افغان سیکیورٹی فورسز کا جھڑپوں میں 3 کمانڈروں سمیت 9 طالبان ہلاک کرنے کا دعویٰ
تخارمیں سیکیورٹی فورسز چند روز قبل طالبان کے قبضے میں جانے والے علاقوں کو واپس لینے کے لیئے آپریشن کررہی ہیں
افغانستان کے صوبے تخار میں سیکیورٹی فورسز سے جھڑپوں میں 3 اہم طالبان کمانڈروں سمیت 9 جنگجو ہلاک ہوگئے۔
افغان خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کے شمال مشرقی صوبے تخار میں گذشتہ چند روز سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے اس دوران تخار کے ضلع خواجہ بہاؤالدین میں ہونے والی لڑائی کے دوران 3 سینیئر طالبان کمانڈروں سمیت 9 شدت پسند ہلاک ہوئے۔صوبائی گورنر کے ترجمان سنت اللہ تیمور نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ جھڑپوں میں طالبان کی جانب سے مقرر کردہ صوبائی گورنر بھی زخمی ہوئے ہیں۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ تخارمیں سیکیورٹی فورسز چند روز قبل طالبان کے قبضے میں جانے والے علاقوں کو واپس لینے کے لیئے آپریشن کلین اپ کررہی ہیں جن میں انہیں خاطر خواہ کامیابی مل رہی ہے جب کہ اس دوران چارسیکیورٹی اہلکاروں معمولی زخمی ہوئے ہیں ۔دوسری جانب افغان طالبان نے اس حوالے سے کسی بھی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
واضح رہے کہ ملا اختر کے طالبان کے نئے امیر بن جانے کے بعد سے افغانستان میں جنگجوؤں کے حملوں میں تیزی آئی ہے اور افغانستان میں شدت پسند تنظیم داعش کی سرگرمیوں کے بعد سے افغان سیکیورٹی فورسز کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
افغان خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کے شمال مشرقی صوبے تخار میں گذشتہ چند روز سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے اس دوران تخار کے ضلع خواجہ بہاؤالدین میں ہونے والی لڑائی کے دوران 3 سینیئر طالبان کمانڈروں سمیت 9 شدت پسند ہلاک ہوئے۔صوبائی گورنر کے ترجمان سنت اللہ تیمور نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ جھڑپوں میں طالبان کی جانب سے مقرر کردہ صوبائی گورنر بھی زخمی ہوئے ہیں۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ تخارمیں سیکیورٹی فورسز چند روز قبل طالبان کے قبضے میں جانے والے علاقوں کو واپس لینے کے لیئے آپریشن کلین اپ کررہی ہیں جن میں انہیں خاطر خواہ کامیابی مل رہی ہے جب کہ اس دوران چارسیکیورٹی اہلکاروں معمولی زخمی ہوئے ہیں ۔دوسری جانب افغان طالبان نے اس حوالے سے کسی بھی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
واضح رہے کہ ملا اختر کے طالبان کے نئے امیر بن جانے کے بعد سے افغانستان میں جنگجوؤں کے حملوں میں تیزی آئی ہے اور افغانستان میں شدت پسند تنظیم داعش کی سرگرمیوں کے بعد سے افغان سیکیورٹی فورسز کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔