دوسرا مرحلہ امن و امان کی صورتحال بہتر رہی
بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ خیر خیریت سے گزر گیا۔ امن و امان کے حوالے بہت سے خطرات کا اندیشہ تھا
MUMBAI:
بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ خیر خیریت سے گزر گیا۔ امن و امان کے حوالے بہت سے خطرات کا اندیشہ تھا ۔حافظ آباد کو انتہائی حساس قرار دیا گیا تھا ۔وہاں ہنگامہ آرائی کا ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا ۔بہر کیف اس پر حکومت کو داد دینا ہو گی ۔ حکومت سے مراد انتظامیہ ہوتی ہے ۔جس میں پولیس کو ہاتھی کا پاؤں کہہ سکتے ہیں ۔ اُس دن یہ پوری طرح سے قابو میں رہا۔
پنجاب پو لیس بھی ظلم کی داستانیں رقم کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ۔اس میں حیرت کی کوئی خاص بات نہیں ۔ کس بھی حکومت کی نزدیک اور دور ،دونوں نظریں ٹھیک ہوں تو پولیس بھی قابو میں رہتی ہے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس حوالے سے بھی متحرک ہیں۔''پر امن ماحول میں انتخابات کا کریڈٹ سیاسی اور انتظامی ٹیم کو جاتا ہے ''۔
پچھلے دنوں سانحہ سندر کے وقوعہ پر اُنہوں نے گڈ گورننس پربھی کمال لیکچر دیا ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے سرکاری افسران کے لیے ''تعلیم بالغاں'' کی شدید ٖضرورت ہے ۔یہ بھی عرض کریں گے کہ ضرورت ہی کسی ایجاد کی ماں ہوتی ہے ۔ہم وزیر اعلیٰ کی اس بات سے متفق ہیں کہ ''موٹر وے ،میٹرو بس اور اورنج ٹرین بنانا گڈ گورننس نہیں ہے''۔اُنہوں نے سیاسی ٹیم کو بھی پر امن بنانے کا کریڈٹ دیا۔ مجھ ناچیز کی رائے میںسیاسی ٹیم میں تمام سیاسی جماعتیں آئیں گی ۔گو ہر کسی کا ایجنڈا اپنا اپنا ہے ۔سپنا اپنا اپنا ہے ۔ابھی تک کوئی بھی'' رات'' کے ساتھ نہیں ہے ۔
سسٹم بچانے کے نام پر ہی یہ ایک ہیں ۔ پہلے مر حلے کے الیکشن میں درجن سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے ۔ صوبائی حکومت نے اس سے سبق حاصل کیا ۔فوج اور رینجرز کی بھی تعریف کرناہو گی ۔امن و امان کے لیے ایک پوری چین ہوتی ہے۔ اُس دن وہ سب ایک پیج پر تھے ۔پہلے بھی ایسا مناظر دیکھنے کو ملے تھے ۔ سیاسی قحط سازی کوختم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ احمد ندیم ؔقاسمی کا ایک شعر بھی اس میں شامل کرتے ہیں ۔
کس قدر قحطِ وفا ہے مری دُنیا میں ندیم ؔ
جو ذرا ہنس کے ملے اُس کو مسیحا سمجھوں
اگر ہمارے افسران مسکراہٹ کو بھی اپنے فرض منصبی میں شامل کر لیں تو پیارے عوام کے دُکھ آدھے رہ جائیں۔ ہر ایشو پر اُن کے اور پیارے عوام کے درمیان پروٹوکول حائل ہو جاتا ہے ۔گستاخی معاف ! سرکاری پروٹوکول سے تو کول (کوئلہ ) کروڑ گنا بہتر ہے ۔اس سے بجلی تو پیدا ہو سکتی ہے ۔اس کے لیے حکومت نے 2017 ء کی ڈیڈ لائن دے دی ہے ۔وزیراعظم کہتے ہیں کہ ''اُس کے بعد یہ آئے گی، پھر جائے گی نہیں''۔ایک سوال کہ اس دوران کوئی دھرنا یا ریلی آ گئی ...افسانوں اور بہانوں سے بھی حکومتی مدت پوری کی جا سکتی ہے ۔اُس کے بعد ...پھر اُس کے بعد... ہ بات طے ہے کہ رات کتنی بھی طویل ہو ،صبح کی پہلی کرن سے ہی دم توڑ دیتی ہے ۔پنجاب میں دوسرے مرحلے کے نتائج بھی جیسے طے شدہ تھے ۔اس کی تشریح بھی کیے دیتے ہیں ۔
اسی قسم کی توقعات تھیں ۔البتہ تحریک انصاف کو بھی تھوڑا سُکھ کا سانس مل گیا ۔الیکشن کمیشن کی کارکردگی ایک بار پھرسے بے نقاب ہوئی ۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے پیچھے بھی سیاست ہے ۔آئین کی 18ویں ترمیم کو آئین پاکستان میں ایک انقلابی اقدام قرار دیا گیا تھا۔ اس پر کتناعمل ہو رہا ہے ؟سپریم کورٹ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے ۔چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا اچھی شہرت کے حامل ہیں ۔خوش قسمتی سے تمام جماعتیں اُن پر متفق ہیں ۔لیکن اُن کے اختیارات کو سوالیہ نشان بنا دیا گیا ہے ۔پھر بھی ...جگر ؔمراد آبادی کا ایک شعر بھی یاد آیا
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جا رہا ہوں میں
اگر کوئی کانٹا دل میں اُتر گیا ...زخمی دل تو زخمی شیر سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔بلاشبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن پہلے نمبر پر رہی ۔سندھ میں پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں ۔پیپلز پارٹی کی جیت کا تناسب اس مرتبہ بھی بہتر رہا ۔البتہ اُسے بدین کی نظر لگ گئی ۔پنجاب میں دوسرے مرحلے میں بھی آزاد اُمیدوار دوسرے نمبر پر آئے ۔یہ بات لمحہ فکریہ ہے ۔جس سے جمہوریت کی بے بسی میں اضافہ ہوا ہے ۔پاکستان کے سب سے خوش حال صوبے میں سیاسی جماعتوں کی رٹ کیوں کم ہوتی جا رہی ہے ؟ یہ کہنا کہ ''آزاد اُمیدوار ہمارے ہی ہیں'' ۔اسے سیاسی شعبدہ بازی کہہ سکتے ہیں ۔
ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ دیہاتوں میں کسانوں کی بد حالی کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی بجائے آزاد اُمیدوار جیتے ۔کیا اسے ان کا انتقام بھی کہہ سکتے ہیں؟اس میں کوئی شک نہیں کہ میگا پراجیکٹس میں زراعت کے لیے کچھ نہیں ۔کیا ستم ہے کہ ایک زرعی ملک کو پیکیج سے سہارا دیا جا رہا ہے ۔ کبھی سب کو کھلانے والا آج خود بھوکا ہے ۔ یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ گلی محلّوں کے راستے اسلام آباد کے لیے کسی کارواں سے کم نہیں ہوتے ۔
کسی بھی آمریت کا ساتھ دینے میں بلدیاتی ادارے سب سے آ گے رہے ہیں۔حکومت بدلتے ہی اپنے پرائے بننے میں ذرا دیر نہیں لگاتے ۔تحریک انصاف تیسرے نمبر پر رہی ۔یہ مرحلہ اُس کے لیے خوش آیند رہا ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی خوش فہمی کا شکار ہو جائے ۔جس میں حقیقی خوشیاں بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہیں ۔میانوالی میں تحریک انصاف کی کامیابی نے حکمران جماعت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے ۔اس کی آواز اور بھی علاقوں میں سنائی دی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ منزل کے قریب آ گئی ہے۔ ''منزل '' پر نشور واحدی ؔنے بھی کیا خوب کہاہے ۔
میں ابھی سے کس طرح اُن کو بے وفا کہوں
منزلوں کی بات ہے راستے میں کیا کہوں