توانائی بحران کے خاتمے کے لیے حکومتی کوششیں

موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں جاری توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے بڑی تندہی سے کام کا آغاز کیا

موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں جاری توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے بڑی تندہی سے کام کا آغاز کیا، فوٹو: فائل

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے وزارت پانی و بجلی کو داسو اور نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کے لیے مجموعی طور پر 244 ارب روپے حکومتی ضمانت پر کمرشل فنانسنگ کے ذریعے حاصل کرنیکی منظوری دیدی ہے۔ تاہم 16 ارب ڈالر مالیت کے ایل این جی کی خرید و فروخت کے معاہدے کی سمری موخر کر دی گئی۔ داسو اور نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کے لیے دو سو چوالیس ارب روپے کی بھاری رقم حکومتی ضمانت پر کمرشل فنانسنگ کے ذریعے لینے کی اجازت سے توانائی کے ان اہم منصوبوں پر کام پوری رفتار سے شروع ہونے کی راہ ہموار ہو گئی ہے کیونکہ اس رقم کا کمرشل فنانسنگ کے ذریعے حصول آسان ہو جائے گا نیز اس کے لیے حکومتی ضمانت بھی موجود ہے۔


مالیاتی ماہرین کے مطابق اگر اس رقم کو عالمی مالیاتی اداروں سے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی تو اس رقم کا حصول اتنا یقینی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ بیرونی ادارے جو قرضہ یا امداد دیتے ہیں وہ دی گئی رقم سے کہیں زیادہ وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور حکومت کو نئے ٹیکس لگانے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت ہوا جس میں وزارت پٹرولیم نے ایل این جی کی درآمد اور انتظام کے لیے ذیلی ادارے قائم کرنیکی بھی اجازت دیدی ہے، اجلاس میں واپڈا کو داسو ون منصوبے کے لیے 144 ارب روپے اور نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے ایک سو ارب روپے کے کمرشل قرضے حاصل کرنے کی اجازت کے علاوہ وزارت پٹرولیم نے ایل این جی کی درآمد اور انتظام کے لیے ذیلی ادارے قائم کرنیکی بھی اجازت دیدی۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت توانائی کے بحران کے حل کے لیے ہمہ جہتی کوششیں کر رہی ہے۔

موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں جاری توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے بڑی تندہی سے کام کا آغاز کیا ہے' حکومت نے جس رفتار سے بجلی کی پیداوار کے منصوبے شروع کیے ہیں' اگر وہ اپنے مقررہ ٹائم فریم میں مکمل کر لیے جاتے ہیں تو قوی امید ہے کہ پاکستان میں جاری بجلی کا بحران ڈیڑھ دو برس میں ختم ہو جائے گا' داسو اور نیلم جہلم پاور پراجیکٹ اس حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ این ایل جی کی درآمد سے بھی توانائی کے بحران کے خاتمے میں بڑی مدد ملے گی' حکومت کو اب کوشش یہ کرنی چاہیے کہ توانائی نسبتاً سستی ہونی چاہیے کیونکہ اگر توانائی سستی ہو گی تو اس سے کاروباری سرگرمیوں پر مثبت اثرات پڑیں گے' کسانوں کو بھی فائدہ ہو گا اور کارخانے والوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ سستی توانائی سے ان کی پیداواری لاگت کم ہو گی۔ یوں ملکی معیشت زیادہ بہتر انداز میں کام کرے گی۔
Load Next Story