پاکستان میں ہرگھنٹے 2 خواتین گھریلوتشدد کانشانہ بنتی ہیں
خواتین پرتشدد کے خاتمے کے عالمی دن پرتقریبات،عورتوں پرتشدد ترقی میں رکاوٹ ہے،مہنازرحمن
لاہور:
پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا گیا اس دن کو منانے کا مقصد خواتین پر جسمانی تشدد اوران کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔
پاکستان سمیت ملک بھر میں خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے حوالے سے تقریبات ہوئیں، واضح رہے کہ 17دسمبر1999کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے خواتین کے خلاف تشدد کے عالمی دن ہر سال 25 نومبر کو منانے کا فیصلہ کیا تھا، سندھ اسمبلی میں خواتین پر گھریو تشدد کی روک تھام کے حولے سے بل 2013 میں متعارف کرایا گیا لیکن 2 سال گزرنے کے بعد بھی رولز آف بزنس نہیں بن سکے ہیں، خواتین کے حقوق کی بحالی حکومتی ترجیحات میں شامل نہیںوزارت ترقی نسواں خالی ہے۔
وزارت ترقی نسواں میں کوئی سیکریٹری دورانیہ مکمل نہیں کرتا جس سے وزارت کے بیشتر امور ٹھپ پڑے ہیں، پاکستان میں ہر گھنٹے 2 خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں، 25 نومبر سے عورتوں پر تشدد کے خاتمے کی 16 روزہ سرگرمیوں کا آغاز ہوتا ہے اور اختتام 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن پر ہوتا ہے، خواتین پر تشدد گھروں،گلیوں،کام کے مقامات، اسکولوں اور لڑائی جھگڑوں میں ہوتا ہے، عورت فائونڈیشن کی مہناز رحمٰن کے مطابق تشدد عورت کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے وہ اپنی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال نہیں کرپاتی ہیں۔
جس سے ان کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 2014 میں597خواتین کوجنسی زیادتی اور823کو اجتماعی زیادتی اور 139کمسن بچیوں کو تشدد کا نشانا بنایا گیا،894خواتین نے خودکشی کی تھی اور357نے اقدام خودکشی کیا تھا۔
خواتین کی اسمگلنگ پاکستان میں سنگین مسئلہ ہے، اقوام متحدہ ادارے یواین او ڈی سی کی تحقیق کے مطابق پاکستان سے عورتوں اور بچوں کوجنسی استحصال کے لیے خیلج ممالک اسمگل کرنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں ، خواتین کو ڈانسرز کی ملازمت کا جھانسہ دے کر متحدہ عرب امارات منتقل کیا جاتا ہے اور اس کے بعد وہ مبینہ طور پر جنسی استحصال کا نشانہ بنتی ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا گیا اس دن کو منانے کا مقصد خواتین پر جسمانی تشدد اوران کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔
پاکستان سمیت ملک بھر میں خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے حوالے سے تقریبات ہوئیں، واضح رہے کہ 17دسمبر1999کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے خواتین کے خلاف تشدد کے عالمی دن ہر سال 25 نومبر کو منانے کا فیصلہ کیا تھا، سندھ اسمبلی میں خواتین پر گھریو تشدد کی روک تھام کے حولے سے بل 2013 میں متعارف کرایا گیا لیکن 2 سال گزرنے کے بعد بھی رولز آف بزنس نہیں بن سکے ہیں، خواتین کے حقوق کی بحالی حکومتی ترجیحات میں شامل نہیںوزارت ترقی نسواں خالی ہے۔
وزارت ترقی نسواں میں کوئی سیکریٹری دورانیہ مکمل نہیں کرتا جس سے وزارت کے بیشتر امور ٹھپ پڑے ہیں، پاکستان میں ہر گھنٹے 2 خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں، 25 نومبر سے عورتوں پر تشدد کے خاتمے کی 16 روزہ سرگرمیوں کا آغاز ہوتا ہے اور اختتام 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن پر ہوتا ہے، خواتین پر تشدد گھروں،گلیوں،کام کے مقامات، اسکولوں اور لڑائی جھگڑوں میں ہوتا ہے، عورت فائونڈیشن کی مہناز رحمٰن کے مطابق تشدد عورت کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے وہ اپنی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال نہیں کرپاتی ہیں۔
جس سے ان کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 2014 میں597خواتین کوجنسی زیادتی اور823کو اجتماعی زیادتی اور 139کمسن بچیوں کو تشدد کا نشانا بنایا گیا،894خواتین نے خودکشی کی تھی اور357نے اقدام خودکشی کیا تھا۔
خواتین کی اسمگلنگ پاکستان میں سنگین مسئلہ ہے، اقوام متحدہ ادارے یواین او ڈی سی کی تحقیق کے مطابق پاکستان سے عورتوں اور بچوں کوجنسی استحصال کے لیے خیلج ممالک اسمگل کرنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں ، خواتین کو ڈانسرز کی ملازمت کا جھانسہ دے کر متحدہ عرب امارات منتقل کیا جاتا ہے اور اس کے بعد وہ مبینہ طور پر جنسی استحصال کا نشانہ بنتی ہیں۔