم ایک سماجی ورکر ہیں اور اسلام آباد کے دیہی علاقوں میں کام کرتی ہیں۔ انسان اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے نئی نئی اشیاء ایجاد کرتا رہتا ہے۔ بہتر طرزِ زندگی جن کا مقصد ہوتا ہے۔ سماجی روابط کی سائٹس (فیس بُک، واٹس ایپ، ٹوئیٹر، گوگل پلس وغیرہ) اسی سوچ کی تلاش کا نتیجہ ہیں۔ کاروبار اور سماج جس میں ایک ساتھ باندھ دیے گئے ہیں۔

میرے چہرے کی الجھن دیکھ کر امی نے کہا ''بیٹا! بچے اگر والدین کے قریب نہیں ہیں اور بہن بھائیوں کے درمیان پیار و محبت نہیں تو سمجھو سماج کی اکائی خطرے میں ہے۔ سماجی روابط کے ذرائع ہمارے بچوں کو یا خود ہمیں ایک دوسرے سے دور کر رہے ہیں تو یہ کیسے سماجی روابط ہیں؟ اعتدال ہی بہترین رویہ ہیں۔ اس لئے یہاں بھی اسی رویہ کو اپنانے کی ضرورت ہے، ورنہ شدت سوچ میں ہو یا عادات میں ، ہمیشہ تباہی کا موجب بنتی ہے۔ چکوال کی دوشیزہ تہمینہ کا بہیمانہ قتل اسی تباہی کا آغاز ہے۔
[poll id="785"]


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں