آصف زرداری کے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
پولیس اور رینجرز نے 14روزہ ریمانڈ کی استدعا کی تھی لیکن عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل کی درخواست پر 4 روز کا ریمانڈ دیا
ISLAMABAD:
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم کو 4روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔
پولیس نے انتہائی سیکیورٹی میں ڈاکٹر عاصم کو گلبرگ پولیس اسٹیشن سے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے منتظم جج جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کے روبرو پیش کیا، اس وقت ماحول بہت زیادہ جذباتی ہوگیا جب ڈاکٹر عاصم کو دیکھ کر ان کی اہلیہ اور بیٹی زار وقطار رونے لگیں۔ عدالت کے روبرو رینجرز کے لا آفیسر کے علاوہ پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان بھی عدالت میں پیش ہوئے جس پر رینجرز کے لا آفیسر نے اعتراض کیا کہ وہ قانون کے مطابق پیش نہیں ہوسکتے۔ شہادت اعوان نے کہا کہ وہ استغاثہ کی جانب سے پیش ہوئے ہیں۔
سماعت کے دوران پولیس نے ملزم کے 14 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی جب کہ پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے عدالت کے روبرو ایف آئی آر پڑھ کر سنائی اور استدعا کی کہ مقدمہ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں قائم کیا گیا ہے، گواہوں کے بیانات ابھی ریکارڈ نہیں کئے گئے، اس لئے انہیں 4 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا جائے۔ اس موقع پر رینجرز کے وکیل اور پراسیکیوٹر جنرل سندھ میں شدید اختلاف رائے پیدا ہوا۔
رینجرز کے لا آفیسر کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ 90 روزہ تحویل کے دوران ڈاکٹر عاصم سے کی گئی تحقیقات کے دوران کئی اہم شہادتیں سامنے آئی ہیں اور انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنما سلیم شہزاد، انیس قائم خانی، رؤف صدیقی اور وسیم اختر کے کہنے پر ڈاکٹر عاصم نے اپنے اسپتال میں دہشت گردوں کا علاج کیا۔ اس لئے دیگر ملزمان کی گرفتاری اور ثبوت جمع حاصل کرنے کے لئے انہیں 14 روز کا ہی ریمانڈ دیا جائے۔
عدالت میں ڈاکٹر عاصم کے وکیل عامر رضا نقوی نے کہا کہ رینجرز نے ڈاکٹر عاصم کے وکیل کو 95 روز اپنی تحویل میں رکھا۔ ڈاکٹرعاصم پروفیشنل ڈاکٹرہیں ان کا کام یہ پتہ چلانا نہیں کہ مریض دہشت گرد ہے یا نہیں، آئین کا آرٹیکل 14 ڈاکٹرعاصم کو ہرقسم کے مریض کے علاج کا اختیار دیتا ہے،ان کے مؤکل ایک سیاستدان بھی ہیں، مقدمات سے ان کی ساکھ متاثرہوئی، حساس ادارے کی جے آئی ٹی نے ڈاکٹر عاصم سے ایک بند کمرے میں تحقیقات کی، اس دوران انہیں شدید خوف زدہ کیا گیا۔ وہ 95 دن اہل خانہ سے دور رہے ہیں تو انہیں ریمانڈ میں ہی دینا ہے تو انہیں ان کے گھر منتقل کیا جائے اور ان کی رہائش گاہ کو سب جیل کا درجہ دیا جائے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ڈاکٹر عاصم کو 4 روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
دوسری جانب ڈاکٹر عاصم کو عدالت میں پیش کیے جانے سے قبل تفتیشی افسر نے دیگر حکام کو ریمانڈ کے حصول کی جو دستاویزات دکھائی تھیں ان میں عدالت سے 14 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی تاہم جب انسداد دہشت گردی کی عدالت میں وہ تحریری استدعا پیش کی گئی اس میں انتہائی چالاکی کے ساتھ ایک کو صفر میں تبدیل کرکے 14 کو 4 میں بدل دیا جسے دیکھتے ہوئے عدالت نے بھی پولیس کو 4 روزہ ریمانڈ دیا۔
واضح رہے کہ رینجرز نے ڈاکٹر عاصم کو سرکاری اداروں میں غیر قانونی تقرریوں، خلاف ضابطہ ٹھیکے دینے اور اپنے اسپتال میں دہشت گردوں کے مفت علاج کے الزام کے تحت حراست میں لیا تھا۔
https://www.dailymotion.com/video/x3fnfjf
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم کو 4روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔
پولیس نے انتہائی سیکیورٹی میں ڈاکٹر عاصم کو گلبرگ پولیس اسٹیشن سے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے منتظم جج جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کے روبرو پیش کیا، اس وقت ماحول بہت زیادہ جذباتی ہوگیا جب ڈاکٹر عاصم کو دیکھ کر ان کی اہلیہ اور بیٹی زار وقطار رونے لگیں۔ عدالت کے روبرو رینجرز کے لا آفیسر کے علاوہ پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان بھی عدالت میں پیش ہوئے جس پر رینجرز کے لا آفیسر نے اعتراض کیا کہ وہ قانون کے مطابق پیش نہیں ہوسکتے۔ شہادت اعوان نے کہا کہ وہ استغاثہ کی جانب سے پیش ہوئے ہیں۔
سماعت کے دوران پولیس نے ملزم کے 14 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی جب کہ پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے عدالت کے روبرو ایف آئی آر پڑھ کر سنائی اور استدعا کی کہ مقدمہ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں قائم کیا گیا ہے، گواہوں کے بیانات ابھی ریکارڈ نہیں کئے گئے، اس لئے انہیں 4 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا جائے۔ اس موقع پر رینجرز کے وکیل اور پراسیکیوٹر جنرل سندھ میں شدید اختلاف رائے پیدا ہوا۔
رینجرز کے لا آفیسر کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ 90 روزہ تحویل کے دوران ڈاکٹر عاصم سے کی گئی تحقیقات کے دوران کئی اہم شہادتیں سامنے آئی ہیں اور انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنما سلیم شہزاد، انیس قائم خانی، رؤف صدیقی اور وسیم اختر کے کہنے پر ڈاکٹر عاصم نے اپنے اسپتال میں دہشت گردوں کا علاج کیا۔ اس لئے دیگر ملزمان کی گرفتاری اور ثبوت جمع حاصل کرنے کے لئے انہیں 14 روز کا ہی ریمانڈ دیا جائے۔
عدالت میں ڈاکٹر عاصم کے وکیل عامر رضا نقوی نے کہا کہ رینجرز نے ڈاکٹر عاصم کے وکیل کو 95 روز اپنی تحویل میں رکھا۔ ڈاکٹرعاصم پروفیشنل ڈاکٹرہیں ان کا کام یہ پتہ چلانا نہیں کہ مریض دہشت گرد ہے یا نہیں، آئین کا آرٹیکل 14 ڈاکٹرعاصم کو ہرقسم کے مریض کے علاج کا اختیار دیتا ہے،ان کے مؤکل ایک سیاستدان بھی ہیں، مقدمات سے ان کی ساکھ متاثرہوئی، حساس ادارے کی جے آئی ٹی نے ڈاکٹر عاصم سے ایک بند کمرے میں تحقیقات کی، اس دوران انہیں شدید خوف زدہ کیا گیا۔ وہ 95 دن اہل خانہ سے دور رہے ہیں تو انہیں ریمانڈ میں ہی دینا ہے تو انہیں ان کے گھر منتقل کیا جائے اور ان کی رہائش گاہ کو سب جیل کا درجہ دیا جائے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ڈاکٹر عاصم کو 4 روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
دوسری جانب ڈاکٹر عاصم کو عدالت میں پیش کیے جانے سے قبل تفتیشی افسر نے دیگر حکام کو ریمانڈ کے حصول کی جو دستاویزات دکھائی تھیں ان میں عدالت سے 14 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی تاہم جب انسداد دہشت گردی کی عدالت میں وہ تحریری استدعا پیش کی گئی اس میں انتہائی چالاکی کے ساتھ ایک کو صفر میں تبدیل کرکے 14 کو 4 میں بدل دیا جسے دیکھتے ہوئے عدالت نے بھی پولیس کو 4 روزہ ریمانڈ دیا۔
واضح رہے کہ رینجرز نے ڈاکٹر عاصم کو سرکاری اداروں میں غیر قانونی تقرریوں، خلاف ضابطہ ٹھیکے دینے اور اپنے اسپتال میں دہشت گردوں کے مفت علاج کے الزام کے تحت حراست میں لیا تھا۔
https://www.dailymotion.com/video/x3fnfjf