ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

اگر ہم اپنے مسائل آپس میں حل کرنے کے قابل ہوتے تو دنیا آج ہمیں اس طرح ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ کرتی۔

آج مسلمان تقسیم در تقسیم کا شکار ہو کر اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ دشمن کے لئے تر نوالہ ثابت ہو رہے ہیں۔ فوٹو :فائل

مشہور ہندوستانی اداکار عامر خان ہندوستانی حکومت پر تنقید کرکے مشکل کا شکار ہوگئے ہیں۔ عامر خان نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اُنکی بیوی نے ہندوستان میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی سے پریشان ہو کر بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے ہندوستان چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں رہائش اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ عامر خان کے اس بیان کے بعد ہندو شدت پسند تنظیم شیو سینا نے اُن کے گھر کے باہر مظاہرہ کیا اور اُنہیں پاکستان جانے کی نصحیت بھی کر ڈالی۔ اِس سے پہلے شاہ رخ خان کے بیان پر بھی بہت شور مچا تھا حالانکہ اور بھی بہت سے ادیب، فنکار، گلوکار اور کھلاڑی ہندوستانی حکومت پر تنقید کے ساتھ ساتھ اپنے ایوارڈ بھی واپس کرچکے ہیں۔ لیکن عامر خان اور شاہ رخ خان کے برعکس اُن ادیبوں، فنکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں پر حکومت پر عدم اعتماد کے اظہار پر کچھ نہیں کہا گیا، اب ہم اِس بارے میں کیا کہیں آپ خود ہی سمجھ سکتے ہیں کہ اِس کی بنیادی وجہ کیا ہوگی۔

بہرحال معاملہ یہ ہے کہ عامر خان کو جب اُن کی بیوی نے ہندوستان چھوڑنے کا مشورہ دیا ہوگا تو ایک لمحے کے لئے ہی سہی اُنہوں نے سوچا ضرور ہوگا کہ ہندوستان چھوڑ کے وہ جائیں گے کہاں؟ جب فرانس، برطانیہ، امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک میں بسنے والے لاکھوں مسلمان والدین اپنے بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا دیکھتے ہوں گے تو یہ سوال اُن کے ذہن میں بھی آتا ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کو لے کر کون سے اسلامی ملک میں جائیں، جہاں اُنہیں دہشت گرد ہونے کے طعنے نہ ملیں، جہاں اُنہیں ائیر پورٹس پر ذلیل نہ کیا جائے، جہاں مسلمانوں کا علیحدہ ڈیٹا بیس بنانے کی باتیں نہ ہوں اور جہاں مسلمان خواتین کو اسکارف پہننے پر عدالت نہ جانا پڑے۔ شام، عراق، لیبیا، افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا ۔۔۔ آخر جائین تو جائیں کہاں؟

آج مسلمان کہیں بھی محفوظ نہیں، پھر چاہے بات کی جائے اسلامی ممالک کی یا غیر مسلم ممالک کی۔ برما سے امریکہ، شام سے افغانستان، ہندوستان سے فرانس ہر جگہ مسلمان زیرِ عتاب ہے۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان قتل ہورہے ہیں لیکن پھر بھی مسلمان ہی دہشت گرد ہیں۔ اگر کشمیر، فلسطین اور بوسنیا کے مسلمان آزادی کا مطالبہ کریں تو انتہا پسند اور بنیاد پرست اور اگر مشرقی تیمور اور شمالی سوڈان کے لوگ آزادی کا مطالبہ کریں تو اُن کا بنیادی حق۔ اگر امریکہ اور اُس کے حلیف عراق، لیبیا اور افغانستان میں غیر مصدقہ اطلاعات پر ہزاروں مسلمان قتل کردیں تو صرف ''معافی'' مانگ کر سر خُرو ہوجاتے ہیں اور اگر کسی مسلمان کے ہاتھوں ایک بھی غیر مسلم قتل ہوجائے تو سارے مسلمانوں کو ''دہشتگرد'' قرار دینے میں لمحہ نہیں لگتا۔ آج طالبان بھی دہشت گرد ہیں اور اُن سے لڑنے والے بھی، آج داعش بھی دہشت گرد ہے اور اُن سے لڑنے والا بشارالااسد بھی، آج ایک ہندو لڑکی سے شادی کرنے والا اور گھر میں دیوی دیوتاؤں کی مُورتیاں رکھنے والا ''روشن خیال مسلمان'' بھی دہشت گرد ہے اور داڑھی رکھنے اور نماز پڑھنے والا بھی دہشت گرد۔

الغرض آج مسلمان کا نام ہی دہشت گرد قرار دیا جاچکا ہے اور اس سب کا ذمہ دار کوئی اور نہیں مسلمان خود ہیں۔ آج مسلمان تقسیم در تقسیم کا شکار ہوکر اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ دشمن کے لئے تر نوالہ ثابت ہورہے ہیں۔ آج ہم اپنے ملک، قوم، نسل اور قبیلے پر فخر کرتے ہیں اور اسلام کا پڑھایا ہوا سبق کہ سب مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں بھول چکے ہیں۔ ''ملت'' کا تصور جس نے مسلمانوں کو رنگ، نسل، زبان، لباس کی تمیز کے بغیر ایک لڑی میں پرو دیا تھا، ہم اُس تصور کو ختم کرنے میں لگے ہوئے ہیں، علامہ اقبال نے کہا تھا،
بتانِ رنگ و خون کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی


لیکن افسوس ہم علامہ صاحب کا یہ سبق بھی نہ سمجھ سکے، اگر ہم اپنے مسائل آپس میں حل کرنے کے قابل ہوتے تو دنیا آج ہمیں اس طرح ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ کرتی۔ ہم نے اپنے مسائل حل کرنے کے لئے جو اسلامی ممالک کی تنظیم بنائی تھی وہ ہماری ذاتی سیاست کی نظر ہوگئی اور اُس کا حال سب کے سامنے ہے۔

آج بھی ہم اگر متحد ہوکر اپنے مفادات اور اپنے نظریات کا دفاع کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلیں، لیکن اُس کے لئے ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا، اپنے نظریات کو اپنے تک محدود کرنا ہوگا، سب کے فائدے کے لئے ایک دوسرے کا احترام کرنا ہوگا۔ اگر یہ کرسکیں تو ہم کامیاب و کامران ہوں گے اور اگر نہ کیا تو پھر ہماری آنے والی نسلیں بھی جائے امان ڈھونڈتے، اپنے نظریات دوسروں پر ٹھونستے ہوئے، کفر کے فتوے صادر کرتے ہوئے اپنی جانیں دیتی رہیں گی اور دینا کی نفرت کا نشانہ بنتی رہیں گی، علامہ اقبال کے لفظوں میں،
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوٰی ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

[poll id="792"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story