ندیم صدی کا آغاز
لیکن اس کے بارے میں مزید بات کرنے سے قبل ایک خوشگوار حیرت کا ذکر ضروری ہے
کچھ عرصہ قبل محبان احمد ندیم قاسمی کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ 20 نومبر 2015ء سے ان کا ایک سواں سال پیدائش شروع ہوجائے گا، سو اس کی رعایت سے 20 نومبر 2016ء تک کے پورے سال میں ان کے نام اور کام سے متعلق ''ندیم صدی'' کے زیر عنوان خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا ۔
جن کی تفصیلات ایک خصوصی مشاورتی کمیٹی طے کرے گی جن کو اس سال 20 نومبر کو ادارہ ''بیاض'' کے زیر اہتمام ہونے والی ایک خصوصی تقریب میں محبان ندیم اور دنیا بھر کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اس پروگرام میں معمولی سی تبدیلی یوں کرنا پڑی کہ 20 نومبر کو ہی فیض صاحب کا یوم وفات پڑتا ہے اور یوں مناسب نہیں لگتا تھا کہ دونوں تقاریب ایک ہی دن ہوں لہٰذا اب یہ تقریب 26 نومبر کو الحمرا ہال III میں ہوگی۔
لیکن اس کے بارے میں مزید بات کرنے سے قبل ایک خوشگوار حیرت کا ذکر ضروری ہے اور وہ یہ کہ ادارہ بیاض کے سربراہ خالد احمد مرحوم کے برادر نسبتی اور ندیم صاحب سمیت ہم سب کے محترم عزیز عمران منظور نے (جو ندیم کمیٹی کے بھی اہم رکن ہیں) اپنی رہائشی کالونی (ای ایم ای جسے DHA XII بھی کہا جاتا ہے) کے کار پردازان میجر ضیاء الاسلام اور لیفٹیننٹ کرنل ظفر خان نیازی سے بات کی کہ کیوں نہ یہاں کی کسی سڑک کا نام بھی قاسمی صاحب کے نام پر رکھ دیا جائے کہ یہ ایک صائب اور قابل تعریف عمل ہوگا۔
ان دوستوں نے نہ صرف ان کے مشورے پر عمل کیا بلکہ اسے پلّے باندھتے ہوئے ایک ایک سڑک فیض صاحب، منیر نیازی، اشفاق احمد اور اس خاکسار کے نام بھی کردی جب کہ عطاء الحق قاسمی کے نام کی سڑک پہلے سے موجود تھی۔ انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں بلکہ ای ایم ای میں واقع تمام گلیوں، سڑکوں، پارکس، چوکوں اور مارکیٹوں کے نام بھی وطن عزیز کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نامور ہستیوں، عالم اسلام کے عظیم اکابرین اور پاکستان کے مختلف صدیوں کی تاریخی اور ثقافتی پہچانوں کے نام پر رکھنے کا فیصلہ کیا۔
سو اس نواح میں آپ کو ہر طرف اپنی قومی اور ملّی شناخت قدم قدم پر نظر آئے گی جو ایک بہت اہم، دوررس اور تخلیقی نوعیت کا اقدام ہے۔ دیکھا جائے تو اصل میں یہ لاہور شہر کی انتظامیہ پنجاب حکومت اور حکومت پاکستان کا کام تھا کہ وہ احمد ندیم قاسمی جیسے مشاہیر کے نام پر کچھ یادگاروں کا اہتمام کرتی مگر قدرت نے شائد یہ سعادت ای ایم ای سوسائٹی کے نام ہی لکھ رکھی تھی کہ انھیں سب سے پہلے یہ قابل تعریف کام کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔
جب عمران منظور کی وساطت سے یہ خبر مشاورتی کمیٹی کے دیگر ارکان تک پہنچی تو باہمی مشورے سے یہ طے کیا گیا کہ 26 نومبر کے رسمی افتتاح سے قبل اس خبر کی رعائت سے ای ایم ای سوسائٹی کے اندر اور متعلقہ سڑک سے قریب تر کسی جگہ پر ایک اضافی تقریب کا اہتمام کیا جائے۔ یہاں بھی کرنل ضیا الاسلام اور کرنل ظفر نیازی بازی لے گئے اور ہمیں اس کے لیے کلب ایریا کے اندر ایک بہت خوب صورت گوشے کی پیش کش کردی جسے اگر سونے پر سہاگہ کیا جائے تو غیر مناسب نہ ہوگا۔
ایکسپریس سمیت تمام اہم ٹی وی چینلز کی ٹیمیں کوریج کے لیے موجود تھیں سہ پہر کی ڈھلتی ہوئی خوشگوار دھوپ میں سوسائٹی کے افسران اور محبان ندیم کی ایک معقول تعداد فاصلے کی طوالت اور ٹریفک کی دشواریوں کے باوجود وقت پر پہنچ گئی ۔ بانو آپا (بانو قدسیہ) کئی ماہ بعد خاص طور پر اس تقریب کے لیے گھر سے نکلی تھیں۔
ان کی صحت، یادداشت اور روانی گفتار پر تو ان کی عمر اور اشفاق صاحب سے جدائی کا اثر پڑا ہے لیکن اپنے چاہنے والوں اور عقیدت مندوں سے ان کی محبت اورشفقت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابقہ چیف جسٹس ریاض احمد شیخ اور بشریٰ رحمن بھی پہنچ گئیں۔
بے حد مختصر چند ابتدائی تقریروں کے بعد مہمانوں کو ہائی ٹی پیش کی گئی اور پھر یہ سارا قافلہ باری باری تمام متعلقہ سڑکوں پر تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے رکتا ہوا احمد ندیم قاسمی لین پر پہنچا جہاں ان کے نام کی پلیٹ کے پیش منظر میں سب سے پہلے قاسمی صاحب کے بیٹے لقمان، بیٹی ڈاکٹر ناہید قاسمی اورنواسے ؟؟؟ (جو اب قاسمی صاحب کے ''فنون'' کو سنبھالے ہوئے ہیں) کی تصویریں اتاری گئیں اور اس کے بعد مختلف گروپس کی شکل میں تمام حاضرین اس خوشگوار تجربے سے بہرہ مند ہوئے۔
لیکن اس سے پیشتر کہ سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوتے ٹی وی کیمرہ ٹیموں کو اپنے اپنے دفتروں سے جمیل الدین عالی صاحب کی وفات کی خبر مل گئی جو ہم سب کے لیے انتہائی دکھ کا باعث تھی کہ عالی جی اپنی متنوع حیثیات اور خصوصیات کے ساتھ ساتھ احمد ندیم قاسمی مرحوم بھی عزیز ترین دوستوں میں سے تھے اس کے ساتھ ہی ہمارے تعزیتی پیغامات کی ریکارڈنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا جو خاصی دیر تک جاری رہا اور یوں گھر واپسی کے سفر میں دونوں بزرگوں کی یادیں آپس میں گڈمڈ ہوتی رہیں۔
''ندیم صدی'' کی تقریبات وطن عزیز کے تمام حصوں میں تو آیندہ پورے سال میں جاری رہیں گی ہی مگر ان کے ساتھ ساتھ دنیا کے وہ تمام علاقے بھی شامل ہوں گے جہاں اردو بولنے، سمجھنے اور پڑھنے والے لوگ معقول تعداد میں موجود ہیں۔ ایک ابتدائی جائزے کے مطابق بھارت، امریکا، برطانیہ، مشرق وسطیٰ کے ممالک، سعودی عرب، آسٹریلیا، جاپان، چین، ہانگ کانگ، سنگاپور تو اس فہرست میں شامل ہیں ہی اور وہاں کے محبان ندیم بھی رابطے میں ہیں۔ لیکن کئی اور ممالک کے ادب نواز اور اردو دوست بھی بے حد دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں سو امید کی جاسکتی ہے کہ ''ندیم صدی'' کا دائرہ ہمارے طے کردہ وسیع پروگراموں سے بھی بڑا ہوجائے گا۔ اس موقع پر مجھے قاسمی صاحب کا ہی ایک شعر بے طرح یاد آرہا ہے کہ
وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشت انساں پر
کسی بھی شہر میں جاؤں، غریب شہر نہیں
ندیم صدی کی یہ تقریبات اس اعتبار سے بھی اہم ہیں کہ جو قوم اپنے محسنوں اور مشاہیر کو یاد رکھتی ہے اس پر وقتی زوال تو آسکتا ہے کہ یہ قانون فطرت ہے مگر وہ ہر طرح کے امتحان سے بخوبی گزر بھی جاتی ہے۔ قاسمی صاحب عظمت انسانی کے رجز خوان تو تھے ہی مگر ان کے قلب و ذہن اور قلم تینوں کے تینوں پاکستان کی محبت میں اس طرح سے ڈوبے ہوئے تھے کہ ان کے صبح و شام اسی دعا کے سائے میں گزرتے تھے کہ ان کی ارض پاک پر وہ فصل گل ظہور پذیر ہو جسے اندیشہ زوال نہ ہو اور جس کے ایک بھی فرد کے لیے حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو۔