بلوچستان میں سول سوسائٹی کا اُبھار
ہر سماج کی طرح قبائلی سماج کی بھی اپنی ہی مبادیات ہوتی ہیں۔ اس کے تقاضے اور مظاہر بھی مختلف ہوتے ہیں۔
LONDON:
وہ جو بزرگوں نے نیم حکیم و نیم ملا کو خطرہ قراردیا تھا، اُس میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ 'نیم' ہونا دراصل کسی بھی معاملے میں خطرناک ہو سکتا ہے۔ جیسے انسان نیم مرد یا نیم عورت ہو تو اس کی نہ صرف صنف کا تعین مشکل ہو جاتا ہے، بلکہ سماج کے لیے وہ عضو معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح سماج بھی اگر نیم شہری یا نیم دیہی ہو تو ایسی ہی پیچیدگیوں کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے جیسے پاکستانی سماج ہے۔ اس کی نسبت بلوچستان نیم قبائلی، نیم جاگیرداری سماج ہے۔
ہر سماج کی طرح قبائلی سماج کی بھی اپنی ہی مبادیات ہوتی ہیں۔ اس کے تقاضے اور مظاہر بھی مختلف ہوتے ہیں۔ قدیم قبائلی سماج، قدیم کمیون سسٹم کا ایک زبردست نمونہ رہا ہے، مگر جدید بننے کی خواہش میں اس کی شکل ہی بدل کر رہ گئی ہے۔ جدیدیت کی در آنے والی بدعتوں نے نہ اس کی خالص قبائلیت کو زک پہنچائی تو وہیں اپنی فطری سست روی کے باعث یہ فوری طور پر جدید شہری سماج بھی نہ بن سکا۔ یوں ایک سماجی حیثیت سے دوسری سماجی حیثیت کا عبوری دور نصف صدی سے جاری ہے اور ہم ایک عرصے سے نیم قبائلی، نیم جاگیرداری، نیم دیہی و نیم شہری انداز میں اپنے معمولات گزار رہے ہیں۔ یہ نیم پن ہر لحاظ سے ہمارے لیے خطرناک و نقصان دہ رہا ہے۔
نیم قبائلیت کا نقصان یہ ہوا کہ سماج نہ تو پوری طرح قبائلی رہا، نہ جدید بن سکا۔ یوں قبائلی اقدار جدیدیت سے اور جدید اقدار' قبائلی رواج سے الجھتی رہیں۔ نئے اور پرانے کے مابین کی کشمکش نے ہمیں باہم ایک دوسرے سے الجھائے رکھے۔ اس الجھن میں ہم سماج کے حقیقی مسائل سے بے بہرہ رہے۔ باہمی بھائی چارے کی بجائے، باہمی عداوت پروان چڑھتی رہی۔ اسی طرح نیم دیہی و نیم شہری کے تضادات بھی ایک دوسرے سے ٹکراتے رہے۔ اس ٹکراو ٔکا نقصان ظاہر ہے سماج کے رہنے والوں کو ہی سہنا تھا۔
کم آبادی دنیا بھر میں وسائل کی منصفانہ و بہتر تقسیم کا سبب ہے، مگر آبادی کی قلت ہمارے لیے ایک اور عذاب ثابت ہوئی۔ آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم والے خطے میں، کم آبادی کے سیاسی مضمرات اپنی جگہ، سماجی سطح پر بھی اس کے نقصانات اٹھانے پڑے۔ بالخصوص بلوچستان کے طویل اور پیچیدہ جغرافیے نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔
ابھی ایک دَہائی قبل، سیل فون اور جدید ذرایع ابلاغ کی یہاں آمد سے قبل رسل و رسائل کا اہم ذریعہ روایتی خط و کتابت ہی ہوا کرتی تھی۔ بلوچستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا زمینی فاصلوں گھنٹوں نہیں، دنوں پر محیط ہے۔ اسی پیچیدہ جغرافیے نے ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی 'علاقائی' بنا کر رکھدیا۔ حتیٰ کہ آج بھی کوئی بھی سیاسی جماعت پورے بلوچستان کی نمایندہ سیاسی جماعت کہلوانے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ دعویٰ کر بھی دے تو عملاً اسے ثابت نہیں کر سکتے۔
پھر بلوچستان کے مسلسل جوار بھاٹے میں رہنے والے سیاسی حالات نے بھی ایک اور خلا کو جنم دیا۔ کٹھن سیاسی حالات نے سیاسی جماعتوں کے لیے یہ گنجائش ہی نہ چھوڑی کہ وہ دیگر عمومی عوامی مسائل کی جانب توجہ کر سکیں۔ سیاسی جماعتوں کی توجہ یا تو بلوچستان کے اہم ترین سلگتے سیاسی مسائل پہ مرکوز رہی، یا پھر تمام تر توانائی اقتدار کی غلام گردشوں کا حصہ بننے پر خرچ ہوتی رہی۔ ہمارا روایتی سردار اور جاگیردار بھی کرپٹ و پُرتعیش پارلیمانی نظام کا حصہ بننے کے بعد عوام سے مکمل طور پر کٹ کر رہ گیا۔
اس کی رہی سہی عوامی زندگی، پارلیمانی سیاست کی تعیشات و مراعات نے کھا لی۔ یوں عوام اور ان کے عمومی مسائل، صحت، تعلیم، روزگار، اغوا، تھانہ، کچہری، روڈ، نالی، احتجاج، سیاست سے خارج ہو گئے۔ بلوچستان کو ایک ایسے پہاڑ جیسے سیاسی مسئلے کے سامنے لا کھڑا کیا گیا، کہ جس کے سامنے یہ چھوٹے چھوٹے نظر آنے والے چشمے اوجھل ہو کر رہ گئے۔ اس مظہر نے ایک خلا کو جنم دیا اور خلا کہیں بھی مستقل نہیں رہتا، اس نے بالآخر پُر ہونا ہوتا ہے۔ بلوچستان میں اس خلا کو اب سول سوسائٹی پُر کرنے لگی ہے۔
نیم شہری بلوچستانی سماج میں سول سوسائٹی ایک بالکل ہی نیا مظہر ہے۔ ہم بہ طور شہری اس کی مبادیات سے اب تک ناآشنا ہیں۔ پاکستان میں بھی سول سوسائٹی کا ابھار ابھی کل کی بات ہے۔ سن اَسی کی دَہائی میں بالخصوص بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ ایک بڑی کھیپ نے سیاسی پسپائی کے بعد غیر سرکاری تنظیموں المعروف این جی اوز کی جانب رخ کیا۔ یہاں ان کی معاشی ضروریات کا تو ازالہ ہو گیا، مگر ایک سیاسی کارکن کے اندر جو مسلسل بھڑکتا الاؤ ہوتا ہے، وہ کسی طور سرد نہ ہو سکا۔ اس نوکری میں براہِ راست سیاست ممکن نہ تھی، سو برسوں بعد اس کا حل سول سوسائٹی کی چھتری تلے نکالا گیا۔
اہم سماجی سیاسی مسائل پر، پرامن احتجاج کے ذریعے اندر کے بھڑکتے سیاسی الاؤ کو سرد کرنے کی کوشش کی گئی۔ جدید عہد میں اس میں معتدبہ حصہ 'برگر کلاس' کے اُن لوگوں نے بھی ڈالا، جو شوقیہ ہی سہی، سیاسی عمل میں حصے داری کے خواہاں تھے۔ خود کش دھماکے ہوں یا اقلیتوں پر حملے، عورتوں پر تشدد کا کوئی واقعہ ہو یا کوئی سماجی بحران، چند لوگوں پر مشتمل گروہ پریس کلب کے سامنے بینر اٹھائے مہذب احتجاج کرتا، کبھی شمعیں جلاتا، نعرے لگاتا جمع ہو جاتا۔ پاکستان میں طنزاً انھیں 'موم بتی مافیا' کے نام سے بھی منسوب کیا گیا۔ پروین رحمان اور سبین محمود جیسی سنجیدہ و کمیٹڈ خواتین ورکرز کے قتل نے مگر ان کی قدر و منزلت میں اضافہ کیا۔
بلوچستان میں عمومی معمولی سماجی مسائل جب سے سیاسی جماعتوں کی ترجیحات نہ رہے، سماج میں ایک خلا نے جنم لینا شروع کیا۔ مثال کے طور پر کتابوں کی دکانوں پر چھاپے، بعض کتابوں پر بندش، بچیوں کے اسکولوں پر حملے اور ان کی بندش، تعلیمی اداروں کی مخدوش صورت حال، اہل طلبہ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں... ایسے درجنوں مسائل آج بلوچستانی سماج کے عمومی مسائل ہیں، جو براہِ راست عوام سے وابستہ ہیں۔
جب کہ ہماری سیاست ایک عرصے سے پہاڑ اور ساحل و وسائل کے گرد گم ہو کر رہ گئی ہے اور یہ سچ ہے کہ گزشتہ برسوں میں سیاسی کارکنوں کی اتنی لاشیں گریں کہ سیاست محض جنازوں، ماتموں اور احتجاجوں کے گرد ہی گھومتی رہی۔ مگر سماج یک رخے تو ہوتے نہیں۔ سو' رفتہ رفتہ دیگر سماجی مسائل نے بھی سر اٹھانا شروع کیا۔ سہمی ہوئی سیاسی جماعتوں کی کارگزاری محض اخباری بیانات تک محدود ہو کر رہ گئی۔ ایسے میں تعلیمی مسائل سے متعلق کچھ عرصہ قبل اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا ظہور ہوا۔ یہ کافی عرصہ فعال رہی، مگر اس کا دائرہ کار بھی محض تعلیم اور بالخصوص کوئٹہ تک محدود رہا۔
سو' بالآخر سول سوسائٹی کا ابھار ہوا۔ اس کا آغاز ابھی ابتدائی طور پر غیر سرکاری تنظیموں سے وابستہ بعض دوستوں نے کیا، مگر اب آہستہ آہستہ سماج کی مختلف پرتوں سے وابستہ احباب اس کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ پنجگور میں بچیوں کے اسکول بند ہونے کا معاملہ ہو یا میرٹ کی پامالی کا ایشو، نوجوانوں کا یہ اکٹھ فوراً پریس کلب پہنچ جاتا ہے۔
ان کی حالیہ بڑی کامیابی آواران کی بلوچ بچیوں کا کراچی سے اغوا اور سندھ میں ان کی جبری شادیوں کے بعد ان کی برآمدگی تھا۔ سول سوسائٹی سے وابستہ ان نوجوانوں کا سب سے بڑا ہتھیار سوشل میڈیا ہے۔ سو' انھوں نے ایک آگ سی لگا دی۔ حالانکہ اخبارات اور نیوز چینلز میں یہ معاملہ دبا دبا سا رہا۔ مگر سوشل میڈیا پہ جاری بھرپور مہم بعض اعلیٰ حکام کو اس جانب متوجہ کرنے کو کامیاب رہی۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا اور قابلِ تقلید واقعہ تھا۔ ہماری بڑی بڑی سیاسی جماعتیں بھی اس پر دس لوگوں پر مشتمل کوئی احتجاج نہ کر سکیں۔ سول سوسائٹی کے دوستوں نے رضاکارانہ بنیادوں پر درجنوں افراد جمع کیے اور مؤثر احتجاج کیا۔
ایک نئے مظہر کے بہ طور بلوچستان میں سول سوسائٹی کو ابھی بہت کچھ سیکھنا ہو گا۔ ایک نیم قبائلی سماج میں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایسے مخلص اور سرگرم گروہ پہ کسی قسم کی نسل پرستی یا فرقہ بازی کا الزام نہ لگے۔ نیم شہریت میں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ محض کوئٹہ کا 'شہری اتحاد' بن کر نہ رہ جائے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ سمجھنا کہ سماجی معاملات کا اصل حل تو سیاسی ہے، اس لیے سماج کو کسی طور غیر سیاسی نہ بنایا جائے۔ مگر یہ سب باتیں پند و نصائح سے سکھانے والی نہیں، یہ تو عملی تجربات کا منطقی نتیجہ ہیں۔ اس لیے نوجوانوں کو تجربات کرنے دیے جائیں، انھی تجربات سے وہ سیکھیں گے، اور حتمی طور پر سماج کو کچھ نہ کچھ بہتر ہی دے کر جائیں گے۔
وہ جو بزرگوں نے نیم حکیم و نیم ملا کو خطرہ قراردیا تھا، اُس میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ 'نیم' ہونا دراصل کسی بھی معاملے میں خطرناک ہو سکتا ہے۔ جیسے انسان نیم مرد یا نیم عورت ہو تو اس کی نہ صرف صنف کا تعین مشکل ہو جاتا ہے، بلکہ سماج کے لیے وہ عضو معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح سماج بھی اگر نیم شہری یا نیم دیہی ہو تو ایسی ہی پیچیدگیوں کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے جیسے پاکستانی سماج ہے۔ اس کی نسبت بلوچستان نیم قبائلی، نیم جاگیرداری سماج ہے۔
ہر سماج کی طرح قبائلی سماج کی بھی اپنی ہی مبادیات ہوتی ہیں۔ اس کے تقاضے اور مظاہر بھی مختلف ہوتے ہیں۔ قدیم قبائلی سماج، قدیم کمیون سسٹم کا ایک زبردست نمونہ رہا ہے، مگر جدید بننے کی خواہش میں اس کی شکل ہی بدل کر رہ گئی ہے۔ جدیدیت کی در آنے والی بدعتوں نے نہ اس کی خالص قبائلیت کو زک پہنچائی تو وہیں اپنی فطری سست روی کے باعث یہ فوری طور پر جدید شہری سماج بھی نہ بن سکا۔ یوں ایک سماجی حیثیت سے دوسری سماجی حیثیت کا عبوری دور نصف صدی سے جاری ہے اور ہم ایک عرصے سے نیم قبائلی، نیم جاگیرداری، نیم دیہی و نیم شہری انداز میں اپنے معمولات گزار رہے ہیں۔ یہ نیم پن ہر لحاظ سے ہمارے لیے خطرناک و نقصان دہ رہا ہے۔
نیم قبائلیت کا نقصان یہ ہوا کہ سماج نہ تو پوری طرح قبائلی رہا، نہ جدید بن سکا۔ یوں قبائلی اقدار جدیدیت سے اور جدید اقدار' قبائلی رواج سے الجھتی رہیں۔ نئے اور پرانے کے مابین کی کشمکش نے ہمیں باہم ایک دوسرے سے الجھائے رکھے۔ اس الجھن میں ہم سماج کے حقیقی مسائل سے بے بہرہ رہے۔ باہمی بھائی چارے کی بجائے، باہمی عداوت پروان چڑھتی رہی۔ اسی طرح نیم دیہی و نیم شہری کے تضادات بھی ایک دوسرے سے ٹکراتے رہے۔ اس ٹکراو ٔکا نقصان ظاہر ہے سماج کے رہنے والوں کو ہی سہنا تھا۔
کم آبادی دنیا بھر میں وسائل کی منصفانہ و بہتر تقسیم کا سبب ہے، مگر آبادی کی قلت ہمارے لیے ایک اور عذاب ثابت ہوئی۔ آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم والے خطے میں، کم آبادی کے سیاسی مضمرات اپنی جگہ، سماجی سطح پر بھی اس کے نقصانات اٹھانے پڑے۔ بالخصوص بلوچستان کے طویل اور پیچیدہ جغرافیے نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔
ابھی ایک دَہائی قبل، سیل فون اور جدید ذرایع ابلاغ کی یہاں آمد سے قبل رسل و رسائل کا اہم ذریعہ روایتی خط و کتابت ہی ہوا کرتی تھی۔ بلوچستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا زمینی فاصلوں گھنٹوں نہیں، دنوں پر محیط ہے۔ اسی پیچیدہ جغرافیے نے ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی 'علاقائی' بنا کر رکھدیا۔ حتیٰ کہ آج بھی کوئی بھی سیاسی جماعت پورے بلوچستان کی نمایندہ سیاسی جماعت کہلوانے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ دعویٰ کر بھی دے تو عملاً اسے ثابت نہیں کر سکتے۔
پھر بلوچستان کے مسلسل جوار بھاٹے میں رہنے والے سیاسی حالات نے بھی ایک اور خلا کو جنم دیا۔ کٹھن سیاسی حالات نے سیاسی جماعتوں کے لیے یہ گنجائش ہی نہ چھوڑی کہ وہ دیگر عمومی عوامی مسائل کی جانب توجہ کر سکیں۔ سیاسی جماعتوں کی توجہ یا تو بلوچستان کے اہم ترین سلگتے سیاسی مسائل پہ مرکوز رہی، یا پھر تمام تر توانائی اقتدار کی غلام گردشوں کا حصہ بننے پر خرچ ہوتی رہی۔ ہمارا روایتی سردار اور جاگیردار بھی کرپٹ و پُرتعیش پارلیمانی نظام کا حصہ بننے کے بعد عوام سے مکمل طور پر کٹ کر رہ گیا۔
اس کی رہی سہی عوامی زندگی، پارلیمانی سیاست کی تعیشات و مراعات نے کھا لی۔ یوں عوام اور ان کے عمومی مسائل، صحت، تعلیم، روزگار، اغوا، تھانہ، کچہری، روڈ، نالی، احتجاج، سیاست سے خارج ہو گئے۔ بلوچستان کو ایک ایسے پہاڑ جیسے سیاسی مسئلے کے سامنے لا کھڑا کیا گیا، کہ جس کے سامنے یہ چھوٹے چھوٹے نظر آنے والے چشمے اوجھل ہو کر رہ گئے۔ اس مظہر نے ایک خلا کو جنم دیا اور خلا کہیں بھی مستقل نہیں رہتا، اس نے بالآخر پُر ہونا ہوتا ہے۔ بلوچستان میں اس خلا کو اب سول سوسائٹی پُر کرنے لگی ہے۔
نیم شہری بلوچستانی سماج میں سول سوسائٹی ایک بالکل ہی نیا مظہر ہے۔ ہم بہ طور شہری اس کی مبادیات سے اب تک ناآشنا ہیں۔ پاکستان میں بھی سول سوسائٹی کا ابھار ابھی کل کی بات ہے۔ سن اَسی کی دَہائی میں بالخصوص بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ ایک بڑی کھیپ نے سیاسی پسپائی کے بعد غیر سرکاری تنظیموں المعروف این جی اوز کی جانب رخ کیا۔ یہاں ان کی معاشی ضروریات کا تو ازالہ ہو گیا، مگر ایک سیاسی کارکن کے اندر جو مسلسل بھڑکتا الاؤ ہوتا ہے، وہ کسی طور سرد نہ ہو سکا۔ اس نوکری میں براہِ راست سیاست ممکن نہ تھی، سو برسوں بعد اس کا حل سول سوسائٹی کی چھتری تلے نکالا گیا۔
اہم سماجی سیاسی مسائل پر، پرامن احتجاج کے ذریعے اندر کے بھڑکتے سیاسی الاؤ کو سرد کرنے کی کوشش کی گئی۔ جدید عہد میں اس میں معتدبہ حصہ 'برگر کلاس' کے اُن لوگوں نے بھی ڈالا، جو شوقیہ ہی سہی، سیاسی عمل میں حصے داری کے خواہاں تھے۔ خود کش دھماکے ہوں یا اقلیتوں پر حملے، عورتوں پر تشدد کا کوئی واقعہ ہو یا کوئی سماجی بحران، چند لوگوں پر مشتمل گروہ پریس کلب کے سامنے بینر اٹھائے مہذب احتجاج کرتا، کبھی شمعیں جلاتا، نعرے لگاتا جمع ہو جاتا۔ پاکستان میں طنزاً انھیں 'موم بتی مافیا' کے نام سے بھی منسوب کیا گیا۔ پروین رحمان اور سبین محمود جیسی سنجیدہ و کمیٹڈ خواتین ورکرز کے قتل نے مگر ان کی قدر و منزلت میں اضافہ کیا۔
بلوچستان میں عمومی معمولی سماجی مسائل جب سے سیاسی جماعتوں کی ترجیحات نہ رہے، سماج میں ایک خلا نے جنم لینا شروع کیا۔ مثال کے طور پر کتابوں کی دکانوں پر چھاپے، بعض کتابوں پر بندش، بچیوں کے اسکولوں پر حملے اور ان کی بندش، تعلیمی اداروں کی مخدوش صورت حال، اہل طلبہ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں... ایسے درجنوں مسائل آج بلوچستانی سماج کے عمومی مسائل ہیں، جو براہِ راست عوام سے وابستہ ہیں۔
جب کہ ہماری سیاست ایک عرصے سے پہاڑ اور ساحل و وسائل کے گرد گم ہو کر رہ گئی ہے اور یہ سچ ہے کہ گزشتہ برسوں میں سیاسی کارکنوں کی اتنی لاشیں گریں کہ سیاست محض جنازوں، ماتموں اور احتجاجوں کے گرد ہی گھومتی رہی۔ مگر سماج یک رخے تو ہوتے نہیں۔ سو' رفتہ رفتہ دیگر سماجی مسائل نے بھی سر اٹھانا شروع کیا۔ سہمی ہوئی سیاسی جماعتوں کی کارگزاری محض اخباری بیانات تک محدود ہو کر رہ گئی۔ ایسے میں تعلیمی مسائل سے متعلق کچھ عرصہ قبل اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا ظہور ہوا۔ یہ کافی عرصہ فعال رہی، مگر اس کا دائرہ کار بھی محض تعلیم اور بالخصوص کوئٹہ تک محدود رہا۔
سو' بالآخر سول سوسائٹی کا ابھار ہوا۔ اس کا آغاز ابھی ابتدائی طور پر غیر سرکاری تنظیموں سے وابستہ بعض دوستوں نے کیا، مگر اب آہستہ آہستہ سماج کی مختلف پرتوں سے وابستہ احباب اس کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ پنجگور میں بچیوں کے اسکول بند ہونے کا معاملہ ہو یا میرٹ کی پامالی کا ایشو، نوجوانوں کا یہ اکٹھ فوراً پریس کلب پہنچ جاتا ہے۔
ان کی حالیہ بڑی کامیابی آواران کی بلوچ بچیوں کا کراچی سے اغوا اور سندھ میں ان کی جبری شادیوں کے بعد ان کی برآمدگی تھا۔ سول سوسائٹی سے وابستہ ان نوجوانوں کا سب سے بڑا ہتھیار سوشل میڈیا ہے۔ سو' انھوں نے ایک آگ سی لگا دی۔ حالانکہ اخبارات اور نیوز چینلز میں یہ معاملہ دبا دبا سا رہا۔ مگر سوشل میڈیا پہ جاری بھرپور مہم بعض اعلیٰ حکام کو اس جانب متوجہ کرنے کو کامیاب رہی۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا اور قابلِ تقلید واقعہ تھا۔ ہماری بڑی بڑی سیاسی جماعتیں بھی اس پر دس لوگوں پر مشتمل کوئی احتجاج نہ کر سکیں۔ سول سوسائٹی کے دوستوں نے رضاکارانہ بنیادوں پر درجنوں افراد جمع کیے اور مؤثر احتجاج کیا۔
ایک نئے مظہر کے بہ طور بلوچستان میں سول سوسائٹی کو ابھی بہت کچھ سیکھنا ہو گا۔ ایک نیم قبائلی سماج میں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایسے مخلص اور سرگرم گروہ پہ کسی قسم کی نسل پرستی یا فرقہ بازی کا الزام نہ لگے۔ نیم شہریت میں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ محض کوئٹہ کا 'شہری اتحاد' بن کر نہ رہ جائے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ سمجھنا کہ سماجی معاملات کا اصل حل تو سیاسی ہے، اس لیے سماج کو کسی طور غیر سیاسی نہ بنایا جائے۔ مگر یہ سب باتیں پند و نصائح سے سکھانے والی نہیں، یہ تو عملی تجربات کا منطقی نتیجہ ہیں۔ اس لیے نوجوانوں کو تجربات کرنے دیے جائیں، انھی تجربات سے وہ سیکھیں گے، اور حتمی طور پر سماج کو کچھ نہ کچھ بہتر ہی دے کر جائیں گے۔