سِبّی کے بعد اوگی
منزئی کی بے رونقی پرایف سی کے ایک صوبیدار نے قصہ سنایا کہ" کئی سال پہلے یہاں ایک کمان افسر تعینات ہوئے۔
پولیس کی ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد اے ایس پیز کے پورے بیچ کو ایک سال کے لیے فرنٹیئرکانسٹیبلری میں تعینات کیا جاتا تھا(اب دوبارہ وہی طریقہ شروع کردیا گیا ہے)۔ قبائلی علاقے میں امن وامان کی بحالی کی ذمے داری فرنٹیئر کوراوربندوبستی (setteled)علاقے میں پولیس کی ہوتی تھی اور دونوں کے درمیان والی پَٹّی پر امن وامان برقرار رکھنے کے لیے انگریزوں نے 1913میں قبیلوں کی بنیاد پر بھرتی ہونے والی پلاٹونوں پر مشتمل فرنٹیئرکانسٹیبلری قائم کی ۔ یہ فورس اپنی بہادری، وفاداری اور ڈسپلن کے باعث بے مثال تھی۔ فرنٹیئر کور کی کمان فوج اور کانسٹیبلری کی کمان پولیس افسران کے پاس ہوتی ہے۔
اس کا انتظامی یونٹ ڈسٹرکٹ کہلاتا ہے۔ ڈسٹرکٹ کا کمانڈر ڈسٹرکٹ آفیسر فرنٹیئر کانسٹیبلری (DOFC)یا فورس کی اپنی زبان میں کمان افسر کہلاتاہے، جونیئر افسروں کے رینک فوج کی طرح ہوتے ہیں۔ اے ایس پی صاحبان کو مختلف ضلعوں میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ آفیسر کے طور پر تعینات کیا جاتا تھا، مگر تعیناتی سے پہلے ادارے کی ورکنگ سمجھنے کے لیے ایک مہینے کا orientation courseکرایا جاتا تھا،جو اب شبقدر میں ہوتا ہے مگر اُس وقت جنوبی وزیرستان کے قریب ایک دوردراز جگہ منزئی میںہوتا تھا۔ ہمارے پورے بَیچ کو دوتین دن شبقدر رکھنے کے بعد منزئی کوچ کرنے کا حکم نامہ ملا۔ لہٰذا ہم ایف سی کی بس (جو پرانی جی ٹی ایس کی برادری سے تھی) میں سوار ہوکر منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔
اُس وقت انڈس ہائی وے تعمیر نہیں ہوئی تھی اس لیے پشاور سے بنوںاور ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف جانے والی سڑک تنگ اور خراب تھی۔ ہم دس گھنٹے کے سفر کے بعد منزل پرپہنچے جہاں ایف سی کیمپ کے سواکوئی اورآبادی نظر نہ آئی ۔کچھ دیر بعد ہمیں ڈی او ایف سی صاحب سے ملوایا گیا جنہوں نے سروس میں کامیابی کے کچھ گُر بتانے کے بعد اپنے پاس کھڑے ایک اجنبی شخص کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ علاقے کے "معزز"آدمی ہیں اور ایف سی کے ٹھیکیدار بھی ہیں۔
( یعنی میس میں خوراک اور راشن کی سپلائی کا ٹھیکہ ان کے پاس ہے ) کل رات کا کھانا ان کی طرف سے ہوگا۔ ٹھیکیدار کی میزبانی پر چند اے ایس پی جُزبُز ہوئے مگر منزئی جیسی جگہ میں بھوک مٹانے کے لیے کوئی ہوٹل وغیرہ نہیں تھا۔لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی دعوت میں شامل ہونا پڑا۔
منزئی کی بے رونقی پرایف سی کے ایک صوبیدار نے قصہ سنایا کہ" کئی سال پہلے یہاں ایک کمان افسر تعینات ہوئے۔ اُس وقت نہ بجلی تھی نہ ٹی وی نہ اتنی دوردراز جگہ پر کوئی عزیز رشتہ دارآتاتھا۔ لاہور کے رہائشی کمان افسر صاحب کو کئی مہینے تک جب اردو یا پنجابی میں بات کرنے کے لیے کوئی بندہ نہ ملا تو انھوں نے ایک دن صوبیدار میجر کو بلاکر "ضروری ہدایات"دیں۔ تھوڑی دیر بعد ایف سی کے دستے نے قریب ترین سڑک پر جاکر ویگن روکی اور ایک شخص کو اتار لیا۔
اس نے بہت شور مچایا مگر ایف سی والے اسے پکڑ کر کمان افسر کے پاس لے آئے۔ "مغوی" نے آتے ہی شکایتاً کہا کہ 'میں فوج میں ڈاکٹرہوں وانا سے چھٹی پر گھر جارہا تھا کہ ایف سی والے ویگن سے زبردستی اتار کر یہاں لے آئے ہیں'۔ کمان افسر نے کیپٹن ڈاکٹر سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ قصور ان کا نہیں ہے، میں نے ہی انھیں کہا تھا کہ کسی بھی شخص کو میرے پاس لاؤ ، کئی مہینے سے کسی پڑھے لکھے آدمی سے بات کرنے کا موقع نہیں مل سکا، آپ کچھ دیر میرے پاس بیٹھیں کھانا کھائیں اور پھر میرا ڈرائیور آپ کوٹانک چھوڑ آئیگا" ۔
تین ہفتے کے قیام کے بعد تمام افسروں کی مختلف جگہوں پر پوسٹنگ ہوگئی۔میری تعیناتی اوگی میں ہوئی۔ اوگی مانسہرہ سے 29کلومیٹر کے فاصلے پر اور ایبٹ آباد سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیوپروادیٔ اگرور میں واقع ایک خوبصورت پہاڑی قصبہ ہے۔ اوگی ایبٹ آباد سے قدرے بلندی پر ہے۔ سال میں ایک بار برفباری بھی ہوجاتی ہے۔
مجھے ایف سی کے ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا جو میرا مستقل ڈیرہ بن گیا۔ یہاں ڈسٹرکٹ آفیسرفاروق خان تھے۔ بہت شریف آدمی تھے۔ چند مہینے بعد وہ ریٹائرہوگئے تو ایک نیک سیرت پی ایس پی افسر خالد مسعود کمان افسر بن گئے۔ ایف سی اوگی کی پلاٹونیں ایبٹ آباد، گورنر ہاؤس نتھیا گلی، ناران، دربنداور الائی وغیرہ کے مقامات پر تعینات تھیں۔ پلاٹونوں کی انسپکشن، ان کے ڈسپلن اور مسائل کا جائزہ لینا میرے فرائض میں شامل تھا۔ یہ سارے مقامات بہت خوبصورت تھے۔
لہٰذا ان جگہوں کے سرکاری دورے، فرائض کے ساتھ ساتھ آؤٹنگ اور سیر کی حیثیت بھی رکھتے تھے۔ گورنر ہاؤس نتھیا گلی جب بھی جاتے اس کے برآمدے یا خوبصورت لان میں بیٹھ کر چائے اور پکوڑوں سے ضرور لطف اندوز ہوتے۔ ایک بار خالد صاحب کے ساتھ کاغان اور ناران جانے کا پروگرام بن گیا ،اوگی سے چلتے وقت میں بدہضمی کا شکار تھا اور پیٹ خراب ہونے کے باعث کچھ بھی کھانے کے موڈ میں نہیں تھا۔
مگر جب ناران کے ایف سی ریسٹ ہاؤس پہنچے تو ایف سی کے جوان اپنی روایت کے مطابق چائے کے ساتھ مچھلی تَل کر لے آئے خالدصاحب نے کہا "ایک آدھ لقمہ چکھ لیں ، ناران کی مچھلی بہت مشہور ہے"۔ ایک دو لقمے کیالیے کہ پھر ہاتھ رک نہ سکا۔ ڈیڑھ دوکلو سے زیادہ کھاگیا۔ مچھلی کا نام معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اسی ظالم کو ٹراؤٹ کہتے ہیں۔ اس کی افزائش بہت ٹھنڈے موسم میں ہوتی ہے اور بلاشبہ ذائقے میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔
ایف سی کے فرائض میں اسمگلنگ کی روک تھام بھی تھی۔ اس سلسلے میں ایک روزقراقرم ہائی وے پر میں چیکنگ کررہاتھا۔ چند گاڑیوں کی تلاشی کے بعد ایک گاڑی آئی جس کے ڈرائیور نے تلاشی دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا 'پیچھے ہٹ جاؤ راستہ دے دو ایم پی اے صاحب گاڑی میں بیٹھے ہیں'۔ نائب صوبیدار نے مجھے بتایا تو میں نے سختی سے کہا" کوئی بھی ہو قانون سب پر ایک جیسا لاگوہوگا"۔ ان کی گاڑی کی بھی تلاشی لی گئی اور غالباً کچھ بِلا لائسنس اسلحہ بھی برآمد ہوا، اس پر ایم پی اے صاحب ناراض ہوگئے اور پشاور پہنچ کر انھوں نے پہلا کام یہ کیا کہ میرے خلاف اسمبلی میں تحریک استحقاق جمع کرادی۔
کمانڈنٹ صاحب نے رپورٹ مانگ لی۔ میں نے رپورٹ بھیجی جس میں Rule of Law کی پُرزور وکالت کی گئی تھی۔ ایف سی کے کمانڈنٹ (آئی جی رینک کے افسر) بااصول آدمی تھے انہو ں نے مجھے سپورٹ کیااور معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ انھی دنوں زیرِ تربیّت اے سی کی حیثیت سے کیپٹن یوسف اور ڈاکٹر شجاعت مانسہرہ آگئے۔ دونوں میرے پرانے دوست تھے ۔ کبھی میںان کی طرف مانسہرہ چلاجاتا اور کبھی وہ اوگی آجاتے۔
اوگی ریسٹ ہاؤس میں ایک روز ایک نوجوان ڈاکٹرسے ملاقات ہوئی ۔ انتہائی خوش اطوار ، خوش گفتار ، وضعدار اور ذہین ۔ ڈاکٹر فیاض احمد سے فوراًہی دوستی ہوگئی (جو آج تک قائم ہے) ہم نے مختلف محکموں کے نوجوان افسر اکٹھے کیے ۔ اوربیڈمنٹن کلب بنادیا، جس کی رونق روزبروز بڑھتی گئی۔گیم ہارنے والے کوچکن روسٹ یا فش منگوانی پڑتی ۔ ہر روزسہ پہر کو گیم شروع ہوجاتی اور مغرب کے فوراً بعد ایف سی ریسٹ ہاؤس میں مرغ اور مچھلی کی دعوت اڑائی جاتی۔
ڈاکٹر فیاض بہت مصروف ڈاکٹر تھے مگر شام کو ایف سی کے ایک نائب صوبیدار کو بھیجا جاتاجو ڈاکٹر صاحب کو مریضوں کے چنگل سے کھینچ کرلے آتا۔اور پھر گپ شپ، گیم اور کھانے پینے کا دور خوب چلتا۔ پچھلے دنوں ڈاکٹر شجاعت (آجکل ایڈیشنل سیکریٹری فنانس) نے ماضی کے دو اور واقعات کی یادیں تازہ کیںجب گلگت جاتے ہوئے بھوک کے مارے برا حال تھا اور ہم آدھی رات کو زبردستی بریگیڈیئر اسلم صاحب کے مہمان بنے تھے۔ ان کے ہوٹل میں ان کے ساتھ کھانا کھایا تھا ۔
جس کے بدلے میں کئی گھنٹے اِن کی فتوحات کے قصّے سنناپڑے اور داد وتحسین بھی دینا پڑی ۔ پھر انھوں نے وہ واقعہ بھی یاد کرایا جب لندن سے نوجوانوں کے وفد کے ساتھ آئی ہوئی ایک طالبہ کا اوگی کے باریش تحصیلدار قاضی محی الدین کے ساتھ بیڈ منٹن کامیچ کرایا گیا۔ میچ کے فوٹو حاصل کرنے کے لیے تحصیلدار صاحب نے تمام کھلاڑیوں کو (بذریعہ پٹواریان ) کھانا بھی کھلایا ۔ اوگی کا قیام بڑاخوشگوار اور یادگار تھا اور ایک سال کے بعد میں بہت خوبصورت یادیں دامن میں سمیٹ کر رخصت ہوا۔
اس کے بیس سال بعد راقم پھر اوگی پہنچا۔ مگر ایک مختلف حیثیت سے۔ آج وہ ڈی آئی جی ھزارہ کی حیثیت سے اوگی میںعوام کی کھلی کچہری سے خطاب کرنے آیا تھا۔ ٹریفک پولیس کی پائلٹ جیپ کھلی کچہری کی جگہ پر لے جارہی تھی کہ راستے میں ایف سی ریسٹ ہاؤس کے گیٹ پرنظر پڑگئی تو گاڑی روک لی گئی۔ پورا قافلہ ٹھہر گیا۔گیٹ کھلوایا گیا جس کے کھلتے ہی یادوں کے دریچے کھل گئے۔ڈی آئی جی کبھی اخروٹ کے درخت کی طرف جاتا۔کبھی چنار کا بڑا درخت دیکھتا، سب کچھ وہیں تھا ، پولیس افسر بیس سال پیچھے لوٹ گیا۔
اندر سے آرمی کا ایک نوجوان کیپٹن باہر آگیا، اس نے سلیوٹ کیا اور کہنے لگا 'سر یہ اب آرمی آفیسرز کی رہائش گاہ ہے'۔" کبھی یہ میری رہائش گاہ ہوتی تھی" ڈی آئی جی نے کہا "یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم بیڈ منٹن کھیلتے تھے اور یہ وہ کمرہ ہے جہاں میچ کے بعد کھانے ہوتے تھے"۔ یادوں کی زنجیر نے پولیس افسر کو جکڑ لیاتھا۔ کھلی کچہری اور افتتا ح کے بعد ڈاکٹر فیاض صاحب کے ظہرانے میں بہت سے مانوس چہروں سے ملاقات ہوئی ،کئی چہروں کو گھنی داڑھیوں نے چھپالیا تھا اور بہت سوں نے سر پر چاندی اوڑھ لی تھی۔اوگی اور ڈاکٹر فیّاض احمد دوایسی علامتیں ہیںجو یادوں کے کینوس پرنمایاں طور پر نقش ہیں ۔