می رقصم
فطرت رقص کرتی ہے۔ چاہے لہروں کی روانی ہو یا بارش کا ترنم، پتوں کی پازیب ہوا کے ساز پر چھنکتی ہو۔
فطرت رقص کرتی ہے۔ چاہے لہروں کی روانی ہو یا بارش کا ترنم، پتوں کی پازیب ہوا کے ساز پر چھنکتی ہو۔ گرج چمک و آبشاروں کا ردھم یا جھرنوں کا آہنگ ہو مظاہر فطرت کے یہ انداز موسیقی و رقص کا امتزاج سمیٹے ہوتے ہیں۔ رقص کے مختلف انداز ہیں، جن کا اظہار یہ منظر کرتے ہیں۔
رقص بے خودی ہے، بے خودی وجدان کا عکس ہے۔ جس سے یکسانیت لمحوں کی بکھر جاتی ہے۔ احساس میں نئی امنگ جاگ اٹھتی ہے۔ رقص ارتعاش ہے۔ یہ ہلچل منفی لہروں کو منتشر کر دیتی ہے۔ قدیم تہذیب میں ناچ کو مثبت قوت کا ریلا سمجھتے تھے، جو منجمند خیال کو تحرک عطا کرتا ہے۔
چوتھی صدی قبل مسیح سے سری لنکا میں ڈانس کا آغاز ہوا تھا۔ مگر درحقیقت یہ ناچ، جھومنا اور تھرکنا، پتھر کے دور سے چلا آ رہا ہے۔ کیونکہ خوشی میں انسان بے اختیار جھوم اٹھتا ہے۔ یہ فطری آزادی کی تمثیل کے طور پر مروج ہوا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ رقص قدرتی آفت، وبائی بیماری اور بدحالی سے بچنے کے لیے نجات کا راستہ ہے۔ پندرہویں صدی جب پولاناروار دور حکومت اختتام پذیر ہوا تو جنوبی ہندوستان کے ثقافتی رجحانات سری لنکا کے لوک ڈانس پر اثر انداز ہونے لگے۔
بادشاہت کے دور میں مقبول ہونے والا کینڈی ڈانس، آج سری لنکا کا قومی ڈانس کہلاتا ہے۔ ہر طرف رنگین چھتریوں کی بہار تھی۔ سیاحوں کے چہروں پر تجسس کے رنگ بکھرے تھے۔ وہ ہال میں ہنستے مسکراتے ہوئے داخل ہونے لگے۔ ہال جب بھر گیا تو اسٹیج پر پیناتھیرو ناتما رقص شروع ہو گیا۔ اس رقص کا نام ساز سے لیا گیا ہے۔
یہ ساز پینترو کہلاتا ہے، جو طنبورو (دف) کی صورت ہے۔ اسٹیج پر خوبصورت لباس میں ملبوس رقاص جھوم رہے تھے، پس منظر میں ڈھول کی سحر انگیز آواز نے ایک پرکیف سماں باندھ دیا تھا۔ یہ سنہالی جنگجو تھے، جو جنگ کے لیے جا رہے تھے۔ یہ ساز، صوفی بزرگوں کی مزاروں پر دھمال کے موقعے پر استعمال ہوتے ہیں۔ اسے ردھم ہیلنگ (ساز کے وسیلے علاج) کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ رواج ایشیا، امریکا، یورپ و لاطینی امریکا میں مقبول ہے۔
کینڈین ڈانس کا آغاز اس وقت ہوا جب بادشاہ پراسرار بیماری میں مبتلا ہو گیا تھا۔ اس نے انڈیا کے شمن سے رجوع کیا۔ یہ شمن زیادہ تر موسیقی کے ذریعے علاج کرتے ہیں۔ بادشاہ کی صحت یابی کے بعد رقص کو فروغ ملا۔
ردھم ہیلنگ کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ طریقہ سائنسی ہے۔ کیونکہ ساز Reptilian Brain پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ ذہن کا یہ حصہ پوشیدہ، پراسرار اور روحانی طاقت سے مالا مال ہے۔ موسیقی، خوشبو اور تنہائی اس کی کارکردگی میں اضافہ کرتے ہیں۔ جدید نفسیات کے ماہر کہتے ہیں کہ ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کا علاج دوا یا سائیکو تھیراپی سے اس وقت تک ممکن نہیں ہو پاتا، جب تک ذہن کا یہ حصہ یعنی ریپٹیلین برین پرسکون حالت میں نہیں لایا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کا علاج، دوا و بات چیت کے علاوہ موسیقی، رنگوں اور تخلیقی کاموں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
اس خوبصورت ماحول میں یکایک بانسری اور ڈھول کی ملی جلی آواز نے نیند کے بوجھل ماحول کو منتشر کر دیا۔ باہر بارش ہو رہی تھی۔ ماحول پر چھائی دھند میں سردی بڑھتی چلی گئی تھی۔ فصل کی کٹائی پر مبنی رقص میں لڑکیاں، پیٹھ سے خوبصورت ٹوکریاں باندھے، خوشی اور خوشحالی کا تمثیلی اظہار کر رہی تھیں۔ ہمیں تھر کا ہمرچو رقص بے اختیار یاد آ گیا۔ تھری فصل کی کٹائی کے وقت رقص کر رہے تھے کہ گاڑی بے اختیار کھیتوں کے درمیان رک گئی۔ تھری لوگ، بارش، سبزے و ہریالی کے جواب میں اپنی بے کراں مسرت کا اظہار کر رہے تھے۔
احساس، قومیت، زبان اور خطے کی حدود سے آزاد ہوتا ہے۔
خوابوں کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ لہٰذا تھرکتے اعضا ان خوابوں کی ترجمانی کمال خوبصورتی سے ادا کرتے ہیں۔ تماشائی رقص کے اختتام پر بے ساختہ داد دیتے اور تالیاں بجاتے۔ ویسناتوما رقص کا آغاز ہوا۔ ویس وہ خاص لباس ہے، جو کینڈین رقاص اس موقعے پر جسموں پر سجاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھی زبان میں لباس کو ویس کہا جاتا ہے۔
خوبصورت لڑکوں نے جو لباس پہن رکھا تھا۔ اس لباس میں چونسٹھ قسم کے مختلف زیورات جڑے ہوئے تھے۔ موتیوں کی یہ لڑیاں، سورج کی کرنوں جیسی دکھائی دے رہی تھیں۔ اس رقص میں مہارت حاصل کرنے کے لیے رقاص، سالہا سال تربیت میں حصہ لیتے ہیں۔ جب فن کا مظاہرہ کرتے ہیں، تو دیکھنے والوں کی نگاہیں، لباس کی دمک اور تھرکتے جسموں کی مہارت، دیکھ کر چندھیا جاتی ہیں۔ زیادہ تر یہ رقص فطرت کی خوبصورتی اور فطرت سے حاصل ہونے والی لازوال خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔
پوجا ناتوما رقص میں خوبصورت لڑکیاں ہاتھوں میں دیپ لیے جھوم رہی تھیں۔ یہ دیپ الوہی روشنی کا حصہ تھے، جس کا تسلسل صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔
یہ رقص پوجاپاٹ اور شادیوں کا حصہ ہیں۔ فائر ڈانس کرتے رقاص آگ ہاتھ میں لیے اسٹیج پر آیا، تو لوگ تالیاں بجانے لگے، کیونکہ یہ آگ کبھی رقص کرنے والے کے بازوؤں سے لپٹ جاتی تو کبھی وہ زبان پر رکھ کے شعلوں سے قربت کا اظہار کرتا۔ اس وقت لوگ بے اختیار چیخ پڑتے اور داد دیتے۔ یہ خوف، خوشی اور تجسس فائر ڈانس کے ہر لمحے کا حصہ تھے۔ آگ زندگی کا تسلسل ہے۔ آگ زندگی کی اہم ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ ایشیا کی قدیم تہذیبیں آگ کی قربت سے جلا پاتی رہی ہیں۔ یہ توانائی کا محرک اور ماحول کو شفاف بنانے کا ہنر رکھتی ہے۔ فینگ شوئی، ایکی اور میڈیٹیشن میں آگ کی توانائی سے خاص مدد لی جاتی ہے۔
مور کے ڈانس میں مور کے فطری رنگوں سے مزین لباس کا حسن قابل دید تھا۔ ڈرم آرکیسٹرا کے علاوہ آگ پر چلنے کا مظاہرہ بھی دلچسپ تھا، جس میں رقاص کے پاؤں محفوظ تھے۔ آگ پر چلنے کی پریکٹس تبت کے یوگی بھی کرتے ہیں۔ اس عمل کو روحانی طاقت کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔
کیونکہ ذہن، روحانی حوالے سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قدیم تہذیبیں ذہن کی قوت سے کام لیتی رہی ہیں۔ یوگا میں ذہن کی طاقت سے جسم کے مختلف کاموں جیسے جسم کا درجہ حرارت، دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر وغیرہ کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ جس سے جسم کو کامل صحت عطا ہوتی ہے۔ یوگا، بدھ ازم، جین دھرم، تاؤازم اور صوفی ازم وغیرہ محدود سے لامحدود تک کا ایسا سفر ہے، جو شعور کو وسعت عطا کرتا ہے۔ ان تمام علوم میں یکسوئی، دھیان اور مراقبہ قدر مشترکہ ہیں۔
فطرت کے ساتھ انسان کے اندر بھی ایک دائرہ، پہیہ یا چرخہ ہے۔ یہ دائرہ مستقل گھوم رہا ہے غیر محسوس انداز میں۔ یہ اسے کسی طرح چین نہیں لینے دیتا۔ اس بے چینی سے کھوج کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یہ رقص، قلندر کی دھمال پر کیا جائے یا بھٹائی، بلھے شاہ، سلطان باہو کے مزار پر عقیدت مند جھومتے رہیں۔ یا مولانا رومی کے مزار پر ان کی شاعری کے دیوانے، دیوانگی کا اظہار کرتے رہیں۔ یہ احساس لافانی ہے۔
رقص بے خودی ہے، بے خودی وجدان کا عکس ہے۔ جس سے یکسانیت لمحوں کی بکھر جاتی ہے۔ احساس میں نئی امنگ جاگ اٹھتی ہے۔ رقص ارتعاش ہے۔ یہ ہلچل منفی لہروں کو منتشر کر دیتی ہے۔ قدیم تہذیب میں ناچ کو مثبت قوت کا ریلا سمجھتے تھے، جو منجمند خیال کو تحرک عطا کرتا ہے۔
چوتھی صدی قبل مسیح سے سری لنکا میں ڈانس کا آغاز ہوا تھا۔ مگر درحقیقت یہ ناچ، جھومنا اور تھرکنا، پتھر کے دور سے چلا آ رہا ہے۔ کیونکہ خوشی میں انسان بے اختیار جھوم اٹھتا ہے۔ یہ فطری آزادی کی تمثیل کے طور پر مروج ہوا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ رقص قدرتی آفت، وبائی بیماری اور بدحالی سے بچنے کے لیے نجات کا راستہ ہے۔ پندرہویں صدی جب پولاناروار دور حکومت اختتام پذیر ہوا تو جنوبی ہندوستان کے ثقافتی رجحانات سری لنکا کے لوک ڈانس پر اثر انداز ہونے لگے۔
بادشاہت کے دور میں مقبول ہونے والا کینڈی ڈانس، آج سری لنکا کا قومی ڈانس کہلاتا ہے۔ ہر طرف رنگین چھتریوں کی بہار تھی۔ سیاحوں کے چہروں پر تجسس کے رنگ بکھرے تھے۔ وہ ہال میں ہنستے مسکراتے ہوئے داخل ہونے لگے۔ ہال جب بھر گیا تو اسٹیج پر پیناتھیرو ناتما رقص شروع ہو گیا۔ اس رقص کا نام ساز سے لیا گیا ہے۔
یہ ساز پینترو کہلاتا ہے، جو طنبورو (دف) کی صورت ہے۔ اسٹیج پر خوبصورت لباس میں ملبوس رقاص جھوم رہے تھے، پس منظر میں ڈھول کی سحر انگیز آواز نے ایک پرکیف سماں باندھ دیا تھا۔ یہ سنہالی جنگجو تھے، جو جنگ کے لیے جا رہے تھے۔ یہ ساز، صوفی بزرگوں کی مزاروں پر دھمال کے موقعے پر استعمال ہوتے ہیں۔ اسے ردھم ہیلنگ (ساز کے وسیلے علاج) کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ رواج ایشیا، امریکا، یورپ و لاطینی امریکا میں مقبول ہے۔
کینڈین ڈانس کا آغاز اس وقت ہوا جب بادشاہ پراسرار بیماری میں مبتلا ہو گیا تھا۔ اس نے انڈیا کے شمن سے رجوع کیا۔ یہ شمن زیادہ تر موسیقی کے ذریعے علاج کرتے ہیں۔ بادشاہ کی صحت یابی کے بعد رقص کو فروغ ملا۔
ردھم ہیلنگ کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ طریقہ سائنسی ہے۔ کیونکہ ساز Reptilian Brain پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ ذہن کا یہ حصہ پوشیدہ، پراسرار اور روحانی طاقت سے مالا مال ہے۔ موسیقی، خوشبو اور تنہائی اس کی کارکردگی میں اضافہ کرتے ہیں۔ جدید نفسیات کے ماہر کہتے ہیں کہ ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کا علاج دوا یا سائیکو تھیراپی سے اس وقت تک ممکن نہیں ہو پاتا، جب تک ذہن کا یہ حصہ یعنی ریپٹیلین برین پرسکون حالت میں نہیں لایا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کا علاج، دوا و بات چیت کے علاوہ موسیقی، رنگوں اور تخلیقی کاموں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
اس خوبصورت ماحول میں یکایک بانسری اور ڈھول کی ملی جلی آواز نے نیند کے بوجھل ماحول کو منتشر کر دیا۔ باہر بارش ہو رہی تھی۔ ماحول پر چھائی دھند میں سردی بڑھتی چلی گئی تھی۔ فصل کی کٹائی پر مبنی رقص میں لڑکیاں، پیٹھ سے خوبصورت ٹوکریاں باندھے، خوشی اور خوشحالی کا تمثیلی اظہار کر رہی تھیں۔ ہمیں تھر کا ہمرچو رقص بے اختیار یاد آ گیا۔ تھری فصل کی کٹائی کے وقت رقص کر رہے تھے کہ گاڑی بے اختیار کھیتوں کے درمیان رک گئی۔ تھری لوگ، بارش، سبزے و ہریالی کے جواب میں اپنی بے کراں مسرت کا اظہار کر رہے تھے۔
احساس، قومیت، زبان اور خطے کی حدود سے آزاد ہوتا ہے۔
خوابوں کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ لہٰذا تھرکتے اعضا ان خوابوں کی ترجمانی کمال خوبصورتی سے ادا کرتے ہیں۔ تماشائی رقص کے اختتام پر بے ساختہ داد دیتے اور تالیاں بجاتے۔ ویسناتوما رقص کا آغاز ہوا۔ ویس وہ خاص لباس ہے، جو کینڈین رقاص اس موقعے پر جسموں پر سجاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھی زبان میں لباس کو ویس کہا جاتا ہے۔
خوبصورت لڑکوں نے جو لباس پہن رکھا تھا۔ اس لباس میں چونسٹھ قسم کے مختلف زیورات جڑے ہوئے تھے۔ موتیوں کی یہ لڑیاں، سورج کی کرنوں جیسی دکھائی دے رہی تھیں۔ اس رقص میں مہارت حاصل کرنے کے لیے رقاص، سالہا سال تربیت میں حصہ لیتے ہیں۔ جب فن کا مظاہرہ کرتے ہیں، تو دیکھنے والوں کی نگاہیں، لباس کی دمک اور تھرکتے جسموں کی مہارت، دیکھ کر چندھیا جاتی ہیں۔ زیادہ تر یہ رقص فطرت کی خوبصورتی اور فطرت سے حاصل ہونے والی لازوال خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔
پوجا ناتوما رقص میں خوبصورت لڑکیاں ہاتھوں میں دیپ لیے جھوم رہی تھیں۔ یہ دیپ الوہی روشنی کا حصہ تھے، جس کا تسلسل صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔
یہ رقص پوجاپاٹ اور شادیوں کا حصہ ہیں۔ فائر ڈانس کرتے رقاص آگ ہاتھ میں لیے اسٹیج پر آیا، تو لوگ تالیاں بجانے لگے، کیونکہ یہ آگ کبھی رقص کرنے والے کے بازوؤں سے لپٹ جاتی تو کبھی وہ زبان پر رکھ کے شعلوں سے قربت کا اظہار کرتا۔ اس وقت لوگ بے اختیار چیخ پڑتے اور داد دیتے۔ یہ خوف، خوشی اور تجسس فائر ڈانس کے ہر لمحے کا حصہ تھے۔ آگ زندگی کا تسلسل ہے۔ آگ زندگی کی اہم ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ ایشیا کی قدیم تہذیبیں آگ کی قربت سے جلا پاتی رہی ہیں۔ یہ توانائی کا محرک اور ماحول کو شفاف بنانے کا ہنر رکھتی ہے۔ فینگ شوئی، ایکی اور میڈیٹیشن میں آگ کی توانائی سے خاص مدد لی جاتی ہے۔
مور کے ڈانس میں مور کے فطری رنگوں سے مزین لباس کا حسن قابل دید تھا۔ ڈرم آرکیسٹرا کے علاوہ آگ پر چلنے کا مظاہرہ بھی دلچسپ تھا، جس میں رقاص کے پاؤں محفوظ تھے۔ آگ پر چلنے کی پریکٹس تبت کے یوگی بھی کرتے ہیں۔ اس عمل کو روحانی طاقت کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔
کیونکہ ذہن، روحانی حوالے سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قدیم تہذیبیں ذہن کی قوت سے کام لیتی رہی ہیں۔ یوگا میں ذہن کی طاقت سے جسم کے مختلف کاموں جیسے جسم کا درجہ حرارت، دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر وغیرہ کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ جس سے جسم کو کامل صحت عطا ہوتی ہے۔ یوگا، بدھ ازم، جین دھرم، تاؤازم اور صوفی ازم وغیرہ محدود سے لامحدود تک کا ایسا سفر ہے، جو شعور کو وسعت عطا کرتا ہے۔ ان تمام علوم میں یکسوئی، دھیان اور مراقبہ قدر مشترکہ ہیں۔
فطرت کے ساتھ انسان کے اندر بھی ایک دائرہ، پہیہ یا چرخہ ہے۔ یہ دائرہ مستقل گھوم رہا ہے غیر محسوس انداز میں۔ یہ اسے کسی طرح چین نہیں لینے دیتا۔ اس بے چینی سے کھوج کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یہ رقص، قلندر کی دھمال پر کیا جائے یا بھٹائی، بلھے شاہ، سلطان باہو کے مزار پر عقیدت مند جھومتے رہیں۔ یا مولانا رومی کے مزار پر ان کی شاعری کے دیوانے، دیوانگی کا اظہار کرتے رہیں۔ یہ احساس لافانی ہے۔