سپہ سالار کا حالیہ دورہ امریکا
2013 میں افواج پاکستان کی کمان سنبھالنے کے بعد جنرل راحیل شریف کا یہ دوسرا امریکی دورہ ہے۔
وطن عزیز میں آج کل تین شریفوں کے بڑے چرچے ہیں، وزیراعظم میاں محمد نوازشریف، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اور سپہ سالاراعظم ہر دل عزیز راحیل شریف۔ آرمی چیف تو پاکستان میں اور بھی کئی گزر چکے ہیں لیکن عوام میں جو مقبولیت اور پذیرائی جنرل راحیل شریف کے حصے میں آئی ہے وہ شاید ہی کسی اور کو نصیب ہوئی ہو یا ہوسکے۔ اس حوالے سے مرزا غالب کا درج ذیل شعر اس وقت ہمارے ذہن میں گونج رہا ہے:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
انتہائی مختصر عرصے میں حب الوطنی اور دفاع وطن کے حوالے سے انھیں جو غیر معمولی مقبولیت اورعوامی پذیرائی حاصل ہوئی ہے وہ بلاشبہ قابل رشک اور لائق تحسین ہے۔ موصوف نے آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرونی دنیا میں بھی منوا لیا ہے جس کی وجہ سے انھیں بڑی قدرکی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ چناں چہ ان کے حالیہ دورہ امریکا کو بھی بین الاقوامی حلقوں میں بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔
سپہ سالار کے اس دورہ امریکا کی اہمیت کا اندازہ امریکی محکمہ دفاع کے اس بیان سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ ''ہم سی او ایس راحیل (شریف) کے انتہائی ممنون ہیں کہ انھوں نے بہ نفس نفیس باہمی صلاح و مشورے کے لیے وقت نکالا ہے۔'' جنرل راحیل شریف کا یہ دورہ ایک ایسے نازک موقعے پر ہو رہا ہے جب عالمی سیاست نئی کروٹیں لے رہی ہے اور جنوبی ایشیا کے خطے کی صورتحال بہت زیادہ سنگین رخ اختیار کرچکی ہے۔ اس اعتبار سے اس دورے کے بڑے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔
ان کے اس دورے کا پروگرام بڑا وسیع تھا جس میں پینٹا گون کی اہم شخصیات کے علاوہ امریکا کی کلیدی قیادت کے ساتھ ملاقاتیں اور تبادلہ خیال شامل ہے۔ ان تمام اہم ملاقاتوں کے دوران واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی کی شرکت اس حقیقت کی نشان دہی کرنے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت اس معاملے میں ایک ہی صفحے پر ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے فوجی سربراہان کا ہر ہفتے امریکا آنا جانا ایک معمول کی سی بات ہے جن میں سے اکثر و بیشتر امریکا کے وزیر خارجہ اور نائب صدر سے شرف ملاقات حاصل کیے بغیر ہی واپس چلے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے حالیہ دورہ امریکا میں پاکستان کے فوجی سربراہ کی امریکی وزیر خارجہ اور نائب صدر سے ملاقات خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔
2013 میں افواج پاکستان کی کمان سنبھالنے کے بعد جنرل راحیل شریف کا یہ دوسرا امریکی دورہ ہے۔ اس سے ایک سال قبل بھی جب وہ اپنے پہلے دورہ امریکا پر تشریف لے گئے تھے تو ان کا سرخ قالین پر انتہائی پرتپاک استقبال کیا گیا تھا اور دہشت گردی کے خلاف ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں یو ایس لیجن آف میرٹ کے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ اگرچہ امریکا کا دورہ کرنے والے وہ پاکستان کے پہلے چیف آف آرمی اسٹاف نہیں تھے تاہم ان کے اس دورے میں امریکا کی جانب سے جس دلچسپی کا اظہار کیاگیا تھا وہ معمول سے بڑھ کر تھی۔ غالباً اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ انھوں نے یہ دورہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ملٹری آپریشن کے محض چند ماہ بعد ہی کیا تھا جب کہ ان کا حالیہ دورہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے بعد ہوا ہے۔
پینٹا گون میں جنرل راحیل شریف کا شاندار استقبال ان کے دورے کی غیر معمولی اہمیت کا بین ثبوت ہے۔ امریکی ہم منصب جنرل مارک ملی سے ان کی ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات، خطے میں قیام امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور بھارت کے جارحانہ رویے سے متعلق امور پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ 18 نومبر بروز پیر جنرل راحیل شریف کے محکمہ دفاع کے دورے میں ان کا ہر قدم پر انتہائی گرم جوشی سے خیرمقدم کیا گیا۔ اس موقعے پر جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی افواج کے کامیابی سے جاری آپریشن ضرب عضب کے علاوہ بعض دیگر اقدامات پر روشنی ڈالی اور خطے میں قیام امن سے متعلق پاکستان کی کوششوں سے بھی آگاہ کیا۔
اس کے علاوہ آرمی چیف نے افغانستان میں قیام امن و استحکام کے حوالے سے پاکستان کے عملی اقدامات اور مخلصانہ موقف کی بھی وضاحت کی۔ جنرل راحیل شریف نے خطے میں قیام امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا اور اس سلسلے میں بھارتی رویے سے بھی امریکیوں کو آگاہ کیا۔ امریکی اعلیٰ حکام کو اس بات سے بھی مطلع کیا گیا کہ افغانستان میں مصالحتی عمل کا سلسلہ کابل سے معلومات لیک ہوجانے کے باعث التوا کا شکار ہوا تھا۔ یہی وہ طرز عمل ہے جو مذاکرات کی بیل کے منڈھے چڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل آصف سلیم باجوہ نے واشنگٹن میں سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکا کے حوالے سے میڈیا کے لیے ایک بریفنگ کے دوران اس حقیقت کو بالکل واضح کردیا کہ افغانستان نے آپریشن ضرب عضب کی حمایت میں مطلوبہ اقدامات نہیں کیے حالانکہ افغانستان اور وہاں موجود اتحادی افواج کو پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ دہشت گرد آپریشن ضرب عضب سے بچنے کے لیے افغانستان میں فرار ہوں گے جنھیں روکنے کے لیے افغانستان کو بھی اقدامات کرنے چاہئیں۔
بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان سے فرار ہونے والے دہشت گرد افغانستان میں بڑے آرام سے آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں اور پاکستان کے بار بار حوالگی کے مطالبے کو نظرانداز کرتے ہوئے افغان حکومت ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔ اگر افغان حکومت پاکستان کا مطالبہ مان لیتی اور سرحدوں پر بروقت سیکیورٹی کا انتظام سخت کردیتی تو دہشت گردوں کی خاصی بڑی تعداد گرفت میں آجاتی جس کے نتیجے میں آج امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہوتی۔ مگر افغان حکومت اپنے عدم تعاون پر پردہ ڈالتے ہوئے پاکستان ہی کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کر رہی ہے جو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی کہاوت کے مترادف ہے۔ دوسری جانب افغان حکومت طالبان سے امن کی بھیک مانگنے کا ناٹک رچا رہی ہے۔
پاکستان میں باقاعدہ اور فل ٹائم وزیر خارجہ کی عدم موجودگی کے باعث خارجی امور کی ذمے داریوں کا بوجھ بھی روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے جس کا بار وزیر اعظم نواز شریف کے علاوہ لگتا ہے کہ سپہ سالار کو بھی شیئر کرنا پڑ رہا ہے۔ چناں چہ انھیں پاکستان کے دیرینہ ہمدم سے تعلقات میں بہتری لانے کی خاطر اسی ماہ کے دوران سعودی عرب کا دورہ بھی کرنا پڑا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جنرل راحیل شریف کا گزشتہ دورہ ماسکو بھی دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات میں بہتری کی بھی ایک کامیاب کوشش تھی۔
دورہ برطانیہ میں بھی برٹش وزیر اعظم نے اپنی قیام گاہ پر ان کا خیر مقدم کم و بیش اسی انداز میں کیا تھا جس انداز میں کسی سربراہ حکومت کا کیا جاتا ہے۔ ابھی وزیر اعظم نواز شریف کو امریکا کے دورے سے آئے ہوئے ایک ماہ بھی نہیں ہو رہے کہ ان کا یہ دورہ عمل میں آیا ہے جوکہ طالبان اور حکومت افغانستان کے درمیان مذاکراتی سلسلے کے ٹوٹ جانے کے پس منظر میں ہوا ہے۔ امریکیوں کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح طالبان کو امن مذاکرات کی میز پر دوبارہ لایا جائے۔دوسری جانب دونوں فریق اپنی اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔
ایسی صورتحال میں پاکستان سے یہ توقع کرنا غیر حقیقت پسندانہ ہوگا کہ وہ عدم اعتماد کی فضا میں دونوں فریقوں کو ایک بار پھر مذاکرات کی ٹیبل پر لے آئے۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جسے چیف آف آرمی اسٹاف کے حالیہ دورہ امریکا میں امریکی قیادت پر مکمل طور پر واضح ہوجانا چاہیے اور اس بارے میں کسی بھی قسم کے ابہام یا غلط فہمی کا خاتمہ ہوجانا چاہیے۔ توقع کی جاتی ہے کہ اس دورے کے نتیجے میں امریکا پاکستان کے خلاف جارحانہ رویے کے حوالے سے بھارت پر بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا تاکہ خطے کی فضا امن و سلامتی کے حوالے سے بہتر ہوسکے۔ اس کے علاوہ یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ اس دورے کے بعد طالبان افغان مذاکراتی عمل میں حائل رکاوٹیں بھی دور ہوجائیں گی اور فریقین کو امن مذاکرات کی میز پر دوبارہ اکٹھا کرنے کے لیے ماحول سازگار ہوجائے گا۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
انتہائی مختصر عرصے میں حب الوطنی اور دفاع وطن کے حوالے سے انھیں جو غیر معمولی مقبولیت اورعوامی پذیرائی حاصل ہوئی ہے وہ بلاشبہ قابل رشک اور لائق تحسین ہے۔ موصوف نے آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرونی دنیا میں بھی منوا لیا ہے جس کی وجہ سے انھیں بڑی قدرکی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ چناں چہ ان کے حالیہ دورہ امریکا کو بھی بین الاقوامی حلقوں میں بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔
سپہ سالار کے اس دورہ امریکا کی اہمیت کا اندازہ امریکی محکمہ دفاع کے اس بیان سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ ''ہم سی او ایس راحیل (شریف) کے انتہائی ممنون ہیں کہ انھوں نے بہ نفس نفیس باہمی صلاح و مشورے کے لیے وقت نکالا ہے۔'' جنرل راحیل شریف کا یہ دورہ ایک ایسے نازک موقعے پر ہو رہا ہے جب عالمی سیاست نئی کروٹیں لے رہی ہے اور جنوبی ایشیا کے خطے کی صورتحال بہت زیادہ سنگین رخ اختیار کرچکی ہے۔ اس اعتبار سے اس دورے کے بڑے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔
ان کے اس دورے کا پروگرام بڑا وسیع تھا جس میں پینٹا گون کی اہم شخصیات کے علاوہ امریکا کی کلیدی قیادت کے ساتھ ملاقاتیں اور تبادلہ خیال شامل ہے۔ ان تمام اہم ملاقاتوں کے دوران واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی کی شرکت اس حقیقت کی نشان دہی کرنے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت اس معاملے میں ایک ہی صفحے پر ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے فوجی سربراہان کا ہر ہفتے امریکا آنا جانا ایک معمول کی سی بات ہے جن میں سے اکثر و بیشتر امریکا کے وزیر خارجہ اور نائب صدر سے شرف ملاقات حاصل کیے بغیر ہی واپس چلے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے حالیہ دورہ امریکا میں پاکستان کے فوجی سربراہ کی امریکی وزیر خارجہ اور نائب صدر سے ملاقات خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔
2013 میں افواج پاکستان کی کمان سنبھالنے کے بعد جنرل راحیل شریف کا یہ دوسرا امریکی دورہ ہے۔ اس سے ایک سال قبل بھی جب وہ اپنے پہلے دورہ امریکا پر تشریف لے گئے تھے تو ان کا سرخ قالین پر انتہائی پرتپاک استقبال کیا گیا تھا اور دہشت گردی کے خلاف ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں یو ایس لیجن آف میرٹ کے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ اگرچہ امریکا کا دورہ کرنے والے وہ پاکستان کے پہلے چیف آف آرمی اسٹاف نہیں تھے تاہم ان کے اس دورے میں امریکا کی جانب سے جس دلچسپی کا اظہار کیاگیا تھا وہ معمول سے بڑھ کر تھی۔ غالباً اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ انھوں نے یہ دورہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ملٹری آپریشن کے محض چند ماہ بعد ہی کیا تھا جب کہ ان کا حالیہ دورہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے بعد ہوا ہے۔
پینٹا گون میں جنرل راحیل شریف کا شاندار استقبال ان کے دورے کی غیر معمولی اہمیت کا بین ثبوت ہے۔ امریکی ہم منصب جنرل مارک ملی سے ان کی ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات، خطے میں قیام امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور بھارت کے جارحانہ رویے سے متعلق امور پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ 18 نومبر بروز پیر جنرل راحیل شریف کے محکمہ دفاع کے دورے میں ان کا ہر قدم پر انتہائی گرم جوشی سے خیرمقدم کیا گیا۔ اس موقعے پر جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی افواج کے کامیابی سے جاری آپریشن ضرب عضب کے علاوہ بعض دیگر اقدامات پر روشنی ڈالی اور خطے میں قیام امن سے متعلق پاکستان کی کوششوں سے بھی آگاہ کیا۔
اس کے علاوہ آرمی چیف نے افغانستان میں قیام امن و استحکام کے حوالے سے پاکستان کے عملی اقدامات اور مخلصانہ موقف کی بھی وضاحت کی۔ جنرل راحیل شریف نے خطے میں قیام امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا اور اس سلسلے میں بھارتی رویے سے بھی امریکیوں کو آگاہ کیا۔ امریکی اعلیٰ حکام کو اس بات سے بھی مطلع کیا گیا کہ افغانستان میں مصالحتی عمل کا سلسلہ کابل سے معلومات لیک ہوجانے کے باعث التوا کا شکار ہوا تھا۔ یہی وہ طرز عمل ہے جو مذاکرات کی بیل کے منڈھے چڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل آصف سلیم باجوہ نے واشنگٹن میں سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکا کے حوالے سے میڈیا کے لیے ایک بریفنگ کے دوران اس حقیقت کو بالکل واضح کردیا کہ افغانستان نے آپریشن ضرب عضب کی حمایت میں مطلوبہ اقدامات نہیں کیے حالانکہ افغانستان اور وہاں موجود اتحادی افواج کو پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ دہشت گرد آپریشن ضرب عضب سے بچنے کے لیے افغانستان میں فرار ہوں گے جنھیں روکنے کے لیے افغانستان کو بھی اقدامات کرنے چاہئیں۔
بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان سے فرار ہونے والے دہشت گرد افغانستان میں بڑے آرام سے آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں اور پاکستان کے بار بار حوالگی کے مطالبے کو نظرانداز کرتے ہوئے افغان حکومت ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔ اگر افغان حکومت پاکستان کا مطالبہ مان لیتی اور سرحدوں پر بروقت سیکیورٹی کا انتظام سخت کردیتی تو دہشت گردوں کی خاصی بڑی تعداد گرفت میں آجاتی جس کے نتیجے میں آج امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہوتی۔ مگر افغان حکومت اپنے عدم تعاون پر پردہ ڈالتے ہوئے پاکستان ہی کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کر رہی ہے جو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی کہاوت کے مترادف ہے۔ دوسری جانب افغان حکومت طالبان سے امن کی بھیک مانگنے کا ناٹک رچا رہی ہے۔
پاکستان میں باقاعدہ اور فل ٹائم وزیر خارجہ کی عدم موجودگی کے باعث خارجی امور کی ذمے داریوں کا بوجھ بھی روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے جس کا بار وزیر اعظم نواز شریف کے علاوہ لگتا ہے کہ سپہ سالار کو بھی شیئر کرنا پڑ رہا ہے۔ چناں چہ انھیں پاکستان کے دیرینہ ہمدم سے تعلقات میں بہتری لانے کی خاطر اسی ماہ کے دوران سعودی عرب کا دورہ بھی کرنا پڑا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جنرل راحیل شریف کا گزشتہ دورہ ماسکو بھی دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات میں بہتری کی بھی ایک کامیاب کوشش تھی۔
دورہ برطانیہ میں بھی برٹش وزیر اعظم نے اپنی قیام گاہ پر ان کا خیر مقدم کم و بیش اسی انداز میں کیا تھا جس انداز میں کسی سربراہ حکومت کا کیا جاتا ہے۔ ابھی وزیر اعظم نواز شریف کو امریکا کے دورے سے آئے ہوئے ایک ماہ بھی نہیں ہو رہے کہ ان کا یہ دورہ عمل میں آیا ہے جوکہ طالبان اور حکومت افغانستان کے درمیان مذاکراتی سلسلے کے ٹوٹ جانے کے پس منظر میں ہوا ہے۔ امریکیوں کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح طالبان کو امن مذاکرات کی میز پر دوبارہ لایا جائے۔دوسری جانب دونوں فریق اپنی اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔
ایسی صورتحال میں پاکستان سے یہ توقع کرنا غیر حقیقت پسندانہ ہوگا کہ وہ عدم اعتماد کی فضا میں دونوں فریقوں کو ایک بار پھر مذاکرات کی ٹیبل پر لے آئے۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جسے چیف آف آرمی اسٹاف کے حالیہ دورہ امریکا میں امریکی قیادت پر مکمل طور پر واضح ہوجانا چاہیے اور اس بارے میں کسی بھی قسم کے ابہام یا غلط فہمی کا خاتمہ ہوجانا چاہیے۔ توقع کی جاتی ہے کہ اس دورے کے نتیجے میں امریکا پاکستان کے خلاف جارحانہ رویے کے حوالے سے بھارت پر بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا تاکہ خطے کی فضا امن و سلامتی کے حوالے سے بہتر ہوسکے۔ اس کے علاوہ یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ اس دورے کے بعد طالبان افغان مذاکراتی عمل میں حائل رکاوٹیں بھی دور ہوجائیں گی اور فریقین کو امن مذاکرات کی میز پر دوبارہ اکٹھا کرنے کے لیے ماحول سازگار ہوجائے گا۔