طویل مدتی غذائی تحفظ پالیسی کو حتمی شکل دیدی سکندر بوسن

18 ویں ترمیم کے بعد وزیراعظم کی سربراہی میں قومی غذائی تحفظ کونسل قائم کرنے کی بھی تجویز ہے،سکندر بوسن


APP November 25, 2015
پاکستان نے پہلی مرتبہ کریلے اور امرود کی برآمد کے لیے بھی کام کیا ہے۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق سکندر حیات خان بوسن نے کہا ہے کہ زرعی شعبے کی پائیدارترقی اور غذائی خودکفالت کے لیے طویل مدتی قومی غذائی تحفظ کی پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور صوبوں و متعلقہ حلقوں سے مشاورت کے بعد اس کا اعلان جلد کیا جائے گا جبکہ وزیراعظم کی سربراہی میں قومی غذائی تحفظ کونسل قائم کرنے کی بھی تجویز ہے،کسان پیکیج کے تحت بالخصوص چھوٹے کاشتکاروں کی مالی معاونت یقینی بنائی جا رہی ہے۔

فی ایکڑ پیداوار بڑھانے، زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کے فروغ، تصدیق شدہ بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویہ کی فراہمی کے لیے حکومت پرعزم ہے، پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ بھرپور انداز میں کام کر رہا ہے،زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعمیر کی حوصلہ شکنی اور زراعت کے شعبے میں تحقیقی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ جمعرات کو قومی خبر رساں ادارہ کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کوشش ہے کہ زرعی شعبے کو ٹھوس اور دیرپا بنیادوں پر استوار کیا جائے، وزارت قومی غذائی تحفظ نے اس ضمن میں قومی غذائی تحفظ پالیسی کو تمام شراکت داروں کی مشاورت سے حتمی شکل دے دی ہے تاہم اس حوالے سے مزید تجاویز لی جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد وزیراعظم کی سربراہی میں قومی غذائی تحفظ کونسل قائم کرنے کی بھی تجویز ہے، اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ آرا حاصل کی جا رہی ہیں، کونسل میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی اور دیگر متعلقہ اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر زرعی مصنوعات کی قیمتوں میں واضح کمی ہوئی جس کے لیے کسان پیکیج کی اشد ضرورت محسوس کی گئی، حکومت کے قلیل مدتی منصوبوں کے تحت کسان پیکیج کے موثر نتائج سامنے آئیں گے جبکہ زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے منظم انداز میں کام کیا جا رہا ہے تاکہ نجی شعبہ کی شمولیت کو زیادہ کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ کسان پیکیج سے 97 فیصد چھوٹے کاشتکار مستفید ہو سکیں گے اور کسانوں کے منافع میں بہتری آئے گی اور ان کی حوصلہ افزائی ہو گی، حکومت کی کوشش ہے کہ کسانوں پر بوجھ کو کم کیا جائے اور ان کی آمدنی بڑھائی جائے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے فروغ اور زرعی مداخل میں کمی لائی جا رہی ہے تاہم ہماری فی ایکڑ پیداوار بھارت کے برابر ہے، کسانوں کو ان کی فصل کا پورا معاوضہ فراہم کرنے کے لیے آڑھتی کے کردار کو کم کرنے کی ضرورت ہے، ہماری کوشش ہے کہ ہر جگہ پر منڈیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، نجی شعبے کو اس عمل میں شامل کیا جائے جبکہ حکومت اس ضمن میں سہولتیں فراہم کرے تاکہ کسانوں کو اپنی پیداوار کی صحیح قیمت ملے۔

انہوں نے کہا کہ رواں سیزن کے دوران گندم کے ساتھ دیگر زرعی اجناس بشمول دالوں اور مصالحوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے بھی کسانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ انہوں نے بتایاکہ فاٹا میں زیتون کی کاشت اور پیداوار بڑھانے کے لیے پی اے آر سی موثر انداز میں کام کر رہی ہے، زرعی مصنوعات، پھلوں، سبزیوں کی برآمدات کی وسیع گنجائش موجود ہے، اس حوالے سے نئی منڈیاں بھی تلاش کی جا رہی ہیں، پاکستان نے پہلی مرتبہ کریلے اور امرود کی برآمد کے لیے بھی کام کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیداواری لاگت میں کمی اور کاشتکاروں کے منافع میں اضافے کے حوالے سے کسان برادری کی رہنمائی کے لیے صوبائی زرعی محکموں کے ساتھ مل کر بھی کوششیں کی جاری ہیں تاکہ ملک بھر میں زراعت مضبوط بنیادوں پر استوار ہو اور کاشتکار برادری خوشحال ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔