حسینہ واجد ناکام رہے گی
عظیم جنوبی ایشیا کس چڑیا کا نام ہے، اس کے لیے ڈھاکا میں محاذ کیوں کھولا گیا ہے؟
KARACHI:
عظیم جنوبی ایشیا کس چڑیا کا نام ہے، اس کے لیے ڈھاکا میں محاذ کیوں کھولا گیا ہے؟ جنوبی ایشیا کی خوشحالی اور رواداری کے اس تصوراتی منصوبے پر عمل درآمد میں کن دشواریوں کا سامنا ہے۔ گزشتہ ہفتے کالم نگار کو ان سوالات کا سامنا رہا۔ ویسے عجب معاملہ ہے کہ کرہ ارض کی کل آبادی کا پانچواں حصہ اس خطے میں بستا ہے۔ دنیا کا ہر پانچواں شخص جنوبی ایشیائی ہے۔
جنوبی ایشیا میں علاقائی تعاون تنظیم (SAARC) تمام تر دعوؤں کے باوجود باہمی میل ملاپ' سرحد پار رابطوں میں نرمی اور آسانی پیدا کرنے کے مقاصد کے حصول میں تا حال ناکام ہے جس کی بنیادی وجہ بھارت ہے۔ سری لنکا' مالدیپ اور نیپال بھارتی جبر کا شکار ہیں۔ بھوٹان اور بنگلہ دیش، اب بھارت کی طفیلی ریاستیں ہیں۔ بھارتی حکمران جنوبی ایشیا میں اپنی مکمل حکمرانی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان اور سری لنکا ہیں۔ جب کہ شوریدہ سر بنگالیوں کے متلاطم رویے بھارتی دانشوروں کی نگاہ میں کھٹکتے رہے ہیں۔ جس کا اظہار کسی اور نے نہیں مرنجان مرنجن ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کیا تھا۔
30 جون 2011ء کو بنگلہ دیش کے سرکاری دورے کے آغاز پر نئی دہلی میں بھارت اور بنگلہ دیشی ایڈیٹروں نے مشترکہ اجلاس میں انکشاف کیا تھا کہ بنگلہ دیشی آبادی کا 25 فیصد اعلانیہ بھارت سے دشمنی کا اظہار کرتا ہے۔ ان کی اکثریت جماعت اسلامی بنگلہ دیش سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ لوگ بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ کسی بھی وقت بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ اسلام پسند عناصر بنگلہ دیش کے غیر یقینی سیاسی مستقبل کی علامت ہیں جن کی موجودگی میں ہر وقت اکھاڑ پچھاڑ کا دھڑکا لگا رہے گا۔ بھارت بنگلہ دیش تعلقات کی قربت ان عناصر کی موجودگی میں ممکن نہیں۔ 2009ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو 42 لاکھ ووٹ ملے تھے جس کے بعد نئی دہلی میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئی تھیں جس کے سدباب کے لیے 1971ء کے گڑے مردے اکھاڑ کر حسینہ واجد نے جنگی جرائم کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنا لیا ورنہ جنرل حسین محمد ارشاد کے مارشل لاء کے خلاف عوامی لیگ اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے ہم قدم ہو کر شانہ بشانہ جمہوریت کے لیے جنگ لڑی تھی۔
نام نہاد جنگی جرائم کی وجہ سے پھانسی والے علی احسن مجاہد اور بیگم حسینہ واجد سمیت عوامی لیگ کے تمام سرکردہ رہنما ایک اسٹیج پر کھڑے تقاریر کرتے رہے تھے جب کہ پرامن انتقال اقتدار کا فارمولا پروفیسر غلام اعظم کی کاوشوں کا شاہکار تھا۔لیکن حسینہ واجد نے نئی دہلی میں بیٹھے اپنے آقاؤں کے ایک اشارے پر پالیسی بدل دی۔ 1971ء کے بعد بنگلہ دیش میں یکطرفہ تاریخ پڑھائی گئی ہے، جس کے مطابق 23 مارچ1971ء سے 16 دسمبر 1971ء کے دوران 9 ماہ میں 30 لاکھ بنگالیوں نے آزادی کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں جب کہ جنگ آزادی کے ہیرو' نیتا جی' سبھاش چندربوس کی پوتی اور عالمی شہرت یافتہ تاریخ دان اور مصنفہ شرمیلا بوس نے 30 لاکھ افراد کے قتل کو بے بنیاد اور افسانہ قرار دیا ہے لیکن متوسط طبقے کے شہری آبادی سے تعلق رکھنے والے بنگالیوں کی اکثریت سرکاری تاریخ پر دل و جان سے یقین رکھتی ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکی ریاست نیوجرسی میں مقیم ہم دم دیرینہ ماہر امراض قلب ڈاکٹر شجاعت حسین نے کہا کہ بنگالیوں کی نئی نسل میں پاکستان کے خلاف نفرت کے لیے طویل منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ نماز کے بعد جب بنگلہ دیش کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور بزرگ رہنماؤں کو پھانسیوں کا ذکر ہوا تو نمازیوں نے بھی پاکستان کے حق میں کوئی بات سننے سے انکار کر دیا کہ ان کے لیے حق اور سچ عوامی لیگ کی بیان کردہ تاریخ ہے ۔ حسینہ واجد کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارتی سفارت خانے' وائسرائے ہاؤس میں بدل چکا ہے۔ بھارت کھلے بندوں تمام بنگلہ دیشی سیاسی جماعتوں کی مالی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔
کہتے ہیں کہ 2007-8ء میں بھارتی سفارتکاروں نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے ملاقات کر کے دوستی کا ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔ جماعت اسلامی کے بچے کھچے فکری اثاثے کے وارث' شاہد ہاشمی بتاتے ہیں کہ بھارتی سفارتکاروں نے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمن نظامی سے رابطہ کر کے پیش کش کی تھی کہ دہلی سرکار نے جماعت اسلامی کے بارے اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور بھارت سرکار آمدہ انتخابات میں انتخابی مہم کے لیے مالی تعاون بھی کرے گی۔ کہتے ہیں کہ بھارتی پیش کش پر شکریے کے ساتھ معذرت کر لی گئی جس کے نتیجے میں اس واقعے کے راوی ابوالکلام محمد یوسف اے کے ایم یوسف شہادت پا چکے ہیں جب کہ مطیع الرحمن نظامی ڈھاکا سینٹرل جیل میں پھانسی گھاٹ جانے والے راستے پر گامزن ہیں۔
سینئر تجزیہ نگار اور جنوبی ایشیائی امور کے ماہر محسن رضا خان نے مودی کے دورہ ڈھاکا کے بارے میں کہا تھا کہ بھارتی ڈھاکا کے گلی کوچوں میں پاکستان سے نفرت کا بازار گرم کرنے جا رہے ہیں۔ یہ خدشات درست ثابت ہوئے۔ پاکستان کو اور اس کے چاہنے والوں کو گالی بنا دیا گیا ہے۔ عظیم جنوبی ایشیا کے خاکے میں نفرت کے رنگ بھرے جا رہے ہیں۔ بیگم خالدہ ضیاء نے بلدیاتی انتخابات میں عوامی لیگ کو کھلا میدان مہیا کرنے کے بجائے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاریخ نیا ورق الٹ رہی ہے۔ ڈھاکا نیا سیاسی منظر دیکھ رہا ہے اور ہم پاکستان میں اپنے وفا شعاروں اور جانثاروں کو یاد کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ احتجاج ہمارے اجتماعی شعور کے زندہ و بیدار ہونے کی علامت ہے۔
اس لیے عظیم جنوبی ایشیاء کے خاکے میں اپنے من پسند رنگ بھرنا ممکن نہیں رہا' نفرت کا ایجنڈا بہار میں ناکام ہوا ڈھاکا میں بھی نامراد ہو گا۔ انتظار فقط انتظار۔ نوشتہ دیوار ہے حسینہ واجد بھی اپنے باپ کی طرح ناکام و نامراد رہے گی۔ مسجدوں کا شہر ڈھاکا آباد و شاد باد رہے گا۔
عظیم جنوبی ایشیا کس چڑیا کا نام ہے، اس کے لیے ڈھاکا میں محاذ کیوں کھولا گیا ہے؟ جنوبی ایشیا کی خوشحالی اور رواداری کے اس تصوراتی منصوبے پر عمل درآمد میں کن دشواریوں کا سامنا ہے۔ گزشتہ ہفتے کالم نگار کو ان سوالات کا سامنا رہا۔ ویسے عجب معاملہ ہے کہ کرہ ارض کی کل آبادی کا پانچواں حصہ اس خطے میں بستا ہے۔ دنیا کا ہر پانچواں شخص جنوبی ایشیائی ہے۔
جنوبی ایشیا میں علاقائی تعاون تنظیم (SAARC) تمام تر دعوؤں کے باوجود باہمی میل ملاپ' سرحد پار رابطوں میں نرمی اور آسانی پیدا کرنے کے مقاصد کے حصول میں تا حال ناکام ہے جس کی بنیادی وجہ بھارت ہے۔ سری لنکا' مالدیپ اور نیپال بھارتی جبر کا شکار ہیں۔ بھوٹان اور بنگلہ دیش، اب بھارت کی طفیلی ریاستیں ہیں۔ بھارتی حکمران جنوبی ایشیا میں اپنی مکمل حکمرانی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان اور سری لنکا ہیں۔ جب کہ شوریدہ سر بنگالیوں کے متلاطم رویے بھارتی دانشوروں کی نگاہ میں کھٹکتے رہے ہیں۔ جس کا اظہار کسی اور نے نہیں مرنجان مرنجن ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کیا تھا۔
30 جون 2011ء کو بنگلہ دیش کے سرکاری دورے کے آغاز پر نئی دہلی میں بھارت اور بنگلہ دیشی ایڈیٹروں نے مشترکہ اجلاس میں انکشاف کیا تھا کہ بنگلہ دیشی آبادی کا 25 فیصد اعلانیہ بھارت سے دشمنی کا اظہار کرتا ہے۔ ان کی اکثریت جماعت اسلامی بنگلہ دیش سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ لوگ بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ کسی بھی وقت بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ اسلام پسند عناصر بنگلہ دیش کے غیر یقینی سیاسی مستقبل کی علامت ہیں جن کی موجودگی میں ہر وقت اکھاڑ پچھاڑ کا دھڑکا لگا رہے گا۔ بھارت بنگلہ دیش تعلقات کی قربت ان عناصر کی موجودگی میں ممکن نہیں۔ 2009ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو 42 لاکھ ووٹ ملے تھے جس کے بعد نئی دہلی میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئی تھیں جس کے سدباب کے لیے 1971ء کے گڑے مردے اکھاڑ کر حسینہ واجد نے جنگی جرائم کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنا لیا ورنہ جنرل حسین محمد ارشاد کے مارشل لاء کے خلاف عوامی لیگ اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے ہم قدم ہو کر شانہ بشانہ جمہوریت کے لیے جنگ لڑی تھی۔
نام نہاد جنگی جرائم کی وجہ سے پھانسی والے علی احسن مجاہد اور بیگم حسینہ واجد سمیت عوامی لیگ کے تمام سرکردہ رہنما ایک اسٹیج پر کھڑے تقاریر کرتے رہے تھے جب کہ پرامن انتقال اقتدار کا فارمولا پروفیسر غلام اعظم کی کاوشوں کا شاہکار تھا۔لیکن حسینہ واجد نے نئی دہلی میں بیٹھے اپنے آقاؤں کے ایک اشارے پر پالیسی بدل دی۔ 1971ء کے بعد بنگلہ دیش میں یکطرفہ تاریخ پڑھائی گئی ہے، جس کے مطابق 23 مارچ1971ء سے 16 دسمبر 1971ء کے دوران 9 ماہ میں 30 لاکھ بنگالیوں نے آزادی کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں جب کہ جنگ آزادی کے ہیرو' نیتا جی' سبھاش چندربوس کی پوتی اور عالمی شہرت یافتہ تاریخ دان اور مصنفہ شرمیلا بوس نے 30 لاکھ افراد کے قتل کو بے بنیاد اور افسانہ قرار دیا ہے لیکن متوسط طبقے کے شہری آبادی سے تعلق رکھنے والے بنگالیوں کی اکثریت سرکاری تاریخ پر دل و جان سے یقین رکھتی ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکی ریاست نیوجرسی میں مقیم ہم دم دیرینہ ماہر امراض قلب ڈاکٹر شجاعت حسین نے کہا کہ بنگالیوں کی نئی نسل میں پاکستان کے خلاف نفرت کے لیے طویل منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ نماز کے بعد جب بنگلہ دیش کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور بزرگ رہنماؤں کو پھانسیوں کا ذکر ہوا تو نمازیوں نے بھی پاکستان کے حق میں کوئی بات سننے سے انکار کر دیا کہ ان کے لیے حق اور سچ عوامی لیگ کی بیان کردہ تاریخ ہے ۔ حسینہ واجد کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارتی سفارت خانے' وائسرائے ہاؤس میں بدل چکا ہے۔ بھارت کھلے بندوں تمام بنگلہ دیشی سیاسی جماعتوں کی مالی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔
کہتے ہیں کہ 2007-8ء میں بھارتی سفارتکاروں نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے ملاقات کر کے دوستی کا ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔ جماعت اسلامی کے بچے کھچے فکری اثاثے کے وارث' شاہد ہاشمی بتاتے ہیں کہ بھارتی سفارتکاروں نے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمن نظامی سے رابطہ کر کے پیش کش کی تھی کہ دہلی سرکار نے جماعت اسلامی کے بارے اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور بھارت سرکار آمدہ انتخابات میں انتخابی مہم کے لیے مالی تعاون بھی کرے گی۔ کہتے ہیں کہ بھارتی پیش کش پر شکریے کے ساتھ معذرت کر لی گئی جس کے نتیجے میں اس واقعے کے راوی ابوالکلام محمد یوسف اے کے ایم یوسف شہادت پا چکے ہیں جب کہ مطیع الرحمن نظامی ڈھاکا سینٹرل جیل میں پھانسی گھاٹ جانے والے راستے پر گامزن ہیں۔
سینئر تجزیہ نگار اور جنوبی ایشیائی امور کے ماہر محسن رضا خان نے مودی کے دورہ ڈھاکا کے بارے میں کہا تھا کہ بھارتی ڈھاکا کے گلی کوچوں میں پاکستان سے نفرت کا بازار گرم کرنے جا رہے ہیں۔ یہ خدشات درست ثابت ہوئے۔ پاکستان کو اور اس کے چاہنے والوں کو گالی بنا دیا گیا ہے۔ عظیم جنوبی ایشیا کے خاکے میں نفرت کے رنگ بھرے جا رہے ہیں۔ بیگم خالدہ ضیاء نے بلدیاتی انتخابات میں عوامی لیگ کو کھلا میدان مہیا کرنے کے بجائے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاریخ نیا ورق الٹ رہی ہے۔ ڈھاکا نیا سیاسی منظر دیکھ رہا ہے اور ہم پاکستان میں اپنے وفا شعاروں اور جانثاروں کو یاد کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ احتجاج ہمارے اجتماعی شعور کے زندہ و بیدار ہونے کی علامت ہے۔
اس لیے عظیم جنوبی ایشیاء کے خاکے میں اپنے من پسند رنگ بھرنا ممکن نہیں رہا' نفرت کا ایجنڈا بہار میں ناکام ہوا ڈھاکا میں بھی نامراد ہو گا۔ انتظار فقط انتظار۔ نوشتہ دیوار ہے حسینہ واجد بھی اپنے باپ کی طرح ناکام و نامراد رہے گی۔ مسجدوں کا شہر ڈھاکا آباد و شاد باد رہے گا۔