سانحہ پیرس استدلال یا استبداد

فرانس کے خفیہ اداروں نے اس سال موسم گرما میں کئی حملوں کو ناکام بنایا

اقوام عالم کو لرزہ براندام کرنیوالے سانحہ نائن الیون کے بعد عالمی برادری کے مابین ، سفارتی، سیاسی ،معاشی ومعاشرتی تعلقات میں تاریخی طور پر ایک نئے باب کا اضافہ ہوا تھا اورکئی ممالک میں دہشتگردی کے واقعات میں ہولناک نتائج پر منتج کارروائیوں میںبے انتہا اضافہ بھی ہوا جس سے عالمی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہونے لگے جب کہ بین الاقوامی تعلقات کی نئے سر ے سے نظریاتی بنیادیں رکھنے کا آغاز بھی ہوا جن کے تمام تر مرکزی نکات دہشتگردی کے سدباب پر ٹکے ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ ،ورلڈ بینک،آئی ایم ایف، عالمی مالیاتی امدادی اداروںسمیت دوطرفہ ملکی تعلقات اور پالیسیاں مرتب کرنے میں بھی سب سے پہلے دہشتگردی کے ممکنہ خطرات کو زیرغور لایا جانے لگا۔ہرایک طرف سے اور ہر ایک سے انسانیت کی خدمت کے نام پر دہشتگر دی کے خاتمے میں مدد کی نہ صرف اپیلیں کی جانے لگیں بلکہ ہر طرف سے اس دہشتگردی کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنے اپنے حصے کی ذمے داریاں ادا کر نے کے وعدے بھی کیے جانے لگے تھے، بالکل اسی طرح سانحہ پیرس کے بعدا قوام عالم کے مابین تمام شعبہ ہائے زندگی میں نئی صف بندیاں ترتیب دی جانے لگی ہیں۔

اس ضمن میں دنیا کی 20بڑی معیشتوں کے اتحاد جی 20کے انطاکیہ میں ہوئے، سربراہی اجلاس کے دوران امریکی صدر باراک اوباما نے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، جرمن چانسلر اینجلا مرخیل،اطالوی وزیراعظم میٹیو رینزی، فرانس کے وزیر خارجہ لوغاں فیبیوس سے ملاقاتیں کیں، دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے برطانوی وزیر اعظم سمیت دیگر سربراہان سے ملاقاتیں کیں۔

ان ملاقاتوں کا سلسلہ اس کے بعد بھی ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہتا آیا ہے جب کہ ''عالم انسانیت'' رقت آمیز سکتے کی کیفیت میں دم بہ خود آنکھیں پتھرائے اور''گوش ِخر''کیے، ان میل ملاقاتوں کے نتیجے میں اقوام عالم کے لیے جاری ہونیوالے نئے فرمودات کو سننے اور ان کے مقرر اہداف کی جانب ''خرگوش'' کی سی رفتار سے اپنی فرمان برداری کا اظہار کرنے کی منتظر تھی تب اعلان ہوا کہ ''اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔''

جس کے بعد فرانس نے اپنافوجی بحری بیڑہ شام روانہ کردیا ہے جب کہ تاریخ میں پہلی بار روس اور امریکا مل کام کر نے پرآمادہ ہوئے ہیں جب کہ داعش نے اپنی دہشتگرد کارروائیوں میں عام اور بیگناہ انسانوں کو قتل کرتے رہنے کا اعلان کرتے ہوئے واشنگٹن کواپنا اگلا ہدف قرار دیدیا ہے جب کہ فرانس کے وزیر اعظم مینوئل والز نے بھی داعش کی مزید کارروائیوں کی دھمکی کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ'' فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں مزید دہشتگرد حملوں کی تیاری کی جارہی ہے۔''

فرانس کے خفیہ اداروں نے اس سال موسم گرما میں کئی حملوں کو ناکام بنایا۔ حکومت فرانس ایمرجنسی قوانین کے تحت اسلامی شدت پسندوں اور نفرت پھیلانے والوں سے تفتیش کررہی ہے۔ دولت اسلامیہ ہمارے خلاف یہ جنگ نہیں جیت سکتی '' جب کہ ایسے ہی موقعے پر داعش کے پاس کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا بھی باضابطہ اعلان کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں تمام ممالک کو اس ٹکراؤ کے بڑھ جانے کی صورت میں ظاہرہونیوالے نتائج کے حوالے سے سوچنے پر نہ صرف متفکر کر دیا ہے بلکہ تمام ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو حرکت میں آجانے پر مجبور کردیا ہے۔

برطانیہ نے اپنے سیکیورٹی اداروں کے فنڈز میں اضافہ کردیا ہے ۔اس اضافی فنڈ سے وہ اپنی اہم سیکیورٹی ایجنسیاں ایم آئی5،ایم آئی 6 ، جی سی ایچ کیو میں نئے افسران کی تقرریاں کریگا۔ فرانس میں تو مکمل طور پرہنگامی حالات کانفاذ کرتے ہوئے ملک کو فوج کے حوالے کردیاگیا ہے جب کہ دنیا کے دیگر ممالک نے بھی اپنی اپنی افواج کو'' اسٹینڈ بائی''کردیاہے تاکہ کسی بھی ممکنہ دہشتگرد کارروائی میں بروقت فوج کو حرکت میں لایا جاناممکن بن سکے۔

چونکہ دہشتگردوں کا تعلق مسلم ممالک اور مسلم تنظیموں سے ہے جس کے لازمی اور حتمی نتیجے کے طور پر عالم انسانیت کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرنے کا نظریاتی طور پرعالم اسلام میں رائج تصورات کو قرار دیا جانے لگا ہے اور عملی طور پر تمام مسلمانوں کواس تنقید اور نفرت کا ہدف بننا پڑتا رہاہے۔


جس کا برملہ اظہار امریکی صدر باراک اوباما نے جی 20اجلاس سے خطاب میں کیا ، باراک اوباما نے کہا کہ ''کچھ مسلمان یہ کہتے ہیں کہ وہ تشدد پر یقین نہیں رکھتے لیکن انتہاء پسندانہ خیالات کو چیلنج بھی نہیں کرنا چاہتے۔مسلمان علماء اور سیاسی رہنماؤں کو خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ انتہا پسندانہ نظریات نے کیسے جڑ پکڑلی، مسلمان اپنے بچوں کو اس گمراہ کن خیالات سے بچائیں کہ مذہب قتل کا جواز دیتا ہے۔''

باراک اوباما نے ایسے ماحول اور تاریخ کے اس مرحلے کی نزاکت کو سمجھنے اور مستقبل میں پرامن رہنے کے لیے تاریخی اور نظریاتی طوربھی نئی صف بندی اور تطہیرکی ضرورت پرزور دیتے ہوئے بلاشبہ بہت بڑی دعوت فکر دیدی ہے کہ تین آفاقی والہامی کتابوں کو تحریف کے دانتوں سے کھا جانے والے انسانی گروہ کے مدمقابل خالق کائنات کی منتخب امت ہونے کے باوجود عالم اسلام نے پندرہ سو برس سے یہ سوچاہی نہیں کہ مسلمانوںکی تاریخ اوراس کی ''ضعیف تفسیر''میں ''تحریف '' نے کون سے گل کھلا ئے ہیںکہ جس ریاست ِمدینہ کے معمار حالت امن اور جنگ میں بھی سفید لباس زیب تن رکھتے تھے۔

ان کی تعلیمات میں بیگناہوں کا خون بہاناکس طرح جائز ہوگیا؟وہاں تو جنگی قیدیوں کو بھی پڑھنے لکھنے کا فن دینے کے قابل ادائیگی تاوان جنگ کے بعد آزاد کیاجاتا تھا توآپ کو کس نے بتادیا کہ اغوا برائے تاوان کی کارروائیوں سے حاصل ہونے والی دولت سے اسلامی ریاست کی بنیادیں بنتی ہیں؟ تاریخ نے تو اقوام عالم کو واضح طور پہ دکھایا تھا کہ ریاست مدینہ کے بانی اورامام الانبیاءﷺ)کو ان کی جان کے دشمن بھی ''صادق''اور''امین''مانا کرتے تھے، تو پھرکس نے '' مسندِ امیر المؤمنین'' کی دعویدار داعش کو نہ صرف تیل کے تیرہ کنویں اپنے قبضے میں لینے کا ماحول بنا کے دیا اور پھر انھی کنوؤں سے نکلے تیل کی اسمگلنگ سے یومیہ 3 ملین ڈالر تک کی خطیر رقم کی فراہمی کو یقینی بناتے رہنے کے لیے اس طرح کی ذمے داریاں ادا کرنے پرافراد معمورکیے ہوئے ہیں؟ اوراس اسمگلنگ کو تحفظ فراہم کرنیوالا کون ہے ؟

وہ کون سا ترقی یافتہ اوردولت مند انسانی گروہ ہے جس نے داعش کوکیمیائی ہتھیار فراہم کیے ہیں؟ جنہوں نے پیرس جیسے جدید اورترقی یافتہ معاشرے میں اتنی بڑی دہشتگرد کارروائیوں کو کامیاب کرنے کے لیے فرانس کی انٹیلی جنس کو ناکام کرایا؟کیا ان کے ذمے دار کہیں مسلمان اور عالم اسلام ہی تو نہیں ؟

ان سوالات کے ساتھ ساتھ یہ بھی زیر غور لایا جانا چاہیے کہ کون ہے جس نے روم کے ہاتھوں فلسطین کے بدنام ڈاکو برابا کوآزاد کرواکے عدم تشدد کے پیکر عظیم انقلابی رہنماء کو یروشلم میںمصلوب کروایاتھا؟اور جب اس عدم تشدد کے انقلابی نظریے نے روم سمیت پورے یورپ کو فتح کرلیا تو پھر کس نے مذہب کی بنیاد پرمقدس صلیبی جنگوں کے بہانے انسانوں کا خون بہانے پریورپ کو صدیوں تک مجبورکیے رکھا؟

سانحہ پیرس کے بعد جس طرح مستقبل کے منصوبوں کو نئے سرے سے ترتیب دیا جانے لگا ہے بالکل اسی طرح عالم انسانیت کی تاریخ کو بھی ناقابل تردید استدلال کی بنیادوں پر نئے سرے سے اور اس کی حقیقی روح کے ساتھ بیان کیاجانا بھی ضروری ہے ۔

جس کی روشنی میں عالم انسانیت کو تمام انسانی گروہوں کے ماضی حال اور مستقبل کی ترجیحات اورحقیقی منصوبوں کو سمجھا جانا ممکن بن سکے ۔تب یورپ وایشیا کی تاریخ میں ذلیل ترین کردار رکھنے والوں کا چہرہ اپنے آپ نہ صرف کھل کر سامنے آجائے گابلکہ یورپ وامریکا سمیت بہت سے سربرآوردہ ممالک مظلومیت کاشکاربھی نظر آئینگے جویورپی ممالک اب اس انسانی گروہ کے استعماری پنجوں میں سانس بھی لے نہیں پارہے ہیں۔

استعماری فولادی پنجوں میں پھنسے مسلم وغیرمسلم ، پہلی دوسری اورتیسری دنیا کے ترقی یافتہ وترقی پذیر ممالک کے مابین نئے سرے سے ایک دوسرے کو قریب لانے اور ہم آہنگ نظریات پر مبنی مضبوط اور دیرپا تعلقات کی بنیادیں رکھنے کے اہم ترین کام کو پاکستان اور اس کے دانشوروں، مؤرخوں اور ادیبوں نے مل کرکرنا ہے کیونکہ ہماری نظریاتی بنیادیں ''حیات استدلال'' ہی کو بقائے انسانی اور ''مرگ بر استبداد'' قرار دیتی ہیں پھروہ استبداد چاہے کسی بھی لباس میں کیوں نہ ہو۔
Load Next Story