چوٹی کے اداکار عامر خان کا کرب
اس کا سیکولر ازم پر یقین کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے اور اس کی ساری زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے
KARACHI:
میں اس تقریب میں موجود تھا جہاں ہمارے چوٹی کے اداکار عامر خان نے بتایا کہ ان کی اہلیہ نے ان سے کہا ہے کہ انھیں کسی دوسرے ملک میں منتقل ہو جانا چاہیے تا کہ وہ اپنے بچے کی صحت مند انداز میں پرورش کر سکیں۔ اس کے لہجے میں کوئی طنز یا تعصب نہیں تھا محض قدرے پژمُردگی تھی تاہم اس کی اس بات نے مجھے دہلا کر رکھ دیا۔ بیشک اس سے پوری قوم کو دھچکہ لگا ہے۔ اس سے پہلے مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ حالات اتنے دگرگوں ہو چکے ہیں کہ عامر خان جیسا شخص بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اسے اپنی فیملی کے ہمراہ کسی دوسرے ملک میں چلے جانا چاہیے۔ اقلیتی برادریوں کے کم اثر و رسوخ والے لوگ تو دہشت زدہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ ملک کے تقریباً 500 فنکاروں اور دانشوروں نے اپنے اعزازات واپس کر دیے ہیں جو قابل فہم ہے۔ اس طریقے سے انھوں نے اپنے کرب کا اظہار کیا ہے۔ وہ لوگ جو اس حد تک نہیں جا سکے وہ خود کو بے یارو مدد گار محسوس کر رہے ہیں۔
عامر خان کی بات سن کر سماجی رہنماؤں کو باہم بیٹھ کر اس سوال پر غور کرنا ہو گا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اقلیتوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے حتیٰ کہ ان میں سے سب سے زیادہ باصلاحیت اور مہذب لوگ بھی جیسے عامر خان ہیں وہ بھی خود کو اسقدر غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ بی جے پی تو فی الواقعی اس پر پل پڑی ہے اور اس پر زبان درازی بھی کی ہے یعنی یہ کہا ہے کہ وہ ناشکرے پن کا مظاہرہ کر رہا ہے حالانکہ اس نے اپنا یہ مقام سخت محنت اور ریاضت کے بعد حاصل کیا ہے۔ اور بھارت اس کی اداکاری کو سراہتا بھی رہا ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس قسم کی بات کرنے کے لیے کوئی نیا واقعہ رو پذیر نہیں ہوا لیکن عامر خان کو ایسا ہی محسوس ہوا ہے۔ مجھے اس کے احساسات کا پاس ہے۔ ہمیں سب کو اپنے اندر جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ عامر خان جیسا شخص جسے ملک بھر میں چاہا اور سراہا جاتا ہے اس کو یہ بات کیوں کہنا پڑی۔ ہمیں اس بات کا شعور ہونا چاہیے تھا کہ ایسی بات کا کیا اثر ہوتا ہے۔ عامر خان ایک حساس شخص ہے اس کو محسوس ہوا ہو گا کہ ملک میں عدم برداشت میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اس جیسا شخص بھی مایوسی کا شکار ہوگیا۔
اس کا سیکولر ازم پر یقین کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے اور اس کی ساری زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ بدقسمتی سے اس کے بیان پر جو بحث شروع ہوئی ہے وہ صحت مند نہیں۔ بجائے اس کے کہ لوگ بیٹھ کر ٹھنڈے دل سے سوچتے کہ عامر خان جیسے شخص نے ایسی بات کیوں کی اس کے برعکس اس پر طعن و تشنیع کے تیر برسانے شروع کر دیے گئے کہ آخر اسے یہ کہنے کی جرات ہی کیوں ہوئی۔ اس واقعے سے وہی ہندو مسلم تعلقات کے بارے میں چبھتا ہوا سوال پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ ایسی سب باتوں پر پردہ ڈالنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اب بھی تقسیم کے معاملے کا ہی حوالہ دیا جاتا ہے حالانکہ تقسیم ایک حقیقت ہے اور اس فارمولے کو جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل نے بھی تسلیم کر لیا تھا جو تحریک آزادی کی قیادت کر رہے تھے۔ یہ درست ہے کہ دونوں تقسیم کو قبول کرنے میں تذبذب کا شکار تھے لیکن جب انھوں نے محسوس کیا کہ برطانوی حکومت سے نجات کا یہی ایک راستہ ہے تو انھوں نے برصغیر کی تقسیم قبول کر لی۔
مہاتما گاندھی گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کے کمرے سے باہر نکلے تو وہاں تقسیم کے فارمولے پر بات ہو چکی تھی گو مہاتما گاندھی نے اس بحث میں حصہ نہیں لیا لیکن جب برطانوی وزیراعظم ایٹلی نے کہا کہ انھیں تو ہر صورت واپس جانا ہے خواہ کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان کوئی مفاہمت ہو یا نہ ہو۔ تب نہرو اور پٹیل نے حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے تقسیم پر رضا مندی ظاہر کر دی اگرچہ اس کے لیے انھیں بہت دکھ اور مایوسی ہوئی۔ اگرچہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم بڑی تباہ کن ثابت ہوئی کیونکہ مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ لیکن یہ وہ قیمت تھی جو لوگوں کو برطانوی حکمرانی سے نجات حاصل کرنے کے لیے ادا کرنا پڑی۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ تقسیم کا نتیجہ بہت اذیت ناک نکلا ہے کیونکہ دونوں ریاستیں بھارت اور پاکستان برطانوی حکومت کے بعد دوست بننے کے بجائے جانی دشمن بن گئیں۔ دونوں جانب کے سیاستدان اس کے لیے مورد الزام ٹھہرائے جا سکتے ہیں جو تقسیم کے اختلافات میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کانگریس نے تحریک آزادی کی قیادت کی لہذا اسے عوام کو سمجھنا چاہیے تھا کہ تقسیم کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں تھا کیونکہ مسلمانوں کو عمومی طور پر دو قومی نظریے کے ذریعے رہنمائی کی جا رہی تھی۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا موقف تھا کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف قومیں ہیں۔ انھوں نے مذہب کو قوم کی بنیاد قرار دیا اگرچہ اس کے مضمرات تکلیف دہ تھے تاہم انھوں نے مسلمانوں کی مکمل حمایت حاصل کر لی۔
انتقال اقتدار برائے نام پرامن تھا۔ دونوں جانب کے عوام اپنے لیڈروں کی طرف سے امن و امان کی یقین دہانی کے باوجود اپنے گھر چھوڑ کر اپنی اپنی برادری کے ملکوں میں پناہ کی تلاش میں منتقل ہونے لگے۔ ملک میں اس سے پہلے کبھی اسقدر خون خرابہ نہیں ہوا تھا۔ دونوں برادریوں کے تقریباً ایک کروڑ لوگ قتل کر دیے گئے اور ان سے کہیں زیادہ تعداد میں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ آج تک یہ زخم نہیں بھر سکے۔ اس کے برعکس دونوں ملکوں نے 3 بے نتیجہ جنگیں بھی لڑیں۔ ہیں جب کہ پائیدار امن کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔ بھارت میں مسلمانوں کی اہمیت ختم ہو گئی حالانکہ ان کی تعداد 15 کروڑ سے زیادہ ہے جب کہ پاکستان میں ہندوؤں کی تعداد 2 فیصد سے بھی کم ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ ایک اسلامی ریاست بنے گا جس کے مطابق آئین تیار کر لیا گیا۔
بھارت نے سیکولر ریاست ہونے کا انتخاب کیا۔ اگرچہ بھارت میں ہندو آبادی تقریباً 80 فیصد ہے اس کے باوجود اس نے سیکولر ازم کو اپنے آئین کے دیباچے میں شامل کر لیا۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں جب کہ مذہب کی بنیاد پر کوئی بھارتی کسی دوسرے سے کم تر نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کا ریاست کے معاملات میں بہت کم عمل دخل ہے۔ تقسیم سے قبل جداگانہ رائے دہندگی کا اصول لاگو تھا جو بعد میں نہیں رہا جس سے کمیونٹی کو فائدہ ہوا۔ لیکن یہ صرف انتخابی عمل تک ہی جاری رہتا ہے۔ جب انتخابات مکمل ہو جاتے ہیں تو پھر دیگر عوامل بروئے کار آ جاتے ہیں اور مسلمانوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں نفرتیں اسی طرح ابھر آتی ہیں جس طرح انتخابات سے پہلے ہوتی ہیں۔ یہ ایسی صورت حال ہے جس سے بھارت ابھی تک نبرد آزما ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
میں اس تقریب میں موجود تھا جہاں ہمارے چوٹی کے اداکار عامر خان نے بتایا کہ ان کی اہلیہ نے ان سے کہا ہے کہ انھیں کسی دوسرے ملک میں منتقل ہو جانا چاہیے تا کہ وہ اپنے بچے کی صحت مند انداز میں پرورش کر سکیں۔ اس کے لہجے میں کوئی طنز یا تعصب نہیں تھا محض قدرے پژمُردگی تھی تاہم اس کی اس بات نے مجھے دہلا کر رکھ دیا۔ بیشک اس سے پوری قوم کو دھچکہ لگا ہے۔ اس سے پہلے مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ حالات اتنے دگرگوں ہو چکے ہیں کہ عامر خان جیسا شخص بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اسے اپنی فیملی کے ہمراہ کسی دوسرے ملک میں چلے جانا چاہیے۔ اقلیتی برادریوں کے کم اثر و رسوخ والے لوگ تو دہشت زدہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ ملک کے تقریباً 500 فنکاروں اور دانشوروں نے اپنے اعزازات واپس کر دیے ہیں جو قابل فہم ہے۔ اس طریقے سے انھوں نے اپنے کرب کا اظہار کیا ہے۔ وہ لوگ جو اس حد تک نہیں جا سکے وہ خود کو بے یارو مدد گار محسوس کر رہے ہیں۔
عامر خان کی بات سن کر سماجی رہنماؤں کو باہم بیٹھ کر اس سوال پر غور کرنا ہو گا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اقلیتوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے حتیٰ کہ ان میں سے سب سے زیادہ باصلاحیت اور مہذب لوگ بھی جیسے عامر خان ہیں وہ بھی خود کو اسقدر غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ بی جے پی تو فی الواقعی اس پر پل پڑی ہے اور اس پر زبان درازی بھی کی ہے یعنی یہ کہا ہے کہ وہ ناشکرے پن کا مظاہرہ کر رہا ہے حالانکہ اس نے اپنا یہ مقام سخت محنت اور ریاضت کے بعد حاصل کیا ہے۔ اور بھارت اس کی اداکاری کو سراہتا بھی رہا ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس قسم کی بات کرنے کے لیے کوئی نیا واقعہ رو پذیر نہیں ہوا لیکن عامر خان کو ایسا ہی محسوس ہوا ہے۔ مجھے اس کے احساسات کا پاس ہے۔ ہمیں سب کو اپنے اندر جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ عامر خان جیسا شخص جسے ملک بھر میں چاہا اور سراہا جاتا ہے اس کو یہ بات کیوں کہنا پڑی۔ ہمیں اس بات کا شعور ہونا چاہیے تھا کہ ایسی بات کا کیا اثر ہوتا ہے۔ عامر خان ایک حساس شخص ہے اس کو محسوس ہوا ہو گا کہ ملک میں عدم برداشت میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اس جیسا شخص بھی مایوسی کا شکار ہوگیا۔
اس کا سیکولر ازم پر یقین کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے اور اس کی ساری زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ بدقسمتی سے اس کے بیان پر جو بحث شروع ہوئی ہے وہ صحت مند نہیں۔ بجائے اس کے کہ لوگ بیٹھ کر ٹھنڈے دل سے سوچتے کہ عامر خان جیسے شخص نے ایسی بات کیوں کی اس کے برعکس اس پر طعن و تشنیع کے تیر برسانے شروع کر دیے گئے کہ آخر اسے یہ کہنے کی جرات ہی کیوں ہوئی۔ اس واقعے سے وہی ہندو مسلم تعلقات کے بارے میں چبھتا ہوا سوال پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ ایسی سب باتوں پر پردہ ڈالنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اب بھی تقسیم کے معاملے کا ہی حوالہ دیا جاتا ہے حالانکہ تقسیم ایک حقیقت ہے اور اس فارمولے کو جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل نے بھی تسلیم کر لیا تھا جو تحریک آزادی کی قیادت کر رہے تھے۔ یہ درست ہے کہ دونوں تقسیم کو قبول کرنے میں تذبذب کا شکار تھے لیکن جب انھوں نے محسوس کیا کہ برطانوی حکومت سے نجات کا یہی ایک راستہ ہے تو انھوں نے برصغیر کی تقسیم قبول کر لی۔
مہاتما گاندھی گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کے کمرے سے باہر نکلے تو وہاں تقسیم کے فارمولے پر بات ہو چکی تھی گو مہاتما گاندھی نے اس بحث میں حصہ نہیں لیا لیکن جب برطانوی وزیراعظم ایٹلی نے کہا کہ انھیں تو ہر صورت واپس جانا ہے خواہ کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان کوئی مفاہمت ہو یا نہ ہو۔ تب نہرو اور پٹیل نے حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے تقسیم پر رضا مندی ظاہر کر دی اگرچہ اس کے لیے انھیں بہت دکھ اور مایوسی ہوئی۔ اگرچہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم بڑی تباہ کن ثابت ہوئی کیونکہ مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ لیکن یہ وہ قیمت تھی جو لوگوں کو برطانوی حکمرانی سے نجات حاصل کرنے کے لیے ادا کرنا پڑی۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ تقسیم کا نتیجہ بہت اذیت ناک نکلا ہے کیونکہ دونوں ریاستیں بھارت اور پاکستان برطانوی حکومت کے بعد دوست بننے کے بجائے جانی دشمن بن گئیں۔ دونوں جانب کے سیاستدان اس کے لیے مورد الزام ٹھہرائے جا سکتے ہیں جو تقسیم کے اختلافات میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کانگریس نے تحریک آزادی کی قیادت کی لہذا اسے عوام کو سمجھنا چاہیے تھا کہ تقسیم کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں تھا کیونکہ مسلمانوں کو عمومی طور پر دو قومی نظریے کے ذریعے رہنمائی کی جا رہی تھی۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا موقف تھا کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف قومیں ہیں۔ انھوں نے مذہب کو قوم کی بنیاد قرار دیا اگرچہ اس کے مضمرات تکلیف دہ تھے تاہم انھوں نے مسلمانوں کی مکمل حمایت حاصل کر لی۔
انتقال اقتدار برائے نام پرامن تھا۔ دونوں جانب کے عوام اپنے لیڈروں کی طرف سے امن و امان کی یقین دہانی کے باوجود اپنے گھر چھوڑ کر اپنی اپنی برادری کے ملکوں میں پناہ کی تلاش میں منتقل ہونے لگے۔ ملک میں اس سے پہلے کبھی اسقدر خون خرابہ نہیں ہوا تھا۔ دونوں برادریوں کے تقریباً ایک کروڑ لوگ قتل کر دیے گئے اور ان سے کہیں زیادہ تعداد میں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ آج تک یہ زخم نہیں بھر سکے۔ اس کے برعکس دونوں ملکوں نے 3 بے نتیجہ جنگیں بھی لڑیں۔ ہیں جب کہ پائیدار امن کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔ بھارت میں مسلمانوں کی اہمیت ختم ہو گئی حالانکہ ان کی تعداد 15 کروڑ سے زیادہ ہے جب کہ پاکستان میں ہندوؤں کی تعداد 2 فیصد سے بھی کم ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ ایک اسلامی ریاست بنے گا جس کے مطابق آئین تیار کر لیا گیا۔
بھارت نے سیکولر ریاست ہونے کا انتخاب کیا۔ اگرچہ بھارت میں ہندو آبادی تقریباً 80 فیصد ہے اس کے باوجود اس نے سیکولر ازم کو اپنے آئین کے دیباچے میں شامل کر لیا۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں جب کہ مذہب کی بنیاد پر کوئی بھارتی کسی دوسرے سے کم تر نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کا ریاست کے معاملات میں بہت کم عمل دخل ہے۔ تقسیم سے قبل جداگانہ رائے دہندگی کا اصول لاگو تھا جو بعد میں نہیں رہا جس سے کمیونٹی کو فائدہ ہوا۔ لیکن یہ صرف انتخابی عمل تک ہی جاری رہتا ہے۔ جب انتخابات مکمل ہو جاتے ہیں تو پھر دیگر عوامل بروئے کار آ جاتے ہیں اور مسلمانوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں نفرتیں اسی طرح ابھر آتی ہیں جس طرح انتخابات سے پہلے ہوتی ہیں۔ یہ ایسی صورت حال ہے جس سے بھارت ابھی تک نبرد آزما ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)