پاکستان کا سب سے کامیاب کاروبار نفرت
پاکستان میں گذشتہ ستر سال سے جس فصل کی بہت زیادہ بوائی، کٹائی اور گہائی کی جاتی رہی ہے
پاکستان میں گذشتہ ستر سال سے جس فصل کی بہت زیادہ بوائی، کٹائی اور گہائی کی جاتی رہی ہے وہ نفرت کی وہ فصل ہے کہ دنیا میں چاہے کچھ بھی ہو کوئی آسمان پر چڑھے یا آسمان میں اڑے، لیکن یہ زہریلی فصل روز بروز لہلہاتی چلی جا رہی ہے اس کا بیج کہاں سے آیا ہے کس نے اسے بویا اور کون اس کی گوڈی، نلائی اور کھادی کر رہا ہے اگرچہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے لیکن بتا نہیں سکتے کیوں کہ ڈر ہے کہ کہیں یہ زہریلی امربیل ہمیں ہی لاحق نہ ہو جائے، پچھلے دنوں ہم ایک بوٹانیکل ماہر کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے بات زہریلی جڑی بوٹیوں کی ہو رہی تھی۔
1اس ماہر نے بتایا کہ پاکستان اور پھر خاص طور پر کے پی کے پر اس وقت جو سخت خطرہ منڈلا رہا ہے وہ ایک بالکل ہی بے ضرر نظر نہ آنے والی بوٹی کی طرف سے ہے جو کچھ عرصہ قبل شاید گندم کے ساتھ بیج کی صورت میں آگئی ہے یہ خطرناک بوٹی کھیتوں اور فصلوں کے علاوہ ہر جگہ بے تحاشا اگ رہی ہے اس کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک پودا ایک لاکھ بیج پیدا کرتا ہے لیکن بیج کے ساتھ ساتھ اس کی جڑیں بھی اگتی ہیں بالکل ہی خشک بارانی صحرائی زمین میں بھی اگتی ہیں، بڑھتی ہیں اور تباہی نازل کرتی ہیں اور پانی کے قرب و جوار میں بھی خوب اگتی اور پنپتی ہیں، جانور اسے نہیں کھاتے لیکن یہ جانوروں کو طرح طرح کے امراض کی صورت میں بے تحاشا کھا رہی ہے، جانوروں کا چارہ تباہ کرتی ہے۔
انسانوں اور حیوانوں کو الرجی لاحق کرتی ہے، دمہ پیدا کرتی ہے اور کھیتوں کے کھیت چند سال میں اجاڑ کر رکھ دیتی ہے، ماہر نے جب اس کی تباہ کاریاں بیان کیں تو آخر میں بولے کہ ہم نے کئی بار حکومت کی توجہ اس زرعی سلو پوائزن کی طرف دلائی ہے لیکن کوئی نوٹس ہی نہیں لے رہا ہے، مجھے ڈر ہے کہ چند سالوں میں یہ ہماری فصلوں اور لائیو اسٹاک کو کھا جائے گی، ساری بات سن کر ہم نے عرض کیا کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا نفرتوں کی اس فصل سے بھی زیادہ خطرناک ہے جس نے ہمارے معاشرے کی رگ رگ میں سرایت کر کے اسے زہریلا بنایا ہوا ہے۔
وہ سمجھے نہیں تو ہم نے وضاحتاً بتایا کہ نفرتوں کی جو فصل اس وقت اس ملک میں لہلہا رہی ہے اس نے بھی ویسا ہی کچھ ذہنوں کے ساتھ کیا ہوا ہے جیسا آپ کی بتائی ہوئی آسٹریلین بوٹی نے زراعت اور کھیتوں کے ساتھ کیا ہوا ہے، وہ بوٹی تو صرف کھیتوں میں اگتی ہے لیکن نفرت کی یہ بوٹی ہر جگہ، ہر مقام پر اگ رہی ہے۔
گملوں میں، کیاریوں میں، پارٹیوں میں، مدرسوں میں، مسجدوں میں، دفتروں میں، گھروں میں، تقریروں میں، تحریروں میں، ہواؤں میں، فضاؤں میں جہاں کہیں دیکھئے دوریاں، نفرتیں، دراڑیں، علیحدگیاں، برتریاں کمتریاں اگائی جا رہی ہیں کیوں کہ کچھ لوگوں کے مقاصد کے لیے چھوٹے چھوٹے دائرے چھوٹی چھوٹی لکیریں اور چھوٹے چھوٹے خانے ضروری ہوتے ہیں کیوں کہ نفرتوں کے یہ بیج وسیع میدانوں اور کھلے کھلے مقامات پر نہیں اگتے۔
بلکہ چھوٹی چھوٹی دائرہ بندیوں میں اگتے ہیں اور خوب پھلتے پھولتے ہیں اور اسی نفرت، علیحدگی اور توڑنے کے ڈانڈے بہت دور اس مقام تک پہنچتے ہیں جب ایک خبیث ہستی نے رب عظیم کی مخلوقات میں ایک ساتھ سجدہ ریز ہونے کے بجائے برتری اور کمتری کا بیج بویا، اس نے بڑا بول بولتے ہوئے کہا کہ میں آگ سے بنا ہوں اس لیے برتر ہوں پھر میں مٹی سے بنے ہوئے آدم کو سجدہ کیوں کروں اور یہ بھول گیا کہ آخر آگ مٹی سے برتر کیوں ہے کہ آگ کا تو کوئی وجود ہی نہیں ہوتا، اگر مٹی سے پیدا ہونے والا ایندھن نہ ہو تو اس کا زندہ رہنا ہی ناممکن ہے جب آگ اپنے زندہ رہنے کے لیے زمین اور مٹی کی محتاج ہے دریوزہ گر ہے بھکاری ہے تو برتری کیا معنی، کیا کوئی بھک منگا کسی بھیک دینے والے سے برتر ہو سکتا ہے اور پھر آگ کا تو سرے سے اپنا کوئی وجود ہی نہیں ہے بلکہ زمین سے پیدا ہونے والی اشیاء کے رگڑ سے تو یہ پیدا ہوتی ہے بلکہ یوں کہئے کہ زمینی اشیا ہی اس کے ماں باپ ہوتے ہیں۔
آکسیجن کا تعلق بھی تو زمین سے ہوتا ہے گویا زمینی اشیاء کے درمیان ہونے والے کیمیائی عمل کا نام آگ ہے اس سے کسی وجود کا بن جانا تو ایک طرف اس کا شعلہ ایندھن کے بغیر زندہ بھی نہیں رہ سکتا، لیکن برتری جتانے والے ہمیشہ ہی کسی ایسی جھوٹی بات یا جھوٹے زعم پر اپنے تکبر اور غرور کی عمارت تعمیر کرتے ہیں اس کے بعد بھی جب کہیں برتری اور کمتری کا سلسلہ چلا ہے تو برتری کے مدعیوں کے پاس ایسے ہی جھوٹے اور بے بنیاد دعوے رہے ہیں کہیں پر برتر نسل کے دعوے تو کہیں برتر زبان، برتر قوم، برتر خاندان یا برتر مالی پوزیشن کے دعوے تھے۔
منو مہاراج نے ہند میں جو ذات پات کا نظام وضع کیا اس کی بنیاد کیا تھی سب سے کمتر حقیر اور تقریباً جانور سمجھے جانے والے شودر کون تھے وہی ہندوستان کے اصل اور جدی پشتی لوگ تھے جن کی امن پسندی سے فائدہ اٹھا کر آریوں نے انھیں زیر کیا تھا اس سے پہلے وہی ہندوستان کے مالک تھے لیکن تلوار کے زور پر لوٹ مار کرنے والے آریاؤں نے انھیں مغلوب کیا تو ان کو ''کمتر'' اور محکوم بنا دیا، حالاں کہ دونوں کی اصل پوزیشن یہ تھی کہ وہ گھر کے مالک تھے اور آریا ڈاکو اور لٹیرے۔ ابتداء میں صرف تین ہی ذاتیں تھیں، کھشتری جن کے ہاتھ میں تلوار تھی اور اصل برتر ان کی ذات نہیں بلکہ ہتھیار تھے۔
''ویش'' کا مقام دوسرے پیشہ وروں کو دیا اور خود کو حکم ران اعلیٰ و برتر کہا ۔ آریا لفظ کے معنی ہی شریف، نجیب، اعلیٰ، برتر اور بلند ہو گئے، وہ تو بعد میں جب کھشتریوں کو احساس ہوا کہ صرف جسم تو تلوار سے فتح کیے جا سکتے ہیں لیکن انسان اب ایک ذہن کا مالک بھی ہو رہا تھا اور اس ''ذہن'' کو مغلوب کرنے کے لیے کسی اور ہتھیار کی ضرورت تھی، چنانچہ انھوں نے برھمن کو اپنا حصہ دار بنایا جس کے ہاتھ میں پوتھی تھی اور سر پر دیوتاؤں کی چھتر چھایا ۔ لیکن اپنی تمام دعوٰئے برتری کے باوجود یہ دونوں ویش اور شودروں کے محتاج تھے جو بوتے تھے بناتے تھے اور پیدا کرتے تھے۔
گویا ان ''برتر اور اعلیٰ'' لوگوں کے پالن ہار وہی تھے کیوں کہ خود تو یہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے تھے، ظاہر ہے کہ برتر کون ہوا کھلانے والا یا مفت کی کھانے والا۔ آج کی دائرہ بندیوں پر بھی نظر ڈالیے جتنے بھی لوگ نفرت پھیلاتے ہیں ان کے پاس برتری جتانے کا کوئی نہ کوئی جھوٹا اور غیر حقیقی دعویٰ ہوتا ہے، کسی کے اجداد نے اپنے وقت میں عبادتیں کی ہیں اور آج ان کی اولادیں دنیا جہاں کی برائیوں کے باوجود ایک برتر استھان پر بیٹھیں ہیں، کسی نے خود پارسائی کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے، کسی کو اپنے عقیدے اور نظریئے کی حقانیت کا دعویٰ ہے کسی کو اپنے مسلک کے برگزیدہ ہونے کا دعویٰ ہے، کوئی اپنی جائیدادوں کے بل پر اعلیٰ بنے ہوئے ہیں جو زیادہ تر ان کے اجداد کی غداریوں اور برادر کشی کا انعام ہیں، حکومتوں کی غلامی خدمت اور وفاداری میں ملی ہوئی ان جاگیروں میں عوام کا خون صاف جھلک رہا ہے۔
اگر آج یہ زمینیں جاتی رہیں تو ان کی اپنی ذات میں کیا برتری اور صفت باقی رہ جائے گی، کہیں پر پیشے دعویٰ برتری کی بنیاد ہیں تو کہیں پر مال و زر جو ہر لحاظ سے ناجائز اور حرام ہی ہوتا ہے لیکن نفرتوں کے سوداگر زیادہ تر وہی لوگ ہوتے ہیں جو بڑے دائرے میں آگے بڑھ نہیں پاتے تو اس میں چھوٹے چھوٹے دائرے بنا کر اپنی برتری کی تسکین کر دیتے ہیں، پاکستان میں ایسی کون سی چھوٹی بڑی دینی یا سیاسی جماعت ہے جسے یہ دعویٰ نہ ہو کہ وہ عوام اور جمہوریت کے علمبردار ہیں اگر ایسا ہے تو پھر اکٹھے کیوں نہیں ہو جاتے؟ لیکن ایسے میں تو کچھ لوگوں کا اپنا ''بے وجود وجود '' گم ہو جائے گا جب کہ چھوٹے دائرے میں وہی سب کچھ ہوتے ہیں۔
تا زندگی امیر تا زندگی صدر تا زندگی چیئرمین تا زندگی اپنے دائرے کے ''عقل کل'' ... اور اس کے لیے ضروری ہے کہ جی بھر کر نفرتیں پھیلائی جائیں اپنے کو برتر اور دوسرے کو کم تر ثابت کیا جائے ، سب کو غلط اور خود کو صحیح کہا جائے، سب کو چور ڈاکو گناہ گار کافر اور گمراہ وغیرہ کہا جائے اور خود کو ''کوثر و تسنیم'' کا دھلا ہوا فرشتہ قرار دیا جائے، لیکن ''فرشتہ'' تو ابلیس بھی تھا جو نفرت کا علمبردار ہو کر فرشتہ تو کیا کچھ بھی نہ بن سکا، چنانچہ آج ہمارے معاشرے میں ایک بھی کوئی چیز نہیں ہے جس پر سب متفق ہوں ہر کسی کی اپنی اپنی ڈفلی ہے اور اپنا اپنا راگ ... جس سے کوئی نغمہ کوئی دھن تو پیدا نہیں ہورہا ہے البتہ شور شرابا بے تحاشا پیدا ہو رہا ہے۔