روس اور ترکی کے درمیان کشیدگی دنیا کو ایٹمی جنگ کی جانب لے جارہی ہے ماہرین

روس کے 7700 ایٹمی ہتھیار سرگرم ہیں جب کہ دنیا کو تباہ کرنے کے لیے صرف 200 ایٹمی ہتھیار کافی ہیں، دی آرمز کنٹرول


خالد اقبال November 26, 2015
روس کے 7700 ایٹمی ہتھیار سرگرم ہیں جب کہ دنیا کو تباہ کرنے کے لیے صرف 200 ایٹمی ہتھیار کافی ہیں، دی آرمز کنٹرول، فوٹو: فائل

داعش کا خطرہ بڑھ رہا ہے یا پھر عالمی قوتیں ایسا ماحول اور حالات پیدا کررہی ہیں جو دنیا کو تیزی سے تیسری جنگ عظیم یا ایٹمی جنگ کی طرف کھینچ کر لے جارہی ہے اور کیا روس اور ترکی کے درمیان بڑھتی سرد جنگ اس جانب پہلا قدم ہے، اس تیسری جنگ عظیم کے خطرات کا اظہار اب سوشل میڈیا پر بھی ہونے لگا ہے اور ایک روسی فوجی تجزیہ نگار نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ دنیا تیزی سے ایٹمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے۔

روسی فوجی تجزیہ نگار پیول فیلگن ہاورکے تجزئیے کو عالمی سطح پر بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ترک فوج نے شام کی سرحد کے قریب اس کی سرحد کی خلاف ورزی کرنے والے روسی طیارے کو مار گرایا جس پر روس نے ترکی کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس سے فوجی تعلقات منقطع کرتے ہوئے دھمکی دی کہ ترکی کو خطرناک نتائج کا سامنے کرنا پڑ سکتا ہے لیکن اگلے ہی روز بظاہر یہ تو کہہ دیا کہ روس ترکی سے جنگ نہیں کرنا چاہتا جب کہ اس بیان کے بالکل برعکس لمبے فاصلے تک مارک کرنے والے میزائل شکن نظام ترکی کی سرحد سے صرف 30 میل کے فاصلے پر نصب کردیا ہے جن سے روس کے عزائم کا انداہ لگایا جا سکتا ہے۔ ادھر نیٹو اور امریکی افواج بھی داعش کے خلاف کارروائی کی آڑ میں جدید ترین اسلحہ شام کی سرحد کے قریب جمع کر رہے ہیں۔

امریکی تنظیم دی آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اس وقت روس کے 7700 ایٹمی ہتھیار سرگرم ہیں جن میں سے 4500 ذخیرہ میں جب کہ 1548 میزائل اور ایئر بیسز پر نصب کیے گئے ہیں جب کہ یہ امر حیرت سے خالی نہیں کہ صرف 200 ایٹمی ہتھیار پوری دنیا کی تباہی کے لیے کافی ہیں۔ روس میں ایٹمی جنگ کے آغاز کے لیے لگایا گیا 4 منٹ وارننگ سسٹم 1992 میں ختم کردیا گیا ہے لہٰذا جنگ کے الارم کے لیے اب یہ سائرن کسی کو سنائی نہیں دے گا بلکہ اب یہ اعلان موبائل فون پر پیغام کرکے دیا جائے گا جب کہ اس نئے میسج سسٹم کو 2013 میں نیشنل سیکورٹی کونسل گلاسگو میں ٹیسٹ کر لیا گیا تھا۔



ایٹمی جنگ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی ٹیکنالوجی ابھی تک ایجاد نہیں ہوئی جو بین البراعظمی بلیسٹک میزائل کو روک سکے اس لیے پیغام کے آنے تک لوگوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ خود کو گھروں میں بند کرلیں۔ ہیرو شیما پر ایٹمی حملوں کے عینی شاہدین میں سے ولیم برچیٹ کا کہنا تھا کہ جو ہزاروں لوگ اس دھماکے کے مرکز کے قریب تھے وہ سب کے سب ایک دم غائب ہوگئے اور ان کا آج تک کچھ پتا نہیں چلا جب کہ اس سے متعلق نظریئے کا کہنا ہے کہ وہ سب لوگ راکھ میں تبدیل ہوگئے کیوں کہ جوہری حرارت اتنی زیادہ تھی کہ قریبی ہزاروں لوگ تیزی سے جل کر راکھ میں بدل گئے تھے اور ہیرو شیما پر پھینکے جانے والے جوہری بم کی طرز کے ہائیڈروجن ہتھیار اب روس اور امریکا استعمال کررہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائیڈروجن بم ایسے مہلک اور خوفناک ہتھیار ہیں جو لمحوں میں شہروں کے شہر صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں اسی لیے ہیرو شیما میں جوہری بموں سے 60 لاکھ لوگ موت کا شکار ہوئے، ہزاروں گھر تباہ ہوگئے اور 130 میل رقبے کے اندر رہنے والے لاکھوں لوگ ہائیڈروجن سے نکلنے والے زہرلے دھویں یا تابکاری شعاعوں کے زہر سے ہمیشہ کے لیے معذور ہوگئے۔ اسٹیوینز انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہر الیکس ویلر اسٹین کی ایک ایپ کے جوہری نقشے میں دکھایا گیا ہے کہ اگر روس کا سب سے بڑا ہائیڈروجن بم گرا دیا جائے تو اس کی ہولناک تباہی ہیرو شیما کے جنوب سے لیوٹن کے شمال تک جائے گی جس سے ایک کروڑ لوگ ہلاک و زخمی ہوسکتے ہیں۔



1979 میں امریکی ٹیکنالوجی کانگریس آفس سے جاری ایک رپورٹ ''دی ایفیکٹس آف وار'' میں ایٹمی جنگ کے نتائج کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ اس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوگی اور کروڑوں لوگ موت کی نیند سو جائیں گے جب کہ کروڑوں دیگر لوگ تابکاری شعاعوں کے باعث کینسر اور دیگر بیماریوں کا شکار ہوکر معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے ایٹمی جنگ سے متعلق ایک پروگرام میں ایٹمی جنگ کا نقشہ کھینچتے ہوئے اس وقت کی براڈ کاسٹ سروس کچھ یوں پیش کی ہے، یہ جنگی نشریاتی سروس ہے، اس ملک پر ایٹمی حملہ کیا گیا ہے لیکن یاد رکھیں اس سے بچنے کے لیے بھاگنے کی کوشش نہ کریں کیوں کہ گھروں سے نکلنے سے آپ خود کو زیادہ بڑے خطرے میں ڈال لیں گے اور اگر ایسا کیا تو آپ کو نہ پانی اور کھانا اور نہ ہی گھر ملے گا اور اس سے بھی زیادہ خطرناک یہ کہ آپ تابکاری شعاعوں کا نشانہ بن کر موت کا شکار ہوسکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ایٹمی جنگ کے نتیجے میں زمین کا ماحول زہریلا ہوجائے گا جس سے دھماکے سے فوری ہلاکتوں کے بعد اس سے کہیں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا، کئی دہائیوں تک فضا میں تابکاری شعاعوں کے اثرات رہیں گے اور آسمان سے ہونے والی کاربن کی بارش سے درجہ میں زبردست کمی اور فصلیں تباہ ہوجائیں گی۔



یہ تو بات ہے دنیا کے اس یورپی حصے کی اب ذرا بات ہوجائے ایشیا کی، اگر پاک بھارت ایٹمی جنگ ہوجائے تو امریکی ماہرین نے کئی برس قبل کمپیوٹرسیمولیشن اور تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ایٹم بموں کے تبادلے سے فوری طور پر 2 کروڑ افراد ہلاک ہوجائیں گے۔ تابکاری اور مٹی چھاجانے سے پوری دنیا میں ایک ارب سے زائد افراد متاثر ہوں گے کیونکہ اگر دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف 100 ایٹم بم چلاتے ہیں تو اس سے لاکھوں ایکڑ زمین پر آگ لگ جائے گی اور کم ازکم 5 ٹیراگرام مٹی فضا میں اڑے گی اور کئی ماہ تک موجود رہے گی جس سے سورج دکھائی ںہیں دے گا اور تمام آبی ذخائر میں تابکاری پھیل جائے گی اور اس سے مزید لاکھوں افراد ہلاک ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں