ترقی پسندی کی مخالفت
رجعت پسند عناصر زلزلوں، سیلاب، طوفانوں، وبائی امراض کو اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا سمجھتے ہیں
1936-1935 میں جب سجاد ظہیر نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے انجمن ترقی پسند مصنفین تشکیل دی تو اس وقت دنیا کو پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کا سامنا تھا۔ دنیا بھر میں نوآبادیاتی نظام مضبوط تھا، ہندوستان بھی اسی نوآبادیاتی نظام میں جکڑا ہوا تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین متحدہ ہندوستان میں ترقی پسند مصنفین کا ایک ایسا پلیٹ فارم تھا، جہاں سے ادیب اور شاعر ہندوستان کے عوام میں محبت اور مذہبی یکجہتی کے فروغ کے لیے کوشاں تھے۔
ان ادیبوں اور شاعروں میں ہندو بھی تھے مسلمان بھی سکھ بھی مذہب کے اس فرق کے باوجود یہ ادیب اور شاعر ہر اس بات کی مخالفت کرتے تھے جو عوامی مفادات کے خلاف ہوتی تھی ۔ انجمن کے قیام سے پہلے ایک طویل دور ادب برائے ادب کا تھا۔ انجمن نے ادب برائے زندگی کا ایک نیا فلسفہ پیش کیا اور ادب رومانی گھاٹیوں اور تاریخی کہانیوں سے نکل کر زندگی کے مکروہ حقائق کے میدانوں میں آگیا۔
رجعت پسند عناصر لفظ ترقی پسندی سے اس قدر الرجک تھے کہ اس کے خلاف منظم مہم پر اتر آئے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ حضرات زندگی کی تلخ حقیقتوں سے نظریں چراتے تھے حالانکہ ترقی پسندی اور رجعت پسندی میں فرق صرف اتنا تھا کہ رجعت پسند مفروضات پر یقین رکھتے تھے اور ترقی پسند حقائق پر یقین رکھتے تھے۔
مثلاً رجعت پسند عناصر زلزلوں، سیلاب، طوفانوں، وبائی امراض کو اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا سمجھتے ہیں اور ترقی پسند زلزلوں کو زیر زمین ہونے والی ہلچل کا نتیجہ مانتے ہیں۔ رجعت پسند سیلابوں، طوفانوں، وبائی امراض کو بھی آسمان سے نازل ہونے والی بلائیں سمجھتے تھے اور ترقی پسند اس کی مادی وجوہات پر یقین رکھتے تھے کہ سمندری طوفان کیوں بنتے ہیں۔ سیلابوں کی وجوہات کیا ہوتی ہیں اور وبائی بیماریوں کے پھیلنے کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔
اسی طرح ماضی ہی میں نہیں حال میں بھی غربت، بھوک اور افلاس کو رجعت پسند عناصر تقدیرکا لکھا سمجھتے ہیں اور ترقی پسند ان مظالم کو ہمارے اقتصادی نظام کی دین مانتے ہیں۔ آج دنیا کے نوے فیصد عوام دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہیں اور ان عوام میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ان مصائب کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں جب کہ ترقی پسند ان مصائب اور مظالم کو سرمایہ دارانہ نظام کے غیر منصفانہ مظاہر سمجھتے ہیں۔
ترقی پسند لوگ اس معاشی ناانصافی کے خلاف عوام کو علم بغاوت بلند کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور تقدیر پرست ان مظالم کو تقدیرکا لکھا کہہ کر قبول کرلیتے ہیں ان مظالم کے خلاف جدوجہد اور بغاوت کو تقدیر کے خلاف جدوجہد اور بغاوت سمجھتے ہیں اور اسے خدا کی نافرمانی کا نام دیتے ہیں۔ اس فکرکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام سرمایہ دارانہ نظام کے عطا کردہ ان مظالم کے خلاف جدوجہد کے بجائے اسے خدا کی مرضی سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔
ترقی پسند ادب نے انسانوں کو ان مفروضات سے نکال کر حقائق کو سمجھنے اور ان مظالم کے خلاف لڑنے کی ترغیب فراہم کی اب عوام آہستہ آہستہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ غربت و افلاس تقدیر کے عطیے نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہیں۔ آج ساری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک شدید اضطراب موجود ہے اور وہ بڑھتا اور پھیلتا جا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست عوام میں بڑھتے ہوئے اضطراب سے سخت خوفزدہ اور پریشان ہیں اور عوام کی توجہ سرمایہ دارانہ نظام کی حشر سامانیوں سے ہٹانے کی ترکیبیں سوچ رہے ہیں۔
افغانستان اور پاکستان سے شروع ہونے والی مذہبی انتہا پسندی اب تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ترقی یافتہ ملکوں تک پہنچ رہی ہے۔ آج امریکا کا صدرکہہ رہا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی اب دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔بلاشبہ دہشت گردی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن گئی ہے اور عوام کی توجہ کا مرکز بھی بن گئی ہے ۔
ترقی پسند طاقتیں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی عوام کی توجہ سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم اور معاشی ناانصافیوں سے عوام کی توجہ ہٹانے اوردنیا بھر کے عوام میں معاشی ناانصافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اضطراب کو کم کرنے کی ایک عیارانہ کوشش بھی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عوام میں یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ داعش، طالبان اور اس قسم کی درجنوں تنظیمیں دنیا بھر میں اسلام کے نفاذ کی کوششیں کر رہی ہیں اور اس خیال کی حمایت نام نہاد دانشور اور قلم کارکر رہے ہیں کہ اب دنیا پر مسلمانوں کا قبضہ ہوجائے گا۔
سامراجی ملکوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے لیے مذہبی انتہا پسندوں کو استعمال کیا۔ جس کی تازہ مثال افغانستان سے روس کو نکالنے میں مذہبی انتہا پسندوں کا استعمال ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن امریکا ہی کی پیداوار تھا، امریکا نے لادن کو روس کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور جب اسے اسامہ کی ضرورت نہیں رہی تو اسے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ایک سیکریٹ دفاعی کارروائی میں قتل کردیا۔ یہی حال ہمارے سابق فوجی حکمران ضیا الحق کا کیا گیا جب روس کو افغانستان سے نکالنے کا کام ضیا الحق سے لیا گیا تو اس کی ضرورت باقی نہیں رہی اسے فضا ہی میں جلادیا گیا۔
مذہبی انتہا پسند طاقتیں مغربی ملکوں کی بالادستی ختم کرکے ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنا چاہتی ہیں۔ عوام میں اس قسم کا بے معنی تاثر پھیلانے کے وقت انھیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ یہ دہشت گرد پاکستان، افغانستان، عراق، شام، مالی، نائیجیریا سمیت کئی مسلم ملکوں میں مسلمانوں ہی کو قتل کر رہے ہیں۔
صرف پاکستان میں اب تک 50 ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے عراق، شام وغیرہ میں معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کو فقہی اختلافات کے نام پر ذبح کیا جا رہا ہے، مذہبی انتہا پسندوں کی اس بربریت سے ساری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا نام بدنام ہو رہا ہے اور دنیا کے عوام اسلام کو ایک بے لگام دہشت گردی کا نظام سمجھ رہے ہیں، اس تیر سے سامراجی ملک دوشکارکر رہے ہیں ایک یہ کہ دنیا بھر کے عوام کی توجہ سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم سے ہٹائی جا رہی ہے۔
دوسرے مذہب اسلام کو بدنام کیا جا رہا ہے کیونکہ سامراجی ملک مسلم ملکوں کے قدرتی وسائل اور افرادی قوت کو اپنے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔رجعت پسند قلم کار مذہبی انتہا پسندوں کو مسلمانوں کے نجات دہندہ اور دنیا پر مسلمانوں کی بالادستی قائم کرنے والے بھی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ترقی پسند طاقتیں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو سامراجی ملکوں کی سازش سمجھ رہے ہیں جس کا مقصد مسلم ملکوں میں انتشار پیدا کرنا اور مسلم ملکوں کو سائنس، ٹیکنالوجی اور جدید علوم سے دور رکھنا ہے۔