عندلیبِ پاکستان بھی خاموش ہوئی
آپ ہزاروں اشعار پر مبنی ایک نظم ’’ انسان‘‘ پر کام کر رہے تھے جسے اردو ادب کا ایک شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے۔
اجل سے کسی کو رستگاری نہیں ہے مگر اس دستِ اجل کے ہاتھوں کئی بار ایسے پھول توڑے جاتے ہیں جو پورے چمن میں مہکار کا باعث ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک پھول جمیل الدین عالی تھے جو جانِ چمنِ سخن و نغمہ نگاری تھے۔ حق مغفرت کرے، کیا آزاد مرد تھے کہ ان کی رگ رگ وطنیت اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھی۔ 20 جنوری 1926ء کو دہلی میں پیدا ہونے والا یہ علمی و ادبی ستارہ تقریباً 90 سال کے بعد 23 نومبر کو افق میں کہیں ڈوب گیا مگر اپنے پیچھے ایسی یادیں چھوڑ گیا جس کے انمٹ نقوش اسے ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔
آج کی نسل شاید جمیل الدین عالی سے براہ راست واقف نہ ہو کہ ایک 90 سالہ شخص کی ہڈیوں میں اتنا دم نہیں ہوتا کہ وہ اسکرین کے ذریعے اپنی پہچان کروائے اور ویسے بھی پہچان کی ضرورت انہیں پیش آتی ہے جو کسی کمی، کوتاہی کا شکار ہوں۔ جمیل الدین عالی کی تو شخصیت ہی ادب پروری اور سخن نوازی کا پیکر تھی۔ ایک ادیب، ایک شاعر وہ بھی عالمی شہرت یافتہ، ایک نقاد، ایک دانشور، ایک ادب پرور شخص کو اپنی پہچان کروانے کی کیا ضرورت ہے؟
نوابزادہ مرزا جمیل الدین احمد خان''العالیؔ'' تو حسبی نسبی علمی اور ادبی خانوادے سے تھے۔ ان کے دادا نواب علاؤالدین احمد خان علائی مرزا غالب کے دوست اور شاگرد تھے۔ ان کے والد سر امیر الدین احمد خان خود بھی ایک شاعر تھے جب کہ ان کی والدہ سیدہ جمیلہ بیگم خواجہ میر ؔدرد کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اسی لئے اس خاندان کے بچے شعر و سخن کے سائے میں ہی جوان ہوتے تھے اور انہوں نے بھی محض 10 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔
ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو شاعری کا شوق کب ہوا تو جواب دیا کہ ''ہمارے خاندان میں ہر شخص ہی شاعر تھا اور میں بھی 10 برس کی عمر ہی سے شاعری کی راہ کا مسافر بن گیا''۔ آپ کا اصل نام نوابزادہ جمیل الدین احمد تھا پہلے پہل آپ کا تخلص ''مائل'' تھا مگر بعد میں تبدیل کرکے ''عالی'' رکھ لیا اور اسی سے شہرت پائی۔
اگر جمیل الدین عالی کو جاننا ہی ہے تو اتنا جان لیجئے کہ جس کسی نے بھی شہناز بیگم کی آواز میں گایا ہوا ملی نغمہ ''جیوے جیوے پاکستان'' یا استاد نصرت فتح علی خان کی آواز میں ''میرا انعام پاکستان''، یا میڈیم نور جہاں کی آواز میں ''اے وطن کے سجیلے جوانوں'' یا مہدی ظہیر کی آواز میں گایا گیا نغمہ ''ہم مصطفوی مصطفوی ہیں'' (یہ نغمہ 1974ء کی اسلامی سربراہی کانفرنس کا سرکاری گیت تھا) یا الن فقیر کی آواز میں''اتنے بڑے جیون ساگر میں، تو نے پاکستان دیا'' یا نیرہ نور کی آواز میں ''جو نام وہی پہچان، پاکستان پاکستان''جیسے نغمے سن رکھے ہیں، وہ جمیل الدین عالی کو ان کے کام کی نسبت سے جانتا ہے۔ وطن کی محبت میں گندھے ہوئے یہ نغمے آج بھی ہر بچے، بڑے، بوڑھے کی زبان پر ہیں، ان کے دلوں میں نقش ہیں اور ان کے خون کو حب الوطنی سے گرماتے رہتے ہیں۔
آپ نے زیادہ عرصہ سرکاری ملازمت کی مگر ملازمت کے ساتھ ساتھ ''قومی اور ملی نغموں'' کو بھی تیار کرتے رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں آپ نے اپنے قلم کے ذریعے پاک فوج کے جوانوں کو جوش و ولولے کی ایک نئی لہر دی اور پوری قوم میں حب الوطنی کی روح پھونک دی، اس کے علاوہ خواتین کے حوالے سے مقبول ترین نغمہ ''ہم مائیں، ہم بہنیں، ہم بیٹیاں، قوموں کی عزت ہم سے ہے'' بھی آپ ہی کا عطا کردہ تحفہ ہے۔
ایک دفعہ آپ سے پوچھا گیا کہ ''جیوے جیوے پاکستان'' جیسا لازاوال نغمہ آپ نے کیسے لکھا، اس کے پیچھے کیا محرک تھا؟ توآپ نے کہا کہ ان دنوں پاکستان مخالف جذبات بہت بڑھ رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے جوش آگیا اور یوں یہ خواہش کہ پاکستان ہمیشہ جیوے دعا بن کر میرے دل سے نکلی اور ہر ایک کے لب پر سج گئی۔
جمیل الدین عالی نے ایک بھرپور زندگی گذاری۔ 1945ء میں معاشیات، تاریخ اور فارسی جیسے مضامین کے ساتھ گریجویشن کی، پھر پاکستان بننے کے بعد یہاں آکر آباد ہوگئے۔ 1948ء میں حکومت پاکستان وزارت تجارت میں بطور اسسٹنٹ رہے۔ 1951ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور پاکستان ٹیکسیشن سروس کے لیے نامزد ہوئے۔ 1963ء میں وزارت تعلیم میں کاپی رائٹ رجسٹرار مقرر ہوئے۔ اس دوران اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو میں فیلو منتخب ہوئے۔ پھر آپ کو نیشنل پریس ٹرسٹ بھیج دیا گیا جہاں پر سیکرٹری کی حیثیت سے کام کیا۔ 1967ء میں نیشنل بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور سینئر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ کے عہدے تک پہنچے وہاں سے ترقی پا کر پاکستان بینکنگ کونسل میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ایڈوائزر مقرر ہوئے۔
آپ نے سیاست کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی اور 1977ء کے جنرل الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشست کے لئے عملی طور پر حصہ بھی لیا لیکن کامیاب نہ ہوسکے البتہ 1997ء میں آپ سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔
پاکستان رائٹرز گلڈ کے قیام میں آپ کا بہت بڑا ہاتھ تھا، آپ اس کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، انجمن ترقی اردو سے وابستہ رہے اور اردو زبان کی ترقی اور ترویج کے لئے بھی کام کرتے رہے۔
آپ نے کالم نگاری کا حق بھی ادا کیا اور معروف اخبارات میں کئی دہائیوں تک باقاعدگی سے کالم لکھتے رہے جو ''دعا کر چلے'' اور ''صدا کر چلے'' کے عنوان سے کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔ آپ نے نظمیں، دوہے، ملی نغمے اور گیت تحریر کئے جبکہ اب آپ ہزاروں اشعار پر مبنی ایک نظم ''انسان'' پر کام کر رہے تھے جسے اردو ادب کا ایک شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے۔
1989ء میں آپ کوصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور اردو کانفرنس دہلی میں''سنت کبیر ایوارڈ'' ملا جبکہ 2006 میں اکادمی ادبیات پاکستان کا ''کمال فن ایوارڈ'' ملا، اس کے علاوہ آپ کو ''آدم جی ادبی ایوارڈ'' (1960)، ''داؤد ادبی ایوارڈ'' (1963)، ''یونائیٹڈ بینک لٹریری ایوارڈ'' (1965)، ''حبیب بینک لٹریری ایوارڈ'' (1965)، '' کینیڈین اردو اکیڈمی ایوارڈ'' (1988) اور''ہلال امتیاز'' (2004) سے بھی نوازا گیا، مگر آپ کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ آپ کے ملی نغمے ہر دور میں زبان زدِ عام رہے۔ اگر آج آپ کی زندگی اورشخصیت کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ہمیں ایک ہی چیز نظر آئے گی اور وہ ہے حب الوطنی، وطن کی محبت میں آپ نے اپنا آبائی شہر دہلی چھوڑا اور تقسیم ہند کے بعد کراچی آکر آباد ہوئے۔ وطن کی محبت کا عنصر ہی آپ کی شاعری میں غالب رہا۔
آپ کی تحریروں اور نغموں سے وطن سے عشق کی ہی مہکاریں آتی تھیں اور اسی بنا پر آپ ''عندلیبِ پاکستان'' کہلانے کے بجا طور پر حقدار ہیں۔ آپ کا پیغام ہمیشہ پاکستان ہی رہا اور یہی پیغام نغموں کی صورت عوام کے دلوں میں بھی دھڑکتا ہے۔
اب جمیل الدین عالی ہم میں موجود نہیں مگر آپ کے نغمے، آپ کی تحریریں، آپ کے دوہے اور آپ کے گیت ہمیشہ آپ کی یادیں تازہ رکھیں گے، خدا آپ پر رحمتیں نازل فرمائے اور آپ کی اگلی منزلیں آسان کرے آمین!
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
آج کی نسل شاید جمیل الدین عالی سے براہ راست واقف نہ ہو کہ ایک 90 سالہ شخص کی ہڈیوں میں اتنا دم نہیں ہوتا کہ وہ اسکرین کے ذریعے اپنی پہچان کروائے اور ویسے بھی پہچان کی ضرورت انہیں پیش آتی ہے جو کسی کمی، کوتاہی کا شکار ہوں۔ جمیل الدین عالی کی تو شخصیت ہی ادب پروری اور سخن نوازی کا پیکر تھی۔ ایک ادیب، ایک شاعر وہ بھی عالمی شہرت یافتہ، ایک نقاد، ایک دانشور، ایک ادب پرور شخص کو اپنی پہچان کروانے کی کیا ضرورت ہے؟
کیا جانے یہ پیٹ کی آگ بھی کیا کیا اور جلائے
عالیؔ جیسے مہا کَوی بھی ''بابو جی'' کہلائے
نوابزادہ مرزا جمیل الدین احمد خان''العالیؔ'' تو حسبی نسبی علمی اور ادبی خانوادے سے تھے۔ ان کے دادا نواب علاؤالدین احمد خان علائی مرزا غالب کے دوست اور شاگرد تھے۔ ان کے والد سر امیر الدین احمد خان خود بھی ایک شاعر تھے جب کہ ان کی والدہ سیدہ جمیلہ بیگم خواجہ میر ؔدرد کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اسی لئے اس خاندان کے بچے شعر و سخن کے سائے میں ہی جوان ہوتے تھے اور انہوں نے بھی محض 10 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔
ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو شاعری کا شوق کب ہوا تو جواب دیا کہ ''ہمارے خاندان میں ہر شخص ہی شاعر تھا اور میں بھی 10 برس کی عمر ہی سے شاعری کی راہ کا مسافر بن گیا''۔ آپ کا اصل نام نوابزادہ جمیل الدین احمد تھا پہلے پہل آپ کا تخلص ''مائل'' تھا مگر بعد میں تبدیل کرکے ''عالی'' رکھ لیا اور اسی سے شہرت پائی۔
کئی دن گزرے عالیؔ صاحب، عالیؔ جی کہلاتے تھے
محفل محفل قریہ قریہ شعر سناتے جاتے تھے
غزلوں میں سو رنگ ملا کر اپنا رنگ ابھارا تھا
استادوں کے سائے میں کچھ اپنی راہ بناتے تھے
اگر جمیل الدین عالی کو جاننا ہی ہے تو اتنا جان لیجئے کہ جس کسی نے بھی شہناز بیگم کی آواز میں گایا ہوا ملی نغمہ ''جیوے جیوے پاکستان'' یا استاد نصرت فتح علی خان کی آواز میں ''میرا انعام پاکستان''، یا میڈیم نور جہاں کی آواز میں ''اے وطن کے سجیلے جوانوں'' یا مہدی ظہیر کی آواز میں گایا گیا نغمہ ''ہم مصطفوی مصطفوی ہیں'' (یہ نغمہ 1974ء کی اسلامی سربراہی کانفرنس کا سرکاری گیت تھا) یا الن فقیر کی آواز میں''اتنے بڑے جیون ساگر میں، تو نے پاکستان دیا'' یا نیرہ نور کی آواز میں ''جو نام وہی پہچان، پاکستان پاکستان''جیسے نغمے سن رکھے ہیں، وہ جمیل الدین عالی کو ان کے کام کی نسبت سے جانتا ہے۔ وطن کی محبت میں گندھے ہوئے یہ نغمے آج بھی ہر بچے، بڑے، بوڑھے کی زبان پر ہیں، ان کے دلوں میں نقش ہیں اور ان کے خون کو حب الوطنی سے گرماتے رہتے ہیں۔
آپ نے زیادہ عرصہ سرکاری ملازمت کی مگر ملازمت کے ساتھ ساتھ ''قومی اور ملی نغموں'' کو بھی تیار کرتے رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں آپ نے اپنے قلم کے ذریعے پاک فوج کے جوانوں کو جوش و ولولے کی ایک نئی لہر دی اور پوری قوم میں حب الوطنی کی روح پھونک دی، اس کے علاوہ خواتین کے حوالے سے مقبول ترین نغمہ ''ہم مائیں، ہم بہنیں، ہم بیٹیاں، قوموں کی عزت ہم سے ہے'' بھی آپ ہی کا عطا کردہ تحفہ ہے۔
ایک دفعہ آپ سے پوچھا گیا کہ ''جیوے جیوے پاکستان'' جیسا لازاوال نغمہ آپ نے کیسے لکھا، اس کے پیچھے کیا محرک تھا؟ توآپ نے کہا کہ ان دنوں پاکستان مخالف جذبات بہت بڑھ رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے جوش آگیا اور یوں یہ خواہش کہ پاکستان ہمیشہ جیوے دعا بن کر میرے دل سے نکلی اور ہر ایک کے لب پر سج گئی۔
جمیل الدین عالی نے ایک بھرپور زندگی گذاری۔ 1945ء میں معاشیات، تاریخ اور فارسی جیسے مضامین کے ساتھ گریجویشن کی، پھر پاکستان بننے کے بعد یہاں آکر آباد ہوگئے۔ 1948ء میں حکومت پاکستان وزارت تجارت میں بطور اسسٹنٹ رہے۔ 1951ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور پاکستان ٹیکسیشن سروس کے لیے نامزد ہوئے۔ 1963ء میں وزارت تعلیم میں کاپی رائٹ رجسٹرار مقرر ہوئے۔ اس دوران اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو میں فیلو منتخب ہوئے۔ پھر آپ کو نیشنل پریس ٹرسٹ بھیج دیا گیا جہاں پر سیکرٹری کی حیثیت سے کام کیا۔ 1967ء میں نیشنل بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور سینئر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ کے عہدے تک پہنچے وہاں سے ترقی پا کر پاکستان بینکنگ کونسل میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ایڈوائزر مقرر ہوئے۔
آپ نے سیاست کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی اور 1977ء کے جنرل الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشست کے لئے عملی طور پر حصہ بھی لیا لیکن کامیاب نہ ہوسکے البتہ 1997ء میں آپ سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔
بھٹکے ہوئے عالی ؔسے پوچھو گھر کب واپس آئے گا
کب یہ در و دیوار سجیں گے، کب یہ چمن لہرائے گا
پاکستان رائٹرز گلڈ کے قیام میں آپ کا بہت بڑا ہاتھ تھا، آپ اس کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، انجمن ترقی اردو سے وابستہ رہے اور اردو زبان کی ترقی اور ترویج کے لئے بھی کام کرتے رہے۔
پھر دیکھا کہ بچہ بچہ ہنستا تھا اور عالیؔ جی
فردیں لکھتے، مسلیں پڑھتے، بیٹھے گلڈ چلاتے تھے
آپ نے کالم نگاری کا حق بھی ادا کیا اور معروف اخبارات میں کئی دہائیوں تک باقاعدگی سے کالم لکھتے رہے جو ''دعا کر چلے'' اور ''صدا کر چلے'' کے عنوان سے کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔ آپ نے نظمیں، دوہے، ملی نغمے اور گیت تحریر کئے جبکہ اب آپ ہزاروں اشعار پر مبنی ایک نظم ''انسان'' پر کام کر رہے تھے جسے اردو ادب کا ایک شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے۔
عالیؔ جس کا فن سخن میں ایک نرالا انداز تھا
نقد سخن میں ذکر یہ آیا دوہے پڑھنے والا تھا
1989ء میں آپ کوصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور اردو کانفرنس دہلی میں''سنت کبیر ایوارڈ'' ملا جبکہ 2006 میں اکادمی ادبیات پاکستان کا ''کمال فن ایوارڈ'' ملا، اس کے علاوہ آپ کو ''آدم جی ادبی ایوارڈ'' (1960)، ''داؤد ادبی ایوارڈ'' (1963)، ''یونائیٹڈ بینک لٹریری ایوارڈ'' (1965)، ''حبیب بینک لٹریری ایوارڈ'' (1965)، '' کینیڈین اردو اکیڈمی ایوارڈ'' (1988) اور''ہلال امتیاز'' (2004) سے بھی نوازا گیا، مگر آپ کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ آپ کے ملی نغمے ہر دور میں زبان زدِ عام رہے۔ اگر آج آپ کی زندگی اورشخصیت کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ہمیں ایک ہی چیز نظر آئے گی اور وہ ہے حب الوطنی، وطن کی محبت میں آپ نے اپنا آبائی شہر دہلی چھوڑا اور تقسیم ہند کے بعد کراچی آکر آباد ہوئے۔ وطن کی محبت کا عنصر ہی آپ کی شاعری میں غالب رہا۔
آپ کی تحریروں اور نغموں سے وطن سے عشق کی ہی مہکاریں آتی تھیں اور اسی بنا پر آپ ''عندلیبِ پاکستان'' کہلانے کے بجا طور پر حقدار ہیں۔ آپ کا پیغام ہمیشہ پاکستان ہی رہا اور یہی پیغام نغموں کی صورت عوام کے دلوں میں بھی دھڑکتا ہے۔
ہائے یہ اندر کی تنہائی جس کے لئے ہم چھوڑ آئے
تیرے شہر اور تیرے قریے اور اپنے ویرانے بھی
اب جمیل الدین عالی ہم میں موجود نہیں مگر آپ کے نغمے، آپ کی تحریریں، آپ کے دوہے اور آپ کے گیت ہمیشہ آپ کی یادیں تازہ رکھیں گے، خدا آپ پر رحمتیں نازل فرمائے اور آپ کی اگلی منزلیں آسان کرے آمین!
عالی جی اب آپ چلو تم اپنے بوجھ اٹھائے
ساتھ بھی دے تو آخر پیارے کوئی کہاں تک جائے
[poll id="787"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس