لبرل بنگلہ دیش میں آمرانہ فیصلے
بنگلہ دیش میں سیاسی مخالفین کوپھانسیاں دینے سے نہ صرف موجودہ بلکہ آنیوالی نسلوں کےدلوں میں بھی نفرت بڑھےگی۔
MIRAMSHAH:
اگر کسی اور ملک میں بھی ایسا ہوتا تو اس کو اندرونی معاملہ سمجھ کر جانے دیا جاتا مگر یہاں مسئلے کی وجہ پاکستان کو بتایا جا رہا ہے اور یہ اس نوعیت کا پہلا یا آخری واقعہ نہیں ہے- اس سے پہلے جماعت اسلامی کے دو رہنماؤں عبدالقادر ملّا کو دسمبر 2013 اور محمد قمر الزمان کو اپریل 2010 میں پھانسی دی گئی۔ ان پھانسیوں کا جواز اور وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ 1971 کی جنگ میں ان لوگوں نے پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر قتل و غارت گری کی، حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو آج تک کسی طرف سے تو بغاوت کی لہر اُٹھتی یا پاکستان سے دوبارہ الحاق کی باتیں ہوتیں مگر یہ لوگ ہمیشہ سے پُرامن رہے اور قانون کے مطابق انتخابات میں حصّہ لیا اور سیاست کرتے رہے۔
ان پھانسیوں کے اگلے دن پاکستان کے وزیر داخلہ بہت عاجز دکھائی دیئے اور کہا کہ ہمیں ان پھانسیوں پر افسوس ہے، لہٰذا انکا یہ افسوس کرنا ہی کافی سمجھا جائے۔ دوسری طرف آپ پاکستان کی تاریخ میں دور نہ جائیں ماضی قریب میں ایک نام بہت سننے کو ملا ''شفقت حسین'' یہ کراچی کی جیل میں قید قتل کا ایک مجرم تھا جس کے گھر والے کسی طرح این جی اوز اور انسانی حقوق کی تنظیموں تک پہنچ گئے اور انہیں اپنی کہانی سنائی۔ وہ پہلے ہی تیار بیٹھے ہوتے ہیں، ایسا کچھ مواد ملنے کے، کہانی دلچسپ لگی تو اپنے تئیں جس کو کہہ سکے بہرحال کہا گیا اور تنظیموں کی حد تک اتنا عالمی دباؤ پڑا کہ ایک ملک کو ایسے مجرم کی پھانسی 3 دفعہ موخر کرنا پڑی جو اپنی زبان سے جرم کا اقرار کرچکا تھا اور دوسری طرف ہم نے بنگلہ دیش میں قائم انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے زور پر سیاسی مخالفین کی پھانسیوں پر صرف افسوس پر ہی اکتفا کیا۔
اس ٹربیونل کی جانب سے ایسا متعصبانہ رویہ اختیار کیا گیا کہ حکومت کی طرف سے 41 گواہ پیش ہوئے اور صلاح الدین کی طرف سے صرف تین گواہ پیش کرنے کی اجازت دی گئی اور ان کی پنجاب یونیورسٹی کی ڈگری اور یونیورسٹی کے ڈین تک کے بیان کو جھوٹ قرار دے کر رد کر دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ اُس وقت پنجاب یونیورسٹی میں ہی تعلیم حاصل کر رہے تھے- انٹرنیشنل ہیومن رائٹس نے بھی اپنی رپورٹ میں یہ کہا کہ اس ٹربیونل کے تحت پھانسی لگنے والے گذشتہ افراد کا ٹرائل بھی شفاف نہیں تھا بلکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھی اور بنگلا دیشی حکومت کو فوری طور پر اب ان پھانسیوں پر عمل درآمد روک دینا چاہیئے مگر جب سر پہ ناحق خون سوار ہو تو کانوں میں کس کی آواز پڑتی ہے۔
پاکستانی حکومت چاہتی تو اس معاملے کو 9 اپریل 1974 کے معاہدے کے تحت عالمی سطح پر اٹھایا جاسکتا تھا، مگر بات تو تب بنتی ہے جب ہم بہت ہی فارغ ہوں۔ ہماری پوری حکومت سڑکیں بنانے میں ہمہ تن گوش ہے، ایسی صورت میں اُسے فرصت ہی کہاں؟ حکومت کے ساتھ ساتھ جماعتِ اسلامی بھی چپ دکھائی دیتی ہے جس نے بنگلا دیشی سفارت خانے کے باہر احتجاج تک کرنا گوارہ نہیں کیا، بس اِس خبر کے بعد امیرِ جماعت نے گویا گونگلوؤں سے مٹی اتاری اور یہ بیان دے ڈالا کہ ہم اسکی مذمّت کرتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں کہنے کو تو لبرل حکومت ہے مگر کام سارے آمرانہ دور والے ہو رہے ہیں، سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دینے کا رواج بہت پرانا ہوگیا تھا مگر بنگلہ دیش میں اسے پھر دوہرایا جارہا ہے جو نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں کے دلوں میں بھی ایک دوسرے کے لئے مزید نفرت بڑھائے گا۔ بنگلا دیشی حکومت کو پاکستان سے اور کچھ نہیں تو اتنا سبق ضرور سیکھنا چاہیئے کہ ہمارے یہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو بنگلہ دیش بننے کے حق میں تھے مگر اس کے بعد آج تک نہ انہیں کسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا نہ مقدمات قائم کئے گئے، پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی کے سربراہ عمران خان نے حسینہ واجد کو اپنے خط میں یہی لکھا کہ خطّے کے امن اور مستقبل کے لئے آپکو ایسے فیصلے کرنے چاہیں جو قوموں میں ہم آہنگی کا باعث بنیں نہ کہ نفرت کا بیج بوئیں. یہ کام ہماری حکومت کے کرنے کے ہیں، لیکن اس نے چونکہ محکمہ ٹھیکیداری مطلب محکمہ تعمیرات کی جانب اپنا سارا دھیان کیا ہوا ہے، اس لئے اس کے کرنے کے کام اپوزیشن کو کرنے پڑ رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کی ترقی پر نظر دوڑائیں تو واضح نظر آتا ہے کہ اسکی موجودہ حکومت کی پالیسیز کے نتیجے میں ترقی کا گراف نہ صرف نیچے آ رہا ہے بلکہ ملک میں شدت پسندی، احتجاج اور بیروزگاری میں بھی ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ اپنے دوست بھارت کے نقشِ قدم پر چل کر ساری دنیا میں رسوا ہو، اس کی حکومت کو اپنی حکمتِ عملی پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
[poll id="791"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
22 نومبر کو بنگلہ دیش میں دو سینئر سیاستدانوں اور قانون ساز اسمبلی کے سبق ممبران کو پھانسی گھاٹ پر لٹکا دیا گیا، ان میں بنگلہ دیش کی سب سے بڑی مذہبی پارٹی جماعت اسلامی کے رہنما علی احسان مجاہد اور حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے رہنماء صلاح الدین قادر چوہدری شامل تھے۔
یہ کسی عام شہری یا کسی مقدمے میں گرفتار دہشتگرد کو نہیں بلکہ ملک کے انتہائی معتبر اور سیاسی لحاظ سے قد آور شخصیات کو تختہ دار پر لٹکایا گیا، جن میں سے ایک کا تعلق جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کی پہلے درجے کی قیادت سے تھا اور دوسرے صلاح الدین قادر چوہدری کے والد فضل قادر چوہدری سابق قائم مقام صدرِ پاکستان اور قومی اسمبلی کے اسپیکر رہے، صلاح الدین خود 6 بار بنگلہ دیش کی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور وزیرِ اعظم کے سیکرٹری بھی رہے۔
اگر کسی اور ملک میں بھی ایسا ہوتا تو اس کو اندرونی معاملہ سمجھ کر جانے دیا جاتا مگر یہاں مسئلے کی وجہ پاکستان کو بتایا جا رہا ہے اور یہ اس نوعیت کا پہلا یا آخری واقعہ نہیں ہے- اس سے پہلے جماعت اسلامی کے دو رہنماؤں عبدالقادر ملّا کو دسمبر 2013 اور محمد قمر الزمان کو اپریل 2010 میں پھانسی دی گئی۔ ان پھانسیوں کا جواز اور وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ 1971 کی جنگ میں ان لوگوں نے پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر قتل و غارت گری کی، حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو آج تک کسی طرف سے تو بغاوت کی لہر اُٹھتی یا پاکستان سے دوبارہ الحاق کی باتیں ہوتیں مگر یہ لوگ ہمیشہ سے پُرامن رہے اور قانون کے مطابق انتخابات میں حصّہ لیا اور سیاست کرتے رہے۔
ان پھانسیوں کے اگلے دن پاکستان کے وزیر داخلہ بہت عاجز دکھائی دیئے اور کہا کہ ہمیں ان پھانسیوں پر افسوس ہے، لہٰذا انکا یہ افسوس کرنا ہی کافی سمجھا جائے۔ دوسری طرف آپ پاکستان کی تاریخ میں دور نہ جائیں ماضی قریب میں ایک نام بہت سننے کو ملا ''شفقت حسین'' یہ کراچی کی جیل میں قید قتل کا ایک مجرم تھا جس کے گھر والے کسی طرح این جی اوز اور انسانی حقوق کی تنظیموں تک پہنچ گئے اور انہیں اپنی کہانی سنائی۔ وہ پہلے ہی تیار بیٹھے ہوتے ہیں، ایسا کچھ مواد ملنے کے، کہانی دلچسپ لگی تو اپنے تئیں جس کو کہہ سکے بہرحال کہا گیا اور تنظیموں کی حد تک اتنا عالمی دباؤ پڑا کہ ایک ملک کو ایسے مجرم کی پھانسی 3 دفعہ موخر کرنا پڑی جو اپنی زبان سے جرم کا اقرار کرچکا تھا اور دوسری طرف ہم نے بنگلہ دیش میں قائم انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے زور پر سیاسی مخالفین کی پھانسیوں پر صرف افسوس پر ہی اکتفا کیا۔
اس ٹربیونل کی جانب سے ایسا متعصبانہ رویہ اختیار کیا گیا کہ حکومت کی طرف سے 41 گواہ پیش ہوئے اور صلاح الدین کی طرف سے صرف تین گواہ پیش کرنے کی اجازت دی گئی اور ان کی پنجاب یونیورسٹی کی ڈگری اور یونیورسٹی کے ڈین تک کے بیان کو جھوٹ قرار دے کر رد کر دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ اُس وقت پنجاب یونیورسٹی میں ہی تعلیم حاصل کر رہے تھے- انٹرنیشنل ہیومن رائٹس نے بھی اپنی رپورٹ میں یہ کہا کہ اس ٹربیونل کے تحت پھانسی لگنے والے گذشتہ افراد کا ٹرائل بھی شفاف نہیں تھا بلکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھی اور بنگلا دیشی حکومت کو فوری طور پر اب ان پھانسیوں پر عمل درآمد روک دینا چاہیئے مگر جب سر پہ ناحق خون سوار ہو تو کانوں میں کس کی آواز پڑتی ہے۔
پاکستانی حکومت چاہتی تو اس معاملے کو 9 اپریل 1974 کے معاہدے کے تحت عالمی سطح پر اٹھایا جاسکتا تھا، مگر بات تو تب بنتی ہے جب ہم بہت ہی فارغ ہوں۔ ہماری پوری حکومت سڑکیں بنانے میں ہمہ تن گوش ہے، ایسی صورت میں اُسے فرصت ہی کہاں؟ حکومت کے ساتھ ساتھ جماعتِ اسلامی بھی چپ دکھائی دیتی ہے جس نے بنگلا دیشی سفارت خانے کے باہر احتجاج تک کرنا گوارہ نہیں کیا، بس اِس خبر کے بعد امیرِ جماعت نے گویا گونگلوؤں سے مٹی اتاری اور یہ بیان دے ڈالا کہ ہم اسکی مذمّت کرتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں کہنے کو تو لبرل حکومت ہے مگر کام سارے آمرانہ دور والے ہو رہے ہیں، سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دینے کا رواج بہت پرانا ہوگیا تھا مگر بنگلہ دیش میں اسے پھر دوہرایا جارہا ہے جو نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں کے دلوں میں بھی ایک دوسرے کے لئے مزید نفرت بڑھائے گا۔ بنگلا دیشی حکومت کو پاکستان سے اور کچھ نہیں تو اتنا سبق ضرور سیکھنا چاہیئے کہ ہمارے یہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو بنگلہ دیش بننے کے حق میں تھے مگر اس کے بعد آج تک نہ انہیں کسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا نہ مقدمات قائم کئے گئے، پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی کے سربراہ عمران خان نے حسینہ واجد کو اپنے خط میں یہی لکھا کہ خطّے کے امن اور مستقبل کے لئے آپکو ایسے فیصلے کرنے چاہیں جو قوموں میں ہم آہنگی کا باعث بنیں نہ کہ نفرت کا بیج بوئیں. یہ کام ہماری حکومت کے کرنے کے ہیں، لیکن اس نے چونکہ محکمہ ٹھیکیداری مطلب محکمہ تعمیرات کی جانب اپنا سارا دھیان کیا ہوا ہے، اس لئے اس کے کرنے کے کام اپوزیشن کو کرنے پڑ رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کی ترقی پر نظر دوڑائیں تو واضح نظر آتا ہے کہ اسکی موجودہ حکومت کی پالیسیز کے نتیجے میں ترقی کا گراف نہ صرف نیچے آ رہا ہے بلکہ ملک میں شدت پسندی، احتجاج اور بیروزگاری میں بھی ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ اپنے دوست بھارت کے نقشِ قدم پر چل کر ساری دنیا میں رسوا ہو، اس کی حکومت کو اپنی حکمتِ عملی پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
[poll id="791"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔