پاکستان میں انٹرنیٹ کا استعمال
پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں سالانہ اضافہ سو فیصد ہے
اگر پاکستان میں موجود انٹرنیٹ کیفے، انٹرنیٹ کلب اور انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنے والے اداروں ISPS کی تعداد کو مدنظر رکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ کے جنون نے پوری قوم کو جکڑ رکھا ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی آمد کی ڈیڑھ دہائی بعد بھی پاکستانی عوام کی ایک غالب تعداد اسے صرف ای میل اور ویب سائٹس کی چھان بین جیسے عام مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اگر انٹرنیٹ سروسز کو محدود کرنے کا مقصد مثبت اور تعمیری نتائج کا حصول ہے تو تب بھی پاکستان ابتدائی مدارج میں ہی گھوم رہا ہے۔ تبدیلی کی ہوا تو محسوس کی جاسکتی ہے مگر اس کا بہائو نہایت ہی سست رو ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں سالانہ اضافہ سو فیصد ہے۔ 90ء کی دہائی میں جب پاکستان میں انٹرنیٹ متعارف ہوا تھا تو انٹرنیٹ ورلڈ سٹیٹس (Internet World Status) کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعدادتقریباً 2 ملین تھی جوکہ پاکستان کی کل آبادی کا اعشاریہ ایک فیصد ہی بنتا تھا مگر آج اعدادو شمار کے مطابق یہ تعداد 31 ملین ہے جو کہ کل آبادی کا 17فیصد بنتی ہے۔
عالمی اداروں کے مطابق تعلیمی سہولیات کی کمی کی وجہ سے یہ تعداد اب بھی کچھ زیادہ نہ ہے جبکہ اور اس میں سے بھی ایک غالب اکثریت اسے صرف معمولی اور عام مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ سے رابطہ کا فرسودہ اور پرانا طریقہ کار بھی ہے۔ گھروں میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ٹیلی فون ڈائلنگ کے ذریعے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرتی ہے جوکہ ایک سست رو اور اکتا دینے والا عمل ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر دونوں میں ہی اس کا استعمال اُس معیار اور مقام سے کافی نیچے ہے کہ جہاںپر دراصل اسے ہونا چاہیے تھا۔
انٹرنیٹ کو ادارے کی ضروریات کے مطابق محدود کرنے کا مقصد ادارے کی پیداواری استعداد کو بڑھانا اور گاہکوں سے بروقت اور ہر وقت رابطہ رکھنا ہے۔ پاکستان میں موجود بے شمار بین الاقوامی کمپنیاں اس سے کما حقہ فائدہ اٹھا رہی ہیں لیکن مقامی کمپنیاں یہاں بھی کافی پیچھے ہیں۔ مقامی کمپنیاں اسے کسی بنیادی ڈھانچے کے بغیر زیادہ تر پوسٹل مقاصد کے لیے ہی استعمال کرتی ہیں جبکہ صرف چند گنے چنے بڑے کاروباری ادارے مثلاً ٹیکسٹائل' آٹوموبائلز انڈسٹری وغیرہ اسے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ استعمال کرتے ہیں جس میں انٹرنیٹ باہم متصل ہونے کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی کاروباری سرگرمیوں سے واقف بھی رہتے ہیں اور کاروبار بھی کرتے ہیں۔
مقامی کمپنیاں ٹیلیفون لائن کے ذریعے ہی ایک ویب سائیٹ سے دوسری ویب سائیٹ چھانتی ہیں جوکہ بنیادی طور پر انٹرنیٹ سرکٹ کنکشن نہیںہے چونکہ اس مقصد کے لیے لائن لیز (LEASE) کرنا پڑتی ہے تو اس کا نقصان یہ ہے کہ یہ لائن چاہے استعمال ہو یا نہ ہو مگر اس کا کرایہ برابر ادا کرنا پڑتا ہے' جبکہ دنیا کے کاروباری ادارے اس لیز لائن کی بجائے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (VPNS) کو ترجیح دیتے ہیں جوکہ بنیادی طور پر بنے ہی انٹرنیٹ کے لیے ہیں۔ چونکہ وی پی این (VPNS) انٹرنیٹ کے ذریعے ہی آپریٹ کرتے ہیں جوکہ مختلف حصوں میں منقسم ہے تو مقامی کمپنیاں انہیں غیر محفوظ سمجھ کر مسترد کردیتی ہیں جوکہ ایک غلط نظریہ ہے، دراصل وی پی این ایک محفوظ اور قابل اعتماد ذریعہ اور ایک مسلمہ حقیقت ہے۔
پھر ایسی کمپنیاں بھی بہت کم ہیں جو ویب کے ذریعے اپنے ملازمین کو اپنے دور دراز نیٹ ورکس تک رسائی (Remote Access) کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ یہ اقدام ادارے کی کارکردگی اور پیداواری صلاحیت پر بے حد مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ جب انٹرنیٹ پاکستان میں متعارف ہوا تو لوگ ششدر رہ گئے چونکہ اس کا استعمال آٹو میٹڈ (Automated) نہ تھا اس لیے اس سے کماحقہ آگاہی نہ پھیلائی جاسکی اور نہ کوئی قابل ذکر فائدہ حاصل کیا گیا۔ ترقی یافتہ معیشتوں میں آٹو میشن (Automation) انٹرنیٹ سے پہلے پہنچی جس کا انہیں بے حد فائدہ ہوا جبکہ پاکستان میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا یعنی انٹرنیٹ پہلے پہنچا اور آٹو میشن بعد میں جس کی وجہ سے مثبت اور تعمیری نتائج برآمد نہ ہوسکے۔
اس طرح پاکستان میں انٹرنیٹ سائیٹس کے باہم اتصال سے فوائد حاصل کرنے والے اداروں کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ بے شک ویب سائٹ اپنے ادارے کو انٹرنیٹ کی دنیا میں متعارف کروانے کا بہترین ذریعہ ہے اور آج کل پاکستان میں ویب سائیٹس کھمبیوں کی طرح اگ رہی ہیں مگر ان میں بھی پرکشش، باوسائل اور آسانی سے سمجھ آجانے والی سائیٹس کی تعداد بہت ہی محدود ہے۔ ہاں ایس ایم ای (Small and Medium enterprise) ایک ایسا ادارہ ہے جس نے انڈسٹری میں مصروف عمل کمپنیوں کو آسان اور ارزاں نرخوں پر معلومات تک رسائی دی ہے اور فاصلوں کو کم کرکے وقت بچانے کی کوشش کی ہے مگر چھوٹے شہروں اور دیہات میں موجود اداروں کا مجموعی طور پر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ تعداد پھر آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں رہ جاتی۔ اول تو انٹرنیٹ پر ان کمپنیوں کی کوئی سائیٹ ہی موجود نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو ان کا معیار سوالیہ نشان بن کر رہ جاتا ہے۔
پبلک سیکٹر کے حالات بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔ ای گورنمنٹ ڈائریکٹوریٹ ہونے کے باوجود ویب سائیٹس کے حامل اداروں کی شرح بہت کم ہے اور اگر سائیٹس ہیں بھی تو بے جوڑ، بکھری ہوئی پرانی اور فرسودہ معلومات سے بھری ہوئی ہیں جن میں کوئی کشش نہیں ہوتی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ادارے ویب سائیٹس تو بڑے شوق سے بناتے ہیں مگر بعدازاں سستی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کی وجہ سے اسے اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی جبکہ لوگوں کی ایک غالب تعداد اس کے صحیح استعمال کے ذریعے فوائد و مقاصد حاصل کرنے کی عقل سے ہی محروم ہے۔ انٹرنیٹ کے مزید جدید استعمال ای کامرس، ای ٹریٹمنٹ، آن لائن ایجوکیشن اور اس طرح کی دوسری سروسز یا تو بالکل ہی نہیں رہیں یا پھر بہت ابتدائی سطح پر ہیں۔
بے شک گزشتہ کچھ عرصے سے آن لائن ٹریڈنگ کروانے والے اداروں کا کھلنا اور بینکنگ میں انٹرنیٹ سروسز کا استعمال اس کے بڑھتے ہوئے استعمال کا اشارہ دیتا ہے مگرابھی یہ سب کچھ انتہائی محدود پیمانے پر ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کریڈٹ کارڈ کو یہاں متعارف ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا جوکہ آن لائن خرید و فروخت کے لیے لازم ہے۔ اس لیے زیادہ لوگ اس سے واقف نہیں ہیں یا اس کے طریقہ کار سے نابلد ہیں اور اسے ایک رسک سمجھتے ہیںجبکہ کاروبار کے لیے آن لائن اکائونٹس کی مقررہ قیمتیں بھی لوگوں کی قوت خرید سے بڑھ کر ہیں۔
اگر کسی ملک کے باشندوں کے کمپیوٹر کے کارآمد استعمال کے متعلق معلومات درکار ہوں تو اس کا ایک طریقہ کار استعمال ہونے والے بینڈ وڈتھ (Band width) کی تعداد ہے۔ بینڈ وڈتھ وہ ذریعہ ہے کہ جس کے ذریعے ڈیٹا اور معلومات سفر کرتی ہیں۔ اس میں ڈیٹا دو جانب (Tow-way) سفر کرتا ہے یعنی اوپر اور نیچے (Upload & download) ۔
آج سے تقریباً سات برس قبل پاکستان تقریبا صرف 155 میگا بائٹ فی سیکنڈ (155mbps) استعمال کرتا تھا جسے STM-1 سرکٹ بھی کہتے ہیں اور اگر نیچے والے ڈیٹا یعنی (Download) کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ زیادہ سے زیادہ 300Mbps تھا جبکہ پاکستان کے مقابلے میں 65 ملین آبادی والا ملک مصر9 , STM-1 سرکٹ استعمال کرتا تھا اور آج بھی اس میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ نہیں ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر لوگ کمپیوٹر رکھنے کی استعداد بھی نہیں رکھتے۔ پھر لوگوں میں انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور ان کے فوائد کے متعلق شعور کی کمی ہے۔
ماضی کا ایک دلچسپ واقعہ سنئے ''ڈینئل پرل اغواء'' کیس کے دوران ایک تفتیشی نے سندھ پولیس کے ایک افسر کو بتایا کہ فلاں انٹرنیٹ سرور (Sever) اغواء کاروں سے میڈیا تک معلومات پہنچانے کا ذمہ دار ہے تو افسر نے کہا کہ ''اس شخص ''سرور'' کو فوراً گرفتار کرو، شاید کیس حل ہو جائے''۔
پاکستان میں انٹرنیٹ کے استعمال پر اثر انداز ہونے والا ایک اور عامل انفراسٹرکچر ہے۔ ابھی تک تو صرف PTCL کی اجارہ داری قائم تھی اور یہ اجارہ داری واقعی بگاڑ اور غیر معیاری سہولیات کا موجب تھی۔ پاکستان کے انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنے والے ادارے PTCL پر الزام لگاتے ہیں کہ ایک تو ان کا انفراسٹرکچر بہت ناکارہ اور بوسیدہ ہے اور پھر یہ قیمت بھی بہت زیادہ وصول کرتے ہیں اور اس پر مستزادیہ کہ PTCL اپنی ایکسچینج سے انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے اداروں تک بینڈ وڈتھ فریکونسی پہنچانے کا خرچہ بھی انہیں پر ڈالتی ہے اور مزید ظلم یہ کہ اس پر ماہانہ کرایہ بھی وصول کرتی ہے۔ اب جبکہ گزشتہ کچھ عرصہ سے نجی کمپنیوں نے انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنا شروع کی ہیں تو انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد کو کچھ بہتر سہولیات کی فراہمی شروع ہوئی ہے مگر ان کمپنیوں کا دائرہ کار بھی زیادہ تر بڑے شہروں تک ہی محدود ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنے والے اداروں کی ایسوسی ایشن کے اراکین کو شکایت ہے کہ جس طرح کئی سال ٹیلیفون ریٹس کم کرنے کی پالیسی PTCL کے تعصب کا شکار رہی اسی طرح انٹرنیٹ پالیسی بھی ابھی تعصب کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔ ہاں تعلیمی سیکٹر میں ماضی میں ڈاکٹر عطاء الرحمن کی رہنمائی میں ایچ ای سی (HEC) نے ''پاکستان ایجوکیشن اینڈ ریسرچ نیٹ ورک'' (PERN) کی بنیاد رکھی تھی۔ PERN نے پاکستان کے 105 منظور شدہ تعلیمی اداروں میں سے 56 کو کو فور اً باہم متصل کردیا تھا اور بعد ازاں بقیہ کو بھی متصل کر دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے ایک مکمل (155MBPS)STM-1 تعلیمی سیکٹر کے لیے مخصوص کردی گئی تھی۔
یہ تعمیری کام صرف HEC کو PTCL کی طرف سے دیئے گئے کم نرخوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوا تھا ۔ مزید یہ کہPTCL کی نجکاری بھی اس میدان میں اجارہ داری کے خاتمے کا سبب بنی ہے اور نہ صرف نئے سرمایہ کار انٹرنیشنل بینڈ وڈتھ اور وائرلیس نیٹ ورکس کے ذریعے انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافے کا باعث بنے ہیں بلکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو نفع بخش سرمایہ کاری کے مواقع بھی میسر آئے ہیں۔ باقی انٹرنیٹ صرف ہر طرح کی معلومات تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ یہ بیرونی دنیا سے آگاہی اور علم و ترقی کی جانب ایک راستہ ہے جبکہ دوسرے رخ کو دیکھیں تو یہ منزل سے دوری اور اخلاقی شکستگی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ سب کے لیے دونوںراستے کھلے ہیں، اب یہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پر منحصر ہے وہ کونسا راستہ اختیار کرتا ہے۔
نوجوان نسل،انٹرنیٹ اور والدین کی ذمہ داریاں
جن گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے اور نوجوان بچے بھی ہیں تو وہاںزیادہ تر والدین یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ''ہم اپنے بچوں کو ہر وقت انٹرنیٹ پر مصروف دیکھتے اور استفسار پر جواب ملتا کہ سٹڈی کر رہے ہیں،مگر حقیقتِ حال اس وقت واضع ہوئی جب وہ امتحانات میں بری طرح فیل ہو جاتے ہیں۔ تحقیق پر پتا چلا کہ وہ انٹرنیٹ ان مقاصد کیلئے استعمال کرتے رہے کہ جن کا تعلیم سے دور دور کا تعلق بھی نہیں ہے، ہمارے بچوں کے رویوں میں بھی منفی تبدیلیاں آئی ہیں جبکہ اخلاقی طور پر بھی وہ ہمیں تنزلی کا شکار محسوس ہوتے ہیں۔'' والدین یہ تو جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ مثبت اور منفی دونوں مقاصد کیلئے استعمال ہو سکتا ہے۔
جن گھرانوں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے اور وہاں پر نو عمر بچے بھی موجود ہیں تو والدین کو ان پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ نیٹ پر موجود فیس بک، ٹویٹر اور یو ٹیوب ایسی سائیٹس ہیں کہ جو نوجوان بچوں کو بے حد مرغوب ہیں۔ اس کے ذریعے بچے دنیا بھر میں نئے نئے دوست بنا سکتے ہیں اور ہمہ وقت ان سے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔ کچھ بچے تو اسے تعلیمی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں جبکہ کچھ دیگر مقاصد کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں جو ان کو والدین سے پوشیدہ رکھنا پڑتے ہیں۔ مگرآج کل کے جدید دور میں بچوں کو انٹرنیٹ سے دور رکھنے کا مطلب بھی ان کو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رکھنے کے مترادف ہے اسلئے بچوں پر اسے بالکل ہی بند نہیں کرنا چاہئے۔
مگر یاد رہے کہ انٹرنیٹ پر لاتعداد اخلاق باختہ سائیٹس موجود ہیں اور نوعمری میں بے راہ روی کا شکار ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے تو پھر کیا کیا جائے؟ ایک تو یہ کہ آپ اپنے بچوں کی نگرانی کے فرائض انجام دیں اور اچانک آپ کے کمرے میں داخل ہونے پر اگر آپ کا بچہ کنفیوز ہو کر جلدی جلدی کمپیوٹر کے (کی- پیڈ )پر ہاتھ چلاتا ہے تو پھر سمجھ جائیں کہ کچھ گڑ بڑ ہے اور اگر وہ پرسکون رہتا ہے تو پھر معاملات ٹھیک ہیں۔'' مگر ہر وقت نگرانی کرنا بھی ممکن نہیں ہے تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ آپ انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنے والے ادارے کو ایک درخواست دے کر ایسی تمام اخلاق باختہ ویب سائیٹس کو اپنے کنکشن پر بلاک کروا سکتے ہیں تاکہ بچوں کی مثبت ذہنی ،جسمانی ونفسیاتی نشو نما میںکوئی رخنہ اندازی ممکن نہ ہو سکے اور وہ اسے صرف تعلیمی و تعمیری مقاصد کیلئے ہی استعمال کر سکیں۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی آمد کی ڈیڑھ دہائی بعد بھی پاکستانی عوام کی ایک غالب تعداد اسے صرف ای میل اور ویب سائٹس کی چھان بین جیسے عام مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اگر انٹرنیٹ سروسز کو محدود کرنے کا مقصد مثبت اور تعمیری نتائج کا حصول ہے تو تب بھی پاکستان ابتدائی مدارج میں ہی گھوم رہا ہے۔ تبدیلی کی ہوا تو محسوس کی جاسکتی ہے مگر اس کا بہائو نہایت ہی سست رو ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں سالانہ اضافہ سو فیصد ہے۔ 90ء کی دہائی میں جب پاکستان میں انٹرنیٹ متعارف ہوا تھا تو انٹرنیٹ ورلڈ سٹیٹس (Internet World Status) کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعدادتقریباً 2 ملین تھی جوکہ پاکستان کی کل آبادی کا اعشاریہ ایک فیصد ہی بنتا تھا مگر آج اعدادو شمار کے مطابق یہ تعداد 31 ملین ہے جو کہ کل آبادی کا 17فیصد بنتی ہے۔
عالمی اداروں کے مطابق تعلیمی سہولیات کی کمی کی وجہ سے یہ تعداد اب بھی کچھ زیادہ نہ ہے جبکہ اور اس میں سے بھی ایک غالب اکثریت اسے صرف معمولی اور عام مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ سے رابطہ کا فرسودہ اور پرانا طریقہ کار بھی ہے۔ گھروں میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ٹیلی فون ڈائلنگ کے ذریعے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرتی ہے جوکہ ایک سست رو اور اکتا دینے والا عمل ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر دونوں میں ہی اس کا استعمال اُس معیار اور مقام سے کافی نیچے ہے کہ جہاںپر دراصل اسے ہونا چاہیے تھا۔
انٹرنیٹ کو ادارے کی ضروریات کے مطابق محدود کرنے کا مقصد ادارے کی پیداواری استعداد کو بڑھانا اور گاہکوں سے بروقت اور ہر وقت رابطہ رکھنا ہے۔ پاکستان میں موجود بے شمار بین الاقوامی کمپنیاں اس سے کما حقہ فائدہ اٹھا رہی ہیں لیکن مقامی کمپنیاں یہاں بھی کافی پیچھے ہیں۔ مقامی کمپنیاں اسے کسی بنیادی ڈھانچے کے بغیر زیادہ تر پوسٹل مقاصد کے لیے ہی استعمال کرتی ہیں جبکہ صرف چند گنے چنے بڑے کاروباری ادارے مثلاً ٹیکسٹائل' آٹوموبائلز انڈسٹری وغیرہ اسے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ استعمال کرتے ہیں جس میں انٹرنیٹ باہم متصل ہونے کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی کاروباری سرگرمیوں سے واقف بھی رہتے ہیں اور کاروبار بھی کرتے ہیں۔
مقامی کمپنیاں ٹیلیفون لائن کے ذریعے ہی ایک ویب سائیٹ سے دوسری ویب سائیٹ چھانتی ہیں جوکہ بنیادی طور پر انٹرنیٹ سرکٹ کنکشن نہیںہے چونکہ اس مقصد کے لیے لائن لیز (LEASE) کرنا پڑتی ہے تو اس کا نقصان یہ ہے کہ یہ لائن چاہے استعمال ہو یا نہ ہو مگر اس کا کرایہ برابر ادا کرنا پڑتا ہے' جبکہ دنیا کے کاروباری ادارے اس لیز لائن کی بجائے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (VPNS) کو ترجیح دیتے ہیں جوکہ بنیادی طور پر بنے ہی انٹرنیٹ کے لیے ہیں۔ چونکہ وی پی این (VPNS) انٹرنیٹ کے ذریعے ہی آپریٹ کرتے ہیں جوکہ مختلف حصوں میں منقسم ہے تو مقامی کمپنیاں انہیں غیر محفوظ سمجھ کر مسترد کردیتی ہیں جوکہ ایک غلط نظریہ ہے، دراصل وی پی این ایک محفوظ اور قابل اعتماد ذریعہ اور ایک مسلمہ حقیقت ہے۔
پھر ایسی کمپنیاں بھی بہت کم ہیں جو ویب کے ذریعے اپنے ملازمین کو اپنے دور دراز نیٹ ورکس تک رسائی (Remote Access) کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ یہ اقدام ادارے کی کارکردگی اور پیداواری صلاحیت پر بے حد مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ جب انٹرنیٹ پاکستان میں متعارف ہوا تو لوگ ششدر رہ گئے چونکہ اس کا استعمال آٹو میٹڈ (Automated) نہ تھا اس لیے اس سے کماحقہ آگاہی نہ پھیلائی جاسکی اور نہ کوئی قابل ذکر فائدہ حاصل کیا گیا۔ ترقی یافتہ معیشتوں میں آٹو میشن (Automation) انٹرنیٹ سے پہلے پہنچی جس کا انہیں بے حد فائدہ ہوا جبکہ پاکستان میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا یعنی انٹرنیٹ پہلے پہنچا اور آٹو میشن بعد میں جس کی وجہ سے مثبت اور تعمیری نتائج برآمد نہ ہوسکے۔
اس طرح پاکستان میں انٹرنیٹ سائیٹس کے باہم اتصال سے فوائد حاصل کرنے والے اداروں کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ بے شک ویب سائٹ اپنے ادارے کو انٹرنیٹ کی دنیا میں متعارف کروانے کا بہترین ذریعہ ہے اور آج کل پاکستان میں ویب سائیٹس کھمبیوں کی طرح اگ رہی ہیں مگر ان میں بھی پرکشش، باوسائل اور آسانی سے سمجھ آجانے والی سائیٹس کی تعداد بہت ہی محدود ہے۔ ہاں ایس ایم ای (Small and Medium enterprise) ایک ایسا ادارہ ہے جس نے انڈسٹری میں مصروف عمل کمپنیوں کو آسان اور ارزاں نرخوں پر معلومات تک رسائی دی ہے اور فاصلوں کو کم کرکے وقت بچانے کی کوشش کی ہے مگر چھوٹے شہروں اور دیہات میں موجود اداروں کا مجموعی طور پر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ تعداد پھر آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں رہ جاتی۔ اول تو انٹرنیٹ پر ان کمپنیوں کی کوئی سائیٹ ہی موجود نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو ان کا معیار سوالیہ نشان بن کر رہ جاتا ہے۔
پبلک سیکٹر کے حالات بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔ ای گورنمنٹ ڈائریکٹوریٹ ہونے کے باوجود ویب سائیٹس کے حامل اداروں کی شرح بہت کم ہے اور اگر سائیٹس ہیں بھی تو بے جوڑ، بکھری ہوئی پرانی اور فرسودہ معلومات سے بھری ہوئی ہیں جن میں کوئی کشش نہیں ہوتی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ادارے ویب سائیٹس تو بڑے شوق سے بناتے ہیں مگر بعدازاں سستی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کی وجہ سے اسے اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی جبکہ لوگوں کی ایک غالب تعداد اس کے صحیح استعمال کے ذریعے فوائد و مقاصد حاصل کرنے کی عقل سے ہی محروم ہے۔ انٹرنیٹ کے مزید جدید استعمال ای کامرس، ای ٹریٹمنٹ، آن لائن ایجوکیشن اور اس طرح کی دوسری سروسز یا تو بالکل ہی نہیں رہیں یا پھر بہت ابتدائی سطح پر ہیں۔
بے شک گزشتہ کچھ عرصے سے آن لائن ٹریڈنگ کروانے والے اداروں کا کھلنا اور بینکنگ میں انٹرنیٹ سروسز کا استعمال اس کے بڑھتے ہوئے استعمال کا اشارہ دیتا ہے مگرابھی یہ سب کچھ انتہائی محدود پیمانے پر ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کریڈٹ کارڈ کو یہاں متعارف ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا جوکہ آن لائن خرید و فروخت کے لیے لازم ہے۔ اس لیے زیادہ لوگ اس سے واقف نہیں ہیں یا اس کے طریقہ کار سے نابلد ہیں اور اسے ایک رسک سمجھتے ہیںجبکہ کاروبار کے لیے آن لائن اکائونٹس کی مقررہ قیمتیں بھی لوگوں کی قوت خرید سے بڑھ کر ہیں۔
اگر کسی ملک کے باشندوں کے کمپیوٹر کے کارآمد استعمال کے متعلق معلومات درکار ہوں تو اس کا ایک طریقہ کار استعمال ہونے والے بینڈ وڈتھ (Band width) کی تعداد ہے۔ بینڈ وڈتھ وہ ذریعہ ہے کہ جس کے ذریعے ڈیٹا اور معلومات سفر کرتی ہیں۔ اس میں ڈیٹا دو جانب (Tow-way) سفر کرتا ہے یعنی اوپر اور نیچے (Upload & download) ۔
آج سے تقریباً سات برس قبل پاکستان تقریبا صرف 155 میگا بائٹ فی سیکنڈ (155mbps) استعمال کرتا تھا جسے STM-1 سرکٹ بھی کہتے ہیں اور اگر نیچے والے ڈیٹا یعنی (Download) کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ زیادہ سے زیادہ 300Mbps تھا جبکہ پاکستان کے مقابلے میں 65 ملین آبادی والا ملک مصر9 , STM-1 سرکٹ استعمال کرتا تھا اور آج بھی اس میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ نہیں ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر لوگ کمپیوٹر رکھنے کی استعداد بھی نہیں رکھتے۔ پھر لوگوں میں انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور ان کے فوائد کے متعلق شعور کی کمی ہے۔
ماضی کا ایک دلچسپ واقعہ سنئے ''ڈینئل پرل اغواء'' کیس کے دوران ایک تفتیشی نے سندھ پولیس کے ایک افسر کو بتایا کہ فلاں انٹرنیٹ سرور (Sever) اغواء کاروں سے میڈیا تک معلومات پہنچانے کا ذمہ دار ہے تو افسر نے کہا کہ ''اس شخص ''سرور'' کو فوراً گرفتار کرو، شاید کیس حل ہو جائے''۔
پاکستان میں انٹرنیٹ کے استعمال پر اثر انداز ہونے والا ایک اور عامل انفراسٹرکچر ہے۔ ابھی تک تو صرف PTCL کی اجارہ داری قائم تھی اور یہ اجارہ داری واقعی بگاڑ اور غیر معیاری سہولیات کا موجب تھی۔ پاکستان کے انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنے والے ادارے PTCL پر الزام لگاتے ہیں کہ ایک تو ان کا انفراسٹرکچر بہت ناکارہ اور بوسیدہ ہے اور پھر یہ قیمت بھی بہت زیادہ وصول کرتے ہیں اور اس پر مستزادیہ کہ PTCL اپنی ایکسچینج سے انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے اداروں تک بینڈ وڈتھ فریکونسی پہنچانے کا خرچہ بھی انہیں پر ڈالتی ہے اور مزید ظلم یہ کہ اس پر ماہانہ کرایہ بھی وصول کرتی ہے۔ اب جبکہ گزشتہ کچھ عرصہ سے نجی کمپنیوں نے انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنا شروع کی ہیں تو انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد کو کچھ بہتر سہولیات کی فراہمی شروع ہوئی ہے مگر ان کمپنیوں کا دائرہ کار بھی زیادہ تر بڑے شہروں تک ہی محدود ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنے والے اداروں کی ایسوسی ایشن کے اراکین کو شکایت ہے کہ جس طرح کئی سال ٹیلیفون ریٹس کم کرنے کی پالیسی PTCL کے تعصب کا شکار رہی اسی طرح انٹرنیٹ پالیسی بھی ابھی تعصب کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔ ہاں تعلیمی سیکٹر میں ماضی میں ڈاکٹر عطاء الرحمن کی رہنمائی میں ایچ ای سی (HEC) نے ''پاکستان ایجوکیشن اینڈ ریسرچ نیٹ ورک'' (PERN) کی بنیاد رکھی تھی۔ PERN نے پاکستان کے 105 منظور شدہ تعلیمی اداروں میں سے 56 کو کو فور اً باہم متصل کردیا تھا اور بعد ازاں بقیہ کو بھی متصل کر دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے ایک مکمل (155MBPS)STM-1 تعلیمی سیکٹر کے لیے مخصوص کردی گئی تھی۔
یہ تعمیری کام صرف HEC کو PTCL کی طرف سے دیئے گئے کم نرخوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوا تھا ۔ مزید یہ کہPTCL کی نجکاری بھی اس میدان میں اجارہ داری کے خاتمے کا سبب بنی ہے اور نہ صرف نئے سرمایہ کار انٹرنیشنل بینڈ وڈتھ اور وائرلیس نیٹ ورکس کے ذریعے انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافے کا باعث بنے ہیں بلکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو نفع بخش سرمایہ کاری کے مواقع بھی میسر آئے ہیں۔ باقی انٹرنیٹ صرف ہر طرح کی معلومات تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ یہ بیرونی دنیا سے آگاہی اور علم و ترقی کی جانب ایک راستہ ہے جبکہ دوسرے رخ کو دیکھیں تو یہ منزل سے دوری اور اخلاقی شکستگی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ سب کے لیے دونوںراستے کھلے ہیں، اب یہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پر منحصر ہے وہ کونسا راستہ اختیار کرتا ہے۔
نوجوان نسل،انٹرنیٹ اور والدین کی ذمہ داریاں
جن گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے اور نوجوان بچے بھی ہیں تو وہاںزیادہ تر والدین یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ''ہم اپنے بچوں کو ہر وقت انٹرنیٹ پر مصروف دیکھتے اور استفسار پر جواب ملتا کہ سٹڈی کر رہے ہیں،مگر حقیقتِ حال اس وقت واضع ہوئی جب وہ امتحانات میں بری طرح فیل ہو جاتے ہیں۔ تحقیق پر پتا چلا کہ وہ انٹرنیٹ ان مقاصد کیلئے استعمال کرتے رہے کہ جن کا تعلیم سے دور دور کا تعلق بھی نہیں ہے، ہمارے بچوں کے رویوں میں بھی منفی تبدیلیاں آئی ہیں جبکہ اخلاقی طور پر بھی وہ ہمیں تنزلی کا شکار محسوس ہوتے ہیں۔'' والدین یہ تو جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ مثبت اور منفی دونوں مقاصد کیلئے استعمال ہو سکتا ہے۔
جن گھرانوں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے اور وہاں پر نو عمر بچے بھی موجود ہیں تو والدین کو ان پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ نیٹ پر موجود فیس بک، ٹویٹر اور یو ٹیوب ایسی سائیٹس ہیں کہ جو نوجوان بچوں کو بے حد مرغوب ہیں۔ اس کے ذریعے بچے دنیا بھر میں نئے نئے دوست بنا سکتے ہیں اور ہمہ وقت ان سے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔ کچھ بچے تو اسے تعلیمی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں جبکہ کچھ دیگر مقاصد کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں جو ان کو والدین سے پوشیدہ رکھنا پڑتے ہیں۔ مگرآج کل کے جدید دور میں بچوں کو انٹرنیٹ سے دور رکھنے کا مطلب بھی ان کو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رکھنے کے مترادف ہے اسلئے بچوں پر اسے بالکل ہی بند نہیں کرنا چاہئے۔
مگر یاد رہے کہ انٹرنیٹ پر لاتعداد اخلاق باختہ سائیٹس موجود ہیں اور نوعمری میں بے راہ روی کا شکار ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے تو پھر کیا کیا جائے؟ ایک تو یہ کہ آپ اپنے بچوں کی نگرانی کے فرائض انجام دیں اور اچانک آپ کے کمرے میں داخل ہونے پر اگر آپ کا بچہ کنفیوز ہو کر جلدی جلدی کمپیوٹر کے (کی- پیڈ )پر ہاتھ چلاتا ہے تو پھر سمجھ جائیں کہ کچھ گڑ بڑ ہے اور اگر وہ پرسکون رہتا ہے تو پھر معاملات ٹھیک ہیں۔'' مگر ہر وقت نگرانی کرنا بھی ممکن نہیں ہے تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ آپ انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنے والے ادارے کو ایک درخواست دے کر ایسی تمام اخلاق باختہ ویب سائیٹس کو اپنے کنکشن پر بلاک کروا سکتے ہیں تاکہ بچوں کی مثبت ذہنی ،جسمانی ونفسیاتی نشو نما میںکوئی رخنہ اندازی ممکن نہ ہو سکے اور وہ اسے صرف تعلیمی و تعمیری مقاصد کیلئے ہی استعمال کر سکیں۔