ہماری سرکاری کارکردگی
انگریزوں نے صرف چند ہزار افسروں کے ساتھ پورے ہندوستان پر سو سال سے زیادہ عرصہ تک اطمینان کے ساتھ حکومت کی
ISLAMABAD:
ایک پرانی بات خود اپنے آپ کو یاد دلاتا ہوں اور ہر روز کی حکومتی زندگی بھی مجھے یہ بات بھولنے نہیں دیتی کہ ہماری حکومتی زندگی کا انتظامی شعبہ کسی زبردست بحران میں پھنس گیا ہے اور جس پاکستانی کو اپنی حکومت کے کسی انتظامی شعبے سے واسطہ پڑتا ہے اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومتی انتظامیہ میں وہ لوگ نہیں رہے جو اپنے شعبے کو سرگرم اور زندہ رکھنے کی ذمے داری قبول کرتے تھے اب دفتر میں حاضری اور وقت مقررہ پر چھٹی ایک معمول بن چکا ہے جس کی سختی کے ساتھ پابندی کی جاتی ہے اور دفتری کام کی پروا نہیں کی جاتی جو کسی بھی اہلکار کا اصلی فرض ہے اور جس کے لیے اسے کسی ملازمت میں رکھا گیا ہے۔
دفتری سستی اور دفتری معمولات اور فرائض سے کمزور تعلق نے ہی قومی سطح پر بدانتظامی کو جنم دیا ہے۔ یہاں مجھے ایک پرانے بیوروکریٹ کی بات یاد آ رہی ہے۔ یہ تھے جناب ریاض الدین جو مشہور شخصیت مولانا صلاح الدین کے صاحبزادے تھے۔ انھوں نے سرکاری ملازمت سے اکتا کر یا کسی دوسری وجہ سے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا جو ایک بڑی خبر بن گئی کیونکہ جس عہدے کو حاصل کرنے میں لوگ زندگیاں کھپا دیتے تھے انھوں نے اس پر اپنے عروج کے وقت اس سے استعفی دے دیا۔
اس واقعہ پر انھوں نے ایک پریس کانفرنس بھی کی اس میں دوسری باتوں کے علاوہ انھوں نے ہمیں خبردار کیا اور کہا کہ یہ بات آگے پھیلا دیں کہ ہم انتظامی بحران سے دوچار ہونے والے ہیں۔ انگریزوں نے اپنی حکومت کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے افسران کا ایک گروہ تیار کیا تھا جو ہر ضلع کا انتظام چلاتا تھا اور عوام کو انصاف فراہم کرتا تھا۔ ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں بھی سائلین کا ہجوم دیکھا جاتا تھا اور ہر درخواست پر ڈی سی صاحب کوئی نہ کوئی حکم صادر کرتے تھے جس پر عمل بھی کیا جاتا تھا۔ ایک عام آدمی بھی ڈی سی تک آسانی کے ساتھ پہنچ کر اپنی درخواست پر کوئی حکم لے کر آتا تھا اور وہ اس سے مطمئن ہوتا تھا۔
بس عوام کا اطمینان ہی کسی حکومت کی کامیابی کا راز تھا۔ عوام کو یہ اطمینان اس افسر کے ذریعے ملتا تھا جو حکومت کی طرف سے کسی خاص عہدے پر متعین ہوتا تھا ایس ڈی او اور ڈی سی تک اپنے دفتر میں موجود رہتا تھا اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ وہ بنیادی افسر تھے جو حکومت کو چلاتے تھے اور کسی انگریز حکمران کو اطمینان ہوتا تھا کہ وہ ملکہ معظمہ سے وفاداری کا حق ادا کر رہا ہے۔
انگریزوں نے صرف چند ہزار افسروں کے ساتھ پورے ہندوستان پر سو سال سے زیادہ عرصہ تک اطمینان کے ساتھ حکومت کی۔ انگریزوں کے زمانے کے لوگ اب بھی اس حکومت کو یاد کرتے ہیں اور اس کی خوش انتظامی اور رعیت پروری کو ایک خوشگوار یاد کے طور پر زندہ رکھتے ہیں حالانکہ وہ بدیسی لوگوں کی حکومت تھی اور جس سے آزادی کی تحریکیں بھی چلتی تھیں۔ انگریزوں کی حکومت کو ضلع کے انصاف پسند ڈی سی کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے اور یہی ڈی سی تھا جو سب اچھا کی رپورٹ دیا کرتا تھا اور یہ رپورٹ درست بھی ہوا کرتی تھی۔
آج آپ یوں سمجھیں کہ کسی ضلع کا ڈی سی یا تحصیل کا ایس ڈی او یا کوئی افسر اس قابل ہوتا تھا کہ وہ اپنی ذمے داری کو صحیح طریقے سے چلا سکتا تھا اور اس پر مطمئن بھی ہوتا تھا۔ ان کی تعداد محدود تھی۔ پورے ہندوستان میں جتنے اضلاع تھے اتنے ہی ڈی سی تھے جو تاج برطانیہ کی حفاظت کرتے تھے ان میں انگریز بھی ہوتے تھے اور دیسی بھی لیکن فرائض کی بجا آوری میں سب برابر تھے اور اپنی ہر ذمے داری کو پورا کرتے تھے۔
یہی وہ اہلکار اور افسر لوگ تھے جو ایک غیر ملکی سامراج کو اپنے ہاں پناہ دیے ہوئے تھے لیکن نوکری سمجھ کر اسے حسن و خوبی کے ساتھ چلایا کرتے تھے۔ انتظامیہ کا یہ گروہ حکومت کے لیے ایک نعمت تھا جن کی وفاداری اور فرائض کی درست بجا آوری سے حکمران سکھ کی نیند سوتے تھے اور لندن کو سب خیریت ہے کی خبر بھجوایا کرتے تھے۔
یہ حکومت اس قدر مستحکم تھی کہ جب برطانوی حکومت نے ہندوستان کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا تو اس پر برطانیہ میں بہت لے دے ہوئی ایک بڑی تعداد کا خیال تھا کہ ہندوستان پر حکومت ابھی جاری رکھی جا سکتی ہے اور کوئی جلدی نہیں ہے اس گروہ کا لیڈر سر ونسٹن چرچل تھا لیکن اس وقت کی حکومت نے ہندوستان کو آزاد کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
ہندوستان پر حکومت جاری رکھنے کی بڑی وجہ وہ انتظامیہ تھی جو حکومت چلا رہی تھی اور جس کی فرض شناسی اور اہلیت کے بھروسے پر برطانیہ کی حکومت جاری رکھنے کا مشورہ دیا جا رہا تھا لیکن بہر حال عالمی حالات ایسے ہو گئے کہ ہندوستان آزاد ہو گیا اور انگریز اپنی انتظامیہ کو چھوڑ کر چلے گئے لیکن جاتے جاتے وہ یہ تحفہ دے گئے کہ اگر ہمارے دیسی حکمران عقل سے کام لیتے تو اس انتظامیہ کو بکھرنے نہ دیتے اور انگریزوں کا یہ تحفہ زندہ رکھتے اور اس کی حکمت عملی اور فرض شناسی پر حکومت کرتے رہتے لیکن ہمارے تنگ نظر سیاستدانوں نے اس نعمت کو رفتہ رفتہ بے جان کر دیا اور انتظامیہ کے افسر منہ دیکھتے رہ گئے۔
ذرا غور کیجیے کہ ضلع کا حکمران جسے پنجاب میں صاحب ضلع کہا جاتا تھا اپنے دفتر میں عوام کی درخواستوں کو پڑھتا اور ان پر مناسب حکم جاری کرتا تھا اور جو حکم جاری ہوتا تھا وہ عمل کے لیے ہوتا تھا اگر کسی حکم پر عمل نہ ہوتا تو متعلقہ اہلکار بچ کر نہیں جا سکتا تھا۔ ایک اچھی حکومت کا یہی عمل اس کی بقا اور نیک نامی کا ضامن تھا اور اس اطمینان پر حکمران چین کی نیند سوتا تھا لیکن ہمارے سیاستدانوں سے جب ڈی سی وغیرہ کو اپنے سیاسی اور مقامی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تو پرانی تربیت یافتہ انتظامیہ نے کچھ مقابلہ تو کیا مگر کب تک بالٓاخر وہ سیاسی اقتدار کے سامنے جھک گئی اور اب حالت یہ ہے کہ پوری حکومت کا نظم و ضبط کمزور ہو چکا ہے اور کہیں بھی کوئی کام سلیقے اور قانون و قاعدے کے مطابق نہیں ہو رہا جو خلق خدا کی پریشانی کا سبب ہے اور حکومت سے بے زاری کا بھی۔
ہم نے اپنی فرض شناس اور دیانت دار انتظامیہ سے برا سلوک کر کے ایک قومی نقصان کیا ہے جس کی طرف ریاض صاحب نے اشارہ کیا تھا کہ یہ ایک مستقل مشکل بن سکتی ہے۔ سرکاری کارکردگی اگر درست نہ ہو تو عوام کہاں جائیں۔